حسنين كريمين

مصنف : راجہ قاسم محمود

سلسلہ : سیرت صحابہؓ

شمارہ : اگست 2024

سيرت صحابہ

حسنين كريمين

راجہ قاسم محمود

مولانا محمد نافع رح کی صحابہ کرام و اہل بیت عظام رضی اللہ عنہم کی مقدس ہستیوں کے بارے میں کتب میں سے ایک کتاب حضرت سیدنا حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی سیرت پر بنام "سیرت حسنین شریفین رضی اللہ عنہما" ہے۔یہ کتاب تقریباً تین سو صفحات پر مشتمل ہے۔ مولانا نافع نے کتاب کے شروع میں بیان کر دیا ہے کہ یہ کتاب سنی نظریات کے مطابق لکھی گئی ہے جو کہ افراط و تفریط سے خالی ہے۔کتاب کا مقدمہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب نے لکھا ہے جو کہ علماء دیوبند میں ایک بڑے مقام کے حامل تھے۔ڈاکٹر صاحب کا مقدمہ گو کہ مختصر ہے مگر کافی جاندار ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ حضرات حسنین شریفین رضی اللہ عنہم کی شخصیات امت میں کبھی مختلف فیہ نہیں رہی ہیں۔ان ہستیوں نے بھی اپنے عمل و کردار سے امت کو جوڑا ہے۔ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دستبردار ہو کر بشارت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق امت میں اتحاد قائم کیا۔ جبکہ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا طرز عمل بھی تعمیری تھا آپ رضی اللہ عنہ نے ثابت کیا کہ آپ کا قدم انتشار کے لیے ہرگز نہ تھا بلکہ امت کی تقسیم کو آپ رضی اللہ عنہ نے ناپسند کیا۔

ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ یہ دونوں ہستیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت محبوب تھیں تو اہل ایمان کے لیے لازم ہے کہ وہ ان ہستیوں کو محبوب جانیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محبوب جانا ہے۔ اس لیے کسی شخص کا ایمان کامل ہو نہیں سکتا جب تک وہ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے محبت نہ کرے۔

ڈاکٹر صاحب نے مقدمہ میں حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ شر پسند جنہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اعتقادی گمراہی پھیلانے کی کوشش کی (یعنی کہ ابنِ سبا) آپ رضی اللہ عنہ نے ان کو زندہ جلا دیا. حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا زین العابدین علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہ کی علمی مجالس کا ذکر کیا ہے کہ لوگ ان مقدس ہستیوں سے علمی استفادہ کیا کرتے تھے۔حضرت سیدنا زین العابدین علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس اور حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے تلامذہ میں سے تھے۔ اس کے ساتھ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی آپ سے بہت پیار کرتے تھے۔

ڈاکٹر صاحب کے مقدمہ اس کتاب کے منہج کو بھی بڑی حد تک واضح کرتا ہے۔مولانا محمد نافع نے پہلے حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی سوانح بیان کی ہے لیکن متعدد واقعات میں دونوں مقدسات شریک ہیں تو حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر مبارک بھی ساتھ چلتا رہتا ہے۔مولانا محمد نافع نے لکھا ہے کہ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت تین ہجری میں ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ کے کان میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اذان دی اور آپ رضی اللہ عنہ کو گھٹی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا عقیقہ ساتویں روز ہوا۔ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ بچے کا نام حرب رکھا جائے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن رکھا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ایسا ہی ارادہ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر تھا مگر وہاں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسین نام رکھا۔

