لیڈی ڈاکٹر کرنل ‘‘ش’’ آج بھی پاک فوج میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ دل کی انتہائی سادہ اور اپنے پیشے میں بے پناہ مہارت رکھتی ہیں۔ وہ علم دوست اور ادب پرور شخصیت بھی ہیں۔ ان کی زندگی کا یہ عجیب واقعہ اللہ کی گرفت کا عکاس ہے۔ واقعہ ان کی زبانی سنیے:۔
میرے والد صاحب نے دوسری شادی اس وقت کی جب میں کالج کے دوسرے سال میں زیر تعلیم تھی۔ میرے دونوں چھوٹے بھائی بالترتیب کالج اور سکول میں پڑھ رہے تھے۔ وہ اس طرح اچانک شادی کر کے نئی امی کو گھر لے آئے کہ ہم سب عجیب صدمے اور دکھ سے دوچار ہوگئے۔ ابا جی نے معلوم نہیں اچانک یہ فیصلہ کیسے کر لیا کہ امی سمیت ہم سب گھر والوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور ابو ایک عدد نوبیاہتا بیوی کے مالک بن گئے۔وہ لڑکی عمر میں مجھ سے چند سال ہی بڑی ہوگی۔
ابو کی اس حرکت نے ہمیں پریشان کر دیا بلکہ گھر میں ایک عجیب سوگواری اور بٹوارے کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ۔ امی تو جیسے مٹی یا برف کا خاموش تودہ بن گئیں۔ مجازی خداسے شکوہ کیا نہ شکایت، نہ لڑیں ، نہ جھگڑیں، جیسے اپنے سارے حقوق سے یکدم دستبردار ہوگئی ہوں۔ ابا جی کے اس اچانک فیصلے نے ہمیں اور ہماری ماں کو رشتے داروں اور گلی محلے والوں کی نظروں میں بھی تماشا بنا دیا۔ہمارے پاس ان کے سوالوں کے جواب نہیں تھے۔ خیر ہم تو تنہائی میں آنسو بہا لیتے تھے لیکن امی جیسی چپ تھیں، ویسی ہی رہیں۔ انہوں نے اپنے اندر کے اُبال اور ملال کو کبھی ظاہر نہیں کیا۔ ابا جی اپنی نئی دلہن کے ساتھ اوپر والے کمرے میں منتقل ہوگئے۔ یہ غنیمت تھا کہ اپنا گھر تھا اور اوپر کی منزل میں بھی دو کمرے تھے، ورنہ شاید ماحول اور بھی بدتر ہوجاتا۔
ہم بچوں کے ساتھ اباجی کا رویہ پہلے کی طرح شفیق اور مہربان رہا لیکن پتا نہیں کیوں وہ سیڑھیوں پر چڑھتے اترتے ہوئے بہت بیگانے لگنے لگے۔ایک غیر محسوس دیوار تھی جو ان کے اور ہمارے درمیان حائل ہوگئی۔ رفتہ رفتہ ہم نے یہ حادثہ قبول کر لیا اور اس عورت کو بھی جو سوتیلی ماں کے روپ میں ہمارے سامنے آئی۔ وہ اکثر نیچے اتر آتی اور ہم بچوں کے ساتھ خوب مزے مزے کی باتیں کرتی۔ وہ حسن اخلاق سے آراستہ تھی۔ اس سے گھل مل کر ہمارا غصہ، رنج اور کوفت دور ہونے لگی۔ ہم بہن بھائی مل کر کبھی اس واقعے کو موضوع گفتگو بنالیتے، تو سوچتے، پتا نہیں اس سانحے کے پیچھے زیادہ قصور وار کون ہے؟ ابا جی جو بغیر بتائے، چپ چاپ دوسری بیوی لے آئے یا امی جو ابا سے ہمیشہ کھنچی کھنچی رہتی تھیں، ہم نے ہمیشہ ان دونوں کے درمیان ایک عجیب سی سرد جنگ محسوس کی تھی۔
خیر قصہ کوتاہ، میں اصل واقعے کی طرف آتی ہوں۔ ہم سب بچوں نے چند برس بعد تعلیم مکمل کر لی۔ اس دوران ابا جی سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔ بعدازاں جمع شدہ اور سرکار کی طرف سے ملنے والی رقم کے ذریعے ابا جی نے ہماری شادیاں کر دیں اور ہم سب اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہوگئے۔
