انٹر نیٹ کے منفی اور مثبت اثرات سے متعلق ایک رہنما تحریر
انٹرنیٹ اس دور کی ایک غیر معمولی ایجاد ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے ایک نئے عہد یعنی انفارمیشن ایج کا آغاز کردیاہے اور کسی دوسرے میڈیا کی طرح یہ بھی معاشرے میں رائج خیالات ، تصورات ، اقدار اور روایات کومتاثر کرتاہے اورجس سمت میں چاہے ان کا رخ موڑنے کی صلاحیت رکھتاہے۔
انٹرنیٹ پچھلے کچھ عرصے سے نہ صرف ہمارے معاشرے میں رائج ہوچکا ہے بلکہ اسے عام کرنے کی حکومتی پالیسی کے نتیجے میں عوام الناس میں بھی اس کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔امید ہے کہ آنے والے برسوں میں اس کا استعمال اتنا عام ہوجائے گا کہ مغرب کی طرح ہمارے ہاں بھی ایک انٹرنیٹ کلچر جنم لے لے گا۔ جس کے بعد ہماری روزمرہ زندگی میں بھی انٹرنیٹ کا عمل دخل بہت بڑھ جائے گا ۔ مثلا ً لین دین، لوگوں کے ساتھ تعلقات، معلومات کا حصول ، خریداری وغیرہ جیسی چیزیں ، ہمارے معاشرے میں بھی، زیادہ تر انٹرنیٹ پر منحصر ہوجائیں گی ۔ مزید برآں یہ کہ اس وقت ٹیلفون لائنوں کی محدودیت کی بنا پر انٹرنیٹ کی رفتار آہستہ ہے۔ مگر جیسے جیسے کیبل موڈیم ، DSL اور سیٹلائٹ وغیرہ جیسی تیز رفتار ٹیکنالوجی عام ہوں گی تو انٹرنیٹ کی رفتار بڑھنے سے اس کے نت نئے استعمالات سامنے آئیں گے ۔ انٹرنیٹ کم وبیش پوری زندگی کا احاطہ کرے گا اورجلد ہی ٹی وی کی طرح یہ بھی ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن جائے گا۔ اس بنا پر یہ ضروری ہے کہ ہم ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ انٹرنیٹ کے منفی اور مثبت استعمالات کا جائزہ لیں اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ کس طرح ہم اس کے مثبت استعمالات کو فروغ دے سکتے اور منفی اثرات سے اپنے گھروں اورمعاشرے کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
انٹرنیٹ کیا ہے؟
اس سے قبل کے کہ ہم آگے بڑھیں اور معاشرے پرانٹرنیٹ کے اثرات کا جائزہ لیں یہ بہتر ہوگا کہ ایک عام فہم مثال سے اس بات کو واضح کر دیا جائے کہ انٹرنیٹ کیا ہے اور کس طرح کام کرتا ہے۔انٹرنیٹ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک بہت بڑے بازار کی طرح ہے جس میں لاکھوں بلکہ کروڑوں دکانیں ہیں۔ ان دکانوں میں ہر وہ شے دستیاب ہے جواس دنیا میں کہیں بھی پائی سکتی ہے ۔ قطع نظر اس کے کہ وہ چیز اچھی ہے یا بری ، خیر ہے یا شر، مفید ہے یا مضر ۔ اس بازار کے اردگرد ایک دیوار کھینچی ہوئی ہے جس نے اس کو باقی دنیا سے کاٹ دیا ہے۔ بازار کے اندر جانے کے لیے مخصوص دروازے ہیں جن سے گزرے بغیر کوئی شخص اس بازار میں داخل نہیں ہوسکتا۔ بازار میں داخلے ، گھومنے پھرنے اورمختلف دکانوں پر جانے کے ایک مخصوص سواری استعمال کرنا ضروری ہے۔
