پہلا منظر
(حضرت سلمان فارسیؓ کے گھر کا ایک کمرہ۔ یہ کمرہ سادہ سا ہے، مگر تمام چیزیں انتہائی قرینے اور سلیقے سے رکھی ہیں۔ ایک طرف گدا رکھا ہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ کی بیوی حضرت امیمہ کمرے کی صفائی سے فارغ ہونے ہی والی ہیں کہ دروازے پر دستک ہوتی ہے)
امیمہؓ: کون؟
آواز: میں ہوں امِ درداءؓ
امیمہؓ: (دروازہ کھولتے ہوئے) آئیے آئیے امِ درداء، خوش آمدید۔
ام درداءؓ: میرے خیال میں آپ صفائی کر رہی تھیں؟ آپ اپنا کام مکمل کر لیں۔
امیمہؓ: صفائی سے تو بس فارغ ہوا ہی چاہتی ہوں۔ آپ تشریف رکھیں۔(دونوں گدے پر بیٹھ جاتی ہیں)
ام درداءؓ: کیسی ہیں آپ اور کیا حال ہے آپ کے شوہر جناب سلمانؓ کا؟
امیمہؓ: اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے بہن، آپ فرمائیے آپ کے کیا حالات ہیں۔ ابی درداءؓ خیریت سے تو ہیں؟
ام درداءؓ: کیا پوچھتی ہو بہن ان کے بارے میں بس وہ تو اپنے حال میں گم ہیں۔
امیمہؓ: کیوں ، کیا بات ہے ؟ کیا ان کا حال ایسا نہیں جیسا تم چاہتی ہو؟
ام درداءؓ: نہیں تو، ایسا ہی ہے جیسا میں چاہتی ہوں اور جیسا وہ خود اپنے لیے چاہتے ہیں۔
امیمہؓ: ہوں، تو وہ اپنے حال میں مگن ہیں لیکن معاف کرنا بہن، مجھے تو یہی اندازہ ہوا ہے کہ ان کی حالت آپ کی مرضی کے خلاف ہے۔
ام درداءؓ: استغفراللہ، بہن، میں نے یہ کب کہا ہے؟
امیمہؓ: کہا تو نہیں، لیکن کہنا تو یہی چاہتی تھیں نا!
ام درداءؓ: نہیں نہیں، مجھے ان سے کوئی شکایت نہیں۔
امیمہؓ: آپ مجھ سے کچھ چھپا رہی ہیں صاف انداز ہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے شوہر سے خوش نہیں ہیں۔
ام درداءؓ: کیا ہو گیا ہے آپ کو ام عبداللہ! آپ نے یہ کیوں سوچ لیا ہے؟
امیمہؓ: میری اچھی بہن، آپ کا لہجہ چغلی کھا رہا ہے۔
ام درداءؓ: یقین کریں بہن جی، اپنے شوہر سے بالکل خوش ہوں۔
امیمہؓ: تو پھر آپ نے یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟
ام درداءؓ: آپ کو میری حالت میں کیا چیز نرالی لگی؟
امیمہؓ: اپنے الجھے الجھے بال تو دیکھیے، نہ کنگھی کی ہے اور نہ تیل لگایا ہے۔
ام درداءؓ: (مصنوعی انداز میں ہنس کر) اوہ، آپ نے بھی کیا اندازہ لگایا وہ تو میں ابی درداء کی قمیص سینے میں مصروف تھی۔ اس لیے بال نہ سنوار سکی۔
امیمہؓ: مجھے تو یوں لگتا ہے کہ آپ کے بالوں نے کئی روز سے تیل کی شکل تک نہیں دیکھی۔ کیا تیل ختم ہو گیا ہے؟
ام درداءؓ: الحمدللہ! میرے پاس سب کچھ ہے تیل بھی ہے کنگھی بھی آئندہ آپ سے ملوں گی تو ان شاء اللہ مجھے اچھی حالت میں دیکھیں گی۔
امیمہؓ: میرے لیے سنگارکرو گی یا ابی درداء کے لیے؟
ام درداءؓ: پہلے آپ کے لیے پھر ان کے لیے۔
امیمہؓ: نہیں نہیں پہلے ابی درداء کے لیے پھر میرے لیے۔