اس دوران اللہ تعالیٰ نے ابا جی کو دوسری بیوی سے تین بچوں سے نوازا۔ گویا ہمیں تین سوتیلے بہن بھائی عطا ہوگئے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری شادیوں کے بعد گھر میں جو خلا پیدا ہوا، اسے کم از کم ابا جی نے ہر گز محسوس نہیں کیا۔ رہی ہماری ماں، وہ اپنے دکھ، اپنی تنہائی ، اپنے ساتھ ہی بٹاتی رہیں۔ اس نے اپنے اکلاپے کے دکھ میں ہمیں کبھی شریک نہیں کیا، یا ہوسکتا ہے انہوں نے اپنے سینے پر صبر کی سِل رکھ کر زبان پر خاموشی کے تالے لگا دیے۔
ابا جی ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد پہلے کی طرح خوشحال نہیں رہے تھے۔ اوپر سے تین چھوٹے بچوں کی کفالت کا بوجھ بھی آن پڑا۔ میں اس وقت تک پاک فوج میں ملازمت حاصل کر چکی تھی۔ میری تنخواہ اور مراعات دونوں چھوٹے بھائیوں سے زیادہ تھیں۔ میرے شوہر گو پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے لیکن ان کی جدی پشتی کافی زمین تھی۔
ابا جی نے ایک دن اپنی معاشی پریشانی کے بارے میں مجھے آگاہ کیا اور بتایا کہ ان کی پنشن بہت قلیل ہے۔ کٹ کٹا کر چند ہزار روپے ملتے ہیں۔ اتنی تھوڑی رقم سے پانی ، بجلی ،گیس کے بل ، گھر کا ٹیکس اوردوسرے اخراجات کا بار اٹھانا ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔ میرے بھائیوں کی تنخواہیں ہی ان کی سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے ہیں۔ چونکہ بحیثیت ڈاکٹر میری مالی حیثیت سب سے زیادہ مستحکم ہے ، اس صورت میں مجھے ان کی مالی مدد کے لیے کچھ رقم ضرور بھجوانی چاہیے۔ایک باپ بیٹی سے مانگتے ہوئے جس طرح شرمسار ، محجوب اور دکھی ہوجاتا ہے، وہ دکھ میں نے اس دن ابا جی کی لرزتی آواز میں محسوس کیا۔میں نے ان سے کہا:‘‘آپ فکر نہ کریں۔ آپ نے مجھے اعلیٰ تعلیم دلوائی ہے اور میرے اخراجات برداشت کیے ہیں۔ اب مجھے آپ کی خدمت کرکے خوشی ہوگی۔’’یوں میں ہرماہ اپنی بچت کے مطابق انہیں پانچ چھ ہزار روپے بھجوانے لگی۔ ان کی زندگی کی گاڑی قدرے ہمواری سے چل پڑی۔ میرے شوہر بہت نیک انسان ہیں، انہوں نے رقم بھجوانے پر بالکل اعتراض نہیں کیا۔
میں پاک فوج میں رہنے کے باعث شہر شہر تقرر کا لطف اٹھانے لگی۔ تاہم بچوں کے ساتھ ہماری ضروریات میں بھی دن بدن اضافہ ہونے لگا۔ اچھا گھر ، اچھی تعلیم، اچھی کار اور مستقبل کے لیے خطیر رقم کمانا ہمارا مقصدِ حیات بن گیا۔ کچھ رقم جمع ہونے پر ہم نے اسلام آباد اور لاہور میں اچھی جگہوں پر پلاٹ خرید لیے۔