اس مثال میں بازار سے مراد انٹرنیٹ ہے۔ دکانوں سے مراد ویب سائٹس ہیں جن میں سامان کی جگہ لوگوں کے فائدے اوردلچسپی کی چیزیں ڈیٹا، تحریر، آواز اور تصویر وغیرہ کی شکل میں موجود ہیں۔ گیٹ سے مراد internet Service Provider ، جنہیں مختصراً ISPs کہا جاتاہے ۔ ان سے کنکشن لیے بغیر کوئی شخص براہ راست انٹرنیٹ استعمال نہیں کر سکتا۔ سواری سے مراد کمپیوٹر ہارڈوئیر اورسافٹ وئیر ہے ۔ اس بازار کے گرد کھینچی ہوئی دیوار یہ بتاتی ہے کہ انٹرنیٹ مادی دنیا کی طرح مرئی نہیں۔ یعنی وہ دنیا جسے چھو کر محسوس کیا جا سکتاہو۔ اسی لیے انٹرنیٹ کو Cyberspace اور Virtual World کہا جاتاہے۔ یعنی ایک غیر مرئی دنیا جوکرنٹ کے بہاؤ سے وجود میں آتی ہے۔ جس طرح کمپیوٹر میں بجلی سے زندگی پیدا ہوتی ہے اور بجلی منقطع ہوتے ہی سب کچھ ختم ہو جاتاہے بالکل اسی طرح انٹرنیٹ کی دنیا کا معاملہ ہوتاہے۔
اثرات
انٹر نیٹ کے ہمارے معاشرے پر جو اثرات ہورہے ہیں اور ہوسکتے ہیں وہ بنیادی طور پر تین قسم کے ہیں۔ اول کچھ تبدیلیاں ہیں جوروزمرہ زندگی میں رونما ہو رہی ہیں۔ ان کی کوئی مذہبی ، اخلاقی اورتہذیبی اہمیت نہیں ہے۔تاہم انہیں اس اعتبارسے مثبت قرار دیا جا سکتاہے کہ یہ زندگی کو تیز اور آسان بنار ہی ہیں۔ دوم وہ مثبت امکانات ہیں جو انٹرنیٹ میں پوشیدہ ہیں۔جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک موقع دیا ہے کہ ہم علم و ٹیکنالوجی میں اپنی کمزوری کو بہت جلد دور کرکے کامیابی اور ترقی کی راہیں اپنی قوم کے لیے کھول سکتے ہیں۔تیسرے وہ منفی رجحانات ہیں جن کے تاریک سائے ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ ذیل میں ہم ان تمام اثرات کا ایک تفصیلی جائزہ پیش کر رہے ہیں تاکہ لوگ اس معاملے میں باشعور ہوں اور اپنی ترجیحات کو شعوری طورپر متعین کریں۔
بے حیائی کا فروغ
انٹرنیٹ دورجدید میں بے حیائی کے فروغ کا سب سے آسان اور موثر ذریعہ بن چکا ہے۔ یہ بات انٹرنیٹ کے آغاز کے وقت بڑی صراحت کے ساتھ نمایاں ہوکر سامنے آگئی تھی۔ نوے کی دہائی میں انٹرنیٹ امریکہ اور یورپ میں غیرمعمولی سرعت کے ساتھ پھیل گیا تھا۔ اس کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ اس پر دستیاب فحش اورعریاں لٹریچرتھا۔ سن پچانوے میں ٹائم میگزین نے انٹرنیٹ کے بارے میں شائع ہونے والے اپنے خصوصی شمارہ میں ایک رپورٹ شائع کی۔ جس کے مطابق انٹرنیٹ پر ان سائٹس کا تناسب جن پر فحش اور عریاں مواد دستیاب تھا محض ۰۳ء۰ فیصد تھا یعنی ۱۰۰۰ میں سے صرف ۳ سائٹس۔ تاہم انٹرنیٹ استعمال کرنے والے سو میں سے چوراسی لوگ انہیں ۰۳ء۰ فیصد سائٹس کا رخ کرتے تھے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اب فحش سائٹس کی تعداد ملینز میں پہنچ چکی ہے اورکاروباری اعتبار سے بھی یہ سب سے زیادہ کامیاب ہیں اور باقی تمام اقسام کی سائٹس مثلاً میوزک، گیم، اسپورٹس وغیرہ کے مقابلے میں زیادہ بزنس کرتی ہیں۔انٹرنیٹ کے ذریعے فحاشی کے فروغ کی بڑی یہ ہے کہ اس میں پرائیویسی اور سہولت کا عنصر بہت زیادہ ہے۔ چنانچہ کوئی بھی شخص کسی کے علم میں لائے بغیر ہر طرح کے مواد تک باآسانی رسائی حاصل کر سکتاہے ۔ خدا خوفی سے خالی معاشروں میں، جہاں ایسی چیزوں سے لوگ صرف معاشرتی دباؤ کی بنا پر دور رہتے ہیں ،جب ایسی سہولت میسر آجائے تو کون ہوگا جو اس محفوظ ذریعہ سے مستفید نہ ہو۔ پاکستان میں ابھی تک اس طرح کے منظم سروے کا اہتمام تو نہیں کیاگیا تاہم غیر رسمی معلومات سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ نوجوانوں کی غالب ترین اکثریت انٹرنیٹ کو اسی مقصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ ہمارے ہاں نوجوانوں کی شادی کوغیر ضروری طورپر موخر کرنے کا چلن اب عام ہوچکا ہے چنانچہ خدشہ ہے کہ ان حالات میں اس مقصد کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والوں کی تعداد مغرب سے کہیں زیادہ ہوگی۔
اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ نئی نسل اخلاقی طورپر دیوالیہ ہورہی ہے۔ حیا اور شرم جیسی اقدار کمزور اور رشتوں کا تقدس مجروح ہو رہا ہے۔فطرت کی پاکیزگی رخصت ہورہی ہے اور ذہنی آلودگی بڑھ رہی ہے ۔ ظاہری بات ہے کہ ان چیزوں کے اثرات معاشرے پر تباہ کن ہوں گے۔ خصوصاً ایک ایسے معاشرے میں جو ترقی کے ہر میدان میں جدید دنیا سے پیچھے ہے اور جس کا کل سرمایہ یہی اقدار ہیں۔ یہ بھی نہ رہیں تو معاشرہ اپنے استحکام کی واحد اساس بھی کھودے گا۔
غیر اسلامی تہذیبی اثرات
مغربی معاشرے کی کچھ روایات ہیں، کچھ اقدار اور طور طریقے ہیں، کچھ معروف و منکر ہیں جو یقینا ہم سے مختلف ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے اہل مغرب کی یہ اقدار و روایات خاموشی سے ہمارے معاشرے میں سرایت کر رہی ہیں۔ مثال کے طورپر ویلنٹائن ڈے، ہیلوئن ڈے، مادراور فادر ڈے وغیرہ جوکچھ خاص ایام ہی نہیں بلکہ اپنے پیچھے ایک پورا تہذیبی اور معاشرتی پس منظر لیے ہوئے ہیں اب ہمارے ہاں باہتمام منائے جاتے ہیں ۔ جس کے ساتھ آہستہ آہستہ ان کا پس منظر بھی اپنی جگہ بناتا جارہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں اس طرح کی روایات کے فروغ میں اس کیبل کلچر کا بھی بڑا عمل دخل ہے جواب ہماری اجتماعی زندگی کا لازمی حصہ بن گیاہے۔ تاہم انٹرنیٹ کی دو ایک ایسی خصوصیات ہیں جن کی بنا پر عام لوگوں کو ان ایام میں براہ راست شامل ہونے اور انہیں منانے کا موقع مل جاتاہے۔ ایک یہ کہ اس کے ذریعے مفت میں کسی کو بھی بہت اچھے کارڈز بھیجے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ ان دنوں پر انٹرنیٹ استعمال کرنے والے تمام لوگ کارڈز کا تبادلہ کرتے ہیں اورعملاً ان دنوں کے منانے میں حصہ لیتے ہیں۔ دوسرے انٹرنیٹ پر چیٹنگ (chatting) لڑکے لڑکیوں کی دوستی کا ایک بہت موثر اور آسان ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔یہ بات واضح ہے کہ لڑکے لڑکیوں کی دوستی اور اس کے یوم تجدید یعنی ویلنٹائن ڈے کاہماری تہذیب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ مغرب کی قدر ہے جہاں آزاد صنفی تعلق کوئی معیوب بات نہیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں کسی مردو عورت کے درمیان صنفی محبت کی واحد قابل قبول شکل نکاح ہے۔ تاہم اب اس طرح کے دنوں کے ذریعے ہمارے لیے یہ بات قابل ِ قبول ہوتی جا رہی ہے کہ ایک مردوعورت شادی کے بغیر بھی محبت اور اس کے لازمی نتیجے کے طورپر صنفی تعلق قائم کر سکتے ہیں ۔ نوجوانی کا Love Affair اصل میں Lust Affair ہوا کرتاہے ، ویلنٹائن ڈے مناتے مناتے ایک روز ہم بھی اس بات کو قبول کر لیں گے۔ اسی طرح ہیلوئن ڈے جس پر بچے بھوتوں اور چڑیلوں کا روپ اختیار کرتے ہیں، مغربی پس منظر کا ایک تہوار ہے۔مادراور فادرڈے مغرب کی دریافت ہے جہاں خاندان ٹوٹ چکے ہیں اور اس کی تلافی کے لیے لوگ سال میں ایک دفعہ بوڑھے والدین کویاد کر لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو ہر دن مادراور فادر ڈے ہوتاہے۔