ام درداءؓ: اچھا بہن …… آپ جیسے چاہیں۔
امیمہؓ: (ام درداء کے جوابات سے مطمئن نہ ہوتے ہوئے) اور یہ کپڑے جو آپ نے پہن رکھے ہیں۔ کیا شایانِ شان ہیں؟
ام درداءؓ: کیا ہے انھیں؟
امیمہؓ: مجھے تو اچھا نہیں لگتا کہ آپ ایسے کپڑے پہنیں۔ خدا نہ کرے آپ محتاج ہیں نہ بیوہ۔
ام درداءؓ: خدارا چھوڑیئے بھی اس ذکر کو۔ میں تو تسلی کے چند الفاظ سننے آئی تھی نہ کہ اپنے کپڑوں اور بالوں پر تنقید۔
امیمہؓ: میری پیاری بہن! آپ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار اور مہاجرین کے درمیان رشتۂ اخوت قائم کیا تھا۔ تو میرے اور آپ کے شوہر کو بھائی بھائی بنایا تھا۔
ام درداءؓ: بھلا یہ بھی کوئی بھولنے والی بات ہے۔
امیمہؓ: تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جس طرح سلمان الفارسی اور ابودرداء الـخزرجی ایک جان دو قالب ہیں اسی طرح میں اور آپ بھی ایک جان دو قالب ہیں۔
ام درداءؓ: (فخر سے) بے شک۔
امیمہؓ: تو پھر مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ میں آپ سے اچھا لباس پہنوں؟ اپنے بالوں کو سنواروں اور آپ کے بال الجھے رہیں؟
ام درداءؓ: (بے پروائی سے ہنس کر) آپ ایسی باتوں پر دھیان نہ دیجیے۔ دراصل آپ کی طرح بن سنور کر رہنے کو جی نہیں چاہتا۔
امیمہؓ: بخدا پہلے توآپ انصار کی خواتین میں حسن و جمال کو سنوارنے اور اچھے لباس کے استعمال کرنے میں اپنا جواب نہ رکھتی تھیں۔
ام درداءؓ: بہن وہ زمانہ لد چکا اب حالات کچھ اور ہیں۔
امیمہؓ: کیسے …… کیا ہوا زمانے کو؟
ام درداءؓ: کبھی ابودرداء ایک خوشحال تاجر تھے اب تو وہ تجارت سے دور اور عبادت میں مگن رہتے ہیں۔
امیمہؓ: کیوں؟ ابودرداء ایسے تو نہ تھے؟
ام درداءؓ: (افسوس سے) اب ان کا خیال ہے کہ عبادت اور تجارت ایک جگہ اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔
امیمہؓ: کیوں ؟ سلمان فارسیؓ تو ابھی اپنے ہاتھوں سے چٹائیاں بنتے ہیں اور ان کے خیال میں یہ ایک بہترین کام ہے۔
ام درداءؓ: ام عبداللہ! آپ کے شوہر کی تو بات ہی اور ہے ۔ ان کی راہ میں تو کوئی چیز بھی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
امیمہؓ: آپ بھی تو ام درداء، اپنے شوہر کی طرح ہو گئی ہیں، یہ بھول ہی گئی ہیں کہ شادی شدہ عورت کے لیے بناؤ سنگھار کتنا ضروری ہے۔
ام درداءؓ: کیا یہ کام صرف شادی شدہ عورت کے لیے ہی ضروری ہے مرد کے لیے نہیں؟
امیمہؓ: دونوں کے لیے ضروری ہے۔
ام درداءؓ: (رنج سے) بہرحال میرے شوہر کو آج کل میری شکل وصورت سے کوئی دلچسپی نہیں۔ میرا کاجل لگانا یا نہ لگانا ، بالوں کو سنوارنا یا نہ سنوارنا ان کے لیے برابر ہے اور جب یہ صورت ہے تو پھر میں یہ بناؤ سنگھار کس لیے کروں …… کیا شیطان کے لیے !