انہی دنوں ابا جی حملہ قلب کے سبب انتقال کر گئے۔ اس وقت ہمارے سوتیلے بہن بھائی اتنے چھوٹے تھے کہ بڑا بیٹا صرف دس برس کا تھا۔ جانے میرے دل میں کیا آئی کہ میں نے وہ رقم روک دی جو ابا جی کی زندگی میں انہیں بھجواتی تھی۔ شاید یہ سوچ کر کہ وعدہ تو ابا جی کے ساتھ تھا ان کے بچوں کے ساتھ تو نہیں۔ پھر یہ رقم میری محنت کی کمائی ہے۔ چھ سات ہزار کم تو نہیں ہوتے ، میں کیوں سوتیلے بہن بھائیوں پر اتنی رقم خرچ کروں؟ آخر سوتیلی ماں کے اپنے خاندان والے بھی تو ہیں، ان بچوں کے نانا ، نانی، ماموں وغیرہ ہوں گے، اب یہ ان کا فرض ہے کہ ان بچوں کی کفالت کریں۔ ابا جی کے وفات کے بعد میری امی بڑے بیٹے کے پاس چلی گئی تھیں۔ گویا اس گھر کی ذمہ داری کا بوجھ مجھ پر نہ رہا۔گو اپنے اکاؤنٹ میں رقم جمع کرواتے ہوئے میرے ضمیر نے جھنجھوڑا ، اس ڈاک خانے کے سامنے سے گزرتے ہوئے قدموں نے تھمنا چاہا جہاں سے میں منی آرڈر بھجواتی تھی، لیکن یہ کہتے ہوئے اندر کی آواز کو دبادیا کہ میں نے ٹھیکہ تو نہیں لے رکھا،اب اس عورت کا فرض ہے کہ اپنے بچوں کا بوجھ خود اٹھائے، کہیں چھوٹی موٹی ملازمت کر لے۔ بہر حال دوسرا مہینہ شروع ہوگیا۔ شاید قدرت نے میری نیت اورعمل کا پھل مجھے اُسی وقت دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس بار بھی میرا رقم بھجوانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ پہلی تاریخ کو تنخواہ ملی، تو حسب معمول چیک کاٹ کر ملازم کو دیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس چلا آیا اور بتایا کہ میرے اکاؤنٹ میں تنخواہ جمع ہی نہیں ہوئی ۔ میں دوسرے روز دفتر گئی تو معلوم ہوا کہ میں پچھلے کئی مہینوں سے کرایہ مکان کی مد میں جمع شدہ رقم سے زیادہ نکلواچکی ہوں ، اس لیے تنخواہ کئی ماہ کٹتی رہے گی۔ یہ دفتر والوں کی غلطی تھی ، لیکن اس کا خمیازہ مجھے بھگتنا پڑا۔
گھر لوٹی تو ایک اور بری خبر میری منتظر تھی۔ میرے شوہر زمینوں پر گئے ہوئے تھے ، وہاں ان کا کسی سے جھگڑا ہوگیا اور مخالف گروہ کا آدمی زخمی ہوگیاچوٹ اس قدر شدید تھی کہ وہ زندگی اور موت کی دہلیز پر جا پہنچا۔ مخالف گروہ والے اثرورسوخ رکھتے تھے، انہوں نے فوجداری مقدمے کی ایف آئی آر کٹوا دی۔ پولیس وارنٹ گرفتاری لائی اور میرے شوہر کو پکڑ کر لے گئی۔
یہ خبر سن کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی شوہر کی ضمانت، مقدمہ ختم کروانے ، مخالف گروہ کے ساتھ صلح نامے اور علاج معالجے پر اچھی خاصی رقم لگ گئی۔ گاؤں میں میرے دس پندرہ دن شدید دوڑ و دھوپ میں گزرے۔ آخر خدا خدا کر کے سارے مرحلے طے ہوئے۔ گھر لوٹی تو میری چھوٹی بیٹی اچانک تیز بخار میں پھنکنے لگی ۔میں خود ڈاکٹر تھی ، جب تشخیص نہ کر سکی، تو اسے فوجی ہسپتال لے جاکر ماہر خصوصی کو دکھایا۔ اس نے ادویہ لکھ کر دیں۔ مگر بچی کا بخار نہیں اترا۔ دوائیوں کے باعث بچی سو گئی۔ اگلی صبح میں دفتر چلی گئی، بچی کی دیکھ بھال کے لیے گھر میں ملازمہ موجود تھی۔ میں فون کر کے اس کی خیریت دریافت کرتی رہی۔