مغربیت کا یہ عمل غیرمحسوس طورپر میاں ، بیوی ، اولاداور والدین کے باہمی رشتوں کو بھی کمزور کرتا چلا جائے گا کیونکہ یہ تہوارمعاشرتی رویوں کے علامتی اظہار ہوتے ہیں۔ اہل مغرب نے انہیں سوچ سمجھ کر ، اپنے فلسفۂ زندگی کے تحت قبول کیا ہے جبکہ ہم ان کی نقل میں اپنی بنیادیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔
تشدد اور نفرت اور جرائم کا فروغ
مغرب میں جہاں انٹر نیٹ کا استعمال ہر شعبۂ زندگی پر محیط ہوچکا ہے، انٹرنیٹ کے بعض ایسے استعمالات سامنے آئے ہیں جوبہت سنگین نوعیت کے ہیں۔مثلاً مختلف مذاہب اور نسلوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے انٹرنیٹ کو استعمال کیا جارہا ہے۔اسی طرح انٹرنیٹ تشدد اور جرائم کے فروغ کاذریعہ بھی بن رہاہے۔اس کے لیے مغرب میں سائبر کرائم کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ہمارے ہاں بھی سائبر کرائم کی وبا آہستہ آہستہ فروغ پارہی ہے۔ خصوصاً وہ نوجوان جو اپنا زیادہ وقت انٹرنیٹ پر گزارتے ہیں بعض ویب سائٹس یا چیٹنگ کے ذریعے ان چیزوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ان کے علاوہ بعض دیگر منفی عادات مثلا ً جو ا وغیرہ کے فروغ کا بھی یہ ایک بہت موثر ذریعہ بن گیاہے۔یہ ساری چیزیں جو آج مغرب میں پھیل رہی ہیں انٹرنیٹ کے استعمال کے بڑھنے کے نتیجے میں ہمارے ہاں بھی عام ہوسکتی ہیں۔
وقت کا ضیاع
انٹرنیٹ کا بے روک وٹوک استعمال اپنے اندر وقت کے ضیاع کا پہلو بھی رکھتاہے۔انٹرنیٹ پر مختلف سائٹس پر بے مصرف گھومنے کا عمل جسے (Surfing) سرفنگ کہتے ہیں سڑکوں پر آوارہ گردی کرنے کے مترادف ہوتاہے۔جس طرح سٹرکوں پر بے مقصد مٹر گشت کرنے میں وقت کا پتانہیں چلتا اسی طرح سرفنگ کے عمل میں لوگ اپنا قیمتی وقت ضایع کرتے رہتے ہیں اور انہیں اس کا احساس نہیں رہتا۔سرفنگ سے زیادہ چیٹنگ وقت کے ضیاع کا سبب ثابت ہوتی ہے۔نوجوان لڑکے لڑکیاں گھنٹوں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں اور لا یعنی گفتگو اور مشغلوں میں اپنا قیمتی وقت ضایع کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ کمپیوٹر کا مسلسل استعمال آنکھوں ، ہاتھوں، گردن اورکمر کے پٹھوں کے لیے بھی مضر ہوتاہے۔ باقی اخلاق پر مضراثرات ہم فحش سائٹ کے حوالے سے اوپر بیان کر چکے ہیں۔
کمیونیکیشن کے شعبہ میں انقلاب
انٹرنیٹ بہر حال ایک آلہ ہے جس کے منفی اور مثبت دونوں پہلو ہیں۔ اس کے مثبت استعمال بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جن سے دنیا بھر میں فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ انٹرنیٹ کا ایک عام آدمی کے حساب سے سب سے بڑا اثر کمیونیکیشن کے شعبے میں ظاہر ہوا ہے۔اس کی سب سے مشہور قسم ای میل (Email) ہے۔ یہ انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا کے کسی بھی حصے میں موجود فرد کو پیغام پہنچانے کی ایک سروس ہے جو بہت تیز، آسان ، قابل اعتبار اور مفت ہے۔دوسری سروس چیٹنگ (Chatting) ہے۔اس میں مختلف جگہوں پر موجود لوگ براہ راست ایک دوسرے سے تحریری طورپر گفتگو کر سکتے ہیں۔اب آواز اور تصویر کے ساتھ گفتگو کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ انٹرنیٹ کا ایک استعمال نیٹ فون بھی ہے۔جس میں کمپیوٹر سے براہ راست فون پر رابطہ ممکن ہے۔ اس کے علاوہ دلکش ڈیزائن کے کارڈز وغیرہ بھی ایک دوسرے کو بھیجنے کی سہولت آج کل بہت مقبول ہے۔ان سب چیزوں کے ذریعے لوگوں کے لیے دور دراز ملکوں میں موجود اپنے عزیزوں سے رابطہ کرنا بیحد آسان ہو گیا ہے۔
