حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت بریرہ ؓ کا بیان ہے کہ نبیؐ اللہ تعالی سے اجازت لیکر جب اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے تو والدہ کی قبر کے پاس بیٹھ کر بے اختیار رونے لگے ۔ آپؐ کے ساتھ جو صحابہ کرامؓ تھے وہ بھی آپؐ کو روتے دیکھ کر بے اختیار رو پڑے ۔ راوی (بریرہؓ) کا بیان ہے کہ ہم نے رسول اللہﷺ کو اتنا روتے ہوئے کبھی نہ دیکھا تھا جتنا آپﷺ اپنی والدہ کی قبر کے پاس بیٹھ کر روئے ۔
(صحیح مسلم ۔مسند احمد)
٭٭٭
جب حضرت آمنہ نے آپؐ کو داغ مفارقت دیا تو عبدالمطلب نے حضور ؐ کو اپنی آغوش محبت میں لے لیا اور بڑی شفقت و پیار سے تادم آخر آپؐ کو اپنے ساتھ رکھا۔ عبدالمطلب بڑے جاہ وجلال کے مالک تھے ۔ ان کی اولاد میں سے کسی کو یہ جرأت نہ ہوتی تھی کہ ان کے بستر پر جا بیٹھے مگر نبی ؐ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے دادا کے بستر پر چلے جاتے ۔ آپﷺ کے چچا آپ کو ہٹانا چاہتے تو عبدالمطلب کہتے میرے بیٹے کو چھوڑ دو ۔ خدا کی قسم! اس کی شان ہی کچھ اور ہے ۔ میں امید رکھتا ہوں کہ یہ بلند مرتبہ پر پہنچے گا ، جس پر اس سے پہلے کوئی عرب نہیں پہنچا ۔ بعض روایات کے مطابق عبدالمطلب فرمایا کرتے تھے کہ اس کا مزاج شاہانہ ہے ، رسول اللہؐ کو دادا سے بے حد محبت تھی ۔ والدین کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد دادا کا وجود آپؐ کے لیے تسکین قلب وجان تھا ۔ مگر یہ خیر خواہ بھی زیادہ دیر تک وفا نہ کر سکا۔ ابھی رسول اللہﷺ نے عمر کی آٹھ منزلیں ہی طے کی تھیں کہ دادا عدم کو روانہ ہو گئے ۔ حضرت ام ایمنؓ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو سردار عبدالمطلب کی وفات کے دن دیکھا کہ جب ان کا جنازہ اٹھا تو حضورؐ پیچھے پیچھے روتے جاتے تھے ۔
(طبقات ابن سعد)
٭٭٭
2 ہجری کو جب معرکہ بدر پیش آیا تو اس موقع پر 70 کفار قید کر لیے گئے ۔ ان میں حضرت ابو العاص ؓ بن ربیع بھی تھے جب قیدیوں سے فدیہ لے کر ان کو رہا کیا جانے لگا تو حضرت زینبؓ بنت رسولؐ نے بھی اپنے شوہر حضرت ابو العاصؓ کو چھڑانے کے لیے فدیہ میں وہ قیمتی ہار جو ماں حضرت خدیجہؓ نے جہیز میں دیا تھا فدیہ کے لیے بھیج دیا ۔ رسول اللہﷺ نے جب یہ ہار دیکھا تو 25 برس کا محبت انگیز واقعہ یاد آگیا ۔ حضرت خدیجہؓ کی اس نشانی کو دیکھ کر آپؐ بے اختیار رو پڑے اور آنکھوں سے سیل اشک رواں ہو گیا ۔ پھر آپؐ نے ڈبڈباتی آنکھوں سے صحابہ کرامؓ سے فرمایا : اگر تمہاری اجازت ہو تو بیٹی کو ماں کی یادگار لوٹا دوں ۔ سب نے سر اطاعت خم کر دیا تو آپؐ نے یہ ہار واپس کر دیا ۔
(ابو داؤد وتاریخ طبری)
٭٭٭
ایک مرتبہ ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ نے رسول اللہﷺ کے سامنے سیدہ خدیجہؓ کا ذکر کیا ۔ حضرت خدیجہؓ کی یاد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تڑپ اٹھے دل بے قرار ہو گیا اور آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہو گئے ۔
حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد متعدد بیویاں آپ کے عقد میں آئیں لیکن آپؐ ساری زندگی حضرت خدیجہؓ کو دل سے نہ بھلا سکے ۔ اگر کبھی گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تو آپؐ حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر گوشت بھیجتے ۔ کبھی کوئی خوشی یا غمی کا موقع آتا تو فرماتے : ‘‘کاش آج خدیجہؓ زندہ ہوتی ۔’’ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں آپؐ کی کسی بیوی پر مجھے رشک نہیں آیا سوائے حضرت خدیجہؓ کے ۔ ایک مرتبہ حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعد ان کی بہن حضرت ہالہؓ آپ سے ملنے آئیں اور اندر آنے کی اجازت طلب کی ۔ (ان کی آواز حضرت خدیجہؓ سے ملتی تھی) آپؐ کے کانوں میں اس آواز کا پڑنا تھا کہ خدیجہؓ کی یاد آگئی ۔ آپؐ فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا ہالہؓ ہو گی ۔ حضرت عائشہؓ بھی یہاں موجود تھیں ۔ بولیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بڑھیا کو یاد کرتے رہتے ہیں جو مر چکی ہے ؟ اب خدا نے آپ کو اس سے اچھی بیویاں دی ہیں ۔(بخاری)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر گز نہیں ، (وہ وہی تھیں) جب لوگوں نے میری تکذیب کی تو اس نے میری تصدیق کی ۔ جب لوگ کافر تھے اس نے اسلام قبول کیا جب میرا کوئی مددگار نہ تھا اس نے میری مدد کی ۔
(الاستعاب)
٭٭٭
ابھی اسلام کا آغاز تھا ۔ صرف اڑتیس آدمی مسلمان ہوئے تھے ۔ مکہ کی بستی کافروں سے بھری ہوئی تھی ۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ حضورؐ کی محبت سے سرشار تھے ۔ حضور سے التجا کی کہ مجھے اجازت دیجیے کہ میں لوگوں کو اعلانیہ آپؐ کی رسالت اور آپ سے فیض یاب ہونے کی دعوت دوں ۔ آپؐ نے فرمایا : ابو بکرؓ ابھی ذرا صبر سے کام لو ابھی ہم تعداد میں کم ہیں ۔ حضرت ابوبکرؓ پر غلبہ حال طاری تھا ۔ انہوں نے پھر اصرار کیا حتی کہ حضور نے اجازت دے دی ۔ حضرت ابو بکر ؓ نے بے خوف وخطر لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف دعوت دی ۔
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : ‘‘ حضور ؐ کی بعثت کے بعد ابو بکرؓ پہلے خطیب ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا ۔’’ مشرکین مکہ آپؓ پر ٹوٹ پڑے ۔ آپؓ کو سخت پیٹا ۔ عتبہ بن ربیعہ نے آپؓ کے چہرے پر بے تحاشا تھپڑ مارے ۔ آپؓ قبیلہ بنو تمیم سے تھے ۔ آپؓ کے قبیلے کے لوگوں کو خبر ہوئی تو وہ دوڑتے ہوئے آئے ۔ مشرکین سے انہیں چھڑا کر ان کے گھر چھوڑ آئے ۔ حضرت ابو بکرؓ بے ہوش تھے اور لوگوں کا خیال تھا کہ وہ جانبر نہ ہو سکیں گے ، وہ دن بھر بے ہوش رہے جب شام ہوئی تو آپؓ کو ہوش آیا ۔ آپؓ کے والد ابو قحافہؓ اور آپؓ کے قبیلے کے لوگ آپؓ کے پاس کھڑے تھے ۔ ہوش میں آتے ہی پہلی بات انہوں نے یہ کہی کہ رسول اللہﷺ کہاں اور کس حال میں ہیں ۔ ان کے قبیلے کے لوگ سخت برہم ہوئے ۔ اور انہیں ملامت کی کہ جس کی وجہ سے تمہیں یہ ذلت و رسوائی اٹھانی پڑی اور یہ مار پیٹ تمہیں برداشت کرنی پڑی۔ ہوش میں آتے ہی تم پھر اس کا حا ل پوچھتے ہو ۔ ان کے قبیلے کے لوگ مایوس ہو کر اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے اور ان کی ماں ام الخیرؓ سے کہہ گئے جب تک محمدؐ کی محبت سے باز نہ آجائے اس کا بائیکاٹ کرو اور اسے کھانے پینے کے لیے کچھ نہ دو ۔ ماں کی ممتا تھی جی بھر آیا ۔ کھانا لاکر سامنے رکھ دیا اور کہا دن بھر کے بھوکے ہو کچھ کھا لو ، حضرت ابو بکر صدیقؓ نے کہا : ‘‘ ماں ! خدا کی قسم ، میں کھانا نہیں چکھوں گا اور پانی کا گھونٹ تک نہ پیوں گا جب تک حضور ؐ کی زیارت نہ کر لوں ۔’’ حضرت عمر ؓ کی بہن حضرت ام جمیلؓ آگئیں اور بتایا کہ حضورؐ بخیریت ہیں اور دار ارقم میں تشریف فرما ہیں ۔ حضرت ابو بکر ؓ زخموں سے چور ، چلنے کے قابل نہ تھے ۔ ماں کا سہارا لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو رسول ؐ ان پر جھک پڑے ، انہیں چوما اور اس وقت آپؐ کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہو گئے ۔ (ابن کثیر)
٭٭٭
جب اکثر صحابہ کرام ؓ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور مکہ مکرمہ میں مشہور صحابہ میں سے سیدنا ابو بکر ؓ اور حضرت علیؓ باقی رہ گئے تو کفار مکہ نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے دارالندوہ میں جمع ہو کر فیصلہ کیا کہ اب محمدﷺ کو قتل کرنے کا اچھا موقع ہے ۔ بہت سے لوگوں نے مختلف تجاویز پیش کیں آخر ابو جہل کی اس تجویز کا سب نے خیر مقدم کیا کہ ہر قبیلے کا ایک ایک بہادر آج رات محمدﷺ کے گھر کا گھیراؤ کرے اور جب صبح محمدﷺ نماز کے لیے گھر سے نکلیں تو یکبارگی حملہ کر کے آپؐ کو قتل کر دیا جائے ۔ ادھر نبی ؐ کو قریش کے اس ارادے کی خبر ہو گئی ۔ آپ ﷺ نے حضرت علی کو بلا کر فرمایا : ‘‘ مجھے ہجرت کا حکم مل چکا ہے ، میں آج رات مدینے روانہ ہو جاؤں گا ۔ تم میرے بستر پر چادر اوڑھ کر سو رہو ۔ صبح کو میرے پاس رکھی ہوئی لوگوں کی امانتیں واپس کر کے مدینے چلے آنا ۔ اس کے بعد سیدنا ابوبکر ؓ کو ساتھ چلنے کا فرمایا۔ جب رات کا سناٹا چھا گیا اور کفار نے آپؐ کے گھر کا محاصرہ کر لیا تو رسول اللہﷺ طے شدہ پروگرام کے مطابق کفار کا محاصرہ توڑتے ہوئے اللہ کی حفاظت میں سورہ یٰس کی تلاوت کرتے ہوئے نکلے۔ مکہ مکرمہ کو چھوڑتے ہوئے آپ کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ پھر پرنم آنکھوں سے بیت اللہ شریف کی زیارت کی اور فرمایا : ‘‘ بیت اللہ تجھے چھوڑ کر جانے کو دل تو نہیں چاہتا لیکن کیا کروں تیرے باسیوں نے مجھے نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔’’ حدیث شریف میں آپؐ سے یہ الفاظ بھی مروی ہیں : ‘‘ (اے مکہ) اللہ کی قسم ! تو اللہ کی زمین کا سب سے بہترین ٹکڑا ہے اور میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب (بخدا) اگر مجھے نکالا نہ جاتا تو میں کبھی یہاں سے نہ جاتا ۔’’
٭٭٭
رسول اللہ ﷺ کو مدینہ طیبہ آئے ہوئے ابھی چار پانچ سال ہی گزرے ہونگے کہ ایک روز ایک اندوہناک خبر سن کر رحمت عالمﷺ بے تاب ہو گئے اور آپ کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہو گئے ۔
