سيرت الصحابہ
صحابہ کے سیاسی اختلافات
مفتی محمد زاہد
1- ہر بات کو جلدی سے عقیدے کا عنوان دے دینا مناسب نہیں، عقیدے کی بجائے نظریہ کہا جائے تو بہتر ہے، جس سے مقصود تاریخ میں پیش آنے والے ان واقعات کی اصولی تنقیح اور مختلف حضرات کے مواقف کی تکییف ہوتی ہے۔
2-اگرچہ یہ اس طرح کا عقیدے کا مسئلہ نہیں ہے ، لیکن جو کچھ اہل السنۃ والجماعۃ نے لکھا ہے میں خود اس فریم کے اندر ہی رہتا ہوں، تاہم دوسروں پر غیر سنی ہونے کا کسی قسم کا فتوی لگانے میں احتیاط ضروی سمجھتا ہوں۔
3- عام مجمع میں اس طرح کے موضوعات پر بات کو مناسب نہیں سمجھتا، دروس میں بھی کسی متعلقہ حدیث کی تشریح میں ناگزیر ہو تو ہی بات کرتا ہوں۔ فیس بک کے بارے میں میرا گمان یہ ہے کہ کم از کم میرے ساتھ جو ایڈ ہیں وہ اکثر عامی نہیں دین کا مناسب علم رکھتے بلکہ مدرسوں کے پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرے نزدیک امت مسلمہ کے زندہ مسائل ہماری زیادہ توجہ کے مستحق ہیں، تاہم زندہ قومیں اپنی تاریخ کو منقح کرنے سے بھی غافل نہیں رہتیں، یہ کہنا بھی درست نہیں کہ ہم کون ہوتے ہیں جج بننے والے اس لئے کہ ہر دور میں علما ان موضوعات پر اپنی آرا کا اظہار کرتے رہے ہیں، بالخصوص اللہ کے نبی کو تو جج بننے کا حق حاصل ہے۔ پھر بھی ان موضوعات پر ’’فلا تمار فیہم إلا مراء ظاہرا‘‘ کا طرزِ عمل زیادہ انسب ہے کہ اس سے کہیں زیادہ اہم مسائل اہلِ علم کی توجہ کے منتظر ہیں۔
4- اس طرح کے موضوعات میں واقعات کی تفصیل میں جانا پسند نہیں کرتا، اس لئے کہ اس کے لئے الجھی ہوئی تاریخی روایات پر بہت زیادہ مغز ماری کی ضرورت ہوتی ہے۔ مختصر ، اصولی اور تنقیحی بات کو کافی سمجھتا ہوں، اور کسی واقعے کے قدرِ مشترک حصے پر انحصار کی حتی الامکان کوشش کرتا ہوں کہ تاریخ میرا بنیادی موضوع نہیں ہے۔
5- تاریخ اسلامی کو سراسر جھوٹ یا بے کار چیز بھی نہیں سمجھتا، تدوین تاریخ کے بارے میں سازشی نظریات بھی میرے نزدیک درایتاً اطمینان بخش نہیں ہیں، تاہم تاریخی روایات پر اندھے انحصار کو بھی درست نہیں سمجھتا کہ اس میں رطب ویابس سب کچھ ہے۔ بعد میں آنے والے حالات کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ بیان فرمایا اسے زیادہ اہمیت دیتا ہوں، بالخصوص جو صحابہ اس طرح کی روایات کے زیادہ ماہر سمجھے گئے ہیں ان کے نقطہ نظر کو۔ اس سلسلے میں حسن درجے کی روایت کو بھی تاریخی بیانات پر اصولاً ترجیح دینے کا قائل ہوں اگرچہ دونوں میں تعارض کی کوئی مثال میرے ذہن میں نہیں ہے۔ اگر حسن لغیرہ یا ضعیف حدیث، واقعات اور دیگر احادیث سے بننے والے عمومی فریم سے مطابقت رکھتی ہو تو اسے قبول کرنے میں بھی حرج نہیں سمجھتا۔
6- اگرچہ ہر بات عقیدے کی نہیں ہوتی لیکن جہاں عقیدت کا معاملہ ہو درجہ بدرجہ اسے پیش نظر رکھنا بھی ضروری سمجھتا ہوں، اس معنی میں نہیں کہ دوسروں کے لئے رافضیت زدہ یا ناصبیت زدہ کی تعبیرات استعمال کروں بلکہ خود ان شخصیات کے لئے الفاظ کے انتخاب اور ان کی طرف کسی امر کو منسوب کرنے میں۔ میرے نزدیک یہ محض عقیدت کا معاملہ نہیں ہے بلکہ کسی بھی شخص کی طرف کوئی واقعہ منسوب کرتے ہوئے اس کے عمومی کردار اور مزاج کو نظر انداز کرنا خود اصولِ تحقیق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اگر کوئی آج نواز شریف کے بارے میں یہ کہے کہ انہوں نے فلاں معاملے ميں سیاسی چکر بازی کی ہے تو اسے مانا جاسکتا ہے، اگر کوئی کہے کہ وہ شراب پیتے اور خنزیر کھاتے ہیں تو شاید ان کا کٹر سے کٹر مخالف بھی ماننے کے لئے تیار نہ ہو۔