ای کامرس
ای کامرس کا تصور ہمارے ملک میں ابھی زیادہ فروغ نہیں پایا مگر مغرب میں نہ صرف یہ تصور عام ہوگیاہے بلکہ بہت مفید بھی ثابت ہو رہا ہے اور یقیناجلد ہی ہمارے ملک میں بھی عام ہوجائے گا۔ اس کے ذریعے لوگ نہ صرف گھر بیٹھے بیٹھے اپنی پسند کی چیزیں حاصل کر سکتے ہیں بلکہ یہ اشیاانہیں بہت سستی بھی پڑتی ہیں۔اس کا سبب یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر تیار ہونے والی اشیا میں بالعموم مڈل مین کافی منافع لے جاتاہے۔اشیائے تجارت مینو فیکچررز بناتے ہیں اور ڈسٹری بیوٹر تقسیم کرتے ہیں اور عام دکاندار انہیں صارف تک پہنچاتے ہیں۔چنانچہ عام صارف تک پہنچتے پہنچتے جتنے لوگ بیچ میں آئیں گے چیز اتنی ہی مہنگی ہوجاتی ہے۔ تاہم انٹرنیٹ سائٹس کے ذریعے ایک مینو فیکچرریاڈسٹری بیوٹر صارف کو وہی چیز براہ راست بیچ دیتاہے۔مڈل مین کی مداخلت نہ ہونے کی بناپر صارف کو یہ چیز کافی سستی پڑتی ہے۔ یہ طریقہ ایسی اشیا کی فروخت میں بیحد کامیاب ہے جس میں خریدار کی پسند اور انتخاب پہلے سے واضح ہوتاہے۔مثلاً اگر ایک کتاب خریدنی ہے تو ایک صارف بالعموم نصف قیمت پر گھر بیٹھے وہ کتاب خرید سکتا ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس طرح کے معاملات میں کریڈٹ کارڈ استعمال ہوتاہے۔ای کامرس کی طرح اب ای بینگنگ اور ای گورنمنٹ کے تصورات بھی بہت عام ہوچکے ہیں۔ جن میں بینک اور حکومتی اداروں سے لین دین کے معاملات گھر بیٹھے بیٹھے باآسانی انجام پاجاتے ہیں۔ مثلاً گھر بیٹھے بیٹھے مختلف ادائیگیاں کی جاسکتی ہیں، بل بھرے جا سکتے ہیں اور ہر طرح کی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
علم و تحقیق کا نیا میدان
انٹرنیٹ اپنے مثبت استعمالات کے اعتبار سے خدا کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔بالخصوص ہمارے جیسے معاشرے کے لیے جو تحقیق و علم کے میدان میں بیحد پیچھے ہے۔ علم کی غالباً کوئی ایسی شاخ نہیں جس سے متعلق معلومات انٹرنیٹ پر مفت اور بلا روک وٹوک دستیاب نہ ہوں ۔ پرائمری اسکول میں پڑھنے والے بچے کو بھی اپنی اسائمنٹ کے لیے اس پر مواد مل جاتا ہے اور پی ایچ ڈی کرنے والے شخص کے لیے بھی یہاں تمام مواد با سہولت دستیاب ہے۔شرط صرف یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر مواد ڈھونڈنے کا طریقہ آتا ہواور اسے سیکھنا بہت مشکل نہیں ہے۔
اب یہ ایک معروف طریقہ بن گیا ہے کہ علم کے تمام شعبوں میں ہونے والی ترقی کا ریکارڈ انٹرنیٹ پر دستیاب کر دیا جاتاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ ایک عظیم لائبریری کاکام بھی کرتاہے۔ یہ تمام معلومات زیادہ تر انگریزی زبان میں ہوتی ہیں۔ہمارے نظام تعلیم کے انگریزی پس منظر کی بنا پر ہمارے لیے بہت آسان ہے کہ ہم انگریزی زبان میں موجود اس مواد سے بھر پور انداز میں استفادہ کر سکیں۔
انٹرنیٹ : بہترین معلم