امیمہؓ: معاذ اللہ! ام درداء یہ آپ نے کیا کہہ دیا؟
ام درداءؓ: میں نے اپنی زبان پر تالا لگا رکھا تھا مگر آپ نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں یہ سب کچھ کہہ دوں۔
امیمہؓ: میری اچھی بہن۔ آپ کو تو چاہیے تھا کہ شروع ہی میں دل کی بات کہہ دیتیں۔
ام درداءؓ: مجھے اچھا نہیں لگتا تھا کہ اپنا قصہ غم سنا کرآپ کو بھی مغموم کر دوں۔
امیمہؓ: شاید میں آپ کے کسی کام آسکتی۔
ام درداءؓ: آپ کر بھی کیا سکتی تھیں، یہی نا کہ کپڑوں کا ایک جوڑا اور دے دیتیں۔
امیمہؓ: زہے نصیب، یہ سعادت ملتی تو اور کیا چاہیے تھا مجھے اجازت دیں تو اب یہ سعادت حاصل کر وں؟
ام درداءؓ: نہیں نہیں ۔ اللہ آپ کو مبارک کرے، پہلے بھی تو آپ نے ایک جوڑا دیا تھا۔ جانتی ہیں کہ میرے شوہر نے کیا کیا تھا؟
امیمہؓ: کیا کیا تھا؟
ام درداءؓ: جونہی انھوں نے مجھے وہ جوڑا پہنے دیکھا فوراً حکم دیا کہ اسے اتار دوں اور اللہ کی راہ میں خیرات کر دوں۔
امیمہؓ: اللہ معاف کرے ابی الدرداء کو۔ بخدا آج تو میں اپنے شوہر سے ضرور کہوں گی کہ وہ انھیں نصیحت کریں۔
ام درداءؓ: نہ، نہ ایسا نہ کرنا ام عبداللہ!
امیمہؓ: آخر اس میں حرج کیا ہے؟
ام درداءؓ: یہ میرا اور میرے شوہر کا معاملہ ہے۔ انھیں نہیں پتا چلنا چاہیے کہ میں نے ان کے متعلق کوئی شکوہ کیا ہے۔
امیمہؓ: آپ تو جانتی ہیں کہ سلمانؓ ذہین فطین آدمی ہیں۔ آپ کے شوہر کو ذرہ برابر شک نہ ہونے دیں گے۔
ام درداءؓ: نہیں بہن! مجھے ان سے زیادہ آپ کے شوہر سے شرم آتی ہے کہ وہ کیا کہیں گے۔
امیمہؓ: سلمانؓ آپ کے شوہر کے بھائی ہیں اور آپ کے لیے بھی بھائی کے برابر ہیں۔
ام درداءؓ: چاہے میرے حقیقی بھائی ہوں، پھر بھی مجھے شرم آتی ہے کہ وہ ایسے معاملے کے متعلق جانیں۔
امیمہؓ: لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو چھپانا چاہتی ہیں۔ سلمانؓ اسے جان چکے ہیں۔
ام درداءؓ: انھیں کیسے پتا چلا؟
امیمہؓ: خود آپ سے
ام درداءؓ: یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟
امیمہؓ: ایک دن وہ آپ کے ہاں تشریف لے گئے تھے، انھوں نے آپ کی حالت دیکھ کر پوچھا تھا تو آپ نے کہا تھا کہ ‘‘آپ کے بھائی ابو درداء کو اب دنیا سے رغبت نہیں رہی۔’’
ام درداءؓ: اف! یہ بات تو میں نے ان سے کہی تھی، لیکن میرا یہ مطلب تو ہرگز نہ تھا کہ وہ اسے ایک شکایت خیال کریں۔
امیمہؓ: آپ کا کچھ بھی مقصد تھا، لیکن وہ حقیقت پہچان گئے۔ وہ بڑے ذہین اور معاملہ شناس ہیں۔ بخدا اگر میں ان سے کوئی بات چھپاؤں بھی تو وہ یوں جان جاتے ہیں جیسے کسی کتاب میں پڑھ لیا ہو۔
ام درداءؓ: ہائے یہ کتنی شرم کی بات ہے۔
امیمہؓ: کوئی بات نہیں بہن! وہ تو آپ کے بھائی ہیں۔
ام درداءؓ: اچھا بہن اب میں چلتی ہوں، خدا حافظ (بات ختم کرکے کھڑی ہو جاتی ہے اور باہر جاتی ہے)
دوسرا منظر
(ابی الدرداءؓ کاگھر۔ گھر کی ہر چیز سے غربت ظاہر ہو رہی ہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ داخل ہوتے ہیں۔ ابودرداءؓ ان کا استقبال کرتے ہیں اور کہتے ہیں)
ابودرداءؓ: خوش آمدید ابو عبداللہ، خوش آمدید!
