قوموں کے زوال کے مختلف اسباب ہیں ۔ ان میں دو سبب ایسے ہیں جو تقریبا ہر قوم کے زوال میں کارفرما ہوتے ہیں ۔ ایک سبب تو عقلی قوت کا اضمحلال ہے جس کے نتیجے میں وہ نہ صرف حکومت کرنے کی اہلیت سے عاری ہو جاتی ہے بلکہ اس میں باصلاحیت افراد کی پیدائش کا سلسلہ بھی بتدریج بند ہو جاتا ہے ۔ اس قحط الرجال کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قوم کی زمام اختیار نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے جو قومی معاملات کو رفتہ رفتہ اس حد تک خراب کر دیتے ہیں کہ ان کی اصلاح ناممکن ہو جاتی ہے ۔
زوال کا دوسرا اہم سبب اخلاقی قوت کا ضعف ہے۔ جب کسی قوم میں عقلی انحطاط کے ساتھ عقلی ضعف بھی آجاتا ہے تو اسکے اصحاب اقتدا رسے بہت سے اخلاقی معائب رونما ہوتے ہیں مثلا وہ سخت کوشی اور جان فروشی کے مقابلے میں تعیش کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں اور اسراف ، نمود ونمائش اور بے جا فخر وغرور کا مظاہرہ ان کی زندگی کے معمولات میں داخل ہو جاتا ہے ۔ وہ اپنے ہی بھائی بندوں پر ظلم کرتے ہیں لیکن دشمن کے مقابلے میں بزدلی دکھاتے ہیں ۔ خیانت ، عہد شکنی ، وعدہ خلافی ، خوشامد ، دروغ گوئی ، خود ستائی اور جب جاہ و مال میں ان کا ہر فرد دوسرے سے بڑھ کر ہوتا ہے ۔ عجلت و بے صبری اور یاوہ گوئی ان کا قومی مزاج بن جاتا ہے ۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑتے ہیں اور ایک دوسرے کے درپے آزار ہوتے ہیں ۔ قوم کے ارباب حل وعقد کی وجہ سے یہ سب خرابیاں امتداد زمانہ کے ساتھ عوام کے اندر بھی سرایت کر جاتی ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب پوی قوم اخلاقی اعتبار سے مکمل طور پر مفلوج ہو جاتی ہے ۔
جب کوئی قوم عقلی اور اخلاقی زوال کے اس مقام تک پہنچ جاتی ہے تو پھر خدا کا عالم گیر قانون عدل حرکت میں آتا ہے اور اس ناکارہ قوم کے ہاتھ سے ملک واقتدار لے کر کسی دوسری باصلاحیت اور کار آزمودہ قوم کے سپرد کر دیا جاتا ہے ۔
الطاف احمد اعظمی کی کتاب ‘‘احیائے ملت اور دینی جماعتیں ’’ کے اس اقتباس میں قوموں کے زوال کے جن دو اسباب کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ پاکستانی قوم بلکہ مسلمان اقوام میں بڑی شدت اور سرعت سے کارفرما ہیں۔ ہمارے عقلی اور اخلاقی اضمحلال کی شدت کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنی قومی اور ملکی آزادی سے رضاکارانہ دستبردار ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ ہماری خارجہ ، دفاعی ، معاشی اور تعلیمی پالیسیاں اپنے مفادات سے ہم آہنگ ہونے کی بجائے عالمگیر استعمار کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے بروئے کار لائی جا رہی ہیں اور نوبت یہ آپہنچی ہے کہ ہمارے دینی معتقدات تک بدلنے کی تدبیریں ہو رہی ہیں۔ ہمارے حکمران ہمارے دینی معتقدات اور شعائر کو دقیانوسی اور ان پر اعتقاد اور عمل کو تاریک خیالی کا نام دیتے اور مغربی اباحیت کو روشن خیالی کا نام دے کر اس کی ترویج کے لیے دن رات ہلکان ہو رہے ہیں ۔ در آنحالیکہ قوم ملک کی فلاح کے کسی کام میں محنت کرنا ان کی سرشت میں نہیں ۔
عقل ودانش کا بنیادی تقاضا ہے کہ کسی فرد یا معاشرے کا جو بھی اثاثہ ہو اس کی نہ صرف حفاظت کی جائے بلکہ اس میں اضافہ اور بڑھوتری بھی ہو ۔
ہمارے ملک کا محل وقوع ، اس کا رقبہ ، اس کے وسیع وعریض سرسبز اور زرخیز میدان ، اس کے برف پوش پہاڑ ، ان سے نکلنے والے دریا ، ان سے کھیتوں کی سیرابی اور برقی قوت کا حصول زیر زمین معدنی ذخائر ، ہمارے سمندر ، بندرگاہیں ، ایئر پورٹ ، ان سب سے حاصل ہونے والے فوائد اور مزید بے پناہ امکانات یہ سب مادی وسائل ہمارا اثاثہ ہیں۔ ان اثاثہ جات سے بھی زیادہ قیمتی اثاثہ ہمارے دینی معتقدات ، ہماری چودہ صد سالہ تاریخ ہے ۔ اس تاریخی سفر میں ہماری علمی اور حربی فتوحات ، ہماری تہذیب ، معاشرت اور ثقافت ہیں ۔ وسائل سے مالا مال ایک بڑی مملکت کا حصول ہمارے دینی معتقدات اور تاریخ میں ہمارے کردار کا مرہون منت ہے ۔
