پہلا منظر
(شاہی دربار، حاضرین اپنے اپنے مرتبے کے مطابق بیٹھے ہیں۔ سپہ سالار بہت ادب سے کہتا ہے)
سالار: حضور والا! الشیخ ابن خلوف قاضی المالکی شرفِ باریابی کے منتظر ہیں۔
سلطان: کیا چاہتا ہے وہ ہم سے؟
سپہ سالار: ابن تیمیہ کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔
سلطان: جانے کیا ہو گیا ہے ان فقیہوں کو؟ کیا ابن تیمیہ کو دمشق میں بھی نہیں دیکھ سکتے!
سپہ سالار: سلطانِ معظم! کیا ان کو اجازت ہے؟
سلطان: اجازت ہے! دیکھیں کیا کہتا ہے!
(ابن مخلوف داخل ہوتا ہے)
ابن مخلوف: السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ’ سلطانِ معظم!
سلطان: وعلیک السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ’۔ کیسے آنا ہوا بن مخلوف؟
ابن مخلوف: یہ جاننے کے لیے حاضر ہوا ہوں کہ ابن تیمیہ کا کیا بندوبست فرمایا ہے حضور نے؟
سلطان: یہاں مصر میں سوائے ابن تیمیہ کے بندوبست کرانے کے تمھیں اور کوئی کام نہیں؟
ابن مخلوف: سلطانِ معظم! شام حضور کی سلطنت میں شامل ہے۔ اور وہاں لوگوں میں پھیلنے والی ہر بدعت کے آپ ذمہ دار ہیں!
سلطان: کیا تم ہمیں اس دلیر اور بہادر شخص کے خلاف ابھارنے کے لیے آئے ہو جس نے تاتاری سالار قازان کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ اپنی فوجوں کو واپس لے جائے؟ جب وہ اپنے ٹڈی دل لشکر کے ساتھ ہمارے عظیم لشکر کو تباہ و برباد کرنے کے درپے تھا۔
ابن مخلوف: لیکن حضور والا! وہ تو ایک بدعتی اور گمراہ شخص ہے اور لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔
سلطان: ہمیں ان کی کسی بدعت کے بارے میں علم نہیں۔ ہم تو صرف یہ جانتے ہیں کہ اہل شام ان سے محبت کرتے اور قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
ابن مخلوف: (خطوط کا بنڈل پیش کرتے ہوئے) سلطانِ معظم! یہ سب خطوط دمشق کے علماء نے بھیجے ہیں اور وہ اس کی بدعت کی شکایت کر رہے ہیں۔ اگر حضور خاموش رہے تو ایک دن یہاں مصر میں بھی وہ بدعتیں پھیلا دے گا۔
سلطان: یہ سب لوگ حاسد ہیں۔ ہمیں خبر ملی ہے کہ ان کے ساتھ مناظرہ کرنے کی اہلیت تو رکھتے نہیں، مگر ہمیں ان کے خلاف اکسانے پر آمادہ کرتے ہیں۔ کیا تم بھی انہی حاسدوں میں سے ہو ابن مخلوف؟
ابن مخلوف: ہرگز نہیں سلطان عالی! بھلا گمراہی اور بدعت پر کون حسد کرتا ہے۔
سلطان: کیا تم اس بات سے ڈرتے نہیں ہو، کہ ہم انھیں یہاں مصر بلا کر مناظرہ کرا دیں اور دلائل سے تمھارا منہ بند کر دیں؟
ابن مخلوف: جی نہیں، ہم دلائل سے اسے خاموش کر دیں گے۔
سلطان: بہت بہتر …… سالار! والئی شام کو لکھو کہ وہ فوراً الشیخ تقی الدین احمد ابن تیمیہ کو ہمارے حضور بھیج دے۔
سالار: جو حکم ہو سلطانِ عالی!
دوسرا منظر
(امیر شام کا در بار۔ امیر، امام ابن تیمیہ سے باتیں کر رہے ہیں)
ابن تیمیہ: کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ بھاگ کر آج میں مصر چلا جاؤں۔
امیر شام: سلطان معظم الناصر کا یہی حکم ہے، ابن تیمیہ!