یہ خبر حضرت فاطمہ بنت اسدؓ کی وفات کی تھی ۔ آپؐ فوراً اٹھے اور میت والے گھر تشریف لے گئے ۔ میت کے سرہانے کھڑے ہو کر سخت غم کی حالت میں فرمایا : ‘‘ اے میری ماں ! اللہ تعالی آپ پر رحم فرمائے آپ میری ماں کے بعد تھیں ۔ آپ خود بھوکی رہ کر مجھے کھلاتی تھیں ۔ آپ کو خود لباس کی ضرورت ہوتی تھی مگر مجھے پہناتی تھیں ۔ پھر آپؐ نے اپنی مقدس قمیض گھروالوں کو دی (اور فرمایا کہ میری ماں کو ) میری قمیض کا کفن پہناؤ ۔’’ اس کے بعد آپ نے حضرت اسامہ بن زیدؓ اور حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو ارشاد فرمایا کہ جنت البقیع میں جا کر قبر کھودو ۔ جب قبر کا اوپر کا حصہ کھودا جا چکا تو رحمت عالمﷺ خود قبر میں اترے اور لحد خود کھودی اور اپنے دست مبارک سے مٹی باہر نکالی ۔ جب قبر تیار ہو گئی تو رسول اللہﷺ قبر میں لیٹ گئے اور دعا مانگی : ‘‘ الہی میری ماں کی مغفرت فرما ، اور (اس قبرکو) ان کے لیے وسیع کر دے ۔’’ جب دعا مانگ کر رسول اللہﷺ قبر سے نکلے تو سخت غم کی وجہ سے داڑھی مبارک ہاتھ میں پکڑ رکھی تھی اور آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کر رخساروں کو تر کر رہے تھے ۔ یہ بزرگ خاتون قریش کے رئیس ہاشم بن مناف کی پوتی ، عبدالمطلب کی بھتیجی اور بہو ، عم رسول ابو طالب کی زوجہ اور آپﷺ کی چچی ، جضرت جعفر طیارؓ اور خلیفہ چہارم حضرت علی ؓ کی والدہ ، حضرت فاطمہ بنت اسد ؓ تھیں ۔
٭٭٭
فتح مکہ کے بعد جب معرکہ حنین پیش آیا تو دس ہزار اسلامی فوج کے ساتھ دو ہزار مکی اور بھی شامل ہو گئے ، اس وقت بعض فوجیوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جب ہم 313 تھے اس وقت فتح ہماری تھی اب تو ہم 12000 ہیں مگر یہاں عجیب معاملہ بن گیا کہ تجربہ کار دشمن نے ایک تنگ ودشوار درہ میں چھپ کر اچانک ایسے زور سے حملہ کیا کہ اس اچانک حملہ سے مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے ، اس وقت نبی ﷺ بڑی جرأت کے ساتھ دشمن کی طرف بڑھے۔ حضرت عباس ؓ نے آگے بڑھ کر آپؐ کی سواری کی مہار پکڑ لی اور کہا حضور ! رک جائیے ۔ (اس وقت آگے بڑھنا خود کو موت کے منہ دینا ہے ) نبی ﷺ نے چچا کو تو کچھ نہ کہا خود اپنی سواری سے اترے اور آگے بڑھتے ہوئے پکارا : ‘‘ میں نبی ہوں اس میں ذرا بھی کذب نہیں ۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۔ (میری سچائی کا دارومدار فتح وشکست پر نہیں ) بلکہ میں ہر حال میں نبی ورسول ہوں۔’’ اس کے بعد نبی ﷺ نے حضرت عباسؓ سے فرمایا کہ چچا جان مہاجرین ؓ وانصارؓ کو آواز دو کہ رسول اللہﷺ تمہیں بلا رہے ہیں ۔ (حضرت عباس جو بہت بلند آواز تھے ، انہوں نے آواز دی) آپ کا پکارنا ہی تھا کہ مہاجر وانصار دوڑتے ہوئے آئے اور اللہ کے رسول کے اردگرد جمع ہو گئے ۔ پھر پوری قوت کے ساتھ دشمن پر حملہ آور ہوئے تو اللہ تعالی نے شکست کو فتح میں بدل دیا اور بہت سا مال غنیمت بھی ہاتھ آیا ۔ (مثلا 24000 اونٹ ، 4000 بکریاں ، 4000 اوقیہ چاندی اور ہزاروں بوری اجناس وغیرہ ) دشمن جب میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تو اسلامی فوج نے لوگوں کو قید کرنا شروع کیا ان میں حضورؐ کی رضاعی ماں حلیمہ کی بیٹی شیما بنت حارث بھی تھیں ۔ جب صحابہ نے ان کو گرفتار کیا تو انہوں نے کہا میں تمہارے نبی کی بہن ہوں ۔ لوگ تصدیق کے لیے شیما کو آپ کے پاس لے آئے تو انہوں نے اپنی شناخت کرواتے ہوئے کہا ۔ حضور یہ دیکھیے جب بچپن میں ،میں آپ کو کھلاتی تھی تو آپؐ نے دانت سے کاٹا تھا ابھی تک یہ نشان باقی ہے ۔ شیماکی زبان سے یہ سنا تھا کہ فرط محبت سے حضورﷺ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ آپؐ نے اپنی چادر اتار کر زمین پر بچھا دی اور ارشاد فرمایا : ‘‘ بہن تم زمین پر نہیں میری چادر پر بیٹھو ، پھر فرمایا اگر میرے پاس رہنا چاہو تو مجھے خوشی ہو گی او راگر اپنی قوم میں واپس جانا چاہو تو تمہیں اختیار ہے ۔’’ حضرت شیما نے اپنے اہل خانہ میں واپس جانے کی خواہش کی تو آپ نے بڑی عزت وتوقیر کے ساتھ رخصت کیا ۔
٭٭٭
حضرت قتیلہ ؓ مشہور دشمن اسلام نضر بن حارث کی بیٹی تھیں ۔ مقدر کی بات ہے کہ باپ ساری زندگی حضورؐ کا جانی دشمن ، اپنے آبا کے مذہب کا پاسبان اور مسلمانوں کا سخت ترین مخالف رہا ۔ بیٹی اللہ کے فضل سے دولت اسلام سے بہرہ ور ہوئیں اور شرف صحابیت حاصل کیا ۔ غزوہ بدر کے بعد نبی ﷺ کے حکم سے حضرت علی ؓ نے نضر بن حارث کو قتل کیا ۔ حضرت قتیلہؓ کو باپ کے قتل ہو جانے کا علم ہوا تو انہوں نے ایک پردرد مرثیہ باپ کے غم میں لکھا ، جب یہ مرثیہ رسول اللہ ﷺ کو سنایا گیا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور آپؐ اس قدر روئے کہ ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی ۔ بعض روایات کے مطابق آپؐ نے جب حضرت قتیلہؓ کے مرثیہ کا اشعار سنے تو فرمایا: ‘‘ اگر یہ اشعار میں پہلے سن لیتا تو میں نصر کو قتل نہ کرواتا۔’’
٭٭٭
حضرت ابو ذر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہﷺ تمام رات روتے رہے اور صبح تک نماز میں یہ آیت تلاوت فرماتے رہے : ان تعذبھم فانھم عبادک وان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم۔
‘‘ اگر تو عذاب دے تو تیرے بندے ہیں اور اگر تو معاف کرے تو تو غالب حکمت والا ہے ۔’’
(مسلم احمد)
٭٭٭
ابن ماجہ میں حضرت براء ؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہؐ کے ساتھ ایک جنازہ میں شریک تھے ۔ (جب میت کو لحد میں اتار دیا گیا تو ) آپ ؐ سر قبر پر بیٹھ گئے ۔ (یہ منظر دیکھ کر) آپؐ اس قدر روئے کہ قبر کے کنارے کی مٹی (آپؐ کے آنسوؤں سے ) تر ہو گئی پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا : ‘‘اس خطرناک مقام کے لیے کچھ تیاری کر لو ۔’’
٭٭٭
ایک دفعہ آپؐ نے بڑا ہی موثر خطبہ ارشاد فرمایا، خطبہ میں لوگوں سے فرمایا : اے معشر قریش! اپنے آپ کی خبر لو میں تم کو خدا سے نہیں بچا سکتا ۔ اے بنی عبد مناف! میں تم کو بھی خدا سے نہیں بچا سکتا ۔ اے صفیہؓ! (حضور کی پھوپھی) میں تم کو بھی خدا سے نہیں بچا سکتا۔ اے محمدؐ کی بیٹی فاطمہ! میں تجھ کو بھی خدا سے نہیں بچا سکتا ۔
(بخاری ، مسلم)
٭٭٭
ایک مرتبہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا : ‘‘ لوگو! جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تم جانتے ہوتے تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ ۔’’ (بخاری،مسلم)