انٹرنیٹ علم وتحقیق کے علاوہ سیکھنے سکھانے کا بھی بہترین ذریعہ ہے ۔ کم وبیش ہر چیز سے متعلق انٹرنیٹ پر نہ صرف معلومات دستیاب ہیں بلکہ تمام علوم وفنون سے متعلق Tutroial انٹرنیٹ پرموجود ہوتے ہے۔ اس کے علاوہ کثرت کے ساتھ آن لائن کورسز کا سلسلہ بھی اس پر دستیاب ہے جن کی مدد سے آپ کسی بھی شعبے سے متعلق مضمون پر مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ کورسز اور ٹیٹوریل زیادہ تر فری ہوتے ہیں جن میں آواز اور تصویروں کی مدد سے لوگوں کومختلف چیزوں کی تربیت دی جاتی ہے۔اگر آپ کمپیوٹر کی کسی زبان کو سیکھنا چاہتے ہیں یاپھر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جہاز کیسے اڑتاہے تو انٹرنیٹ ہرموقع پر آپ کی مدد کرے گا۔خواتین ، بچوں ، بزرگوں غرض ہر عمر اور ہر شعبہ کے لوگوں کے لیے دلچسپی اور فائدے کی چیزیں یہاں دستیاب ہیں۔مثلاً خواتین کے لیے فیشن اور کوکنگ وغیرہ کے ٹپس ، بزرگوں کے لیے بیماریوں سے پرہیز اور بچاؤ کے طریقے وغیرہ۔
اسلام کے فروغ کا ذریعہ
دور حاضر میں نظریات کی جنگ جاری ہے اور پروپیگنڈا کا دور دو رہ ہے۔مغرب اپنی تہذیبی قوت کے ساتھ ہم پر حملہ آور ہے اور ایک دنیا اس کی قوت کے آگے زیر ہے۔ تاہم اسلام کو اللہ تعالیٰ نے ابدی طورپر نظریاتی غلبہ عطا کردیا ہے۔البتہ اس غلبہ کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کو اس کے متوقع مومنین تک پہنچایا جائے۔عام حالات میں اس کے لیے غیرمعمولی وسائل چاہیئیں ۔ تاہم انٹرنیٹ نے اس کام کو اب بیحد آسان کر دیاہے جس کے ذریعے صرف ایک آدمی بہت کم وسائل استعمال کرکے ایک بہت بڑے حلقے تک اپنی بات پہنچا سکتاہے۔ ہم میں سے کسی شخص کے لیے یہ بظاہر ممکن نہیں کہ وہ سی این این یا بی بی سی جیسا ادارہ کھولے اور لاکھوں لوگوں تک اپنی بات پہنچائے۔ لیکن ایک انٹرنیٹ سائٹ کے ذریعے یہ کام کرنا بہت آسان ہے اور ایک بے سروسامان شخص بھی ترقی یافتہ قوموں کا مقابلہ کر سکتاہے۔
اسی طرح چیٹنگ کے ذریعے اسلام کے فروغ کاکام غیر معمولی طورپر کیا جا سکتاہے۔ گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعد اسلام کے خلاف جو ایک محاذ مغربی دنیا نے قائم کیا ہے، اس میں بہت سے مسلمانوں نے غیر مسلموں پر اسلام کا صحیح نقطۂ نظر چیٹنگ کے ذریعے ہی واضح کیا ہے اور ان غلط فہمیوں کی تردید کی ہے، جو مغربی میڈیا پھیلا رہا ہے۔
حرف آخر:
انٹرنیٹ ایک نئی ٹیکنالوجی ہے جو ہمارے معاشرے میں استعمال ہونا شروع ہو چکی ہے۔ اس کے کچھ استعمال ہم دیکھ چکے ہیں اور کچھ نئے استعمال مزید سامنے آئیں گے۔ یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے اچھی یا بری چیز نہیں بلکہ اس کے اچھے اور برے ہونے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم کس طرح اس کو استعمال کرتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی تربیت کریں۔ انہیں سمجھائیں کہ اس کے اچھے استعمال سے ہم مختصر عرصے میں ترقی کر سکتے اور مغرب کی سائنسی اور تہذیبی برتری کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ تاہم اگر ہم نے صرف اس کے منفی استعمال کو لیاتو ہماری رہی سہی قوت بھی خاک میں مل جائے گی اور ہم ہراعتبار سے مغرب کے غلام بن جائیں گے۔