سیرت النبیﷺ
بہترین مرد
ڈاکٹر سید حسنین ندوی
ایک معاشرے میں بہترین مرد کسے قرار دیا جائے؟ اس سوال کا جواب ظاہر ہے، ہر شخص اپنے ذوق ،نقطۂ نظر اورسوچ کے مطابق دے گا۔ اہلِ علم اورارباب دانش کی نظر میں ہوسکتا ہے اس کا مستحق وہ ہو جس نے علم ودانش کی سنگلا خ وادیوں میں آبلہ پائی کی اور معرفت وحکمت کی بلندوبالا چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ جبکہ مادیت کے متوالوں کی نگاہیں ان افراد پر مرکوز ہوجائیں گی جنھوں نے مال ودولت کی دوڑ میں بہتوں کو پیچھے چھوڑدیا ہو۔ بینک بیلنس نہ صرف عزیز واقارب، بلکہ انکم ٹیکس والوں کے لیے بھی مرکزِتوجہ بن جائے۔ اس کے برعکس شہرت وناموری کو سب کچھ سمجھنے والے یہ خطاب اسے دینا پسند کریں گے جس کا ڈرائنگ روم تمغوں اورانعامات سے بھرا ہوقریہ وشہر اس کے پرستاروں کی بھیڑ ملے۔ہو سکتا ہے بعض لوگوں کا ذہن سماجی راہنماؤں کی طرف جائے جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں۔ ان سب آرا کا المیہ یہ ہے کہ یہ سب محدودیت کا شکار اورزندگی کی خاص جہت کی آئینہ دار ہیں۔ اس لیے ہو سکتا ہے، ان حوالوں سے بہتر ین سمجھاجانے والا شخص زندگی کے وسیع تناظر میں بدترین ثابت ہو۔
اس سوال کا شاندار اورجامع جواب وہ ہے جو رسول اللہﷺ کی جانب سے دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں’’ بہتر ین مرد‘‘کے خطاب کا مستحق وہ ہے جس کاسلوک اپنی گھروالی کے ساتھ بہتر ین ہو۔ (سنن الترمذی)
بظاہر یہ بات عجیب لگتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ شاید ازدواجی معاملات کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے دی گئی ہے۔ لیکن اگر سنجیدگی سے اس حدیث کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ بہترین مرد کے انتخاب کے لیے گھروالی کے ساتھ سلوک سے بہتر کوئی معیار نہیں! یہ اتنی جامع اوروسیع کسوٹی ہے جس پر کسی کو بھی پرکھنے کے بعد یہ فیصلہ ہوسکتا ہے کہ کیا واقعی وہ بہتر ین شخص ہے یا اس نے شرافت کا محض مکھوٹا لگا رکھاہے۔
بعض لوگ بظاہرجیسے نظر آتے ہیں ویسے ہوتے نہیں۔ بلکہ ظاہر کبھی کبھی اتنا پرفریب ہوتا ہے کہ اس سے اچھے خاصے جہاں دیدہ اورتجربہ کار لوگ بھی دھوکا کھا جاتے ہیں۔ لوگ دینداری کا لبادہ اس مہارت کے ساتھ اوڑھتے ہیں کہ لوگ ان کی شرافت کی قسمیں کھائے ہوئے نہیں جھجکتے۔لیکن ان کی عائلی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلے گا کہ ظاہر ی شرافت ودینداری سب گھر سے باہر ہے۔ گھر کے اندر وہ شخص بدتمیز ، خودغرض اور شقی القلب ہے۔ باہر شرافت ومروت کا دم بھر نے والا گھر میں انتہائی وحشی ہے ۔ بیوی کے ساتھ سلوک ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہر مرد کی اصلی تصویر نظر آجاتی ہے۔ انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنی بالادستی کے جوہر عموماً کمزوروں کے سامنے دکھانا پسند کرتا ہے۔صنف نازک سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بیویاں عموماً کمزور،بے بس وبے کسی کا پیکر ہیں۔ عزیز واقارب اورحامی وناصر سے دور بڑی حدتک شوہر اوراس کے گھر والوں کے رحم وکرم پر ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے، ان کی تھوڑی سی کوتاہی شوہر کے آتش غضب کو بھڑکا دیتی ہے۔ وہ معمولی سی غفلت یہ چراغ پاہو جاتا ہے۔ عام طور پر وہ بیوی کی مستقل حیثیت تسلیم کرنے کے لیے تیارنہیں ہوتا، اس خیال سے کہ اس کے ٹکڑوں پر پلنے والی ہستی کی حیثیت ہی کیا ہے ؟ چناں چہ وہ بیوی کے ساتھ توہین آمیز رویہ اپنا نے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔نازیبا کلمات کا استعمال تو عام سی بات ہے، بعض گھر وں میں معاملہ گالم گلوچ اورمارپیٹ تک پہنچ جاتاہے۔ اس معاملہ میں جاہل اورتعلیم یافتہ کے درمیان کوئی زیادہ فرق نہیں،اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔کچھ تعلیم یافتہ افراد اپنے رویے کو حق بجانب قرار دینے کے لیے بعض اقوال کا سہارا لینے سے بھی نہیں چوکتے، جیسے یہ کہ شوہر کی حیثیت مجازی خدا کی ہے۔ اسلام میں اگر اللہ کے سوا کسی کو سجدہ جائز ہوتا تو بیو یوں کو اپنے شوہر کو سجدہ کرنا پڑتا۔ وہ ہندوفلسفے کے قائل ہیں جو بیویوں کو داسی اورشوہر وں کو سوامی قرار دے کر بیویوں کے ساتھ کسی بھی سلوک کی اجاز ت دیتا ہے۔
جب کبھی عورتوں کے حقوق کی بات اٹھے، مسلمان یہ کہہ کر اپنا پیچھا چھڑا لیتے ہیں کہ اسلام نے تو آ ج سے پندرہ سوسال قبل عورتوں کو دے دیے تھے۔اس میں شبہ نہیں کہ اسلام نے خواتین کو معاشرے میں جو عزت واحترام دیا اوروسیع وجامع حقوق عطاکیے، مغرب اپنی طویل جدوجہد کے باوجود اس حد تک نہیں پہنچ سکا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کے عطا کردہ حقوق مسلم خواتین کو حاصل ہیں؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ ہوسکتا ہے اس سلسلے میں کچھ استثنا ہوں‘ لیکن عام طور پر مسلم خواتین کے حالات غیر مسلموں سے اچھے نہیں۔ وہ بھی انہی کی طرح گھر یلو تشد د کا شکار ہیں۔ مظلومیت ان کا مقدر ہے اور خوش نصیب خواتین ہی کو نجات مل پاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین مرد ہونے کے لیے جو معیار متعین فرمایا، اس کی روشنی میں اگر حیاتِ طیبہ کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس حوالے سے بھی عالمِ انسانیت کے لیے مثالی نمونہ ہے۔بس ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اسے اپنی زندگی میں سمو لیں اور اپنی عائلی زندگی سنواریں۔
رشتہ ازدواج میں اللہ تعالیٰ نے مودت ورحمت کاتخم فطری طور پرڈال دیا ہے۔ جو لوگ اس کی آبیاری ودیکھ بھال کریں، وہ نہ صرف اس کے ثمرات سے لطف اندوز ہوتے؛ بلکہ اس کی گھنی وٹھنڈی چھاؤں میں زندگی کا سفر آسان وسہانا بنا لیتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ قدر نہ کریں، وہ اس کے فیضان وبرکات سے بہت حدتک محروم ہی رہتے ہیں۔ یہ رشتہ اپنی پائیداری اوربرگ وبار کے لیے باہمی اعتماد ، تعاون وہمدردی ،ایثار وقربانی، عزت واحترام اور پیار ومحبت کا محتاج ہے۔
آپ ﷺکی ازدواجی زندگی پر انہی خصوصیات کی گہری چھاپ رہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلوک اپنی شریکِ حیات کے ساتھ ہمیشہ ہمدردانہ ومشفقانہ ہواکرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی دلجوئی واحترام میں کبھی کوئی کمی نہیں آنے دیتے اوراس سلسلے میں چھوٹی چھوٹی باتوں تک کا خیال رکھتے۔ ایک سفر میں جب انجشہ نامی غلام نے اس اونٹ کو تیز چلانے کی کوشش کی جس پر بعض ازواج مطہرات سوار تھیں، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں آہستہ چلانے کا حکم دیا، اس خیال سے کہ کہیں وہ ڈرنہ جائیں یا انہیں کوئی تکلیف نہ ہو(صحیح بخاری)