ابن تیمیہ: کیا سلطان معظم کو خبر نہیں ہے کہ تاتاری فوجوں کا خطرہ دوبارہ ہماری سرحدوں پر منڈلا رہا ہے۔
امیر شام: یہ تو میں انھیں لکھ چکا ہوں۔
ابن تیمیہ: کیا ایسے نازک وقت میں، میں شام سے بھاگ جاؤں؟ سلطانِ معظم کو لکھیے کہ مجھے وہاں بلانے کے بجائے فوجیں لے کر خود شام تشریف لائیں اور ساتھ ان علماء کو بھی لیتے آئیں جو مناظرے کے شائق ہیں۔ دیکھوں تو کون ہیں جنھیں نہ اللہ کا ڈر ہے نہ عاقبت کی فکر۔
امیر شام: سچ فرمایا آپ نے! ہمیں آپ کی یہاں ضرورت ہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں اطمینان اور ارادوں میں ثبات پیدا کریں۔ لوگ تو ابھی سے کانپ رہے ہیں۔ جب کہ لشکر تاتاری بڑی دور ہے۔ اگر وہ قریب آگیا تو ان کا کیا حال ہو گا؟
ابن تیمیہ: سلطان معظم کو لکھ بھیجئے کہ فوراًاپنے لشکر جرار کے ساتھ تشریف لے آئیں ورنہ مسلمانوں کے خون اور لٹی عصمتوں کے وہی ذمہ دار ہوں گے۔ انھیں بتلا دیجیے کہ ابن تیمیہ کا یہی پیغام ہے۔
امیر شام: ابھی لکھے دیتا ہوں۔
(ایک افسر کی طرف دیکھ خط لکھنے کا اشارہ کرتا ہے)
تیسرا منظر
(دمشق کی سب سے بڑی مسجد الجامع الاموی۔ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔ امیر شام امام ابن تیمیہ سے کہتے ہیں)
امیر شام: السلام علیکم ورحمتہ اللہ۔ دیکھیے ابن تیمیہ! یہی ہے آپ کا مخالف ابن الزملکانی، یہ لوگوں سے خطاب کرنا چاہتا ہے۔
ابن تیمیہ: شاید وہ تاتار کے خلاف لوگوں کو جہاد کے لیے تیار کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے، تشریف لائیں۔
(ابن الزملکان منبر پر چڑھ کر تقریر شروع کرتا ہے)
ملکانی: لوگو! اے امت مسلمہ کے عظیم فرزندو! میری بات غور سے سنو۔
خبریں آ رہی ہیں کہ تاتاریوں کا ٹڈی دل لشکر حملہ کرکے ہمیں تباہ و برباد کردینا چاہتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ وہ وعدہ کیا ہوا جو ابن تیمیہ نے آپ کے ساتھ کیا تھا کہ اب تاتاری دوبارہ حملہ کرنے کی جرأت نہیں کریں گے۔
ابن تیمیہ: اسے اپنی بات مکمل کرنے دیجیے۔
ملکانی: آپ نے ابن تیمیہ کی باتوں پر اعتبار کرلیا تھا کہ تاتاریوں سے اسی نے آپ کو بچایا ہے۔ اسی خوشی میں آپ نے اسے وہ قدر و منزلت دی جس کا وہ مستحق نہ تھا۔ اس کی شان کو بڑھایا اور اس بدعت کو آنکھیں بند کرکے سہ گئے جس کے خلاف اہل سنت ہیں۔اب آپ کو پتا لگ گیا ہو گا اور یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ ابن تیمیہ تاتاریوں کا حلیف ہے۔ اس نے آپ کو دھوکہ دے کر تاتاریوں کو تیاری کا پورا موقع دیا ہے کہ وہ پوری طاقت کے ساتھ حملہ کرکے آپ کے وطن عزیز پر قبضہ کر لیں اور آپ کو غلام بنا کر حکومت کریں۔
(سخت نفرت پھیلتی ہے لوگ شور مچاتے ہیں)
امیر شام: ابن تیمیہ، آپ اس کی باتوں کا جواب دیجیے۔
(امیر کی بات سن کر ابن تیمیہ کھڑے ہوتے ہیں اور بلند آواز میں کہتے ہیں)
ابن تیمیہ: لوگو! آپ نے شیخ المحترم کی باتیں سنیں۔ اب تھوڑی دیر کے لیے مجھے بھی آپ سے کچھ کہنا ہے۔
(لوگ خاموش ہو جاتے ہیں۔ ابن تیمیہ پھر تقریر شروع کرتے ہیں)
حضرات، جب یہ صاحب تقریر کرنے کھڑے ہوئے تھے تو میں یہ سمجھا تھا کہ آپ کو تاتاریوں کے خلاف جہاد کے لیے تیار کرنے تشریف لائے ہیں، لیکن میں حیران ہو گیا ہوں کہ یہ تاتاریوں کا خطرہ تو بھول گئے اور صرف میری مخالفت یاد رہ گئی۔اور آپ کو میرے خلاف بھڑکانے لگے۔ حضرات! خدارا ہوش میں رہیے۔ کوئی چیز آپ کو جہاد سے نہ روک سکے۔ ڈرنے اور گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پہلے کی طرح خوف کھا کر اگر آپ اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاگ گئے تو آپ اپنے دشمن خود ہی ہوں گے۔ حضرات! اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیے۔ آپس میں اتفاق و اتحاد رکھئے۔ دن رات جہاد کی تیاری میں مصروف رہیے۔ یقین جانئے! اللہ جبار و قہار آپ کی خود حفاظت فرمائیں گے ۔ فتح اور نصرت آپ کے قدم چومے گی۔
حضرات! خوشخبری ہے آپ کے لیے! مبارک ہو، اطمینان رکھیے کہ عنقریب سلطان معظم الناصر مصر سے ایک عظیم الشان فوج لے کر آپ کی مدد کے لیے آ رہے ہیں۔
ابن ملکان: (چیختے ہوئے) لوگو! اس بدعتی کی باتوں پر یقین نہ کرنا! یہ آپ کو یہاں دمشق میں روک کر تاتاریوں کا غلام بنانا چاہتا ہے۔ آپ کو تاتاریوں کی غلامی کے عذاب میں مبتلا کرکے خود بچنا چاہتا ہے۔
ابن تیمیہ: اللہ تمھیں معاف فرمائے …… (بلند آواز میں) اے اللہ کے بندو، میری بات غور سے سنو! بخدا میں آپ کے ساتھ مل کر جہاد کروں گا، بلکہ آپ مجھے اپنی اگلی صفوں میں پائیں گے۔
آپ جانتے ہیں کہ بچپن سے ہی میں نے قلم اور کتاب سے تعلق رکھا ہے، مگر اب میں نے تلوار اٹھانا بھی سیکھ لیا ہے۔ آئیے ہم سب مل کر شانہ بشانہ جہاد کریں۔ قدم سے قدم ملا کر چلیں۔
آوازیں: ہم آپ کے ساتھ ہیں ابن تیمیہ! ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ابن الزملکانی کو قتل کر دو۔ قتل کرو اس منافق کو پکڑو اس منافق کو ……