سلمانؓ: (خوشی کے ساتھ) میرے ماں باپ ان پر قربان ہوں جنھوں نے یہ لقب مجھے عطا فرمایا۔
ابوالدرداءؓ: یہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عطائے خاص ہے۔
سلمانؓ: عزیز بھائی! میں اور میرے اہل خانہ سب حاضر ہوئے ہیں۔
ابوالدرداءؓ: سر آنکھوں پر ! ابوعبداللہؓ سر آنکھوں پر۔
سلمانؓ: ہم دوپہر او ر شام کا کھانا آپ ہی کے ہاں کھائیں گے۔
ابوالدرداءؓ: زہے نصیب، تشریف رکھیں اور ہاں کہاں ہیں آپ کی محترمہ؟
سلمانؓ: مجھ سے پہلے آپ کی محترمہ کے پاس چلی گئی ہیں۔
ابوالدرداءؓ: عجیب۔ بخدا ہمیں تو پتا ہی نہیں چلا۔
سلمانؓ: آپ کو پتا چلتا بھی کیسے؟ آپ تو دنیا جہاں سے بے نیاز ہیں، گھر والوں تک کی خبر نہیں آپ کو تو!
ابوالدرداءؓ: (افسوس کے انداز میں گہرا سانس لیتے ہیں اور پھر اپنی بیوی کو پکارتے ہیں( ام الدرداءؓ …… ام الدرداءؓ۔
ام الدرداءؓ: ابھی آتی ہوں ابوالدرداءؓ۔
ابوالدرداءؓ: دیکھو تو میرے بھائی سلمانؓ تشریف لائے ہیں۔
ام الدرداءؓ: ان کی تشریف آوری کا بہت بہت شکریہ۔ آپ کے بھائی کی زوجہ محترمہ میرے پاس تشریف رکھتی ہیں۔
ابوالدرداءؓ: ان کی تشریف آوری کا میری طرف سے شکریہ ادا کرو اور ان کے لیے کچھ تیار کرو۔ وہ دوپہر کا کھانا ہمارے ہاں ہی کھائیں گے۔
ام الدرداءؓ: بلکہ رات کا کھانا بھی۔
ابوالدرداءؓ: اچھا بہت اچھا۔ تو پھر پیش کرو جو تمھارے پاس ہے۔
ام الدرداءؓ: ابھی سب کچھ حاضر کیے دیتی ہوں۔
ابوالدرداءؓ: اللہ تمھارا بھلا کرے۔ تم بہت ہی نیک بخت ہو۔
تیسرا منظر
(ابوالدرداءؓ کے گھر کا اندرونی حصہ)
ابودرداءؓ: آئیے ابو عبداللہؓ، ام درد اء نے آپ کے لیے دسترخوان بچھا دیا ہے۔
سلمانؓ: (دسترخوان کی طرف دیکھتے ہوئے) ما شاء اللہ بہن ام وردہؓ تم نے تو بڑا تکلف کیا ہے۔
ابودرداءؓ: بسم اللہ کیجیے بھائی۔
سلمانؓ: اور کیا آپ ہمارے ساتھ کھانا تناول نہیں فرمائیں گے؟
ابوالدرداءؓ: معاف فرمائیے گا سلمان بھائی، میں تو روزے سے ہوں۔
سلمانؓ: روزے سے؟ میں اپنے گھر سے آپ کے ساتھ کھانا کھانے آیا ہوں اور آپ روزے سے ہیں۔
ابوالدرداءؓ: لیکن میرے بھائی روزے کی نیت تو میں نے آپ کی تشریف آوری سے پہلے کی تھی۔
سلمانؓ: اچھا اب تو میں آگیا ہوں، مناسب یہ ہے کہ روزہ افطار کر لیں۔
ابوالدرداءؓ: کیا آپ مجھے روزہ مکمل کرنے کی اجازت نہ دیں گے۔ میں آپ کے ساتھ بیٹھوں گا۔ کھانے کے دوران میں آپ سے گفتگو ہو گی۔
سلمانؓ: اے عرب، کیا یہ تمھاری شریعت میں جائز ہے؟
ابوالدرداءؓ: کتنی عجیب بات کہی آپ نے، میرے بھائی اللہ نے ہمیں اسلام سے نواز کر عرب کے دستور اور معاشرت سے بے نیاز کر دیا ہے۔