’’حضرت صفیہؓ ایک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں۔ انھوں نے اس بات پر رونا شروع کر دیا کہ وہ جس اونٹنی پرسوار تھیں، وہ بہت آہستہ چلتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے، اپنے دست مبارک سے ان کے آنسو پونچھے اوردلاسہ دیا‘‘(سنن النسائی:۲۷۰۹) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیویوں کی تعریف میں بھی کمی نہ فرماتے ‘بلکہ برملا اس کا اظہار کیاکرتے۔ چناں چہ ایک مرتبہ فرمایا ’’خدیجہ سے مجھے شدید محبت ہے‘‘(صحیح مسلم) حضرت عائشہؓ کے بارے میں فرمایا :’’حضرت عائشہؓ کی فضیلت دیگر عورتوں پر ایسی ہی ہے جیسے ثرید کی دیگر کھانوں پر۔‘‘(صحیح البخاری )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کی دلجوئی کا اس حد تک خیال رکھتے کہ جب ایک ایرانی پڑوسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ ڈش ’’مرق ‘‘بنا یا اور آپ کو دعوت دی ‘تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہیں فرمایا۔ دراصل اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا آنے کے لیے کہا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ گوارا نہ تھا کہ شریکِ حیات کے بغیر دعوت میں جائیں۔ لہٰذا جب اس نے آپ کے ساتھ حضرت عائشہ کو بھی دعوت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت قبول فرمائی اورتشریف لے گئے۔ ‘‘ (صحیح مسلم) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کا نہ صرف حدددرجہ خیال رکھتے‘ بلکہ ان کے مزاج شناس تھے اور ان کے چشم وابرو کے اشارے کو بھی اچھی طرح سمجھتے۔ چناں چہ ایک مرتبہ عائشہؓ سے فرمایا: ’’میں یہ جان جاتاہوں کہ کب تم مجھ سے ناراض ہواورکب خوش ؟‘‘انھوں نے دریافت کیا: ’’وہ کیسے یارسول اللہ ؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم ناراض ہو تو کہتی ہو: رب ابراہیم کی قسم اورجب خوش رہتی ہو تو کہتی ہو: رب محمد کی قسم ‘‘ (صحیح مسلم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج کے ساتھ اس حد تک عزت واحترام کا معاملہ فرماتے کہ ایک مرتبہ حضرت صفیہ دوران اعتکاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد نبوی میں ملنے آئیں۔ جب وہ واپس جانے لگیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم احتراماً انھیں مسجد کے دروازے تک چھوڑنے تشریف لائے‘‘ (بخاری)
رائے کی اہمیت
خواتین کو گھروں میں خاص اہمیت نہیں دی جاتی لہٰذا اہم امور میں نہ ہی ان سے مشورہ کیا جاتا ہے اورنہ ہی ان کی رائے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تمام اہم فیصلے شوہر خود کرتے ہیں۔بیگم کا کام صرف سمع وطاعت ہے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف گھر یلو بلکہ امت سے متعلق بعض امور میں بھی بوقت ضرورت ازواج سے مشورہ فرماتے تھے، اوران کے مشوروں پر عمل بھی کیا کرتے۔
صلح حدیبیہ کے موقع یہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے باوجود حضراتِ صحابہؓ میں سے کسی نے نہ قربانی کی اورنہ بال منڈائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس صورت حال سے کافی پریشان ہوئے۔خیمہ میں آکر اپنی اہلیہ حضرت ام سلمہؓ سے اس سلسلے میں مشورہ کیا۔ انھوں نے یہ مشورہ دیا کہ یا رسول اللہ ! آپ باہر تشریف لے جائیے، اپنی قربانی ذبح کیجیے، بال منڈالیجیے اورواپس آجائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔یہ دیکھ کر حضراتِ صحابہ بھی بادل ناخواستہ اٹھ کھڑے ہوئے، قربانی کی اور پھر بال منڈائے (صحیح البخاری)
گھر یلو امور میں تعاون
شریک حیات کے ساتھ گھر یلوامور میں مشارکت وتعاون میں شوہر حضرات کم ہی دلچسپی لیتے ہیں بلکہ بعض تو کسرشان سمجھتے ہیں۔جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ گھریلو کام میں اپنی بیویوں کا ہاتھ بٹاتے۔ چناں چہ حضرت عائشہؓ سے جب دریافت کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر کے اندر کیا معمول ہواکرتا تھا تو انھوں نے بیان کیا ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاموں میں گھروالوں کی مدد کیا کرتے تھے، (صحیح البخاری) ایک اورروایت میں انھوں نے فرمایا ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کپڑے خودہی سی لیا کرتے۔ چپل کی مرمت کر لیتے۔ اس کے علاوہ وہ سارے کام کرتے جو اکثر مرد اپنے گھر میں انجام دیتے ہیں۔‘‘ (مسندالامام احمد)