حضرات حسنین شریفین کے عقیقہ سے عرب کے رسم عقیقہ کی بھی اصلاح ہوئی کیونکہ زمانہ جاہلیت میں عقیقہ کے جانور کا خون نومولود کے سر پر لگاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان شہزادوں کا عقیقہ کر کے اس چیز کو ختم کیا اور خون کی بجائے مرکب خوشبو لیکر ان کے سروں پر لگائی۔ یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ اور نفیس طبعیت کی بھی نشاندھی کرتا ہے اور اسلام کی تعلیمات میں جمالیاتی ذوق کو بھی بیان کرتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرات حسنین کریمین اور ان کے والدین حضرت سیدنا علی و سیدہ نساء العالمین رضی اللہ عنہما سے بہت پیار کرتے تھے۔ اس لیے جب بھی مدینہ منورہ سے باہر جانا ہوتا تو سب سے آخر میں سیدہ پاک اور ان شہزادوں سے ملتے اور واپسی پر سب سے پہلے اپنی مقدس بیٹی اور نواسوں سے ملتے۔ دور رسالت میں دونوں شہزادے صغیر السن تھے مگر پھر بھی برکت کے لیے حضرات حسنین کریمین، حضرت سیدنا عبداللہ بن جعفر اور حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیعت کیا۔ اس بیعت کو مولانا محمد نافع نے "بیعت تبرک" کہا ہے۔حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مبارک کندھوں پر سوار کر کے فرمایا کہ اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کرایسے ہی حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے لیے فرمایا کہ یہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں-ایسے ہی ان دونوں حضرات رضی اللہ عنہم سے نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود محبت فرماتے تھے بلکہ امت کو بھی ان دونوں حضرات رضی اللہ عنہم سے محبت کی تلقین کی۔ اس لیے اہل ایمان کے لیے لازم ہے کہ وہ حضرت سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کریں یہ بڑی سعادت کی بات ہے۔حضرات حسنین کریمین کی شان میں دیگر احادیث کو بھی مولانا محمد نافع نے بیان کیا ہے۔ جن میں سے ایک حدیث میں سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو جوانان جنت کا سردار فرمایا گیا ہے۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے مولانا محمد نافع نے لکھا ہے کہ یہ سیادت انبیاء علیہم السلام و خلفاء راشدین (ایسے ہی دیگر کبار صحابہ) کے ماسوا ہے۔ایسے ہی حدیث کساء جس میں حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کو اہل بیت میں شامل کیا گیا ہے کو بھی مولانا محمد نافع نے بطور فضیلت بیان کیا ہے-دونوں بھائیوں میں عمر کا ایک سال کا فرق تھا اس لیے ان کی تربیت کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ رہا۔ ان دونوں حضرات رضی اللہ عنہم کے معلم عبداللہ بن حبیب رحمہ اللہ تھے جو کہ ابو عبدالرحمان السلمی رحمہ اللہ علیہ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ ابو عبدالرحمان السلمی رحمہ اللہ اولاد صحابہ میں سے ہیں اور یہ کوفہ کے مقریوں کے مشہور امام تھے۔ انہوں نے قرآن مجید کی تعلیم حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود، حضرت سیدنا عثمان بن عفان اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما جیسے جید علماء صحابہ سے حاصل کی۔حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی اپنے نانا سے مشابہت بھی پائی جاتی تھی۔ اس بارے میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اپنے دور خلافت کا واقعہ ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر و سیدنا علی رضی اللہ عنہم آپس میں بات کر رہے تھے کہ سامنے حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ آئے تو حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا حسن کو پیار کیا اور اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور فرمایا کہ یہ فرزند تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم شکل ہیں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مشابہ نہیں۔حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بات سن کر تبسم فرمایا۔ایسے ہی ایک روایت سیدہ پاک رضی اللہ عنہا کے بارے میں بھی ہے کہ وہ اپنے پیارے بیٹے حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو بیار سے اچھالتے ہوئے فرماتی تھیں کہ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی مشابہت اپنے والد سے نہیں بلکہ اپنے نانا جان جناب نبی کریم کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے۔