ابن تیمیہ: (زور سے) نہیں، نہیں۔ خبردار اللہ کے بندو اگر آپ نے انھیں قتل کیا۔ آپ کو یہ زیب نہیں دیتا۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دو۔ وہی ان کا حساب لے گا۔
آوازیں: اس نے آپ کے خلاف بڑی زبان درازی کی ہے ہم اسے معاف نہیں کریں گے۔
ابن تیمیہ: لیکن میں نے انھیں معاف کر دیا ہے۔
(لوگ خاموش ہو جاتے ہیں)
چوتھا منظر
(سلطان ناصر اور ابن تیمیہ باتیں کر رہے ہیں)
ابن تیمیہ: اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے سلطان معظم! آپ نے ہماری دعوت پر لبیک کہا اور فوراً ہی تشریف لے آئے۔
سلطان: آپ کو اللہ برکت دے ابن تیمیہ! بخدا یہ سب کچھ آپ ہی کی وجہ سے ممکن ہو سکا۔ میں جانتا ہوں کہ آپ نے لوگوں کے حوصلے بڑھانے اور ان کو ثابت قدم رکھنے میں کیا کچھ کیا ہے۔
ابن تیمیہ: میں تو انھیں صرف یہ خوشخبری دیتا رہا کہ آپ ایک عظیم الشان فوج کے ساتھ ان کی مدد کے لیے تشریف لا رہے ہیں۔
سلطان : آہ! کاش مجھے آپ کے خلاف اکسانے والے جان جائیں کہ آپ کیسی عظیم شخصیت کے مالک ہیں۔
امیر شام: سلطان المعظم، مجھے معلوم ہوا ہے عوام کے اندر یہ بات پھیلائی جا رہی ہے کہ تاتاری مسلمان ہیں، ان کے خلاف جہاد جائز نہیں۔
ابن تیمیہ: یہ بات شاید باطنیوں نے پھیلائی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ فرقہ ہمارے لیے تاتاریوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
سلطان: واجب ہے کہ پہلے ان بد خواہوں کے سر قلم کر دیے جائیں!
ابن تیمیہ: ابھی نہیں سلطانِ معظم! ہم تاتاریوں کے خلاف جہاد سے فارغ ہو جائیں تو باطنیوں کی طرف توجہ دینا مناسب ہو گا۔
سلطان: کیا انھیں یونہی چھوڑ دیں کہ لوگوں کو دھوکا دیتے اور فتنہ پردازی کرتے رہیں؟
ابن تیمیہ: آقا آپ مطمئن رہیں۔ ان کے لیے میں ہی کافی ہوں …… آج میں لوگوں کو باطنیوں کی اصلیت اور سرگرمیوں سے آگاہ کروں گا۔ امید ہے کہ میری تقریر سن کر لوگ سچائی کو پہچان جائیں گے۔
(سلطان خوشی کے انداز میں سر ہلا کر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں)
پانچواں منظر
(ابن تیمیہ مسجد کے منبر پر بیٹھے ہیں اور پر جوش انداز میں تقریر کر رہے ہیں)
ابن تیمیہ: لوگو! دشمن کے جاسوس ہماری صفوں میں عجیب و غریب خبریں پھیلا کر، ہمیں جہاد سے روکنے کی سازشیں کر رہے ہیں۔ کبھی ان کو مسلمان قرار دیتے ہیں اور کبھی ان کے انصاف کی قصیدہ خوانی کرتے ہیں۔ لوگو! خبردار ہو جاؤ! تاتاریوں کا سیلاب مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے، ان کی عصمتوں کو تار تار کرنے، ان کے مال و دولت چھیننے، ان کے گھروں اور وطن عزیز پر قبضہ کرنے کے لیے بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ کیا یہی ہے ان کااسلام؟ کیا ایسا ہی کرتے ہیں مسلمان؟
لوگو! ہوشیار رہو، تمھارے یقین اور استقامت میں نقب زنی ہو رہی ہے۔ خدانخواستہ اگر یقین کے بعد تم شک میں مبتلا ہو گئے تو پھر ……! نہیں …… نہیں ……لوگو! میرے دل کی آواز سنو۔ سنو! اگر مجھے اس حالت میں بھی تاتاریوں کے ساتھ دیکھو کہ قرآن حکیم میرے گلے میں لٹک رہا ہو تو مجھے صفحہ ہستی سے مٹا دینا۔ لوگو! مصر کے جیالوں پر مشتمل یہ عظیم فوج تمھیں تاتاریوں کے پنجہ قہر سے نجات دلانے کے لیے آئی ہے۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ ہم میدانِ جہاد سے پیٹھ پھیر لیں اور ہمارے نجات دہندہ اکیلے ہی جہاد کرتے رہیں۔ اچھی طرح سن لوکہ اگر آج کوئی شخص بھاگ گیا تو کل روزِ قیامت اللہ تعالیٰ اس سے بازپرس فرمائے گا اور بھاگنے کی پاداش میں جہنم کا ایندھن بنا دے گا۔قسم اس خداوند قدوس کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے۔ اگر آپ نے پوری صداقت کے ساتھ جہاد کیا، اپنی تمام تر قوتوں کو بروئے کار لائے، تو یقینا اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے گا۔ آپ کو فتح نصیب ہو گی اور کامیابی اسی طرح آپ کے قدم چومے گی جس طرح عین جالوت کے موقع پر اللہ نے آپ کو سرخروفرمایا تھا۔ کامیابی سے نوازا تھا۔ (لوگ پر جوش انداز میں نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہیں)
چھٹا منظر
(سلطان ناصر اور ابن مخلوف باتیں کر رہے ہیں)
سلطان: کیا ہو گیا ہے تمھیں ابن مخلوف؟ تم ہمیں تاتاریوں پر فتح اور بامراد واپسی پر مبارک باد دینے آئے ہو یا ابن تیمیہ کے خلاف بھڑکانے؟
ابن مخلوف: سلطان معظم! اللہ نے جو آپ کو تاتاریوں پر فتح نصیب فرمائی ہے اور صحیح سلامت ہم تک پہنچایا ہے اس پر جتنا بھی شکرا دا کریں کم ہے۔ آقا، اسی خوشی اور احسان کے موقع پر ہم درخواست کرتے ہیں کہ جس طرح آپ نے ہمیں تاتاریوں سے نجات دلائی ہے اسی طرح اس بدعتی ابن تیمیہ کے فتنے سے بھی نجات دلائیے۔
سلطان: اللہ تمھیں برباد کرے، تاتاریوں سے ڈرانے اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی بجائے اگر تم اپنے بھائیوں اور چچاؤں اور ماموؤں کے بیٹوں کے ساتھ مل کر میدانِ جہاد میں تلوار کے جوہر دکھاتے ، تو تمھاری شان کچھ اور ہی ہوتی۔ تمھاری زبان پر شکایتیں نہ ہوتیں۔
ابن مخلوف: یہ علمائے شام کے خطوط ہم سے اس کی بدعت سے نجات کا مطالبہ کر رہے ہیں حضور عالیٰ!