انسان کی یہ فطرت ہے کہ زندگی کی یکسانیت، معمول اورسنجیدہ وٹھوس اعمال کے تسلسل سے بور ہوجاتا ہے۔ قویٰ مضمحل ، اعصاب پژمردہ اوردلچسپیا ں مدہم پڑجاتی ہیں۔ ایسے میں کچھ تبدیلی ، تنوع اورچٹپٹی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے کہ تھکن کے غبار چھٹ جائیں۔انسان تازہ دم ہوکر نئی آن اور شان سے کشاکش حیات کی جانب متوجہ ہو۔ کھیل تفریح یا آج کی اصطلاح میں ’’انٹرٹینمنٹ‘‘ اس میدان میں تیر بہدف کاکام کرتاہے۔
اسلام فطری مذہب ہے، وہ انسان کی اس فطری طلب پر قدغن لگانے کے بجائے درست انداز میں تسکین کی راہیں کھلی رکھتاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف جلوت بلکہ خلوت میں بھی اسے برتا اوررزم وبزم کے علاوہ اپنی خانگی زندگی کو بھی اس کی پھلجھڑی سے گلنار وگلزار بنائے رکھا۔ چناں چہ ایک مرتبہ حبشہ کے کچھ لوگ مسجد نبوی کے سامنے اپنے کرتب اورکھیل تماشہ کا مظاہرہ کرنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ کیا یہ تماشہ دیکھنا چاہوگی ؟انھوں نے ہاں میں جواب دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دروازہ کے پاس کھڑے ہوگئے اورحضرت عائشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر ٹیک لگا کر کھیل دیکھتی رہیں۔‘‘(النسائی)
ایک غزوہ سے واپس آتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلے کو آگے جانے کا حکم دیا۔ ان کے جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ کے ساتھ دوڑلگائی، (سنن ابی داؤد) حضورﷺ جب گھر پر نہ ہوتے تو حضرت عائشہ کی سہیلیاں آجاتیں اورسب مل کر کھیلاکرتی تھیں۔ حضورکے آتے ہی سب ادھر ادھر چلی جاتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں بلواتے اورخود باہر چلے جاتے۔ اس طرح حضرت عائشہ کو سہیلیوں کے ساتھ وقت گزارنے اورکھیلنے کے مواقع فراہم کرتے ۔ (صحیح مسلم)
ناپسندیدہ بات
عام زندگی کی طرح ازدواجی زندگی بھی نشیب وفراز سے گزرتی ہے۔ کسی نا پسندیدہ بات پر آپ حکیمانہ انداز میں اس طرح غلطی کی تصحیح فرماتے کہ اصلاح ہوجائے اورکسی کی دل آزاری بھی نہ ہو۔ ایک مرتبہ رسول اللہ گھر تشریف لائے تودیکھا کہ حضرت صفیہؓ زار وقطار رورہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے کا سبب دریافت فرمایا۔ انھوں نے عرض کیا کہ حضرت حفصہؓ نے مجھے یہودی کی بیٹی ہونے کا طعنہ دیاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تسلی دی اورفرمایا ’’اس میں عار کی کوئی بات نہیں ، بلکہ یہ تو ایک اعزاز ہے جو اللہ نے تمہیں عطاکیا۔ تم ان سے کہہ دو کہ میرے شوہر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، باپ ہارون ہیں اورچچا موسیٰ ؛لہٰذ ا میرے سامنے کیا اہمیت جتاتی ہیں؟‘‘(سنن الترمذی)
ازدواجی چشمک
میاں بیوی کے درمیان نوک جھونک ، بحث وتکرار اور شکر رنجی ہونا بھی فطری چیزیں ہیں۔ دیکھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے مواقع پر کیا اندازہواکرتاتھا۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ کا کسی سلسلے میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف ہوگیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے پوچھا : ’’ہمارے درمیان تم کس سے مفاہمت کرانا پسند کروگی؟ کیا حضرت عمر پر تم متفق ہو؟‘‘
