‘‘اس چیمبر میں ہر سینیٹر۵۰ ہزار جواں سال امریکیوں کو قبل از وقت قبرستان بھیجنے کا جزوی طور سے ذمہ دار ہے۔ اس چیمبر سے خون کی بو آرہی ہے۔ یہاں ہر سینیٹر اس انسانی تباہی کے لیے جزوی طور سے ذمہ دار ہے جس کے نشانات ہمارے پورے ملک میں بکھرے پڑے ہیں یعنی ایسے نوجوانوں کا وجود جو ہاتھ یا پیر، اعضائے تناسل یا چہروں یا امیدوں سے محرو م ہیں۔’’
ہر بڑی امریکی جنگ کچھ واضح نقوش چھوڑ جاتی ہے۔ بہت سارے لوگ اس جنگ کو ایک شجاعت مندانہ جنگ کے طور پر یاد کریں گے جس کا خاتمہ صدام حسین کے مجسمے کے انہدام پر ہوا۔ کئی دوسرے لوگ ابو غریب جیل کی وحشت ناکیوں کو نہیں بھولیں گے اور بہت سے لوگ اعضاء بریدہ امریکی سپاہیوں کو فراموش نہیں کر سکیں گے۔ عراقی اپنے خاندان کے لاکھوں افراد پر برسوں ماتم کناں رہیں گے جو اس برطانوی امریکی جارحیت کی نذر ہو گئے اور لاکھوں زندہ بچ جانے والے مجروحین اور معذورین کی نگہداشت کا بوجھ اٹھائے پھریں گے۔ اس جنگ نے خصوصاً فلوجہ کے عوام کے لیے بہت ساری تلخ یادیں چھوڑی ہیں۔ وہ لوگ جو اپنے ناجائز جنگی جرائم کی پروا نہیں کرتے۔ ایک وجہ سے تو یقینا ناقابل فراموش اور ناقابل معافی ہیں۔ وہ ناقابل معافی جرم یہ ہے کہ جب عراقی شہری بھاگ رہے تھے تو امریکی فوج پھر انہیں جنگ زدہ فلوجہ میں زبردستی واپس بھیج رہی تھی،جب ان کا شہر امریکی فضائی حملے کے نتیجے میں ملبے میں تبدیل ہو گیا تو اس المیے سے بچنے کی خاطر بھاگنے والے ۳۰۰غیر مسلح پناہ گزینوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ بچوں اور عورتوں کو علیحدہ لائنوں میں کھڑا کرنے کے بعد امریکی فوجیوں نے مردوں کا معائنہ کیا کہ آیا انہوں نے فوری طور سے کسی اسلحے یا بارود کا استعمال کیا ہے یا نہیں۔ نتیجہ منفی ہونے کے باوجود انہوں نے مردوں کو جنگ زدہ علاقے میں جبراًواپس کر دیا۔ ذرا غور کیجیے کہ امریکی فوجی مطمئن تھے کہ یہ وہ جنگجو ہیں جو جنگ سے بچنے کے لیے فرار ہوئے تھے پھر انہوں نے ان سے جنگی قیدی سا سلوک نہیں کیا حتیٰ کہ انہوں نے غیر قانونی جنگجو کی حیثیت سے ہی سہی انہیں گرفتار نہیں کیا بلکہ انہیں جنگ زدہ علاقے میں واپس لوٹا دیا۔ جنگ زدہ علاقے میں واپسی گویا اسپاٹ پر ہی گولی مار دینے کے متراد ف تھا، بد قسمتی سے بر بریت کا یہ اچھوتا انداز کوئی نیا نہیں ہے،اقوام متحدہ کی امن فوج کی حیثیت سے ولندیزی سپاہیوں نے ۱۹۹۵ء میں سربینیکا میں اس سے بھی زیادہ بربریت کا مظاہرہ کیا۔ سربیائی جنگجوؤں کے ساتھ شراب نوشی کے بعد انہوں نے ۱۲ سال سے زائد عمر کے مردوں کو سربیائی جنگجوؤں کے حوالے کر دیا یہ اچھی طرح جانتے ہوئے کہ انہیں پوری سفاکیت کے ساتھ وہ قتل کر دیں گے۔ اسی طرح ۱۹۸۲ء میں صابرہ اور شتیلا کے قتل عام سے بچ کر فرار ہونے والے فلسطینیوں کو اسرائیلی فوجیوں نے کیمپ کی طرف واپس لوٹا دیا، جہاں قتل ان کا مقدر تھا۔ گیارہ نومبر ۲۰۰۴ء کو سفاکیت کا ایک دوسرا مظاہرہ ہوا اور اسے معصوموں کے خلاف امریکی جرائم کی گیلری میں شامل کر لیا گیا، جس سے ایک بار پھر یہ ثابت ہو گیا کہ ‘‘جنگی جرائم کے بغیر ہم جنگ نہیں کرتے۔’’ آج تک اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ پینٹاگون اس امر کی تحقیق کرانے کا کوئی ارادہ رکھتا ہے کہ کیوں بہت سارے معصوم لوگوں کو فلوجہ کے مقتل میں واپس جانے پر مجبور کیا گیا۔ فلوجہ کے قتل عام سے بہت پہلے امریکاایشیائی باشندوں، لاطینی امریکیوں، مقامی امریکیوں اور یورپیوں کے خلاف ایسے بے رحمانہ جرائم کا ایک طویل ریکارڈ قائم کر چکا ہے۔ امریکی بربریت کے شکار ہونے والوں کی ہڈیاں دور دراز علاقوں تک بکھری پڑی ہیں مثلاً Wounded KneeسےDresdenتک اور ہیرو شیما سے My LaiاورNo Gunriتک۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ جنگی مجرموں سے حساب لینے کے امریکا کے اپنے استثنائی طریقے ہیں۔تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ ڈیمو کریٹک پارٹی نے جان کیری کو اپنے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے نامزد کیا۔ نامزدگی ‘‘مہذب دنیا’’ میں ان کی اعلیٰ سول سروسز کے اعتراف کے طور پر تھی۔ پارٹی نے انہیں اپنا ہیرو بنایا اس کے باوجود کہ وہ ایسی جنگی سرگرمیوں میں مصروف ہونے کا اعتراف کر چکے ہیں جو جنگی قوانین سے بھی متصادم تھیں اور جنیوا کنونشن سے بھی۔ ۱۹۷۱ء میں اپنی سینیٹTestimonyسے چند روز قبل کیری میٹ دی پریس میں نمودار ہوئے اور ویتنام میں اپنے جرائم کا ذاتی طور سے اعتراف کیا۔ ‘‘ہاں! میں نے اسی قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا جس کا ارتکاب دوسرے ہزاروں فوجیوں نے کیا ہے۔ یعنی فری فائر زون میں شوٹنگ میں حصہ لیا، ہراساں کرنے اور ممنوعہ علاقے میں آنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی۔ میں نے۵۰ Caliber کے مشین گنوں کا استعمال کیا جو ہمیں عطا کیے گئے تھے اور جنہیں استعمال کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا تھا اور جو عوام کے خلاف ہمارا واحد اسلحہ تھا، میں نے تلاش اور تباہی کے مشن میں بھی حصہ لیا اور دیہاتوں کو نذر آتش کرنے کی مہم میں بھی شریک رہا۔’’
سینیٹ کے سامنے کیری کی شہادت کے تحریری ریکارڈ میں اس کا یہ اعتراف شامل ہے کہ کیری کے ساتھیوں نے بھی تمام قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا ۔حلف کے وقت کیری نے اپنی تقریر میں امریکی جنگجوؤں کے خراب رویے کا تذکرہ کیا جنہیں ویتنام میں آزادی کی نعمت بانٹنے کے مشن پر بھیجا گیا تھا۔ ان لوگوں نے اس وقت داستانیں بیان کی تھیں یہ کہ وہ لوگ خود عصمت دری کے مرتکب ہوئے تھے، کان کا ٹے تھے، سر تن سے جدا کیے تھے، اعضائے تناسل پر بجلی کے تار ٹیپ سے چپکا کر کرنٹ دوڑائے تھے، جسموں کو دھماکے سے اڑا دیے تھا،شہریوں پر اندھا دھند فائرنگ کیا کرتے تھے، محض شوق میں گاؤں کے گاؤں منہدم کرتے تھے، جس سے چنگیز خان کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔’’ ۱۹۷۱ء میں کیری کے اعتراف جرم سے کچھ بھی فرق نہیں پڑا۔ ۲۰۰۴ء میں پھر بھی اسے ایک مضبوط صدارتی امیدوار تصور کیا گیا۔
باب کیری نام کے ایک دوسرے سینیٹر نے جنگ ٹھنڈی ہونے کے بہت عرصے بعد ویتنام میں اپنے جرائم کا اعتراف کیا۔ یکم اپریل ۲۰۰۱ء کو باب کیری جوNebraskaسے سابق سینیٹر رہ چکا ہے، نے ۱۹۶۹ء میںThanh Phong نامی گاؤں کے معصوم باشندوں کے قتل کا اعتراف کیا۔ اس رات کیا ہوا؟ اسے وہ یوں بیان کرتا ہے: ‘‘جب فائرنگ بند ہوئی تو ہمیں پتا چلا کہ ہم نے صرف بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل کیا ہے۔ یہ فوجی فتح نہیں تھی۔ یہ سانحہ تھا اور میں نے اس کا حکم دیا تھا۔ جو کچھ اس شب انجام پایا اس کے لیے میں اب تک اپنے ضمیر کو مطمئن نہیں کر سکا۔ ۳۲ سالوں سے ضمیر مجھے ملامت کر رہا ہے۔’’ CBS کے ساتھ ایک انٹرویو میں بعد میں کیری نے یہ اعتراف کیا: ‘‘اسے جرم کے طور پر بیان کرنا میرے خیال میں قریب قریب حق بات کہنا ہے۔ اس لیے کہ ایسا ہی کچھ مجھے محسوس ہوا تھا اور اسی وجہ سے مجھے جرم کا احساس ہے اور میں اس پر شرم محسوس کرتا ہوں۔’’ عرصہ ہوا کہ باب کیری نے احساس جرم اور شرمندگی کے گرد کو جھٹک دیاہے اور اب اس کا ضمیر پوری طرح بحال ہو چکا ہے۔ ابھی حال ہی میںCommission ۹/۱۱ میں اس کا تقرر ہوا ہے اورNYU کے صدر کی حیثیت سے وہ اپنی خدمات جاری رکھے ہوئے ہے۔ فلوجہ میں امریکی افواج نے ایک بار پھر انہیں ہتھکنڈوں کی جانب رجوع کیا ہے جو حتمی طور سے اس بات کی ضمانت ہیں کہ جنگی جرائم کا پھر ارتکاب کیا جائے گا۔ طاقت کا بے محابہ استعمال اور اس کے نتیجے میں ہونے والے غیر فوجی نقصانات (Collateral demage) فوجی کارروائی کے معیاری طریقے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی نسل کشی کی سطح تک نہیں جاتا ہے جس کا ارتکاب جرمنوں نے یورپ میں کیا تھا، اہل بلجیم نے کانگو میں کیا تھا یا جا پانیوں نے چین میں کیا تھا۔ امریکی فوج کا عقیدہ اپنے سپاہیوں کو یہ مراعات دیتا ہے کہ وہ اس فکر سے آزاد ہو کر کہ بعد میں کبھی ان کا حساب لیا جائے گا، پہلے Shoot کریں۔ پینٹاگون لاش کی گنتی نہیں کرتا ہے اس لیے نہیں کہ موازنہ سے پریشان ہو کر کوئی وطن واپسی کا خواہشمند نہ ہو جائے۔ اصولِ عام کے طور پر امریکی عوام خاص طور سے امریکا سے باہر کے ملکوں میں اپنے فوجیوں کے رویوں کی زیادہ پروا نہیں کرتے۔ تازہ انکشاف کے مطابق عراقی جنگ میں اب تک ایک لاکھ عراقی مارے جا چکے ہیں۔ لیکن امریکا میں اس خبر کے نتیجے میں افسوس کا کوئی بھی جملہ سننے میں نہیں آیا۔ بہت سارے امریکیوں کے نزدیک عراق میں کم تر شدت کی حامل جنگ ہے چنانچہ اس حوالے سے معمولی نوعیت کی صدائے تشویش پس منظر میں ہوتی ہے جو کبھی کبھی بے تکے شور شرابے کا روپ دھار لیتی ہے۔ امریکیوں کو زیادہ تر امریکی جانوں کی ہلاکت پر تشویش ہوتی ہے۔ امریکی فوج نے ویتنام میں اپنے ۵۸ ہزار سپاہی مروانے کے بعد پسپائی اختیار کی تھی۔ امریکی فوجی دراصل سینیٹرTrent Lott کے خیال سے متفق ہیں کہ عراق میں جمہوریت کو فروغ دینے کا بہترین طریقہ کیا ہے۔ یہاںTerent کا فارمولا ہے: ‘‘اگر ہمیں دیکھنا ہے کہ کیا ہوتا ہے تو ہمیں پوری آبادی کو قتل کر دینا ہو گا۔’’ امریکی جوان فوجیوں کا جنہوں نے عراقی شہریوں کو فلوجہ کے جنگی علاقے سے بھاگنے سے روکا تھا، عقیدہ ہی ایسا تشکیل دیا گیا ہے کہ انہیں مقامی باشندوں کے ساتھ سفاکیت کا مظاہرہ کرنا ہی ہے۔انہوں نے پسند کی ایک جنگ کے درمیان ایک پسند کا جنگی جرم انجام دیے جانے کو منتخب کیا۔ اب ایسی رپورٹیں سامنے آرہی ہیں۔ ایک امریکی میرین نے اپنی کسٹڈی میں ایک زخمی جنگجو کو قتل کر دیا۔ ہم اس لیے جانتے ہیں کہ NBC کے Kevin sites نے اس واقعے کو ویڈیو ٹیپ کر لیا۔ اب اگر وہ گواہوں کے سامنے اس طرح کا جرم کر سکتے ہیں تو جب کوئی شاید نہ ہو تو پھر ان کے جرم کی شدت کا کوئی صرف تصور ہی کر سکتا ہے۔ ہیومن رائٹس کی صرف چند تنظیموں نے فلوجہ کے ‘‘پناہ گزین’’ حادثے کانوٹس لیا ہے اور بلا شبہ اس مسئلے پر ان کے خیالات سے متعلق وہ پریشان کن بیانات بھی جاری کریں گے۔ لیکن وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس جرم کے لیے کوئی بھی امریکی سپاہی یا کمانڈر قابل تعزیر نہیں ٹھہرے گا اس لیے کہ اب جو قانون ہے اس کی رو سے امریکا کا کوئی فوجی اہلکار بین اقوامی قانون کی زدمیں نہیں ہوگا۔
(بشکریہ:‘‘ملی گزٹ’’۔ دہلی)