سلطان: یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ یہ سب ابن تیمیہ کی اس قدر و منزلت سے جلتے ہیں جو انھیں عوام میں حاصل ہے۔
ابن مخلوف: سلطان عالی! سینوں کے بھید تو اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن ہم علمائے مصر کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ حاسد ہیں۔ ہم تو صرف اس بات سے ڈر رہے ہیں کہ کہیں یہ فتنہ یہاں بھی نہ پھیل جائے۔
سلطان: اگر تم یہ بات ایسے یقین کے ساتھ کہہ رہے ہو تو مناسب یہ ہو گا کہ ابن تیمیہ کو بلا لیا جائے اور ان سے ان کے خیالات معلوم کر لیے جائیں۔
ابن مخلوف: (خوش ہو کر ) بس سلطانِ معظم! ہم آپ سے یہی چاہتے ہیں۔
ساتواں منظر
(امیر شام اور امام ابن تیمیہ باتیں کر رہے ہیں)
امیر شام: سلطان معظم کا پیغام تو میں نے پہنچا دیا ہے، لیکن ابن تیمیہ! میری نصیحت ہے کہ آپ مصر نہ جائیں۔
ابن تیمیہ: کیوں؟
امیر شام: وہاں کے علماء عوام کو آپ کے خلاف بھڑکا دیں گے۔
ابن تیمیہ: لیکن سلطانِ معظم تو مجھے اچھی طرح جانتے ہیں۔
امیر شام: اگر لوگ آپ کے خلاف ہو گئے تو سلطانِ معظم عوام کی خوشنودی کے لیے ان کی بات ماننے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ابن تیمیہ: جو بھی ہو، لیکن میرا فرض یہی ہے کہ عوام تک حق بات پہنچائی جائے۔ شاید اللہ تعالیٰ نے خود ہی یہ سبب پیدا کر دیا کہ میں وہاں کے لوگوں کو دعوتِ حق دے کر اپنی ذمہ داری پوری کر وں۔
آٹھواں منظر
(مصر میں قاضی ابن مخلوف کی عدالت)
ابن تیمیہ: ابن مخلوف !یہ عدالت ہے مجلس مناظرہ نہیں۔
ابن مخلوف: ہاں ابن تیمیہ! ہمیں تمھارے مناظرے کی ضرورت بھی نہیں۔ تم ایک بدعتی اور گمراہ شخص ہو۔ ہمارے پاس اس کے سوا چارۂ کار نہیں کہ تم سے توبہ کروائیں۔ اگر تم توبہ کر لو تو آزاد ہو ورنہ جیل کی کوٹھڑی میں ڈال دیے جاؤ گے تاکہ لوگ تمھارے فتنے سے محفوظ رہیں۔
ابن تیمیہ: آپ مجھے بدعتی سمجھتے ہیں اور میں آپ کو۔ اب آپ یوں کریں کہ ایک مجلس مناظرہ کا انتظام فرمائیں تاکہ لوگوں کے سامنے ہم اپنے اپنے دلائل رکھیں۔ اگر آپ کی دلیل مضبوط ہوئی تو میں تسلیم کرلوں گا اور اگر میری دلیل قوی ہوئی تو آپ کو حق کی جانب پلٹنا ہو گا۔
ابن مخلوف: تم یہاں بھی لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہو؟
ابن تیمیہ: گمراہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ انھیں سیدھا راستہ دکھانا چاہتا ہوں۔
ابن مخلوف: (بہت غصے سے) گرفتار کر لو اسے، اور بند کر دو!