ڈھائی بجے کے قریب جب میں ڈیوٹی سے واپس لوٹی تو بچی نے ‘‘ماما’’ کہا اور میری آنکھوں کے سامنے بیہوش ہوکر گر پڑی ۔ میں اسے کار میں لیے بھاگی بھاگی اسپتال پہنچی۔ اس لمحے بیٹی کا بخار ۱۰۴ درجہ سے بھی تجاوز کر چکا تھا۔ اسے جلدی جلدی ٹیکے لگائے گئے اور سر پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھی گئیں۔کچھ بخار اترا لیکن شام کو پھر چڑھ گیا۔ مزید براں اسے تشنج کے دورے بھی پڑنے لگے۔ میرے خدا ہم سے ایسی کون سی خطا ہوگئی کہ ہمیں چاروں طرف سے غم کی آندھی نے گھیر لیا ہے؟ میں نماز پڑھ کر روتے روتے اونچی آواز سے دعا مانگتے ہوئے اللہ سے پوچھنے لگی، اس ذات کریم سے شکوہ کناں ہوگئی ۔ تب ہی ذہن میں ایک خیال دھماکے کی طرح گونجا اور میری روح تک زخموں سے چور ہوگئی۔
میں مجرم تھی،اپنے والد صاحب کی مجرم اور اپنے سوتیلے بہن بھائیوں کی مجرم۔والد صاحب سے کِیا ہوا وعدہ ایفا نہیں کیا اور سوتیلے بہن بھائیوں کو مشکل وقت میں تنہا چھوڑ دیا۔اللہ جانے وہ بچے بھوک کے مارے کیسے بلکتے ہوں گے؟ وہ عورت ان کے کھانے پینے کا خرچہ کیسے پورا کرتی ہوگی؟اللہ کی پکڑ کے احساس نے مجھے جھنجھوڑ ڈالا۔ میں معافی کے لیے اللہ کے حضور میں جھک گئی ۔ میں نے یتیم بچوں کے صرف چھ سات ہزار روپے رکے تھے اور میرے چھ سات لاکھ روپے لگ گئے۔ میری بیٹی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہوگئی اور میرے شوہر پھانسی چڑھتے چڑھتے بچے۔ اگر وہ آدمی مرجاتا تو سیدھا قتل کا مقدمہ بن جاتا۔ ایک کے بعد دوسرے دکھ اور آزمائش نے میرے اوسان خطا کر دیے تھے۔
اگلی صبح میں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے سوتیلے بہن بھائیوں کو رقم بھجوائی بلکہ پچھلے ماہ کا بھی حساب کر کے چودہ ہزار روپے بھجوادیے۔چند دن بعد دفتر سے اطلاع آئی کہ آپ کی تنخواہ بحال کر دی گئی ہے، اب یہ رقم تنخواہ میں سے آہستہ آہستہ کاٹی جائے گی۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میری بیٹی کو شفایاب کر دیا تھا۔ الحمداللہ دوبارہ اسے تشنج کے دورے بھی نہیں پڑے۔ میرے شوہر کے ساتھ مخالف کی صلح بھی پائیدار ہوچکی ہے۔
آج میں جو کچھ بھی کماتی ہوں ، اس میں میرے سوتیلے بہن بھائیوں کے علاوہ ناداروں ، غریبوں اور ضرورت مندوں کا بھی حصہ ہے۔ اللہ کے فضل سے میری کمائی میں بہت برکت ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ یہ برکت، یہ فضل ، یہ کرم، یہ دولت کی ریل پیل صرف اسی وجہ سے ہے کہ میں اللہ کے بندوں پر بھی خرچ کر رہی ہوں۔میرے سوتیلے بہن بھائی بہت اچھے ہیں، سوتیلی والدہ بھی بہت باہمت خاتون ہیں، میں زندگی کے ہر مرحلے پر ان کی مدد کرتی رہوں گی، ویسے ہی جیسے ایک سگا باپ بچوں کی کرتا ہے۔ ابا جی یہ ذمے داری میرے سپرد کر گئے تھے اور یہ ذمے داری نبھانے ہی میں میری نجات اور میری ساری خوشیاں پوشیدہ ہیں۔(بشکریہ: اردو ڈائجسٹ)