اس سلسلے میں ایک واقعہ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بھی ہے کہ وہ بھی حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیتے تھے ایک تو اس وجہ سے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی اپنے نانا سے مشابہت تھی دوسرا اس جگہ بوسہ دیتے تھے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیتے تھے۔ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی بھی اپنے نانا جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت تھی۔دور صدیقی و دور فاروقی میں دونوں جنتی سردار چھوٹے تھے۔ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور کا ایک واقعہ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا ذکر ہو گیا۔ عہد فاروقی میں فتوحات کی کثرت ہوئی تو حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کا کمسنی کے باوجود قرابت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے وظائف ان کے والد اقدس حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے برابر کر دئیے اور مال غنیمت میں سے عمدہ پوشاکیں ان کے لیے مختص کی جاتیں۔الحمدللہ خلافت راشدہ کے زمانہ میں ہی یہ مقدس گھرانہ معاشی طور پر خوشحال تھا۔ حضرت سیدنا علی و حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے وظائف کے ساتھ ساتھ دیگر ذرائع معاش بھی تھے۔ کئی چشموں کا ذکر ہے جو کہ اس خانوادے کی ملکیت تھے۔ اس کے علاوہ کئی اصحاب رضی اللہ عنہم عطیات سے بھی نوازتے رہتے تھے جیسا کہ حضرت سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے اپنے مال کے بارے میں وصیت کر کے اس میں سے حضرات حسنین کریمین اور امہات المومنین رضی اللہ عنہم کے لیے حصہ مقرر کیا۔حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے گھر حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کا آنا جانا بھی تھا کیونکہ یہ ان کی بہن حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا گھر بھی تھا۔ عہد فاروقی میں حضرت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ آئے تو سیدنا حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے اصرار پر اذان دی جس سے پورے مدینہ میں رقت طاری ہو گئی کیونکہ سب کو شدت سے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یاد آئے۔ عہد عثمانی میں دونوں جنتی سردار جوان ہو چکے تھے اور اس دور میں طرابلس و افریقہ کے جہاد میں دونوں حضرات شریک ہوئے۔ اس جہاد میں حضرات حسنین کے ساتھ حضرت سیدنا عبداللہ بن زبیر، حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس، حضرت سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما بھی اس جیش اسلامی کا حصہ تھے۔ اس جیش کی قیادت حضرت سیدنا عبداللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کر رہے تھے۔ اس کے بعد طبرستان و خراسان کے جیش میں بھی دونوں حضرات شریک تھے جس کی قیادت سیدنا سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کر رہے تھے۔عہد عثمانی میں جہاد میں آپ دونوں کی شرکت اس بات کا کافی و شافی ثبوت ہے کہ خانوادہ علی رضی اللہ عنہ ناصرف اس عہد میں عملی طور پر خلیفہ کے ساتھ تھا بلکہ جہاد جیسے اہم کام میں اپنے بہترین نفوس بھی فراہم کر رہا تھا۔ پھر عہد عثمانی کے دور میں بھی وظائف جاری ہوئے اور مال غنیمت سے بھی حصہ پایا۔ عہد عثمانی میں مجموعی طور پر مالی استحکام اور معاشی خوشحالی تھی۔

حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا جب محاصرہ ہوا تو حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے باغیوں کی سرکوبی کی اجازت مانگی جو کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قبول نہیں کی۔ پھر بھی حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں صاحبزادوں کو حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت کے لیے تعینات کیا ہوا تھا۔ حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بچاتے ہوئے حضرت سیدنا حسنین رضی اللہ عنہم بھی باغیوں کے ہاتھوں مجروح ہوئے تھے۔ حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے جنازے میں بھی حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ شریک تھے اور اس حوالے سے یہ بات کہ مظلوم مدینہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی میت تین روز تک پڑی رہی جھوٹ ہے صیح یہ ہے کہ حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا جنازہ و تدفین اسی روز کر دی گئی جس روز حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔عہد مرتضوی میں بھی دونوں حضرات نے عملی کردار ادا کیا۔ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے کئی جگہ اپنے والد محترم حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مشورے دئیے جن میں سے کئی کو حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے قبول نہیں کیا مگر اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس دور میں حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ ناصرف متحرک تھے بلکہ مشورہ دینے میں بھی آزاد تھے۔حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بیعت لینے، کوفہ جانے، اہل بصرہ و اہل شام سے جنگ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔دارلخلافہ کی مدینہ منورہ سے کوفہ منتقلی پر حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا کرنے سے منع کیا۔ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ جمل و صفین میں لشکر کے حصے کے کمانڈر تھے۔ حادثہ جمل کے بعد حضرت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حضرت سیدنا علی و حسنین رضی اللہ عنہم نے ادب و احترام سے رخصت کیا۔

