درجنوں کیمرے اس پر مرکوز تھے ۔ جیسے اس نے تاریخ انسانی کا کوئی بڑا معرکہ سر کیا ہو ۔ وہ پولیس کی تحویل میں تھی لیکن ا س کے لہجے میں کمال کا عزم تھا وہ جوش وخروش کی تصویر بنی باغیانہ تمکنت کے ساتھ اپنا نقطہ نظر بیان کر رہی تھی ۔ گردش دوراں اس کے سامنے تھم سی گئی تھی اور زمانہ اس کے قدموں سے لپٹا جا رہا تھا ۔ وہ ‘‘محبت’’ کا معرکہ لڑ رہی تھی ایسا معرکہ لڑنے والوں کا جنوں جب خود سری کی معراج کو پہنچتا ہے تو انہیں اپنا گردو پیش بڑا ہی حقیر دکھائی دینے لگتا ہے اور مقدس ترین رشتے بھی ان کے لیے کانچ کے کھلونے بن کر رہ جاتے ہیں ۔ اگلے دن کے اخبارات اس کی تصویروں سے بھرے ہوئے تھے اور بلند آہنگ سرخیاں اعلان کر رہی تھیں ‘‘محبت جیت گئی۔’’
وہ میرے پاکستان کی بیٹی ہے جس نے اپنی پسند کے آدمی سے شادی کر لی اور اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ دیا ۔ والدین اس شادی کے خلاف تھے ، نوبت تھانے کچہری تک پہنچی ۔ اس نے عدالت میں بیان دیا کہ اسے اغوا نہیں کیا گیا بلکہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے ۔ اس نے اپنے والدین پر متعدد الزامات بھی عائد کیے ۔ عدالت نے اسے، اس کے شوہر اور اس کے دیور کو تمام الزامات سے بری کر دیا ۔ اب معظم نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ دونوں میاں بیوی کو باہر کے کسی ملک بھجوا دیا جائے ۔ امکان ہے کہ امریکا اور یورپ کے کئی دوسرے ممالک انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے ۔
مجھے کہانی کی جزئیات اور تفصیلات سے زیادہ دلچسپی نہیں ۔ میرے لیے یہ سوال بھی بے محل ہے کہ ارونااور اس کے والدین میں سے کس کا موقف درست ہے ۔ میں تو صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ حالات وواقعات کی کون سی کروٹ نے اس نحوست بھری ساعت کو جنم دیا جب ایک بیٹی بغاوت پر آمادہ ہو گئی اور جب برسوں اپنی اکلوتی اولاد کو نازونعمت سے پالنے ، اسے تعلیم دلوانے اور اس کے حسین مستقبل کے خواب دیکھنے والے والدین ایک مقدمے کے مدعی بن کر اپنے ہی جگر گوشے کے سامنے آکھڑے ہوئے ۔ میں اس ‘‘سرشاری’’ کا احاطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں جس نے ایک بیٹی کے رگ وپے میں ایسا بارود بھر دیا اور میں اس کرب کی شدت جاننے کی سعی کر رہا ہوں جس سے ارونا کے ماں باپ گزر رہے ہونگے ۔
ارونا اس قوم کی بیٹی ہے اور بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں ۔ وہ میری بیٹی بھی ہے ۔ اسے اسلام نے یہ حق دیا ہے کہ اس کا شریک سفر اس کی پسند کے مطابق ہو ۔ اگر وہ اپنے ماں باپ کو نہیں قائل کر سکی یا اس کے انتخاب میں کوئی کجی تھی یا وہ معقول طریقہ اختیار نہیں کر سکی تو یہ اس کی کم نصیبی تھی ۔ اسلام جبر کے خلاف ہے اور بیٹیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح کسی کو تھما دینے کے سخت خلاف ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسلام اپنی پسند کو سلیقے اور قرینے کی نفیس حدوں کے اندر رکھنے کی تلقین بھی کرتا ہے ۔ دنیا کا کوئی شخص کسی کو اتنی محبت اور خیر خواہی نہیں دے سکتا جتنی محبت او رخیر خواہی والدین کو اپنی اولاد سے ہوتی ہے ۔ اگر ماں باپ اولاد کے جذبہ شوق کے سامنے حکمت کا بند نہ باندھ سکیں اور معاملے کو دانش مندی سے سلجھانے کے بجائے پیکار پہ نکل جائیں تو اسے بھی کم نصیبی ہی کہنا چاہیے ۔
ساری مخلوق پر انسان کی فضیلت وبرتری کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ اپنی منہ زور خواہشات کو نکیل ڈالنے اور اپنے اندر کے جذباتی ہیجان کو معاشرتی اقدار ، تہذیبی روایات اور اخلاقی قرینوں کے اندر کھلا رکھنے کا سلیقہ جانتا ہے ، اسلام اسی نفس کشی کی تربیت دیتا ہے ۔ اقدار وروایات کا مقام بلند حاصل کرلینے والے معاشرتی رویے اپنے دامن میں مصلحت ، حکمت اور دانش کا بیش بہا خزانہ رکھتے ہیں بہت سی قدغنیں اور پابندیاں جو بہ ظاہر ناگوار لگتی ہیں ، دراصل ہمارے تحفظ کا حصار ہوتی ہیں جسے توڑ ڈالنے سے ہم خود اپنے آپ کو نامہرباں موسموں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ مغرب میں چیچک او رطاعون کی طرح پھوٹ پڑنے والی معاشرتی برائیوں کا بنیادی سبب یہ ہے کہ آزادی ، خود مختاری اور ذاتی مرضی ومنشا ،والدین ، اساتذہ اور بزرگوں کی تلقین ونصیحت اور راہنمائی پر حاوی ہو گئی ۔ جوانیاں منہ زور ہو چلی ہیں اور ‘‘طفلان خود معاملہ’’ نے شیرازہ معاشرت درہم برہم کر دیا ہے ۔ وہاں طلاق کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے ، گھریلو ناچاقیاں عروج پر ہیں ، عائلی زندگی زبردست انتشار کا شکار ہے اور عورت اپنی تکریم سے محروم ہو کر اخلاق باختہ موسموں کا چارہ بن کر رہ گئی ہے ۔ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ نے دنیا کے سب سے تعلیم یافتہ معاشرے کو ایک خود رو جنگل میں بدل دیا ہے جو نفسانی خواہشات کی برسات سے گھنا ہوتا جا رہا ہے ۔
آج سے کوئی 30 سال قبل میری ایک شاگرد نے والدین سے بغاوت کر کے محبت کی شادی کا راستہ اختیار کیا ۔ برسوں بعد وہ مجھے ملی تو اس کا بیٹا کوئی آٹھ دس سال کا ہو چکا تھا ۔ حال احوال پوچھنے پر وہ پھٹ پڑی اور روتے ہوئے بولی ‘‘سر ! میں تو کہوں گی ماں باپ کسی جانور کے کھونٹے پر بھی باندھ دیں تو بغاوت نہیں کرنی چاہیے ۔’’ تجربے کی بھٹی سے گزرنے کے بعد دل ودماغ میں جاگ اٹھنے والی صداقتیں بڑی ٹھوس ہوتی ہیں ۔ لیکن میری شاگرد کا ‘‘رد عمل’’ اتنا ہی غیر حقیقی اور جذباتی تھا جتنا برسوں پہلے کااس کا ‘‘عمل۔’’ اسلام تواز ن واعتدال کا دین ہے ۔ وہ کسی طور بھی والدین کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ اپنی پسند اولاد پر ٹھونسیں ، نیز اولاد کو بھی اپنی پسند نا پسند کا اختیار دینے کے باوجود یہی تلقین کی گئی ہے کہ وہ اسے بزور اپنے والدین پر نہ ٹھونسیں اور خود سری کا راستہ اختیار نہ کریں۔