سلمانؓ: مہمان نوازی کی تاکید تو اسلام نے بھی کی ہے۔ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے: انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق (مجھے تو اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے) بخدا میں اس وقت تک کھانا نہ کھاؤں گا جب تک آپ ساتھ نہ دیں گے۔
ابوالدرداءؓ: اچھا تو پھرمیں آپ کے ساتھ کھانا کھاتا ہوں۔ بسم اللہ ، نفلی روزہ ہے پھر رکھ لوں گا۔
سلمانؓ: جزاک اللہ، جزاک اللہ۔ (دونوں کھانا کھاتے ہیں)
چوتھا منظر
(ابوالدرداءؓ کا گھر، ام درداءؓ سنگھار کر رہی ہیں اور حضرت سلمان فارسیؓ کی بیوی ان کی مدد فرما رہی ہیں)
ام درداءؓ: بہن! آپ کے شوہر نماز پڑھ کر تشریف لے آئے ہیں، لیکن ابوالدرداءؓ ابھی تک نہیں آئے۔
امیمہؓ: ابھی آجائیں گے۔
ام درداءؓ: بخدا میں یہ بات پسند نہیں کرتی کہ گھر میں مہمان بیٹھے ہیں اور جناب ابھی تک مسجد سے تشریف نہیں لائے۔
امیمہؓ: یہ سلمانؓ پر چھوڑ دو بہن! وہ ان کی بے پروائی کی طرف ضرور توجہ دلائیں گے۔
ام درداءؓ: اللہ ایسا ہی کرے۔
امیمہؓ: آپ اپنا سنگھار مکمل کر لیں۔
ام درداءؓ: مکمل تو ہوگیا ہے۔ اب اور کیا چاہتی ہیں آپ؟
امیمہؓ: خوشبو کو تو چھوا تک نہیں آپ نے، خوشبو لگانا تو سنت ہے۔
ام درداءؓ: یہ بات درست ہے آپ کی، ابھی یہ حکم پورا کرتی ہوں۔
پانچواں منظر
(ابودرداءؓ کا گھر ۔ وہ داخل ہوتے ہیں۔ حضرت سلمانؓ کہتے ہیں)
سلمانؓ: آپ کہاں رہ گئے تھے ابودرداء؟ میں تو کافی دیر پہلے مسجد سے آگیا تھا۔
ابودرداءؓ: میں مسجد میں ہی تھا بھائی، کسی چیز کی حاجت ہو تو فرمائیے۔
سلمانؓ: اللہ بھلا کرے بہن ام درداءؓ کا۔ کیا خوب کھانا تیار کیا تھا۔ زیادہ کھانے کی وجہ سے مجھے تو اونگھ آ نے لگی ہے۔
ابودرداءؓ: اگر آپ سونا چاہئیں تو کچھ دیر سو لیں، ابھی انتظام کیے دیتا ہوں۔
سلمانؓ: اس کی ضرورت نہیں، آپ اندر تشریف لے جائیں۔ ام درداءؓ منتظر ہوں گی۔
ابودرداءؓ: نہیں ابھی نہیں۔ میں رات کا کچھ حصہ یہیں عبادت میں گزاروں گا۔ آپ اور آپ کی اہلیہ ساتھ کے حجرے میں آرام کریں۔
سلمانؓ: عجیب۔ کیا یہ اچھا لگتا ہے کہ میں اور میری بیوی آرام کریں، آپ رات عبادت اور تہجد میں گزاریں اور آپ کی بیوی آپ کا انتظار کرتی رہے۔ اگر آپ پسند نہیں فرماتے کہ ہم آپ کے گھر رات گزاریں ، تو ہمیں اپنے گھر جانے دیجیے۔
ابودرداءؓ: معاذ اللہ بھائی! چلئے آپ اپنے حجرے میں اور میں بھی اپنے اہل خانہ کے پاس جاتا ہوں۔
سلمانؓ: نہیں، پہلے آپ داخل ہوں۔ پھر میں اپنے حجرے میں جاؤں گا۔
ابودرداءؓ: بہتر، پہلے میں ہی گھر میں جاتا ہوں۔
سلمانؓ: ایک اور بات، تہجد اور نماز کے لیے مجھے جگانے کی فکر نہ کیجیے گا۔ ان شاء اللہ وقت پر بیدار ہو جاؤں گا۔
ابودرداءؓ: (کسی قدر خفگی سے) اچھا بھائی اچھا!