حادثہ جمل کے اختتام پر حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ہتھیار ڈالنے اور دروازہ بند کر دینے والوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔ مروان بن حکم نے حضرت سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہم سے امان کی درخواست کی جس کو حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے قبول کر لیا۔حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر جب ابن ملجم نے حملہ کیا تو آخری وقت میں حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ان دونوں بیٹوں کو جو وصیت کی وہ بہت اہم ہے۔

حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کو وصیت میں نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے، غیض و غضب برداشت کرنے کے ساتھ رشتہ داروں سے حسن سلوک، جاہل کے مقابل حوصلہ مندی، قرآن مجید پر غور وفکر کرنے کی تلقین کی۔ ساتھ ہی دونوں جنتی سرداروں سے اپنے دیگر بھائیوں بالخصوص حضرت سیدنا محمد بن حنفیہ رحمتہ اللہ علیہ سے نیک سلوک کرنے کی تلقین کی اور حضرت سیدنا محمد بن حنفیہ رحمتہ اللہ علیہ کو وصیت کی کہ کسی بھی اہم معاملے میں دونوں بھائیوں (حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم) سے لازمی مشاورت کرنا اور ساتھ ان کی تعظیم بجا لانے کی بھی تلقین کی۔

حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی یہ وصیت ایک حقیقی مومن کی وصیت ہے جو کہ اپنے رب تعالیٰ سے بہت قریب ہے۔ یہ ایک ایسے شخص کی وصیت ہے جس کا تقویٰ مثالی ہے جو ناصرف خود تعلق باللہ کا حامل ہے بلکہ اس خواہش کا اظہار کر رہا ہے کہ قربت الہی اور تعلق باللہ کی یہ دولت اس کی اولاد کے پاس بھی ہو۔ پھر اس وصیت میں جہاں حقوق اللہ کا ذکر ہے وہاں خلق خدا کے حقوق کی بجا آوری کا بھی ذکر ہے۔ پھر سماجی معاملات پر بھی اولاد کو تلقین ہے کہ کیسے زندگی گزارنی ہے۔ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی یہ وصیت سیرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک اجمالی تعارف ہے۔

جب ہم حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہ کی زندگیوں کو دیکھتے ہیں تو اپنے جلیل القدر والد رضی اللہ عنہ کی طرح زہد و تقویٰ، رجوع الی اللہ، جود و سخا مثالی نظر آتا ہے۔ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو تو اللہ تعالیٰ نے خطیبانہ صلاحیت بھی بخشی ہوئی تھی۔ جس کو ایک دفعہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی ملاحظہ فرمایا۔ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے اس عظیم بیٹے کا بہت اکرام بھی کرتے تھے۔حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اکثر غربا و مساکین کے ساتھ شفقت فرماتے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھا کرتے تھے۔ ایک بار کسی حاجت مند نے دس ہزار درہم کا سوال کیا تو حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے اس کو حاجت برآوری کی۔ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی فیاضی مدینہ منورہ میں مشہور تھی۔ فیاضی و سخاوت کے ساتھ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ حلیم الطبع اور کریم النفس شخصیت کے حامل تھے۔ کسی کی بھی سخت سے سخت بات کا نرم گفتاری سے جواب دیتے تھے۔کثرت عبادت کا یہ حال تھا کہ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے بیس حج پیدل کیے۔ اس عمل پر آپ رضی اللہ عنہ کے چچا حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ رشک کیا کرتے تھے۔ ایسے ہی حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ قائم الیل تھے۔ کثرت عبادت کی یہ ہی جھلک حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ میں بھی نظر آتی ہے۔ ایسے ہی حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بھی مالی صدقات کثرت سے کرتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پچیس حج پیدل کیے۔ کثرت عبادت کی روایت حضرت سیدنا محمد بن حنفیہ رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں بھی ہیں۔ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بیٹوں کی کثرت عبادت اور جود و سخا حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بہترین تربیت کی عکاسی کرتی ہیں اور ان شخصیات کا اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق اس وجہ سے ہی تھا کہ ان سب نے اپنے والد محترم رضی اللہ عنہ کو سب کچھ کرتے دیکھا تھا۔ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا ایک بار مساکین صفہ کے پاس سے گزر ہوا وہ کھانا کھا رہے تھے۔ انہوں نے حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو دعوت دی آپ رضی اللہ عنہ دعوت میں شریک ہوئے اس کے بعد سب اصحاب صفہ کی اپنے ہاں اپنی شایان شان دعوت کی۔یہ بھی ملتا ہے کہ لوگ دونوں جنتی سرداروں کے پاس حصول برکت کے لیے دعا کرانے بھی آیا کرتے تھے۔