(عدالت کے پیادے امام ابن تیمیہ کو گرفتار کر لیتے ہیں)
نواں منظر
(جیل خانے کی کوٹھڑی۔ سپاہی کوٹھڑی کا دروازہ کھولتا ہے اور سلطان داخل ہوتا ہے)
ابن تیمیہ: زہے نصیب! سلطان معظم آپ ؟ …… جیل کی اس کوٹھڑی میں مجھ سے ملنے کے لیے تشریف لائے ہیں؟
سلطان: ہمیں آپ کی گرفتاری پر افسوس ہے ابن تیمیہ لیکن بحکم قاضی آپ کو گرفتار کیا گیا ہے اور ہم اس کی مخالفت کر کے عوام کے غیض و غضب کا نشانہ نہیں بننا چاہتے، تاہم یہ بتائیے کہ اگر ہم آپ کو آزاد کروا دیں تو کیا آپ واپس شام چلے جائیں گے؟
ابن تیمیہ: لیکن سلطان المعظم، اب تو یہ ممکن نہیں! ان شاء اللہ اب میں یہاں مصر ہی میں رہوں گا۔ اس وقت تک جب تک عوام سے مل کر انھیں سیدھی راہ نہ دکھا لوں۔
سلطان: …… ابن تیمیہ، ہمیں آپ کا جیل میں رہنا بہت شاق گزرتا ہے، مناسب ہو گا کہ آپ اپنے فیصلے پر غور کریں اور اسے بدل دیں۔
ابن تیمیہ: جہاں تک جیل کا تعلق ہے مجھے یہاں کوئی تکلیف نہیں، یہ تو وہ مقام ہے جو خاصانِ خدا کا گھر ہے، یہاں تو وہ عظیم انسان بھی رہا تھا۔
سلطان: کون؟
ابن تیمیہ: احمد بن حنبل، جنھیں کوڑے مارے گئے اور طرح طرح کے عذاب میں مبتلا رکھا گیا۔ جبکہ میرے بارے میں تو آپ نے اچھے سلوک کی ہدایت کر رکھی ہے۔ بخدا میری جیل کی یہ کوٹھڑی میرے گھر سے بہتر ہے۔(سلطان خاموش نظروں سے کچھ دیر ابن تیمیہ کی طرف دیکھتا رہتا ہے اور پھر چلا جاتا ہے)
دسواں منظر
(سلطان کا دربار۔ نقیب ابن تیمیہ کو ساتھ لے کر داخل ہوتے ہیں)
ابن تیمیہ: سلطان معظم! کیا آپ نے مجھے یاد فرمایا ہے؟
سلطان: ہمارے عزیز ترین دوست! ہم نے آپ کی خاطر ان فقیہوں کی مخالفت قبول کی، مگر آپ کو تو جیسے ان کے غیض و غضب کی کوئی پروا ہی نہیں! مناسب ہو گا اب لوگوں سے اپنے موقف کی تفصیل بیان کریں!
ابن تیمیہ: میں دل کی گہرائیوں سے آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے لوگوں کے سامنے حق بیان کرنے کا موقع عنایت فرمایا۔ وہ سب مجھ سے محبت کرتے ہیں اور احترام کرتے ہیں۔ اللہ آپ کو برکت عطا فرمائے اور آپ کے درجات بلند فرمائے۔
سلطان: لیکن آپ نے ان فقیہوں کو تو چھوڑ دیا ہے اور ان بے چارے صوفیوں کی خبر لینی شروع کر دی ہے۔
ابن تیمیہ: فقہاء اگرچہ تاویلات کرتے ہیں، مگر ان کا تعلق کتاب اللہ اور سنت رسولؐ اللہ سے ہے، مگر سلطانِ معظم! یہ نام نہاد صوفی تو نری گمراہی اور ضلالت میں مبتلا ہیں …… دین کے نام پر سادہ لوگوں کے مال اینٹھتے ہیں۔ اس لیے علماء کا فرض ہے کہ لوگوں کو ان کی حقیقت سے مطلع کریں۔
سلطان: الشیخ نصر المنجی لوگوں کو آپ کے خلاف ابھار رہے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ …… !
ابن تیمیہ: آقا! گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ میں لوگوں کے سامنے ان کی دھوکہ دہی اور فریب کاری سے جب پردہ اٹھاؤں گا تو لوگ ان سے خود ہی دور بھاگیں گے۔
سلطان: نہیں ابن تیمیہ نہیں، اگر انھوں نے طوفانِ بد تمیزی برپا کر دیا تو آپ قطعی غیر محفوظ ہو جائیں گے۔ مجھ سے وعدہ کیجیے کہ آپ دوبارہ ان کے مقابلے میں نہیں جائیں گے!
ابن تیمیہ: سلطان المعظم! یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ وہ فرض ہے جو اس نے مجھے سونپا ہے۔ آپ کیونکر مجھ سے اس کو چھوڑ دینے کا وعدہ لے سکتے ہیں۔
سلطان: ابن تیمیہ! سنیے، اب آپ کو دمشق یا جیل دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا!