سب سے زیادہ تکلیف دہ او رغیر معتدل رویہ ان ٹی وی چینلوں کا ہے جنہوں نے ایک افسوس ناک واقعے کو ‘‘گلیمرائز’’ کیا اور مسلسل کر رہے ہیں ۔ کسی حادثے سے لذتیں سمیٹنے اور کسی معاشرتی زلزے یا اقدار شکنی سے روشن خیالی کا عرق کشید کرنے والوں نے اسے ‘‘معرکہ حق وباطل’’ کا رنگ دے دیا ۔ ارونا سے کسی طور پر زیادتی نہیں ہونا چاہیے تھی ۔ اگر ہوئی تو عدالت نے اس کا ازالہ کر دیا ۔ میڈیا کو تشہیر کی کسی بھی مہم سے پہلے یہ ضرور سوچ لینا چاہیے کہ اس کا مطلوب ومقصود کیا ہے ۔ کیا ‘‘ارونا’’ ہماری ‘‘خاتون مطلوب’’ ہے اور ہم اپنی بیٹیوں کو اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں ؟ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ قوم کی ہر بیٹی گھر کی فصیل توڑ کر والدین کے خلاف علم بغاوت لہراتے ہوئے اپنی من پسند راہوں پر چل نکلے؟ ذرائع ابلاغ کا کام اجلے راستے تراشنا اور ان قرینوں کا تحفظ کرنا ہے جو ہماری تہذیب کا حسن اور ہماری معاشرت کا اعزاز ہیں ، اگر ارونا کے والدین کا رویہ مثالی نہیں تو تمام تر ہم دردیوں کے باوجود ارونا بھی کوئی مثالی نمونہ تقلید نہیں ہے ۔
‘‘محبت’’ کی منہ زوری میں معرکہ آرائی کا تفاخر اور باغیانہ آسودگی کا سرور ہوتا ہے لیکن ایک ‘‘محبت’’ کے لیے ازلی اور ابدی محبتوں کے سدا بہار گلستان کو اجاڑ پھینکنے کے اثرات کچھ ہی عرصہ بعد سامنے آجاتے ہیں ۔ جب آتش فشاں ٹھنڈا پڑ جاتا ہے تو دور دیس سے آنے والی ہواؤں کی آرزو بڑا بے کل رکھتی ہے ۔ آنکھیں روٹھی بستی کے مسافروں کی راہ دیکھنے کے لیے دہلیز پر جمی رہتی ہیں ۔ کان مانوس آوازوں کو ترس جاتے ہیں اور جب ساون گھر گھر آتا ہے اور باغوں میں جھولے پڑنے کی رت جوان ہوتی ہے تو دن بہت کڑے اور راتیں بہت لمبی ہو جاتی ہیں ۔
ماں باپ کے گھر سے سہیلیوں کے میٹھے گیتوں کے جھرمٹ میں رخصت ہونے والی بیٹیاں بڑی خوش بخت ہوتی ہیں جو صرف جہیز لے کر نہیں جاتیں ، ان کے ساتھ لافانی شفقتوں ، محبتوں ، عنایتوں ، نوازشوں اور دعاؤں کی سوغات بھی ہوتی ہے ۔ کڑی دھوپ میں ٹھنڈی چھاؤں کی طرح تنی رہنے والی چھتریوں سے محرومی کوئی معمولی زیاں نہیں لیکن اس کا اندازہ تب ہوتا ہے جب آشفتہ سری کا خمار اتر جاتا ہے اور آنکھیں گردو پیش کا منظر دیکھنے لگتی ہیں۔ اس وقت خاصی دیر ہو چکی ہوتی ہے ۔
ارونا پاکستان کی بیٹی ہے ، وہ میری بیٹی بھی ہے ۔ اللہ کرے اسے اپنے شوہر کی محبت کے ساتھ ساتھ والدین کی محبت کی متاع گم گشتہ بھی واپس مل جائے ۔ مجھے یقین ہے کہ جب اس کی گود میں ننھی سی ‘‘ارونا’’ کھیلنے لگے گی تو وہ اور ڈاکٹر معظم دونوں اللہ کے حضور التجا کریں گے کہ ان کی بیٹی ان کی کہانی کو نہ دہرائے ۔
میری دعا ہے کہ ارونا کی زندگی حقیقی خوشیوں سے بھر جائے اور میری دعا ہے کہ قوم کی کوئی بیٹی اس کے راستے کا انتخاب نہ کرے ۔ (بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت ، لاہور)