7- بہت اعلی دینی شخصیات بالخصوص خلفاے راشدین میں سے کسی نے اپنی ذات کے بارے میں اگر خود کوئی وضاحت کردی ہے تو اسے سب سے اہم سمجھنا چاہئے ، بے اعتمادی کی کوئی وجہ نہیں۔ مثلاً اہلِ مصر کے نام لکھے گئے متنازعہ خط پر خلیفہ وقت کی مہر وغیرہ ہونے کے باوجود جب حضرت عثمان نے یہ کہہ دیا میں نے لکھا نہ لکھوایا نہ میرے علم میں ہے تو بس خلیفہ وقت کا دامن صاف سمجھنا چاہیے کہ یہ ان کا کام نہیں ہے کسی اور کا ہے، ’’کوئی اور‘‘ کی تعیین کی بحث الگ ہے، خلیفہ وقت کے حوالے سے ادھر ادھر کے قرائن بیان کرکے افلاطونی جھاڑنے کی اب ضرورت نہیں رہی، یہی معاملہ حضرت علی کا ہے انہوں نے قتل عثمان وغیرہ کے حوالے سے قسمیں کھاکر اپنی پوزیشن واضح کردی تو یہی حرفِ آخر ہے ان کی زبان پر بے اعتمادی کی کوئی وجہ نہیں۔
8- عقیدت کے معاملے میں فرقِ مراتب ضروری ہے، اس میں اتھارٹی اللہ ورسول ہیں۔ خلفائے اربعہ کی فضیلتوں کو ناپنے کا کم از کم میرے پاس کوئی پیمانہ نہیں ہے، تقلیداً اہل السنۃ والجماعۃ کی اتفاقی ترتیب کا قائل ہوں، ذوقاً بھی وہی درست معلوم ہوتی ہے، تاہم اصلاً اس معاملے میں مقلد ہوں، جہاں اہل السنۃ کے مختلف ذوق ہیں وہاں گنجائش رکھتا ہوں-
9- ہمارا زیادہ سے زیادہ کام کسی کے موقف یا پوزیشن کی تنقیح وتکییف ہے، نیتوں کو زیرِ بحث لانا ہمارا موضوع نہیں۔ اسی طرح کسی کے اخروی حکم کو موضوع نہیں بناتا سوائے اس کے جو کسی طبقے یا شخصیت کے بارے میں نص میں موجود ہے، مثلا عشرہ مبشرہ ، حسننین کے بارے میں جنت کی بشارت اور قرآن کی آیت وکلا وعد اللہ الحسنی۔ جسے اپنے خاتمے کا پتا نہیں وہ دوسروں کے حکمِ اخروی پر کیا بحث کرے۔
10- ہر مسلمان قابلِ احترام ہے ، خصوصاً کسی کے دنیا سے جانے کے بعد عام انسان کوبھی سب وشتم کرنا جائز نہیں ہے تو دونوں باتیں ادنی سے ادنی درجے کے صحابی کے بارے میں بطریق اولی ضروری ہوں گی۔ کسی کے سیاسی موقف یا پالیسی میں واضح غلطی بھی موجود ہے تب بھی اس کے بیان کے لیے الفاظ کا درست چناؤ ضروری ہے، یا تو وہ لفظ کسی خاص موقف کے حوالے سے منصوص ہو یا عام اخلاقیات سے گرا ہوا لفظ نہ ہو۔
11- بعض الفاظ عرفِ عام میں ممکن ہے گالی سمجھے جاتے ہوں، لیکن علمی سیاق میں اس کا معنی بالکل مختلف ہوتا ہے۔ مثلا ًبغاوت کا لفظ علمی سیاق میں کسی کی سیاسی پوزیشن کی فقہی تکییف ہے، فقہا نے آگے اس کی مختلف قسمیں کی ہیں، اصطلاحی معنی میں باغی جنتی بھی ہوسکتا ہے اس کا فاسق ہونا بھی ضروری نہیں۔ میں اپنے نقطہ نظر کے بیان میں اس طرح کے لفظ کے استعمال سے حتی الامکان گریز کرتا ہوں (الا یہ کہ سابقین میں سے کسی کی عبارت نقل کرتے ہوے یا حدیث کے اطلاق کے ضمن میں ہو) تاہم اسے توہین وگستاخی کے مترادف سمجھنے کو بھی غلط بلکہ تراث سے ناواقفیت کی علامت سمجھتا ہوں اس لئے کہ کتبِ اہل السنۃ میں ایسی تعبیرات بہت کثرت سے موجود ہیں۔
12- عام سیاسی وانتظامی کارکردگی کی اہمیت اپنی جگہ مثلاً فتوحات کی کثرت، تہذیب وتمدن کے ارتقا میں کردار ، تاج محل جیسی کوئی چیز بنادینا وغیرہ(جسے ابن خلدون نے الملک العقلی سے تعبیر کیا ہے) تاہم خلافتِ راشدہ کا بنیادی رنگ دینی ہوتا ہے، اس لئے وہ دینی معیارات سے ہی پرکھی جاتی ہے، یہ مطلب نہیں کہ خلیفہ راشد مامور من اللہ ہوتا ہے بلکہ وہ کام علی منہاج النبوۃ کرتا ہے۔ خلفائے راشدین کی ترتیب میں اللہ ہی جانتا ہے کہ کیا حکمتیں ہیں، تاہم اتنی بات واضح ہے کہ ہر ایک سے اللہ نے اس وقت کے حالات کے لحاظ سے جو مناسب تھا وہ کام لیا ( اس سلسلے میں علمی نکات کا ذوق رکھنے والے حضرات التعلیق الصبیح شرح مشکاۃ المصابیح باب مناقب العشرۃ میں حدیث ’’إن تؤمروا أبابکر تجدوہ أمینا زاہدا فی الدنیا الخ کے تحت مولانا قاسم نانوتوی سے نقل شدہ تقریر دیکھ سکتے ہیں) خلفاے راشدین کے ادوار کو محض علاقہ جات کی فتح کے معیار پر پرکھنے لگیں تو عہدِ رسالت اور عہدِ صدیقی بعد کے ادوار سے کم تر نظر آئیں گے، اگرچہ علاقوں کا فتح کرنا غیر اہم یا فضول چیز نہیں۔