ابن تیمیہ: میں جیل کو منتخب کرتا ہوں۔
سلطان: جیل؟
ابن تیمیہ: ہاں، کیونکہ وہ مجھے دمشق سے زیادہ عزیز ہے۔
سلطان: بخدا ہم آپ کی وجہ سے سخت پریشان ہیں۔ جائیے جہاں آپ کا جی چاہے، لیکن یاد رکھیے کہ عوام سے اگر آپ کو کوئی تکلیف پہنچی تو ہم ذمہ دار نہ ہوں گے۔
ابن تیمیہ: میرا اللہ میرے لیے کافی ہے۔ وہی میرا حامی و ناصر ہے۔
گیارہواں منظر
(سلطان کا محل۔ سپہ سالار اور سلطان باتیں کر رہے ہیں)
سالار: سلطان معظم! مبارک باد دینے والے علماء و روساء کا استقبال کرتے کرتے حضور تھک گئے ہوں گے۔ کچھ دیر استراحت فرما لیجیے۔
سلطان: دیکھا تم نے سالار! یہ منافق کس طرح ہمیں مبارک باد دینے کے لیے آ رہے ہیں۔ جب جاشنکیر نے ہمارے تخت پر قبضہ کیا تھا تو اسی طرح اس کو بھی مبارک باد دیتے رہے ہوں گے۔
سالار: جی ہاں، ان لوگوں کا یہی کردار ہے، سوائے ان لوگوں کے جنھیں خداوند کریم نے برائی سے محفوظ رکھا۔ جیسے ابن تیمیہ۔
سلطان: ہم ان کے متعلق پوچھنا ہی بھول گئے۔ کہاں ہیں وہ؟
سالار: اسکندریہ میں! الشیخ نصر المنجی اور قاضی ابن خلوف جیسے لوگوں کے اکسانے پر جاشنیکر نے انھیں جلا وطن کر دیا تھا۔
سلطان:اللہ انھیں تباہ کرے …… یہ لوگ چڑھتے سورج کے پجاری ہیں۔ بخدا وہ تو ابن تیمیہ کے جوتوں کی خاک بھی نہیں۔ سالار! کسی کو فوراً بھیجو کہ ابن تیمیہ کو نہایت عزت و احترام سے ہمارے پاس لے آئے۔
(سالار سینے پر ہاتھ رکھ کر جھکتا ہے اور حکم کی تعمیل کرنے کا وعدہ کرتا ہے)
بارہواں منظر
(سلطان کا محل۔ ابن تیمیہ اور سلطان باتیں کر رہے ہیں)
سلطان: ابن تیمیہ! جو کچھ آپ ہمارے لیے کرتے رہے ہیں ہمیں اس کی برابر خبر ملتی رہی ہے۔
ابن تیمیہ: سلطان معظم! میں نے آپ کے لیے تو کچھ نہیں کیا۔ میری تمام کوششیں اور جدوجہد صرف اور صرف امت مسلمہ اور وطن عزیز کے لیے تھیں۔
سلطان: آپ کی تمام کوششیں قابل قدر ہیں۔ ابن تیمیہ! ہم ابن مخلوف اور آپ کے دوسرے حاسدوں کو دربار میں پیش کرنے کا حکم صادر کر چکے ہیں۔ اب آپ خود ان کے لیے عبرتناک سزا تجویز کیجیے۔
ابن تیمیہ: کیا اس لیے کہ یہ سب آپ کے دشمن جاشنکیرکو مبارک بادیں دیتے اور اس کے قصیدے کہتے رہے ہیں؟ آقا! میری درخواست ہے انھیں معاف فرما دیجیے۔ کیونکہ یہ سب کچھ دلی رغبت سے نہیں، بلکہ خوف کی وجہ سے کرتے رہے ہیں۔
سلطان: نہیں ابن تیمیہ، انھوں نے دشمن کی وجہ سے یہ سب کچھ کیا ہے۔ یہ آپ کے بھی کھلے دشمن ہیں۔ آپ کو سخت تکلیفیں پہنچاتے رہے ہیں۔
ابن تیمیہ: تو کیا آپ میری وجہ سے انھیں سزا دینا چاہتے ہیں؟
سلطان: ہاں آپ کی وجہ سے، ہمیں احساس ہے کہ ان کی ریشہ دوانیوں سے آپ کو بہت اذیت پہنچی ہے۔
ابن تیمیہ: اس توجہ کے لیے میں شکر گزار ہوں سلطانِ معظم! لیکن میں انھیں معاف کر چکا ہوں۔ آخر یہ علمائے دین ہیں۔ اگر آپ نے ان پر سختی کی تو علماء کے طبقہ کی توہین ہو گی۔
سلطان: الشیخ نصر المنجی کے بارے میں کیا رائے ہے، جس نے جاشنکیر کو اکسا کر آپ کو جلا وطن کروا دیا تھا؟
ابن تیمیہ: ان کا تو مجھ پر بہت بڑا احسان ہے۔
سلطان: وہ کیسے؟
ابن تیمیہ: انہی کی وجہ سے مجھے یہ موقع ملا کہ وہاں کے عوام کو بھولا ہوا سبق یاد دلاؤں جبکہ نام نہاد صوفیوں نے ان کا دین تباہ کر رکھا تھا۔
سلطان: لیکن اس نے تو سازش کرکے آپ کو اسکندریہ جلا وطن کروایا تھا کہ وہاں اس کے پیروکار آپ کو اغوا کرکے قتل کر دیں۔
ابن تیمیہ: مگر وہاں اس کی منشا کے خلاف اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی اور اس کے کتنے ہی پیروکار سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پابند ہو گئے۔
سلطان: ابن تیمیہ آپ تو یقینا عظیم انسان ہیں۔ آپ نے تو ہمیں حیران کر دیا ہے!
ابن تیمیہ: آقا! آپ کو کس چیز نے حیران کیا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں نہیں فرماتا: وان تعفوا اقرب للتقویٰ ‘‘معاف کر دینا تقویٰ کے زیادہ قریب ہے’’
سلطان: کیا واقعی آپ نے شام واپس جانے کا ارادہ فرما لیا ہے؟
ابن تیمیہ: ہاں ! سلطان معظم۔
سلطان: گویا ہماری اور آپ کی آج الوداعی ملاقات ہے؟
ابن تیمیہ: نہیں آقا! بلکہ آپ بھی مع افواج کے شام کو شرف بخشیں گے۔کیا آپ کو شام کی سرحدوں پر تاتاریوں کی نقل و حرکت کی خبر نہیں ملی؟
سلطان: ہمارے خیال میں اب وہ پیش قدمی کی جرأت نہیں کریں گے ۔
ابن تیمیہ: اگر انھیں پتا چل جائے کہ آپ فوراً ایک لشکر جرار کے ساتھ شام کی طرف کو چ کر چکے ہیں تو پھر وہ واقعی جرأت نہیں کریں گے ورنہ ……
سلطان: اچھا آپ چلیں …… ہم آپ کے فوراً بعد ہی شام پہنچ جائیں گے۔
ابن تیمیہ: نہیں، میں حضور کے ساتھ ہی جاؤں گا۔
سلطان: اس کا تویہ مطلب ہے کہ آپ اپنی بات منوانے پر بضد ہیں!