پھر ہماری افرادی قوت بھی ہمارا عظیم اثاثہ ہے ۔ ملک کی اٹھاون سالہ تاریخ میں ہماری جو تھوڑی بہت فتوحات ہیں وہ ہماری افرادی قوت کے ذہین اور باکردار افراد کی محنت وجانثاری کا ثمر ہیں اور جو ناکامیاں ہیں ( 1971 کی ذلت آمیز شکست اور موجود ہ بے بسی ) وہ اس افرادی قوت کی تعلیم وتربیت سے غفلت کانتیجہ ہیں ۔
ہم پندرہ کروڑ افراد پر مشتمل قوم ہیں ۔ اگر ہمارے افراد کی تعلیم وتربیت ایسی ہو کہ وہ اپنی صلاحیتیں ملکی ، اعتقادی اور تہذیبی اثاثہ جات کی حفاظت ، ان کے مدبرانہ استعمال اور ان کی ترقی کے لیے بروئے کار لائیں تو اس عقلی اور اخلاقی قوت کے اضمحلال کا نہ صرف تدارک کر سکتے ہیں جس میں عالم اسلام مبتلا ہے بلکہ وہ پورے عالم انسانی کی فلاح میں بھی قائدانہ کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
کیا وجہ ہے کہ ہم پچھلے 58 برسوں میں یہ کردار ادا نہیں کر سکے اور ہر طرح کی شکست وریخت کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں؟
اس کا بڑا سبب صاحب ثروت اور مقتدر طبقہ کے بچوں کے لیے انگلش میڈیم اور عام آبادی کے بچوں کے لیے کمزور نظام تعلیم ہے۔ ہماری ہزیمت کے دیگر اسباب اسی بڑے سبب کا شاخسانہ ہیں۔
ہمارے بچے انگلش میڈیم سکولوں میں کیا پڑھتے ہیں اور ان کی شخصیت کی تعمیر بلکہ تخریب کن خطوط پر ہوتی ہے۔ اس کا مفصل جائزہ لینے کے لیے ایک قومی کمیشن کا تعین ہونا چاہیے۔کچھ حوالہ جات پیش خدمت ہیں:
ایک معروف سلسلہ کتب جو کہ ہمارے بہت سے انگلش میڈیم اداروں میں پڑھایا جارہا ہے اس کی کتب میں کتے کو خاندا ن کا حصہ دکھایا جاتا ہے۔بہت سی جگہوں پر کرسمس شجر اور اس سے ملنے والے انعامات دکھائے جاتے ہیں۔(بقیہ ص پر)
ایک اور سلسلہ کتب جو کہ سنگا پور کے ادارے کی پاکستانی شاخ سے شائع کردہ ہے اس میں:حضرت سلمان علیہ السلام کو پیغمبر کے بجائے بادشاہ بتایا گیا ہے۔ ایسے اسباق بھی ہیں کہ جن میں بتوں کی پوجا کے بے شمار ذکر ہے جبکہ خدا کی عبادت کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔
انگریزی کی کلاسیکل کہانیاں شامل کی گئی ہیں۔کتے کی آپ بیتی بھی ان میں سے ایک کتاب کا اہم سبق ہے۔
ان عنوانات سے کتب کے دیگر مندرجات کا قیاس کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا یہ مشتے از خرادرے ہے۔ مہنگے اورنامی گرامی انگلش میڈیم سکولوں کا انگریزی زبان کی تدریس کا نصاب ہمارے اصول تعلیم، تعلیمی نفسیات اور نصاب سازی پر پورا نہیں اترتا۔ ہر قوم اپنے بچوں کو اپنی زبان میں تعلیم دیتی ہے۔ اس زبان کی تدریس کے ساتھ خود بخود اس کی ثقافت اور زندگی کے متعلق نظریات نئی نسلوں کو منتقل ہوتے ہیں۔ ہم بھی عجب قوم ہیں کہ وہ کتب جو ان بچوں کے لیے لکھی گئی ہیں جن کی مادری زبان انگریزی ہے ان بچوں کو پڑھاتے ہیں جن کی مادری زبان اردو،پنجابی ،سندھی، بلوچی یا پشتوہے۔ ان کتابوں کا ثقافتی اور تہذیبی پس منظر ہماری ثقافت اور تہذیب سے بالکل مختلف ہیں۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ سکول کا پورا پروگرام اور ماحول بچوں میں اپنی تہذیب سے مغائرت پیدا کرتا ہے۔ انگریزی زبان کی تدریس کو مدرسی زندگی کے کسی بھی دوسرے مضمون سے زیادہ وقت دیا جاتاہے۔
اگریہی وقت بچوں کی سمع، بصر اور فواد کی قوتوں کی نمو اور تربیت میں صرف ہو اور ریاضی اور سائنسی مضامین کی تدریس میں لگے تو ہم اس انسانی قوت کو زیادہ کار آمد بناسکتے ہیں۔
ضرورت ہے کہ اہل دل اٹھیں اور ایسے زور آور تعلیمی ادارے قائم کریں جو ا س ملک کو ایسی قیادت فراہم کر سکیں جو با اخلاق بھی ہو اور اہل بھی ہو اور مسلمان ملت سے نظریاتی ہم آہنگی بھی رکھتی ہو۔