اقبال کے کارنامے کو ہم مختلف عنوانات کے تحت بیان کر سکتے ہیں:
مغربی تہذیب پر ضرب کاری:
سب سے اہم کام جو اقبال نے انجام دیا وہ یہ تھا کہ انھوں نے مغربیت اور مغربی مادہ پرستی پر پوری قوت کے ساتھ ضرب لگائی۔ اگرچہ یہ کام اس وقت علماے دین اور اہلِ مدارس اور خطیب حضرات بھی انجام دے رہے تھے’ مگر ان کی باتوں کو یہ کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا تھا اور کیا جا سکتا تھا کہ یہ لوگ مغربی فلسفے اور مغربی تہذیب و تمدن سے واقفیت نہیں رکھتے۔ لوگ ان کی بات کو کچھ زیادہ وزن نہیں دیتے تھے جو اگرچہ دین سے تو واقف تھے’ لیکن مغربی علوم’ مغربی فلسفے’ مغربی تہذیب اور مغربی زندگی سے پوری طرح واقف نہیں تھے۔ ان کے برعکس اقبال وہ شخص تھا کہ جو مغرب سے زیادہ مغرب کو جانتا تھا۔اس لیے جب اقبال نے مغربیت’ مغربی مادہ پرستی’ مغربی فلسفے اور مغربی افکار پر چوٹ لگائی’ تو مسلمانوں پر مغرب کی جو مرعوبیت طاری تھی وہ کافور ہونے لگی’ اور واقعہ یہ ہے کہ اس مرعوبیت کو توڑنے والاکارنامہ اقبال کاسب سے بڑا کارنامہ ہے……
اقبال کا خودی کا فلسفہ جس کے متعلق لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی چیستان یا معمہ ہے’ یہ درحقیقت اس بات کے لیے تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو پہچانیں کہ وہ کیا ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو بھول گئے تھے ان کو اپنی تاریخ سے شرم آتی تھی’وہ اپنی روایات’ اپنی تہذیب’ اپنے عقیدے اور اپنی اخلاقی اقدار کے بارے میں شدید احساسِ کمتری کا شکار ہوچکے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر دنیا کی تاریخ میں کوئی قابلِ قدر چیز ہے تو وہ صرف اہلِ مغرب کی پیش کی ہوئی ہے۔ یہ صورت حال اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ مسلمانوں کی نئی نسلوں کو کچھ پتا نہیں تھا کہ ان کا اپنا سرمایہ کیا ہے۔ اس موقع پر اقبال مرحوم نے مسلمانوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ تم دنیا بھر میں سب سے زیادہ قابلِ فخر تہذیب رکھتے ہو۔ تمھارے پاس دنیا کا بہترین نظامِ حیات ہے اور تم سب سے زیادہ صحیح اور اعلیٰ اخلاقی اقداررکھتے ہو۔ اپنی خودی کو پہچانو اور اپنے آپ کو جانو کہ تم کیا ہو۔ تم نے اپنے آپ کو کھو دیا ہے اور اپنی حقیقت کو گم کر دیا ہے۔ اپنے قومی تشخص کو سمجھو اور اپنی تہذیبی سربلندی کے لیے سرگرمِ عمل ہوجاؤ۔اس کے ساتھ اقبال نے مسلمانوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ اسلام کوئی پرانا اور ازکار رفتہ نظام نہیں ہے جو اس زمانے میں کام نہ کر سکتا ہو۔ انھوں نے اپنے شعر سے بھی اور اپنی نثر سے بھی یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کی کہ اسلام ازلی و ابدی اصولوں کا حامل ہے۔ اسلام کسی وقت بھی پرانا نہیں ہو سکتا۔ اس کے اصول ہرزمانے میں یکساں قابلِ عمل ہیں……
وطنی قومیّت کی تردید:
اس کے ساتھ علامہ اقبال نے جو عظیم کارنامہ انجام دیا وہ یہ ہے کہ انھوں نے وطنی قومیت اور قوم پرستی پر ایک شدید ضرب لگائی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر انھوں نے قوم پرستی’ نیشنلزم اور وطنی قومیت پر بروقت ضربِ کاری نہ لگائی ہوتی تو آگے چل کر مسلمانوں کو کانگرس میں جذب کرنے کے لیے جو تحریک اٹھی تھی اس سے مسلمانوں کا بچ جانا محال تھا…… اگر اقبال نے یہ تعلیم بروقت نہ دی ہوتی تو بعد میں کانگرس نے رابطہ عوام (mass contact) کی جو تحریک شروع کی تھی اور جس میں علما اور اشتراکی حضرات بھی شریک تھے’ وہ تحریک مسلمانوں کو ہندوؤں کے اندر اس طرح سے گھلا دیتی جیسے نمک پانی کے اندر گھل جاتا ہے۔ لیکن اقبال نے مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ قومیت’ وطن اور زبان سے نہیں بنتی ہے بلکہ قومیت دین اور عقیدے سے بنتی ہے۔اس نے مسلمانوں میں اس شعور کو بیدار کیا کہ تم ایک عقیدہ اور ایک تہذیب رکھنے والی قوم ہو’ تمھاری قومیت ان لوگوں سے بالکل مختلف ہے جن کی تہذیب اور عقیدہ و مسلک تم سے الگ ہے۔
وحدتِ ملّی کا احساس:
اقبال نے مسلمانوں کے اندر یہ احساس بھی اُبھارا کہ تمام دنیا میں ملتِ اسلامیہ ایک وحدت ہے اور اس کو ایک وحدت ہونا چاہیے۔ اس طرح انھوں نے بیک وقت دو کام کیے___ باہر کی دنیا میں مسلمان جس طرح قوم پرستی میں مبتلا ہوکر ایک دوسرے سے کٹ رہے تھے اور ایک دوسرے کو کاٹ رہے تھے’ اور جس طرح ترکوں اور عربوں کے درمیان ایک المناک کش مکش برپا ہوئی اور اس کے نتیجے میں شرق اوسط پر جو تباہی آئی اور تمام ممالکِ اسلامیہ جس مصیبت میں مبتلا ہوئے’ وہ سب اس قوم پرستی کا نتیجہ تھا جس کی تبلیغ و اشاعت عیسائیوں نے عربوں اور ترکوں کے درمیان کی تھی۔ ایک طرف تو اقبال نے تمام دنیا کے مسلمانوں کو اس بات کی دعوت دی کہ تم ایک ملتِ واحدہ ہو’ اور جس قوم پرستی میں تم مبتلا ہو یہ ایک بالکل غلط اور مہلک تصور ہے ’ دوسری طرف انھوں نے ہندی مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ تم مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک قوم اور ایک ملت ہو۔ تمھارا کسی دوسری قوم میں جذب ہونا سراسر ایک باطل نظریہ ہے۔ اگر اقبال نے بروقت یہ اقدام نہ کیا ہوتا اور اسلامی قومیت کے صحیح تصور کی تبلیغ کرکے مسلمانوں کے اندر اپنی اسلامی قومیت کا احساس پیدا نہ کر دیا ہوتا تو آج اس پاکستان کا کہیں وجود نہ ہوتا
دین و سیاست کے الگ تصور کی بیخ کنی:
اقبال نے ایک بڑا کارنامہ یہ بھی انجام دیا کہ دین اور سیاست کی علیحدگی اور دین و دنیا کی تفریق کا جو تصور مغرب سے آکر مسلمانوں میں پھیل رہا تھا اور جس کی وجہ سے لوگ یہ سمجھنے لگے تھے کہ اہلِ دین کو سیاست سے کیا تعلق اور دین کو سیاست میں گھسیٹنے کا کیا کام’ اقبال نے اس باطل تصور کا ٹھیک وقت پر مقابلہ کیا۔ اس نے دین بے سیاست کی بھی برملا مذمت کی اور سیاستِ بے دین کو بھی علانیہ مذموم قرار دیا۔ سیاستِ بے دین کے متعلق اقبال کا ایک مصرع ایسا ہے کہ اس موضوع پر تمام دنیا کا لٹریچر ایک طرف اور وہ مصرع ایک طرف___ ان کا کہنا ہے کہ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔
اگر آپ اس موضوع پر دنیا بھر کی کتابیں پڑھ ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس مصرعہ میں ان سب کا خلاصہ اور عطر نکال کر رکھ دیا گیا ہے۔ اقبال نے ان الفاظ سے دراصل یہ بات ذہن نشین کرائی ہے کہ جب تم سیاست کو دین سے الگ کرتے ہو تو اس کا نتیجہ سوائے وحشت و بربریت اور ظلم و ستم کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ سیاست صرف اسی صورت میں ٹھیک رہ سکتی ہے’ جب کہ دین اس کو صحیح راستے پر قائم رکھنے کے لیے ایک رہنما قوت کی حیثیت سے اس کے ساتھ موجود ہو۔
…… اسی طرح سے مسلمانوں کے دماغوں میں جو یہ خیال جاگزیں ہوچکا تھا کہ اہلِ دین کا کام تو بس اللہ اللہ کرنا ہے یا مسجدوں اور مدرسوں میں فقط قرآن و حدیث پڑھناپڑہانا ہے’ ان کا سیاست سے بھلا کیا تعلق___ اس غلط تصور پر بھی اقبال نے ایک کاری ضرب لگائی ہے اور اس کو بھی ایک مصرع میں بیان کر دیا’ اور واقعہ یہ ہے کہ اس موضوع پر جتنا کچھ لکھا جا سکتا ہے وہ سب ایک طرف اور وہ مصرع ایک طرف۔ اقبال کہتا ہے کہ ع
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد۔
اس ایک مصرع میں یہ سب حقیقت کھول دی گئی ہے کہ اگر دین کے پاس اپنے عقیدے اور نظام کو نافذ کرنے کے لیے طاقت نہیں ہے تو طاقت جس شخص یا گروہ یا نظام کے پاس ہے وہ دنیا کو اپنے راستے پر ہانک کر لے جائے گا۔ آپ کے لیے کلیمی کرنے کا کیا موقع باقی رہے گا اور وہ کلیمی کہاں بروئے عمل آئے گی۔
اقبال نے پورے زور کے ساتھ یہ بات بھی لوگوں کے ذہن نشین کی کہ موجودہ زمانے کے ازم انسانیت کے دکھوں کا مداوا نہیں ہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اس زمانے میں جتنا ظلم وستم’ فساد و غارت گری اور انسانیت کے لیے آلام و مصائب رونما ہوئے ہیں وہ سب انھی ازموں کا کیا دھرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبالؒ نے جس طرح ان ازموں میں سے سرمایہ داری کی مذمت کی ہے اسی طرح سے اس نے اشتراکیت کی بھی مذمت کی ہے۔
…… اس کے ساتھ اقبالؒ نے مثبت طور پر یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کی ہے کہ تمھاری مصیبتوں اور مسائل کا اگر کوئی حل ہے’ تو وہ صرف یہ ہے کہ تم قرآن کی پیروی کرو اور اپنی زندگیوں پر اسلام کے آئین کو نافذ کرو۔ انھوں نے ۱۹۳۷ء میں قائداعظمؒ کے نام جو خط لکھا تھا اس میں واضح طور پر یہ بتایا تھا کہ مسلمانوں کے معاشی مسائل کا کوئی حل ہے تو وہ صرف اسلامی آئین کے نفاذ میں مضمر ہے۔
یہ وہ کارنامہ تھا جو اقبال نے اپنی زندگی میں انجام دیا
اقبال اور عدلِ اجتماعی:
سوشلزم یا کسی دوسرے غیر اسلامی نظریہ و فکر کے برعکس اقبالؒ نے بڑی وضاحت اور قطعیت کے ساتھ مسلمانوں کو یہ تصور دیا کہ محض سیاسی آزادی یا اقتصادی بہبود ہی تمھارا مقصود نہیں ہے بلکہ اسلام کی حفاظت تمھارا اصل مقصد ہے۔ اس نے بار بار یہ بات لوگوں کے ذہن نشین کی تھی کہ ہمارا عقیدہ’ ہماری تہذیب’ ہماری روایات اور ہماری اخلاقی اقدار ہی ہمارے لیے اصل چیزیں ہیں۔ محض روٹی یا زمین کا ٹکڑا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے لیے ایک مسلمان جئے یا مرے۔ اقبال نے واضح طور پر یہ کہا تھا کہ مسلمانوں کوایک وطن صرف اس لیے چاہیے کہ وہ وہاں اسلام کے اصولوں پر زندگی بسر کرسکیں۔ ان کی ۱۹۳۰ء کی تقریر سے جس میں انھوں نے پاکستان کی اصطلاح استعمال کیے بغیر پاکستان کا تخیل پیش کیا تھا’ یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ ان کی نظر میں اگر کوئی چیز اہم تھی تو صرف یہ کہ کسی طرح اسلام اور اہلِ اسلام کو سربلندی نصیب ہو۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہندستان میں ہندوؤں کے ساتھ رہ کر مسلمان اپنی تہذیب پر قائم نہیں رہ سکتے۔ اس لیے انھوں نے صرف مسلمانوں کی تہذیب کو زندہ رکھنے کے لیے ایک الگ اور آزاد مملکت کے حصول کا تصور پیش کیا___ ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بعد محض کسی ایسے لفظ یا اصطلاح کی بنیاد پر جو انھوں نے اتفاقاً کسی موقع پر کسی دوسرے سیاق و سباق (context) میں’ کسی دوسرے مفہوم میں استعمال کی ہو’ ان کی طرف کسی خاص نظریے کو منسوب کرنا صریح بددیانتی بھی ہے اور مسلمانوں کو دھوکا اور فریب دینا بھی ہے۔
آخری بات:
اس سلسلے میں آخری بات یہ ہے کہ علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ آپ کو اسلام کی بنیاد پر ایک وطن دے کر گئے ہیں۔ اقبال نے آپ کو فکر اور نظریہ دیا اور قائداعظم کی قیادت میں آپ کو یہ وطن حاصل ہوا۔ اس وطن کی انوکھی شان یہ ہے کہ اس کا نظریہ پہلے وجود میں آیا اور ملک بعد میں بنا۔ اگر اس ملک کے بنیادی نظریے کو یا دوسرے لفظوں میں اس کی نظریاتی بنیاد کو ہٹا دیا جائے’ تو یہ ملک قائم نہیں رہ سکتا۔ آج اس ملک کی نظریاتی بنیاد پر مختلف اطراف سے حملے کیے جا رہے ہیں ’ لیکن کیا آپ اس چیز کو جو اتنی محنتوں اور عظیم قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہوئی یونہی اپنی غفلت اور کوتاہ ہمتی سے ضائع کر دیں گے___؟ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ نے اس کو کھو دیا تو گویا تاریخِ انسانی میں یہ بات ثابت کردیں گے کہ ایک بیوقوف قوم تھی جس نے لاکھوں جانوں’اَن گنت عصمتوں اور کروڑوں اور اربوں روپوں کی جایدادیں قربان کر کے ایک وطن حاصل کیا’ مگر وطن حاصل کرنے کے بعد ۲۳ برس کی مدت کے اندر ہی اندر اس کو کھو بھی دیا۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو تاریخ میں آپ کا مقام ایک بے وقوف اور ایک احمق قوم کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا (بشرطیکہ آپ کی تاریخ کو باقی رہنے دیا گیا)۔ اگر آج آپ نے اشتراکیت یا وطنی قومیت کے نظریے یا کسی اور باطل ازم کو اختیار کیا تو صرف یہی نہیں کہ آپ کی آزادی ختم ہوجائے گی’ بلکہ میں کہتا ہوں کہ آپ کا وجود بھی ختم ہوجائے گا’ اور مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ اسپین کے بعد تاریخ کا یہ دوسرا بھیانک المیہ ہوگا کہ اس برعظیم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کا خاتمہ ہوگیا۔
اس وجہ سے یہ وقت ہے کہ مسلمانوں کے نوجوان’ مرد اور عورتیں’ بچے اور بوڑھے’ سب اس بات کے لیے متحد ہوجائیں کہ وہ یہاں اسلام کا نظام ہی غالب کریں گے اور اُن لوگوں کی کوششوں کو قطعی طور پر ناکام بنا دیں گے جو مسلمانوں کو اسلام کے عقیدے اور نظامِ حق سے منحرف کرنا چاہتے ہیں’ اور اس طرح ان کو فتنوں میں مبتلا کر کے تباہی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔
(انتخاب از خطاب بموقع یومِ اقبالؒ، ۲۱ اپریل ۱۹۷۰ء’ پنجاب یونی ورسٹی ہال’ لاہور)
(شخصیات’ البدر پبلی کیشنز’ اُردو بازار’لاہور’ ص ۲۳۲-۲۴۴)