مترجم : محمود احمد غضنفر
امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے تمام رات بے چینی وبے قراری میں گزاری ، نہ آنکھ لگی نہ کسی کروٹ چین ملا ۔ دراصل انہیں دمشق کی اس خنک رات میں بصرے کے لیے ایک قاضی کے تقرر کا مسئلہ درپیش تھا جو رعایا میں عدل وانصاف قائم کر سکے، ان میں اللہ کے احکامات نافذ کرسکے اور حق کے پرچار میں کوئی خوف یا لالچ اس کا راستہ نہ روک سکے ، کافی سوچ بچار کے بعد ان کی نظر انتخاب ان دو آدمیوں پر پڑی جو دینی فقاہت ، راہ حق میں استقامت ، روشن خیالی اور بالغ نظری جیسے اوصاف میں تقریباً برابر تھے ۔ جب خلیفتہ المسلمین کو کسی ایک میں کوئی امتیازی خوبی نظر آتی تو دوسرے میں بھی کوئی نہ کوئی خوبی اس کے ہم پلہ دکھائی دیتی ۔ صبح ہوئی تو انہوں نے عراق کے گورنر عدی بن ارطاۃ کو بلایا جو اس وقت دمشق میں ہی تھا اور اسے کہا : اے عدی ! ایاس بن معاویہ مزنی اور قاسم بن ربیعہ حارثی کے ساتھ بصرے کا قاضی مقرر کرنے کے متعلق بات کریں اور آخرکار ان دونوں میں سے کسی ایک کو بصرے کا قاضی مقرر کر دیں ، گور نر نے کہا : امیر المومنین کا حکم سر آنکھوں پر جناب والا حکم کی فوری تعمیل ہو گی ۔ ٭٭٭
عراق کے گورنر عدی بن ارطاۃ نے ایاس بن معاویہ اور قاسم بن ربیعہ کو بلایا او رکہا : امیر المومنین نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم دونوں میں سے کسی ایک کو بصرے کا قاضی مقرر کر دوں ، تمہارا اس کے متعلق کیا خیال ہے ؟ دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے ساتھی کے بارے میں کہا کہ وہ میری نسبت اس منصب کے لیے زیادہ موزوں ہے ۔ ہر ایک نے اپنے دوسرے ساتھی کو علم ، فضل ، کمال ، عقل اور فہم وفراست میں اپنے سے لائق فائق او ربہتر ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی ۔ گورنر عدی نے کہا جب تک تم دونوں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ جاتے ، یہاں سے ہر گز نہیں جا سکتے ۔
ایاس نے کہا : جناب گورنر میرے اور قاسم کے متعلق حسن بصری ؒ او رمحمد بن سیرینؒ سے پوچھ لیجیے ، وہ دونوں تمام لوگوں سے بڑھ کر ہم دونوں میں سے اس منصب کے لیے بہتر اور موزوں کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ صورت حال یہ تھی کہ قاسمؒ کا ان کے پاس آنا جانا تھا اور وہ بھی گاہے بگاہے ان کے پاس آجایا کرتے تھے ۔ حضرت ایاسؒ کا خیال تھا کہ جب ان دو بزرگوں سے رائے لی جائے گی تو وہ میرے ساتھی قاسم کے حق میں فیصلہ دیں گے ۔ اس طرح میرا دامن چھوٹ جائے گا کیونکہ میرے متعلق وہ زیادہ نہیں جانتے ۔ حضرت قاسمؒ بھانپ گئے کہ حضرت ایاسؒ اس بہانے مجھے پھنسانا چاہتے ہیں ، فوراً پکار اٹھے ، جناب گورنر میرے اور ایاس کے متعلق کسی سے کچھ دریافت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ، میں بالکل سچ کہتا ہوں کہ میرا ساتھی ایاسؒ دینی معاملات میں مجھ سے زیادہ فہم وفراست رکھتا ہے اور قاضی کے اہم منصب کے لیے زیادہ موزوں ہے ۔ اگر میں اپنی قسم میں جھوٹا ہوا تو پھر آپ کے لیے یہ جائز نہیں کہ مجھے قاضی بنائیں ۔ اگر میں اپنی قسم میں سچا ہوں تو پھر اس اہم عہدے پر فائز ہونے کا حق میرے بھائی ایاس بن معاویہ کا ہے ، پھر آپ کے لیے قطعاً درست نہیں ہے کہ ایک کم تر شخص کو بہتر پر فوقیت دیں ۔ حضرت ایاس بن معاویہؒ نے گورنر کی طرف دیکھا اور کہا : جناب والا آپ نے قاضی کے عہدے کی پیش کش کر کے ہمیں جہنم کے کنارے لا کھڑا کیا ہے ، میرے ساتھی قاسمؒ نے جھوٹی قسم کے ذریعے اپنا دامن بچا لیا ہے ، اسے اللہ تعالی کے حضور ابھی معافی مانگنی چاہیے اور اندیشہ ہائے دروں سے نجات پا لینی چاہیے ۔ یہ بات سن کر گورنر عدی نے حضرت ایاس بن معاویہؒ سے کہا ، آپ جیسا ذہین وفطین ہی قاضی کے منصب پر فائز ہونا چاہیے اور انہیں بصر ے کا قاضی مقرر کر دیا ۔
٭٭٭
یہ شخص کون ہے جس کا انتخاب امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے بصرے کا قاضی مقرر کرنے کے لیے کیا ؟ اس شخص کی ذہانت فطانت اور زود فہمی اسی طرح ضرب المثل تھی جس طرح حاتم طائی کی سخاوت۔ احنف بن قیس کی بردباری اور عمرو بن معدی کرب کی شجاعت ضرب المثل تھیں ۔ ابو تمام نے احمد بن معتصم کی تعریف میں اشعار کہے جس میں ایک شعر یہ بھی تھا ۔ عمرو بن معدی کرب کی شجاعت ، حاتم طائی کی سخاوت، احنف بن قیس کا حلم وبردباری اور ایاس کی فہم وفراست ضرب المثل ہیں ۔
٭٭٭
آئیے اس عظیم شخصیت کی داستان کا آغاز کریں اور اس کی نادر مثالی اور رقت انگیز سیرت کے چند پہلو بیان کریں ۔
ایاس بن معاویہ بن قرہ مزنی ؒ 46 ہجری کو نجد کے علاقے یمامہ میں پیدا ہوئے اور اپنے خاندان کے ہمراہ بصرہ منتقل ہوئے ۔ وہیں نشوونما پائی اور تعلیم حاصل کی ۔ عنفوان شباب میں کئی بار دمشق جانے کا اتفاق ہوا اور جلیل القدر صحابہ کرامؓ اور تابعین عظام سے علم حاصل کیا ۔ قبیلہ حزن کے اس نوجوان کے چہرے پر شرافت ، نجابت اور ذہانت کی علامات نمایاں نظر آتی تھیں ، لوگ اس کے بچپن کے حالات بطور مثال بیان کرتے تھے ۔
٭٭٭
حضرت ایاس بن معاویہ ایک یہودی کے سکول میں ریاضی پڑھا کرتے تھے ۔ ایک دن استاذ کے پاس اس کے چند یہودی دوست ملنے آئے ، وہ دین اسلام کے متعلق باتیں کرنے لگے اور یہ پاس کھڑے خاموشی سے سنتے رہے ۔ ان کا خیال تھا یہ بچہ ہے اسے کچھ پتہ نہیں ۔استاذ نے اپنے ساتھیوں سے کہا : مسلمان بھی کیا عجیب ہیں کہتے ہیں جنت میں جی بھر کر کھائیں گے لیکن بول وبراز نہیں آئے گا آ ہاہا ہا بھلا یہ بھی ہو سکتا ہے ، احمق کہیں کے ۔ ایاس بن معاویہ نے کہا : کیا مجھے بھی بات کرنے کی اجازت ہے ، استاذ نے کہا ہاں ہاں کیوں نہیں ، کہو کیا کہنا چاہتے ہو ۔ انہوں نے پوچھا کیا اس دنیا میں جو کچھ کھایا جاتا ہے وہ تمام کا تمام بول وبراز کے ذریعے بدن سے نکل جاتا ہے ۔ استاذ نے کہا نہیں ۔ ایاس نے پوچھا جو کھانا بدن سے نہیں نکلتا وہ کہاں جاتا ہے؟ استاذ نے کہا وہ ہضم ہو کر جزو بدن بن جاتا ہے۔ ایاس نے کہا : اگر وہ تمام کا تمام جنت کے ماحول کو پاکیزہ اور صاف ستھرا رکھنے کے لیے جزو بدن بنا دیا جائے تو تمہیں اس بات پر کیا تعجب ہے ، اس بات سے ان پر سناٹا چھا گیا وہ ششدر رہ گئے ۔ استاذ نے اپنے ہونہار شاگرد کا ہاتھ بھینچتے ہوئے کہا : ارے چھوکرے مروا دیا ۔ دوستوں کے سامنے تو نے مجھے لاجواب کر دیا ، تیری ذہانت اور حاضر جوابی کی کیا بات ہے!
