السلام علیکم ۔وعلیکم السلام
انکل ‘‘کریلے ’’ چاہییں ۔
بیٹا ،‘‘ کریلے ’’تو مل جائیں گے لیکن باسی ہیں ، تازہ نہیں۔ یہ بات سن کر میری حیرانی کی انتہا نہ رہی یقینا آپ سمجھ چکے ہونگے کہ میری حیرانی کی وجہ کیا تھی……؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ سچ بولنے اور ایمانداری کا یہ رویہ اب ہمارے معاشرے میں ماضی کی بات بن چکا ہے جہاں حقیقت بتانے کے بجائے بڑی ڈھٹائی سے نہ صرف فراڈ کیا جاتا ہو بلکہ اس پر فخر بھی کیا جاتاہوتووہاں ایسی صاف بات پر حیرانی نہ ہو تو کیا ہو؟
‘‘ڈنڈی’’ مارنااب ہمارا وطیرہ بن چکاہے اور جو شخص ایسا نہ کرے ، اس کے لیے Survive کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ایک صاحب نے ملازمت سے چھٹی لی اور خوشی خوشی پولٹری کا کاروبار شروع کیا ۔ ابھی چند ہی روز بیتے تھے کہ واپس ملازمت پر آگئے ۔ لوگ حیران تھے کہ آخر ماجرا کیا ہے ۔ دریافت کیا گیا تو یہ عقدہ کھلا کہ موصوف اس کاروبار میں سیٹ نہیں ہوسکے ۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ اس کاروبار میں ایمانداری نا م کی کوئی چیز موجود نہیں ، فراڈ بہت زیادہ ہے اور ناپ تول میں کمی تو گویا کاروبار کالازمی حصہ ہے ۔ موصوف انتہائی شریف آدمی ہیں، ان کے ضمیر نے یہ گوارا نہیں کیا کہ لوگوں کو دھوکہ دیا جائے۔ ان کے مطابق جب تک ناپ تول میں ڈنڈی نہ ماری جائے تو اس کاروبار کو چلانا تقریبا ناممکن ہے کیونکہ جہاں سے ان کو ‘‘مال’’ ملتا ہے وہیں پر ناپ تول میں بہت کمی کی جاتی ہے ۔ لہذا دوکاندار بے بس ہے ۔
ہمارے یہاں گنگا الٹی بہ رہی ہے ۔ اس الٹی گنگا کے سامنے صرف دوکاندار ہی نہیں بلکہ ہر شریف آدمی بے بس ہے ۔ آج ہمار ے اخلاق ان لوگوں نے اپنا لیے ہیں جن کے لیے ہم جہنم کو ‘‘واجب’’ قراردے چکے ہیں اور خود کو جنت کا ‘‘ٹھیکیدار’’ سمجھتے ہیں ۔ جنت کے ‘‘ٹھیکیدار’’ آج ہر وہ حرکت کر رہے ہیں جس کے کرنے کے بعد جنت کو اپنا حق قرار دینا صرف ایک دیوانے کی بڑ ہے ، اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ۔
آج تو ہمارے کردار اور اخلاق میں بھی ملاوٹ نے راستے بنا لیے ہیں۔ چین سمیت چند اور ممالک نے بھی ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کی ڈیری مصنوعات پر حال ہی میں پابندی عائد کی ہے کیونکہ ان کی ڈیری مصنوعات ان ممالک کے قائم کردہ معیار پر پوری نہیں اترتیں ۔ دوسری جانب ہمارے ملک میں کوئی بھی Check & balance نہیں۔ وہ خواہ نام نہاد ملٹی نیشنل کمپنیاں ہوں یا چوراہوں پر ریڑھی لگانے والے ‘‘ناشتہ فروش’’، وہ مکمل آزادی سے خطرناک کیمیکلزکا عام استعمال کر رہے ہیں اور ہمارے ملک میں کوئی ایسا نظام نہیں جس سے کھانے پینے کی اشیا کے معیار کو کنٹرول کیا جا سکے یہاں اشیائے خورونوش صحت بخش ہونے کے بجائے مضر صحت ہوتی جا رہی ہیں ، کھانے پینے کی اشیا میں ایسے کیمیکل استعمال ہو رہے ہیں جو کہ موت کا پروانہ ہیں ۔ کوئی پھل ، کوئی سبزی کچھ بھی توصحت بخش نہیں رہا۔ سبزیوں اور اجناس پر جو کیڑے مار ادویات کا سپرے کیا جاتا ہے ، وہ کیڑوں کے ساتھ ساتھ انسانی جان کا بھی دشمن ہے ۔ ہماری ڈیری کی مصنوعات میں بھی کیمیکل استعمال ہو رہے ہیں وہ دودھ ہو یا دہی ۔ ہمارے پھلوں پر اس قدر سپرے کیا جاتا ہے کہ ان کے مضر اثرات تا دیر محفوظ رہتے ہیں اور انسانی معدے میں منتقل ہو کر وبال جان بنتے ہیں۔ بچوں کی ٹافیاں بھی اس سے محفوظ نہیں۔ ان ٹافیوں میں جو رنگ استعمال ہوتے ہیں تحقیق کے مطابق بچوں کے معدے میں جاکر آہستہ آہستہ بعض اوقات کینسر کی صورت اختیار کر لیتے ہیں ۔ اشیائے خورونوش کے علاوہ زندگی بچانے والی ادویات بھی ہماری بے ایمانی کی نظر ہو چکی ہیں ۔ یہ دوائیاں اب زندگی بچانے کی بجائے زندگی کو انجام تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ یہ تو چند مثالیں ہیں ۔ ہمارے اردگرد شب وروز میں نجانے کتنی ہی ایسی مثالیں موجود ہیں یہاں ان کی فہرست پیش کرنا مقصودنہیں کہ سمجھنے کے لیے ایک اشارہ ہی کافی ہوتا ہے ۔
ہم بے ایمانی اور دھوکہ دہی کی سیاہی پھیلانے میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ آج ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے اور اتنے گھپ اندھیرے میں جہاں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے ، ایک سبز ی فروش کی چھوٹی سی سچی بات اور ایمانداری کی چھوٹی سی شمع بھی مجھے یوں لگی جیسے میں روشنیوں کے شہر میں آ گیا ہوں