ابن تیمیہ: معاذ اللہ! سلطانِ معظم! میں تو صرف عوام کی نگہبانی کا وہ فرض ادا کر رہا ہوں جو اللہ پاک نے مجھ پر اور آپ پر عائد کیا ہے۔
سلطان: اللہ آپ کو عظمت عطا فرمائے ابن تیمیہ! میں کل ہی لشکر کو پوری تیاری کے ساتھ کوچ کا حکم دیتا ہوں۔
تیرہواں منظر
(دمشق کے عمائدین شہر سے باہر سلطان کے استقبال کے لیے کھڑے ہیں)
سلطان: ابن تیمیہ! اہل شام نہ جانے آپ کے استقبال کے لیے آئے ہیں یا میرے؟
ابن تیمیہ: وہ تو اپنے عظیم مہمان کے استقبال کے لیے آئے ہیں۔ میں تو انہی میں سے ایک ہوں۔
سلطان: بخدا یہ آپ پر جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔ شاعر نے یہ شعر یقینا آپ جیسے لوگوں کے لیے ہی کہا ہے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ابن تیمیہ: آقا، اللہ تعالیٰ جس طرح نیک دل عادل حکمران سے دین کی حفاظت کا کام لیتا ہے اسی طرح کسی اور سے نہیں۔ کوئی اور ایسی خدمات انجام دے ہی نہیں سکتا۔
سلطان: ہم نہ کہتے تھے کہ اب تاتاری آگے بڑھنے کی جرأت نہ کر سکیں گے۔
ابن تیمیہ: جب انھیں پتا چلا کہ آپ کھلی آنکھوں سے سرحدوں پر پہرہ دے رہے ہیں تو وہ واپس پلٹ گئے۔
سلطان: آپ مصر ہمارے ساتھ جائیں گے یا یہیں قیام کا ارادہ ہے؟
ابن تیمیہ: اب تو میں اپنی بوڑھی والدہ ماجدہ کے پاس ہی رہوں گا جو میری جدائی کے باعث بے قرار رہتی ہیں۔ ویسے بھی اب میں اپنے آپ کو لکھنے کے لیے وقف کر دینا چاہتا ہوں۔
سلطان: حضرت میں درخواست کرتا ہوں کہ اب اپنی کتابوں اور اپنے فتووں سے لوگوں کو دوبارہ اپنا مخالف نہ بنا لینا۔ امیر شام کو میں نے حکم دے دیا ہے کہ آپ کی ہر ضرورت کو پورا کرتا رہے۔
ابن تیمیہ: سلطان معظم! آپ کا بہت بہت شکریہ۔ مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ آقا آپ رعایا کے ضرورت مندوں کا خیال رکھیں!
(سلطان سر کی جنبش سے ایسا کرنے کا اظہار کرتا ہے)
چودھواں منظر
(امیر شام اور ابن تیمیہ باتیں کر رہے ہیں)
امیر شام: آقا! میں نے پہلے ہی لکھا تھا کہ آپ کے نئے فتووں کے بارے میں علمائے شام ضرور سلطان معظم کو لکھ بھیجیں گے۔
ابن تیمیہ: سخت حیرت ہے کہ سلطان معظم کو لکھنے کے بجائے یہ حضرات مجھ سے گفتگو کیوں نہیں کرتے۔ بھلا سلطان معظم کا ان معاملات سے کیا تعلق؟
امیر شام: علماء نے سلطان معظم کو یقین دلایا ہے کہ آپ چاروں اماموں اور تمام فقیہوں کی مخالفت کرتے ہیں۔
ابن تیمیہ: لیکن میں نے کبھی کوئی بات بے دلیل نہیں لکھی۔ اپنے فتووں میں قرآن حکیم اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دلائل دیے ہیں۔
امیر شام: سلطان معظم نے مجھے لکھا ہے کہ آپ کو تمام فتوے واپس لینے کا حکم دوں۔
ابن تیمیہ: (غصے سے) ان کو لکھ بھیجئے کہ میں قرآن و سنت کی دلیل کے علاوہ کسی کے حکم پر فتویٰ واپس لینے کو تیار نہیں ہوں۔
امیر شام: شام اور مصر میں بھی علماء آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
ابن تیمیہ: اگر پوری دنیا بھی میرے خلاف اٹھ کھڑی ہو تو بھی میں اپنے فتوے واپس لینے کو تیار نہیں۔
امیر شام: تو پھر میں مجبور ہو جاؤں گا کہ آپ کو قلعہ میں قید کر دوں۔
ابن تیمیہ: کیا یہ سلطان کا حکم ہے؟
امیر شام: جی ہاں۔
ابن تیمیہ: آپ حکم کی تعمیل فرمائیے۔
امیر شام: میرے آقا۔ میرے امام، یہ مجھ سے برداشت نہ ہو سکے گا۔
ابن تیمیہ: مجھے آپ سے کوئی شکوہ نہیں …… فرمائیے آپ مجھے قلعہ کس وقت لے کر جانا چاہتے ہیں؟
امیر شام: آپ آج رات اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہی قیام فرمائیے۔
ابن تیمیہ: سلطان معظم کے حکم کی تعمیل میری آسائش پر مقدم ہے۔
امیر شام: تاہم میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ارشاد فرمائیے۔
ابن تیمیہ: ہو سکے تو میرے بھائی زین العابدین کو میرے پاس آنے جانے کی اجازت مرحمت فرما دیجیے۔
امیر شام: ان شاء اللہ آپ کی یہ خواہش ضرور پوری ہو گی۔
پندرھواں منظر
(جیل خانے کی کوٹھڑی۔ امیر شام داخل ہوتا ہے)
ابن تیمیہ: خوش آمدید امیر شام۔ اس جیل میں آنے کی زحمت کیوں گوارا فرمائی؟ میری حقیر ذات کیا وقعت رکھتی ہے۔ فرمائیے سلطان معظم کی صحت تو ٹھیک ہے؟
امیر شام: وہ بفضل خدا بخیریت ہیں۔ آپ سنائیے آپ کیسے ہیں امام محترم؟
ابن تیمیہ: بحمداللہ جیسا آپ دیکھ رہے ہیں …… الحمدللہ یہاں تنہائی اور کامل اطمینان و سکون ہے۔
امیر شام: امامِ محترم……!