مولانا محمد نافع نے حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی صلح پر بھی لکھا ہے اور اس کو اسلامی تاریخ کا ایک عظیم الشان کارنامہ قرار دیا ہے۔ اس صلح کی عظمت کے لیے یہ ہی کافی ہے کہ اس کی بشارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی تھی۔

مدینہ منورہ میں حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے معمولات کے بارے میں مولانا نافع نے لکھا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نماز فجر باجماعت ادا کرنے کے بعد طلوع آفتاب تک ذکر اللہ میں مشغول رہتے۔ پھر مسجد نبوی ہی میں آپ رضی اللہ عنہ کی علمی مجلس ہوتی۔چاشت تک یہ مجلس ہوتی۔ چاشت کے نوافل پڑھ کر کے آپ رضی اللہ عنہ امہات المومنین رضی اللہ عنہما کے پاس جاتے ان کو جا کر سلام کرتے۔ بعض دفعہ امہات المومنین رضی اللہ عنہما اپنے اس پیارے نواسے کو ہدیہ کے طور پر کوئی چیز عنایت فرماتیں جن کو یہ بخوشی قبول کرتے۔ امہات المومنین رضی اللہ عنہما سے ملاقات کے بعد حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ گھر میں تشریف لاتے۔ مکہ مکرمہ میں حضرت سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہم طواف و استلام کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرابت کے باعث حرم میں لوگ ان کو دیکھنے آتے جس کی وجہ سے ہجوم کی صورتحال ہو جاتی اور راستہ مسدود ہو جاتے۔ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے وجہ انتقال کے حوالے سے مختلف روایات ہیں۔ جن میں زہر کا بھی ذکر ہے۔ مولانا محمد نافع نے زہر خورانی کی تائید و تردید نہیں کی۔ البتہ اس کی آڑ میں جو حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر الزام تراشی کی جاتی ہے اس کا باطل ہونا ذکر کیا ہے۔حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک اور غلط فہمی یہ پھیلائی جاتی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے کثرت سے نکاح کیے اور طلاقیں دیں۔ یہ فقط الزام ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ مصنف نے چار ازواج کا ذکر کیا ہے۔ اس طرح آپ رضی اللہ عنہ کی تین بیٹیوں اور بارہ بیٹوں کا ذکر کیا ہے۔

حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں بہت مقبول اور محبوب تھے۔ اس لیے آپ رضی اللہ عنہ کے انتقال پر پورا مدینہ اشکبار تھا اور آپ کا بہت بڑا جنازہ تھا جو کہ گورنر مدینہ سعید بن العاص اموی رضی اللہ عنہ نے پڑھایا۔حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے بعد مولانا محمد نافع نے حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے حالات زندگی لکھے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا ذکر حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ آ گیا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی پیدائش چار ہجری میں ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدہ ام الفضل رضی اللہ عنہا کا دودھ بھی پیا۔ اس لحاظ سے آپ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس، حضرت سیدنا قثم بن عباس، سیدنا عبید اللہ بن عباس اور سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہم کے رضائی بھائی بنتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نام بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا۔ آپ کا بھی ساتویں روز عقیقہ ہوئی۔ عہد عثمانی میں حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے ملکر عمرہ کے لیے سفر کیا تو راستے میں حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کو حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے پاس تیمار داری کے لیے ٹھہرایا اور حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف اطلاع دیکر کر مکہ مکرمہ روانہ ہوگئے۔ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے آ کر حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی جانب سے جانور منگوا کر ذبح کیا تا کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ احرام کی پابندی سے باہر آ سکیں۔ کچھ دنوں بعد حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ عمرہ کر کے واپس آئے تو حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ وہ ان کی آنے سے پہلے تک رکنا چاہتے تھے مگر حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے اصرار پر مکہ روانہ ہوئے۔ اس واقعہ سے حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے اپنے خالو حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ قریبی تعلق کا پتہ چلتا ہے۔ عہد عثمانی میں آپ رضی اللہ عنہ بھی طرابلس و افریقہ اور طبرستان و خراسان کے جہاد میں شریک رہے۔ محاصرہ کے وقت آپ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے محافظوں میں سے تھے۔یہ سب پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔

حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا بھی بہت اکرام کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک واقعہ حضرت سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بھی ہے کہ انہوں نے حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو طواف کرتے ہوئے دیکھا تو خانہ کعبہ میں اپنے ساتھی سے کہا کہ اس وقت زمین والوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کے نزدیک سب سے پسندیدہ شخصیت حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی ہے۔حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا گھر بھی فقراء و مساکین کی حاجت برآوری کی جگہ دی۔ کبھی کوئی سائل آپ کے دروازے سے محروم نہیں گیا۔ آپ بہت لگن سے عبادت کیا کرتے تھے مگر اس دوران بھی کوئی سائل آ جاتا تو پہلے اس کی ضرورت پوری کرتے تھے۔ قرآن مجید کی تلاوت بھی آپ رضی اللہ عنہ کا معمول تھا۔ مکہ مکرمہ جب حاضری دیتے تو حجاج کو اپنے مقدس و معطر ہاتھوں سے پانی پلاتے۔ آپ رضی اللہ عنہ بھی اپنے والد اور بھائی کی طرح علمیت کے اعلیٰ ترین مقام پر تھے اس لیے لوگ اکثر آپ سے فقہی مسائل میں راہنمائی لیتے تھے۔آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں غزوہ قسطنطنیہ میں شرکت کی۔ اس جہاد میں شامل گروہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بشارت کا اعلان کیا ہوا تھا۔ اس لیے حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنے دیگر اعزازات و کمالات کے ساتھ اس بشارت میں بھی شامل ہیں۔ اس غزوہ میں حضرت سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی شریک تھے اس کے علاوہ بھی کئی اکابر صحابہ اس جہاد کا حصہ تھے۔ مولانا محمد نافع نے لکھا ہے کہ اس جیش کا امیر یزید تھا۔ اس حوالے سے دوسری رائے بھی پائی جاتی ہے۔حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی صلح کے بعد حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی جانب سے عطیات و وظائف دونوں جنتی سرداروں کے لیے آتے تھے اور زیادہ تر یہ عطیات اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ ہوتے تھے۔ معاشی طور پر کبھی بھی آپ رضی اللہ عنہم کو تنگی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کیونکہ مدینہ منورہ میں کئی چشمے اور املاک حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ملکیت تھیں۔مولانا محمد نافع نے استخلاف یزید پر ایک باب لکھا ہے۔ کیونکہ یہ بات آگے جا کر حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر منتج ہوئی اس لیے اس کا ذکر حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ضرور آتا ہے۔ مولانا محمد نافع نے لکھا ہے کہ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ جنگ کے ارادے سے کوفہ نہیں گئے تھے اور پھر جب آپ رضی اللہ عنہ نے تین شرائط پیش کر دیں اس کے باوجود بھی آپ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا جانا ایک ظلم عظیم ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے تخریب سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر دوسری جانب سے مثبت جواب نہ ملا۔

حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی پیش کردہ تین شرائط پر مولانا نے تفصیل سے لکھا ہے اور اس کو شیعہ و سنی کتب سے بحوالہ بیان کیا ہے۔ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا ایک قول ذکر کیا ہے جس میں انہوں نے کوفیوں کی بدعہدی کا ذکر کیا۔ ایسے حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ملتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے ایک کوفی کے سوال کہ حالت احرام میں مچھر کا خون بہانے پر کیا حکم ہے تو حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو شرم دلائی کہ مچھر کے خون بہانے کا تو خیال حالانکہ تم لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد کو شہید کر ڈالا۔حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو کربلاء جانے سے حضرت سیدنا ابنِ عمر و ابنِ عباس رضی اللہ عنہم کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ کے بہنوئی حضرت سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ اور بھائی حضرت سیدنا محمد بن حنفیہ رحمتہ اللہ علیہ نے بھی روکا مگر حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ جو ارادہ کر چکے تھے اس کو تبدیل نہیں کیا۔

میرے خیال میں حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے خون کے پہلے ذمہ دار تو وہ خط لکھنے والے بے وفا کوفی ہیں مگر حاکم وقت کو اس حوالے سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہر شخص سے اپنے ماتحت کے کاموں پر پوچھ گچھ ہونے کے بارے میں واضح ارشاد فرمایا ہے تو یہ ظلم عظیم جو کہ نسل کشی بھی تھا کہ بارے میں یزید قیامت کے دن جوابدہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ بہترین عدل کرنے والا ہے۔

ایک باب ماتم کے اوپر بھی ہے۔ جس میں بتایا ہے کہ آئمہ اثناء عشر کے زمانے تک ماتم کی کوئی روایت نہیں تھی یہ کام عباسی خلیفہ مطیع اللہ کے وزیر اعظم معز الدولہ دیلمی نے کیا۔ اس نے ہی سب سے پہلے عید غدیر ایجاد کی۔ دس محرم کو ماتمی جلوس کی ابتداء 352 ہجری میں بغداد میں ہوئی۔ جبکہ گیارہوے امام حضرت سیدنا حسن عسکری رحمتہ اللہ علیہ کا سن وصال 260 ہجری ہے۔حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی چار ازدواج کے ساتھ چار بیٹوں اور دو بیٹیوں کا ذکر کیا ہے۔حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو کی گئی وصیت میں حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن کو تقوی و پرہیزگاری، دنیا کی بے ثباتی اور اللہ تعالی کی عظمت و جلالت بیان کی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت، زہد و تقویٰ اور صبر اس خاندان کے ہر فرد کا مثالی تھا۔حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے بعد مختصر احوال حضرت سیدنا علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہ کے بھی درج ہیں۔ آپ کا اپنے آباء کی طرح ذوق عبادت و بندگی قابلِ رشک تھا۔ آپ کی والدہ کا نام سلافہ یا غزالہ ہے۔ شہر بانو والی روایت اہل تشیع کی ہے جس کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کو اتفاق نہیں۔حضرت سیدنا زین العابدین علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہ کثرت عبادت کے ساتھ کثرت سے صدقات کیا کرتے تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ اعلانیہ اور چھپ کر لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ اتنے کریم النفس تھے کہ کبھی اپنی سواری کو زد و کوب نہیں کیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی بھی مسجد نبوی میں علمی مجلس منعقد ہوتی تھی جہاں سے لوگ آپ سے دین کے معاملات میں استفادہ کیا کرتے تھے۔

ہمارے ہاں حضرت سیدنا حسنین کریمین رضی اللہ عنہم سے محبت کی دولت ایمان کا حصہ ہے مگر ان حضرات کے احوال سے ہم بہت کم واقفیت رکھتے ہیں۔ یہ کتاب اس حوالے سے کافی حد تک تشنگی دور کرتی ہے۔آخر میں کتاب سے حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے تین اقوال ملاحظہ فرمائیں -

حلم و حوصلہ مندی انسان کو زینت بخشتی ہے-وقار اخلاق حسنہ میں سے ہے-کمینوں کی صحبت ایک عیب ہے اور فاسقوں سے مل بیٹھنا باعث تہمت ہے۔

اللہ تعالیٰ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہ کی دنیا و آخرت میں محبت عطاء فرمائے-