چھٹا منظر
(ابودرداءؓ کا گھر۔ حضرت سلمانؓ کھانا لیے ہوئے داخل ہوتے ہیں۔ ابوالدرداءؓ کہتے ہیں)
ابودرداءؓ: یہ کیا سلمانؓ بھائی؟ آپ اپنے گھر سے کھانا لے کر آئے ہیں۔
سلمانؓ: ہمیں آپ کی ضیافت میں تین دن ہو چکے ہیں۔ تین دن کے بعد آدمی مہمان نہیں رہتا۔
ابودرداءؓ: جو بھی ہو، لیکن سلمان بھائی! یا تو دونوں میرے مہمان بن کر رہیے یا اپنے گھر تشریف لے جائیے۔
سلمانؓ: اچھا تو پھر آپ دونوں بھی چند دنوں کے لیے ہمارے ہاں تشریف لے چلیں۔
ابودرداءؓ: آپ ہمیں کیوں دعوت دے رہے ہیں۔ دعوت کے لیے کوئی تقریب ہوتی ہے۔
سلمانؓ: نیکی اور تقویٰ میں تعاون کے لیے ، کیا یہ تقریب ملاقات نہیں؟ اکٹھے مسجد جائیں گے۔ اکٹھے واپس آئیں گے اور آخر شب اکٹھے قیام کریں گے۔
ابودرداءؓ: (غصے کو چھپاتے ہوئے) سلمانؓ بھائی، میں نے بہت صبر کیا لیکن اب وقت آگیا ہے کہ صاف صاف کہہ دوں کہ آپ نے نیکی میں تعاون کرنے کے بجائے مجھے روکا ہے۔ جب سے آپ دونوں ہمارے ہاں تشریف لائے ہیں۔ نہ تو میں دن میں روزہ رکھ سکا ، نہ رات میں قیام کر سکا۔
سلمانؓ: میرے لیے بھی یہی موقع ہے کہ آپ سے صاف صاف کہہ دوں ۔ اگر آپ قربِ الٰہی چاہتے ہیں تو جان رکھیے واجب الادا حقوق کو پس پشت ڈال دینے سے اللہ کی رضا نہیں ملتی۔
ابودرداءؓ: کون سے حقوق ہیں جو میں نے بھلا رکھے ہیں؟
سلمانؓ: آپ پر آپ کے جسم کے، آپ کے اہل خانہ اور ہمسایوں وغیرہ کے سب کے حقوق ہیں۔ سب کے حقوق ادا کرنے چاہئیں۔
ابودرداءؓ: سچ ہے ، اور بحمدللہ میں سب کے حقوق ادا کر رہا ہوں۔
سلمانؓ: نہیں بھائی، آپ اپنے جسم اور اہل خانہ کے حقوق غصب کر رہے ہیں۔
ابودرداءؓ: تو کیا آپ یہی اندازہ کرنے کے لیے ہمارے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے؟
سلمانؓ: جی ہاں! اسی لیے ، تاکہ آپ کو نیکی کے سیدھے راستے پر چلا سکوں۔
ابودرداءؓ: لیکن میری رائے آپ کی رائے کے خلاف ہے۔
سلمانؓ: پھر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلتے ہیں۔ وہ فیصلہ فرما دیں گے کون سیدھی راہ پر ہے۔
ابودرداءؓ: ٹھیک ہے۔ چلو! (دونوں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں)
ساتواں منظر
(حضرت سلمان فارسیؓ کا گھر۔ ام الدرداءؓ حضرت امیمہؓ سے ملنے کے لیے تشریف لائی ہیں اور انھوں نے بہترین سنگھار کیا ہوا ہے)
امیمہؓ: آئیے آئیے، خوش آمدید ام درداء، آج تو آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔
ام درداءؓ: اللہ بھلا کرے آپ کا اور بھائی سلمانؓ کا جنھوں نے ابوالدرداء کو حقوق العباد کا مسئلہ سمجھا دیا۔ اب تو وہ بہت بدل گئے ہیں۔
امیمہؓ: بہن انھیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات نے ٹھیک کیا ہے۔
ام درداءؓ: جی ہاں …… میرے شوہر اب میرا خیال رکھتے ہیں۔
امیمہؓ: ہلاکت ہے رہبانیت کے لیے۔
ام درداءؓ: جب ابوالدرداءؓ اور سلمانؓ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فیصلے کے لیے گئے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ارشاد فرمایا تھا؟
امیمہؓ: آپ ؐ نے فرمایا تھا سلمانؓ نے سچ کہا ہے اور سلمانؓ تم سے زیادہ فہیم ہے اے ابوالدرداءؓ۔ ہلاکت ہے رہبانیت کے لیے۔
دونوں: رہبانیت مردہ باد!