ابن تیمیہ: ارشاد فرمائیے امیر محترم!
امیر شام: آپ طلاق کے بارے میں اپنا فتویٰ واپس لے لیجیے…… تاکہ یہ مصائب ختم ہو جائیں۔
ابن تیمیہ: میں نے ابھی عرض کیا ہے کہ میں یہاں مصیبت میں نہیں راحت میں ہوں …… کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں؟
امیر شام: نہیں آقا ایسی بات تو نہیں لیکن ……!
ابن تیمیہ: لیکن۔ کیا؟
امیر شام: حضور! سلطانِ معظم کا حکم نامہ آیا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اس کا سننا بھی آپ کو تکلیف دے گا۔
ابن تیمیہ: کہیے کہیے، گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔
امیر شام: سلطان معظم کا حکم ہے کہ قلم اور کاغذ اور کتابیں آپ سے چھین لی جائیں!
ابن تیمیہ: کیاکہہ رہے ہیں آپ؟ کیا سلطان المعظم مجھ سے میری متاعِ حیات چھین لینا چاہتے ہیں۔ کتابوں اور قلم کاغذ کے بغیر میں کیسے زندہ رہ سکوں گا؟
امیر شام: سلطانِ معظم کا یہی حکم ہے۔
ابن تیمیہ: کیا علماء نے انھیں ایسا کرنے کا مشورہ دیا ہے؟
امیر شام: یقینا ایسا ہی ہو گا۔
ابن تیمیہ: لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ اگر یہ درست ہے تو آج مصائب و مشکلات کا آغاز ہو گیا! بہرحال میں صبر کروں گا۔
(امیر سر جھکا لیتا ہے اور چلا جاتا ہے)
سولہواں منظر
(ابن تیمیہ بستر علالت پر دراز ہیں۔ زین العابدین داخل ہوتا ہے)
ابن تیمیہ: (نہایت کمزور سی آواز میں) زین ! آگئے۔ زین؟ ادھر آؤ میرے بھائی…… میرے قریب آؤ!
زین: برادر محترم! کیسی طبیعت ہے آج؟
ابن تیمیہ: اللہ کا احسان و انعام ہے۔
زین: وہ درد تو دور ہو گیا ہے نا؟
ابن تیمیہ: الحمدللہ! عنقریب تمام تکلیفیں دور ہو جائیں گی۔ زین، میں اپنی منزل کے قریب ہوں۔ اگر آج آپ کو دیر ہو جاتی تو آپ تو مجھے ضرور دیکھتے، مگر میں آپ کے دیدار سے محروم رہ جاتا۔
زین: (روتے ہوئے) نہیں نہیں آپ زندہ رہیں گے۔ میرے امام۔ میرے آقا، میرے بھائی ……!
آج تو ما شاء اللہ آپ پہلے سے بہتر ہیں۔
ابن تیمیہ: ہاں! میں پہلے سے بہتر ہوں۔ میری حالت یقینا پہلے سے بہتر ہے اور ان شاء اللہ ابھی چند ہی لمحوں کے بعد رب غفور ورحیم سے ملاقات ہونے والی ہے۔
زین: اللہ ان ظالموں کو معاف نہ کرے، انھوں نے قلم کتاب چھین کر آپ کو بہت بڑی سزا دی ہے۔ انھوں نے یہ سب کچھ آپ کو ہلاک کرنے کے لیے کیا ہے۔
ابن تیمیہ: میری بات غور سے سنو زین! اس سے پہلے کہ میری زبان میرا ساتھ نہ دے۔ سنو! تمام لوگوں کو بتا دینا کہ میں نے ان سب کو معاف کر دیا ہے جو میرے ساتھ دشمنی کرتے رہے ہیں۔ سلطان معظم کو بھی جنھوں نے مجھے قید خانے میں رکھا اور بے وجہ مجھے تکالیف دیں۔ میں نے سب کو معاف کر دیا ہے سب کو! سوائے ان لوگوں کو جن کی دشمنی اللہ او اس کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تھی۔
زین: (حیران ہو کر) جی……؟
ابن تیمیہ: یہ میری وصیت ہے (اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے) آہ…… مجھے سہارا دینا …… زین……! میرے چہرے کو روبہ قبلہ کردو۔ ہاں …… ہاں …… ایسے …… مہربانی۔ شکریہ (آواز اکھڑ جاتی ہے) اللھم اغفرلی ولوالدی واللمسلمین والمسلمات والمومنین والمومنات۔ اشھد ان لا الہ الا اللہ وان محمدا عبدہ ورسولہ…… (سر ایک طرف ڈھلک جاتا ہے اور روح قفس عنصری سے پرواز کر جاتی ہے)
زین: (شدتِ غم سے انتہائی کرب میں) احمد …… احمد …… میرے بھائی …… میرے آقا…… میرے امام ……! آہ آپ کس بے کسی میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ آہ……!
لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ وانا للہ و انا الیہ راجعون۔
٭٭٭