جس طرح یہ نوجوان عمر میں سال بہ سال بڑھتا گیا اسی طرح اس کی ذہانت کی کرشمہ سازیوں میں بھی پیش رفت ہوتی گئی ۔ جب یہ دمشق پہنچا تو وہاں ایک جید عالم سے بنیادی حقوق میں کسی استحقاق کے متعلق اختلاف پیدا ہو گیا ۔ جب وہ عالم کسی بھی دلیل سے اس نوجوان کو مطمئن نہ کر سکا تووہ اس نوخیز نوجوان کو عدالت میں گھسیٹ لایا ، جب وہ دونوں عدالت کے کٹہرے میں قاضی کے سامنے کھڑے ہوئے تو نوجوان نے مدمقابل پر دلائل کی بوچھاڑ کر دی اور زور دار آواز سے گرجنے لگا ۔ قاضی نے کہا : برخوردار! آہستہ بولو ، تمہارے مقابلے میں ایک عمر رسیدہ او رقابل احترام شخصیت کھڑی ہے ، ادب کو ملحوظ خاطر رکھو ۔ ایاس نے کہا : جناب والا وہ حق جو دلائل کی روشنی میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں وہ عظمت میں کہیں ان سے بڑھ کر ہے ، قاضی یہ بات سن کر غصے سے بھڑ ک اٹھا اور گرج کر کہا خاموش ہو جاؤ گستاخ کہیں کے ۔ نوجوان ایاسؒ نے بغیر کسی گھبراہٹ کے بڑے اطمینان سے کہا : جناب والا ! اگر میں خاموش ہو گیا تو میرا مقدمہ آپ کی عدالت میں کون پیش کرے گا ۔ قاضی کو اور زیادہ غصہ آیا اور اس نے پھنکارتے ہوئے کہا جب سے تم عدالت میں آئے ہو ٹر ٹر بولے جا رہے ہو ۔ نوجوان نے یہ صورت حال دیکھتے ہوئے کہا : جناب والا! مجھے یہ بتائیں کہ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ حق ہے یا باطل ۔ قاضی یہ بات سن کر ٹھنڈا ہو گیا ، لمبی سانس لی ، ایک آہ بھری ، پھر دھیمے انداز میں بولا رب کعبہ کی قسم ! یہ کلمہ بالکل برحق ہے اور ہم سب اس کے عاجز بندے ہیں اور اس کے سامنے جوابدہ ہیں ۔
جب یہ ہونہار نوجوان حصول علم کی طرف متوجہ ہوا تو چشمہ علم وحکمت سے خوب سیراب ہوا ۔ بالآخر علم وادب کے اس اعلی وارفع مقام پر فائز ہوا کہ بڑے بڑے مشائخ اس کی امامت میں نمازیں پڑھنے لگے ، اس سے علم حاصل کرنے لگے حالانکہ عمر میں یہ ان سے بہت چھوٹے تھے ۔ مسند خلافت پر فائز ہونے سے پہلے عبدالملک بن مروان نے بصرے کا دورہ کیا تو اس نے ابھرتے ہوئے ایک ایسے نوجوان کو دیکھا جس کی ابھی مونچھیں نہیں پھوٹی تھیں وہ بازار سے ایسی شان وشوکت سے گزر رہا ہے کہ اس کے پیچھے چار باریش بزرگ سبز جبہ و قبا پہنے باادب انداز میں دھیرے دھیرے چل رہے ہیں ۔ عبدالملک بن مروان نے یہ منظر دیکھ کر تعجب سے کہا : ان باریش بزرگوں کی عقل ودانش پر بڑا افسوس ہے ، کیا ان میں کوئی بھی ایسا قابل بزرگ نہیں جو ان کے آگے چلتا ، انہوں نے ایک چھوکرے کو اپنا قائد بنایا ہوا ہے ، پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے نوجوان تم کون ہو اور تیری عمر کتنی ہے ؟ اس نے جواب دیا امیر کی عمر دراز ہو اور اقبال بلند ہو ۔ میرا نام ایاس بن معاویہ ہے اور میری عمر اسامہ بن زید جتنی ہے جسے رسول اللہﷺ نے اس لشکر کا امیر مقرر کیا تھا جس میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت عمرفاروق ؓ بھی شامل تھے ۔یہ جواب سن کر عبدالملک بن مروان پھڑک اٹھا اور کہا : اے نوجوان ! تم آگے رہو تجھ میں واقعی قیادت کی صلاحیت ہے ۔ اللہ تیری جوانی اور تیرے علم میں برکت عطا کرے ۔
٭٭٭
ایک سال لوگ رمضان کا چاند دیکھنے گھروں سے باہر نکلے اور ان میں پیش پیش جلیل القدر صحابی حضرت انس بن مالک انصاریؓ تھے ۔ اس وقت ان کی عمر تقریبا 100 سال تھی ، لوگ آسمان کی طرف غور سے دیکھ رہے تھے لیکن انہیں کہیں چاند نظر نہ آیا لیکن حضرت انس بن مالکؓ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے پکار پکار کر کہہ رہ ہیں وہ دیکھو چاند نظر آگیا اور اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے لوگوں کو چاند کی سمت بتا رہے ہیں ۔ لوگوں نے بڑی کوشش کی پھر بھی کسی کو چاند نظر نہ آیا ۔ حضرت ایاس بن معاویہؒ نے حضرت انس بن مالکؓ کی طرف دیکھا ۔ ایک لمبا سفید بال بھوؤں سے اوپر اٹھ کر آنکھ کے سامنے آیا ہوا ہے حضرت ایاس نے بڑے ادب واحترام سے اجازت لے کر پیار سے اپنا ہاتھ بڑھایا اور سلیقے سے آنکھ پر ہاتھ پھیر کر بال کو برابر کر دیا اور پھر پوچھا : حضرت اب فرمائیے کیا چاند نظر آرہا ہے ۔ حضرت انس بن مالکؓ آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور فرما رہے ہیں اب چاند مجھے دکھائی نہیں دے رہا ۔ دراصل ضعف بصارت کی وجہ سے آنکھ کے سامنے آیا ہوا سفید بال انہیں باریک سا چاند معلوم ہو رہا تھا ۔
٭٭٭
حضرت ایاس بن معاویہ کی ذہانت اور فہم وفراست کے تذکرے چہار دانگ عالم میں پھیل گئے ، ہر طرف سے لوگ دینی اور علمی امور میں در پیش مشکلات حل کرانے کے لیے سوالات کرتے اور بحث مباحثے میں مدمقابل پر غالب آنے کے لیے علمی نکتے معلوم کرتے ۔
ایک کسان ان کی خدمت میں حاضر ہوا ور پوچھا : اے ابو وائل! کیا شراب حرام ہے ؟ فرمایا ، ہاں حرام ہے ۔ اس نے کہا : پھل اور پانی کو آگ پہ پکایا گیا ہے اصل میں یہ دونوں اجزا حلال ہیں پھر آگ پہ پکانے سے حرام کیسے ہو گئے ، جبکہ اس میں کسی حرام چیز کی آمیزش نہیں ۔ آپ نے فرمایا بھائی کیا بات ختم کر لی یا اور بات کہنا چاہتے ہو ۔ اس نے کہا بس میرا یہی سوال ہے اب آپ ارشاد فرمائیے ۔ حضرت ایاس بن معاویہؒ نے کہا اگر میں پانی کا ایک چلو تجھے دے ماروں کیا اس سے تجھے کوئی تکلیف ہو گی ، اس نے کہا نہیں ۔ اگر مٹی کی ایک مٹھی تجھے دے ماروں تو کیا اس سے تکلیف ہو گی اس نے کہا نہیں ۔ اگر توڑی کی مٹھی تجھے ماروں کیا تکلیف محسوس کرو گے اس نے کہا نہیں ۔ فرمایا اگر میں پانی، مٹی اور توڑی ملا کر ایک ڈھیلا بناؤں اور وہ دھوپ میں خشک ہو جائے پھر اسے اٹھا کر تجھے دے ماروں کیا تکلیف ہو گی ۔ اس نے کہا کیوں نہیں ، ہو سکتا ہے اس کے ذریعے سے تم مجھے قتل کر دو ۔ آپ نے فرمایا بس یہی مثال شراب کی ہے جب اجزا کو ملا کر اسے آگے کی آنچ دی جاتی ہے تو اس میں نشہ پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اسے حرام قرار دیا گیا ہے ۔
٭٭٭
جب حضرت ایاس بن معاویہؒ کو قضا کا منصب سونپا گیا تو عدالتی فیصلوں میں ان کی جانب سے کئی ایک ایسے موقف کھل کر سامنے آئے جو ان کی ذہانت اور تدبیر کی فراوانی اور حقائق سے پردہ اٹھانے کی کمال صلاحیت پر دلالت کرتے ہیں ۔ ان میں سے ایک واقعہ ملاحظہ ہو ۔
ایک مرتبہ دو شخص ایک مقدمہ لیکر عدالت میں ان کے پاس آئے ۔ ان میں سے ایک نے دعوی کیا میں نے اپنے ساتھی کو مال بطور امانت دیا تھا جب میں نے مطالبہ کیا تو اس نے دینے سے انکار کر دیا ۔ ایاس بن معاویہ نے مدعی علیہ سے امانت کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا میں نے مال لیا ہی نہیں ، یہ جھوٹ بولتا ہے اور مجھے بدنام کر رہا ہے ۔ اگر اس کے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کرے ورنہ میں قسم دینے کے لیے تیار ہوں ، میں بے گنا ہ ہوں یہ سراسر مجھ پر الزام ہے ۔ حضرت ایاس بن معاویہؒ نے خداداد بصیرت سے بھانپ لیا کہ یہ قسم کے ذریعے اپنے ساتھی کے مال کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے ، قاضی ایاسؒ نے مدعی سے پوچھا تو نے اسے کس جگہ اپنا مال بطور امانت دیا تھا ۔
اس نے کہا یہاں سے کچھ فاصلے پر ایک بڑا درخت ہے ہم نے اس کے سائے میں بیٹھ کر پہلے کھانا کھایا اور پھر میں نے اپنا مال اس کے سپرد کیا ۔ حضرت ایاس بن معاویہؒ نے فرمایا تم ابھی وہاں جاؤ شاید تمہارا مال وہاں کہیں پڑا ہوا ہو ، اس جگہ کا جائزہ لیکر سیدھا میرے پاس آجانا اور مجھے صورت حال سے آگاہ کرنا یہ حکم پا کر وہ شخص اس جگہ کی طرف روانہ ہو گیا ۔ قاضی ایاسؒ نے مدعی علیہ سے کہا : اپنے ساتھی کے واپس آنے تک میرے پاس بیٹھے رہو ۔ وہ وہاں چپ سادھ کر بیٹھ گیا ۔ قاضی ایاس دیگر مقدمات نپٹانے میں مصروف ہو گئے لیکن مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے وہ دیدہ نگاہوں سے گاہے گاہے مدعی علیہ کی طرف بھی دیکھ لیتے ، اس طرح وہ اس کے چہرے کے تاثرات معلوم کرنا چاہتے تھے ۔ جب انہوں نے دیکھا کہ یہ شخص بالکل آرام و سکون سے بیٹھا ہوا ہے ، اس کے چہرے پر کوئی خوف وہراس نہیں تو قاضیؒ سماعت کے دوران یکدم اس کی جانب متوجہ ہوئے اور پوچھا تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ اس جگہ پہنچ گیا ہو گا جہاں اس نے مال تیرے سپرد کیا تھا ، اس نے بے خیالی میں جواب دیا نہیں وہ جگہ یہاں سے کافی دور ہے ، ابھی وہ راستے میں جا رہا ہو گا ۔ قاضی ایاس بن معاویہؒ نے غضب ناک ہو کر کہا : ارے کمبخت ، تو مال لینے کا انکار کرتا ہے اور اس جگہ کا اعتراف کرتا ہے جہاں تو نے مال لیا تھا ۔ بخدا تو خائن، جھوٹا اور بددیانت ہے ، وہ اچانک یہ دیکھ کر خوف سے کانپنے لگا اور اس نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا اور امانت واپس کر دی۔
٭٭٭
اسی طرح ایک اور واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ دو شخص دو رومالوں کا مقدمہ لیکر عدالت میں پیش ہوئے ۔ ایک رومال سبز رنگ کا نیا اور قیمتی تھا اور دوسرا سرخ رنگ کا پھٹا ہوا اور بوسیدہ تھا ۔ مدعی نے استغاثہ پیش کرتے ہوئے کہا : جناب والا میں حوض پر نہانے کے لیے گیا اور اپنا سبز رومال کپڑوں کے ساتھ رکھ کر حوض میں اتر گیا۔ تھوڑی دیر بعد یہ شخص حوض کے کنارے میرے کپڑوں کے پاس ہی اپنے کپڑے رکھ کر نہانے کے لیے حوض میں اتر آیا لیکن مجھ سے پہلے حوض سے نہا کر نکلا ، کپڑے پہنے اور میرا رومال سر پر لیا اور چلتا بنا ۔ میں اس کے قدموں کے نشانات دیکھتا ہوا اس کی تلاش میں بالآخر اسے پکڑنے میں کامیاب ہو گیا ۔ قاضی نے مدعی علیہ سے پوچھا تم کیا کہنا چاہتے ہو ۔ اس نے کہا : جناب والا یہ رومال میرا ہے ، میرے قبضے میں ہے ، میں اس کا مالک ہوں ۔ یہ مجھ پر جھوٹا الزام عائد کرتا ہے ۔ قاضی ایاس ؒ نے مدعی سے پوچھا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے کہ یہ رومال تمہارا ہے ۔ اس نے کہا دلیل میرے پاس کوئی نہیں ، میں آپ کی عدالت میں انصاف کے لیے آیا ہوں یہ میرا قیمتی رومال مجھے دلا دیجیے ، اللہ آپ کا بھلا کرے گا ۔ قاضی ایاس بن معاویہؒ نے اپنے دربان سے کہا ایک کنگھی لاؤ ، دربان کنگھی لے آیا ۔ آپ نے دونوں کے سر پر کنگھی پھیری ، ایک کے سر سے سرخ ریشے اور دوسرے کے سر سے سبز ریشے برآمد ہوئے ۔ لہذا سرخ رومال اسے دے دیا جس کے سر سے سرخ ریشے نکلے تھے اور سبز رومال اس کے سپرد کیا جس کے سر سے سبز ریشے برآمد ہوئے تھے ۔ اس طرح عدل وانصاف کے مطابق حق والے کو اس کا حق مل گیا ۔
٭٭٭
ان کی ذہانت اور فہم وفراست کا ایک اور واقعہ مشہور ہے ۔ کوفہ میں ایک شخص لوگوں کے سامنے اپنی خیر خواہی ، وسعت ظرفی ، اخلاق اور تقوی کا پرچار کیا کرتا تھا یہاں تک کہ لوگ اس کی تعریف کرنے لگے ۔ جب اس کا اعتماد پوری طرح دلوں میں بیٹھ گیا تو لوگ جب سفر پر جاتے تو اپنا مال اس کے پاس بطور امانت رکھ جاتے ۔ بعض لوگ مرتے وقت یہ وصیت کر جاتے کہ ہمارا مال اس کے سپرد کیا جائے اور یہی ہماری اولاد کا سرپرست اور نگران ہو گا اس کی شہرت سن کر ایک شخص نے بہت سا مال اس کے پاس بطور امانت رکھوا دیا ۔ چند دنوں کے بعد جب اسے ضرورت پڑی تو اس نے اپنے مال کی واپسی کا مطالبہ کیا ۔ لیکن اس نے دینے سے انکار کر دیا اسے یہ صورت حال دیکھ کر بڑا صدمہ ہوا اور یہ مقدمہ قاضی کی عدالت میں پیش کر دیا ۔ قاضی نے مقدمہ پیش کرنے والے سے پوچھا کیا مدعی علیہ کو یہ معلوم ہے کہ تم میرے پاس آئے ہو ۔ اس نے کہا نہیں ، قاضی ایاسؒ نے فرمایا آج جاؤ اور کل میرے پاس آنا اور ساتھ ہی مدعی علیہ کو بلانے کے لیے پیغام بھیجا۔ وہ قاضی کا پیغام سنتے ہی عدالت میں آیا ، قاضی نے اسے بڑے اعزاز واکرام سے بٹھایا اور کہا : جناب میں نے آپ کی بڑی شہرت سنی ، آپ لوگوں کی خدمت کا اہم فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔ میں نے آپ کو اس لیے بلایا کہ میرے پاس یتیموں کا کثیر مقدار میں مال ہے جن کا کوئی وارث نہیں ، میں چاہتا ہوں کہ یہ مال آپ کے سپرد کر دوں، جب وہ بڑ ے ہو جائیں تو آپ ان کے حوالے کر دیجیے گا ۔ قاضی نے پوچھا کیا اتنی بڑی مقدار میں مال رکھنے کا آپ کے پاس انتظام ہے ، کس طرح اسے سنبھالیں گے ، کیا گھر میں ایسا مضبوط گودام ہو گا جس میں مال ضائع نہ ہو ، کیا آپ یہ مال سنبھالنے کو تیار ہیں ؟ اس نے
بڑ ے طمطراق سے کہا : کیوں نہیں جناب ، مجھے اللہ نے پیدا ہی عوام کی خدمت کے لیے کیا ہے ، بندہ عاجز اس خدمت کے لیے بخوشی تیار ہے ۔ قاضی نے کہا : مجھے آپ سے یہی توقع تھی ، آپ ایسا کریں کہ کل کے بعد میرے پاس آجانا اور ساتھ دو مزدور بھی لیتے آنا ۔ اس نے کہا بہت اچھا اور یہ کہہ کر وہ اپنے گھر چلا گیا ۔ دوسرے دن وعدہ کے مطابق مدعی قاضی ایاس کے پاس آیا ۔ قاضی نے اسے کہا کہ جاؤ آج اس شخص سے جا کر اپنے مال کا مطالبہ کرو ۔ اگر وہ انکار کرے تو اسے کہنا میں تیری شکایت قاضی کے پاس لے جا رہا ہوں ۔ اس نے ایسا ہی کیا جاکر اس سے اپنے مال کا مطالبہ کیا اس نے حسب سابق مال دینے سے انکار کر دیا ۔ اس نے کہا اگر تم میرا مال نہیں دو گے تو میں تمہاری شکایت قاضی سے کروں گا ، جب اس نے قاضی کا نام سنا تو فوراً ٹھنڈا پڑ گیا اسے اپنے پاس بٹھایا اور اس کی امانت اسے واپس لوٹا دی اور کچھ مزید دے کر اسے خوش کرنے کی کوشش کی تاکہ قاضی کو اس بات کا علم نہ ہو ۔ وہ اپنا مال لیکر سیدھا قاضی کے پاس گیا ، اس کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ اس نے مجھے میرا حق واپس دے دیا ہے ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے ، جب وعدے کے مطابق تیسرے روز وہ شخص قاضی ایاسؒ کے پاس مزدور لے کر حاضر ہوا تو اسے دیکھتے ہی قاضی ایاسؒ اس پر برس پڑے اور کہا : ارے کمبخت تو نے دنیا کمانے کے لیے دین کو جال بنا رکھا ہے ۔ تجھے شرم آنی چاہیے ۔ یہ جبہ ودستار اور یہ گھناؤنا کردار تف تیری عقل پر ، جاؤ میری آنکھوں سے دور ہو جاؤ ۔ اور ابھی جا کر سب لوگوں کی امانتیں واپس کر دو ورنہ تجھے ایسی سزا دوں گا جسے تیری آئندہ نسلیں بھی یاد رکھیں گی ۔ ہ ہانپتا کانپتا واپس گیا اور سب کے مال فوری طور پر واپس کر دیے اور ان سے معافی مانگی ۔ تب لوگوں کو اس کی اصلیت کا علم ہوا۔
٭٭٭
قاضی ایاس کو اپنی بے پناہ ذہانت ، قابل رشک قوت استدلال ، زود فہمی اور حاضر جوابی کے باوجود عدالت میں ایسے اشخاص سے بھی واسطہ پڑ جاتا جو اپنی بات دلائل سے منوا لیا کرتے تھے اور انہیں خاموش ہونے پر مجبور کر دیا کرتے تھے ۔ ایسا ہی ایک واقعہ انہوں نے خود بیان فرمایا۔ کہتے ہیں ایک شخص کے علاوہ آج تک کوئی بھی گفتگو میں مجھ پہ غالب نہ آسکا وہ اس طرح ہوا کہ میں بصرے کی عدالت میں مقدمات نپٹانے کے لیے بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے بڑے طمطراق سے کہا میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ فلاں باغ فلاں شخص کا ہے۔ اس نے یہ بات بڑے ہی رعب ودبدے سے کہی ۔ میں نے اس کی گواہی کا امتحان لینے کے انداز میں پوچھا : جس باغ کے متعلق گواہی دے رہے ہو اس میں کتنے درخت ہیں ۔ اس نے سر جھکایا پھر سر اٹھا کر بولا جناب والا گستاخی معاف ، آپ کتنے عرصے سے اس کمرہ عدالت میں فیصلے سنانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔ قاضی ایاسؒ نے فرمایا کہ کافی عرصے سے اس نے پوچھا : کیا آپ بتا سکتے ہیں اس کمرے کی چھت میں کتنی لکڑیاں استعمال ہوئی ہیں ۔ میں پریشان ہوا اور کہا مجھے اس کا علم نہیں ۔ اور ساتھ ہی میں نے شرمندہ ہو کر اسے کہا : بھئی آپ کی گواہی سچی ہے میں اسے تسلیم کرتا ہوں ۔
٭٭٭
جب حضرت ایاس بن معاویہ ؒ 76 برس کے ہوئے توایک دفعہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ اور ان کے والد محترم دو گھوڑوں پر سوار برابر دوڑے جا رہے ہیں ۔ نہ کوئی ایک قدم آگے ہے اور نہ پیچھے ۔ ایک رات حضرت ایاس بن معاویہؒ اپنے بستر پر دراز ہوئے تو گھر والوں سے کہا : کیا تم جانتے ہو کہ یہ رات کونسی ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں ۔ فرمایا یہ وہ رات ہے جس میں ابا جان نے اپنی عمر تمام کی تھی یہ کہا اور سو گئے ۔ جب گھر والوں نے صبح دیکھا تو حضرت ایاس بن معاویہؒ ابدی نیند سو چکے تھے ۔ ان کے والد محترم بھی 76 برس کی عمر میں فوت ہوئے تھے۔
اللہ قاضی ایاس بن معاویہؒ پر اپنی بے پایاں رحمتوں کی بارش نازل فرمائے ۔ وہ بلاشبہ ذہانت ، فطانت ، حق گوئی ، عدل گستری ، زود فہمی اور حاضر جوابی میں نابغہ عصر اور فریدالدھر تھے ۔