حضرت عائشہؓ نے کہا : ’’حضرت عمرؓ کے مزاج میں سختی ہے، میں انھیں اس معاملے میں لانا نہیں چاہتی۔‘‘حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کیا تم یہ پسند کروگی کہ تمہارے والد، حضرت ابوبکر ہم دونوں کے درمیان صلح کرادیں؟‘‘انھوں نے کہا: ’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔‘‘حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کو بلوالیا۔ جب وہ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے پھر پوچھا کہ پہلے تم اپنی بات کہو گی یامیں؟حضرت عائشہ نے کہا کہ پہلے آپ ہی اپنی بات کہیں؛ لیکن بالکل ٹھیک ٹھیک کہیں۔ یہ سنتے ہی ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بیٹی کو ایک تھپڑرسید کردیا۔ اس سے پہلے کہ مزید کچھ ہوتا۔ حضرت عائشہ بھاگ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اوٹ میں آگئیں۔یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’آپ جاسکتے ہیں، میں نے آپ کو اس لیے نہیں بلایا تھا۔‘‘ جب حضرت ابوبکر چلے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے کہا: ادھر قریب آو۔‘‘ وہ نہ آئیں، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابھی تو باپ کے ڈر سے قریب آ گئی تھیں اب کیا ہوگیا؟تھوڑی دیر بعد حضرت ابوبکرواپس آئے تو دیکھا ،دونوں ہنس رہے ہیں۔ انھوں نے کہا : ’’مجھے بھی اپنی صلح میں ویسے ہی شریک کریں، جیساکہ ناچاقی کے دوران شریک کیا تھا ‘‘(ابوداود:۵۶۶۴) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی بات پر اہلیہ سے شدیدناراض ہوتے تو اس کا اظہار یوں کرتے کہ انھیں تنہا چھوڑ دیتے۔ آپ نے اس وقت یہ قدم اٹھایا جب ازواجِ مطہرات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کثیر نان ونفقہ کا مطالبہ کیا تھا۔
کردار سے متعلق شکوک وشبہات
ازدواجی رشتے کی خوب صورت شاہراہ پر کبھی کبھی خطرناک پیچ وخم آ کر سفر مشکل بنا دیتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے مواقع پر
اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پاتے اورحادثے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ حسّاس موضوع ہے جو بسااوقات ایک شریف اورسنجیدہ شخص کو بھی مشتعل کردیتا ہے۔بعض تو جو شِ غضب میں انتہائی خطرناک اقدام تک کرجا تے ہیں۔ ایسے مواقع سے حضور کو بھی گزرنا پڑا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی بیوی ،حضرت عائشہؓ کے کردار پر بعض شرپسندوں نے کیچڑ اچھالا اوراس افواہ کو مدینہ کی گلی کوچے میں پھیلا دیا۔ اس کی خبر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ ﷺ نے محض بے بنیاد افواہ کی بنیاد پر بیوی کو قصوروار گرداننے کے بجائے مسجدِ نبوی کے منبر سے ان کا دفاع کیا۔ چناں چہ فرمایا: ’’اے مسلمانو! میرے اہل سے متعلق تکلیف دہ بات مجھ تک پہنچی ہے۔ خدا کی قسم میں ان کے بارے میں خیر کے سواکچھ نہیں جانتا۔‘‘اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے براہِ راست حضرت عائشہ سے بات کی اورفرمایا:مجھ تک تمہارے بارے میں ایسی ایسی باتیں پہنچی ہیں۔ اگر تم اس تہمت سے بری ہو تو اللہ تعالیٰ تمہاری برات واضح کردے گا۔ اگر تم سے ایسا کوئی گناہ ہو گیا، تو اللہ سے توبہ واستغفار کرو!
یہ محض چند نمونے سیرتِ نبوی سے پیش کیے گئے۔ ورنہ سیرتِ نبوی اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ مسلمان اگر اپنی زندگی کو بھی سیرت نبوی کے مطابق ڈھال لیں‘تو کئی ازدواجی پیچیدگیوں سے نجات پاجائیں گے۔
(صاحب مضمون حیدرآباد دکن (بھارت) سے نکلنے والے سہ ماہی رسالے ’’صنعا‘‘ کے مدیر اعلیٰ ہیں)