سب کی طرح میں بھی انھیں ‘‘خاں صاحب’’ ہی کہا کرتا تھا۔ زندگی میں ان سے نام پوچھنے کی نوبت ہی نہ آئی اور کبھی جو پوچھنا بھی چاہا تو یوں محسوس ہوا جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ گلاب کے پھول کو جس نام سے بھی پکارو اس کی خوشبو تو وہی رہتی ہے۔
خاں صاحب کا ایک مخصوص حلقۂ احباب تھا جس میں وہ پیکرِ عجز و انکسار ، با وفا و باوقار، وجہ افتخار، مجسمہ پیار، دلوں کا قرار اور محنتی و باکردار جیسے ناموں سے پہچانے جاتے تھے۔ مجھے اپنی خلوت پسندی اور کم گوئی کے باعث ان کی صحبت کے زیادہ مواقع تو میسر نہ آئے مگر جب بھی آتے جاتے میری نظر ان کی کشادہ پیشانی، سرخ و سپید چہرے اور چمکدار آنکھوں پر پڑجاتی تو یوں لگتا جیسے روز وشب کا گرم و سرد ، وقت کا اتار چڑھاؤ اور زمانے کے نشیب و فراز ابھی ان سے کوسوں دور ہیں مگر یہ تو بعد کومعلوم ہوا کہ ان کے دامن کی وسعت ہی کچھ ایسی تھی کہ گردشِ دوراں کا ہر تیر و تفنگ وہ اپنے قلب و جگرپہ لے لیتے تھے اور ہمیشہ اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ صحرائے زندگی میں چلنے والی بادِ سموم ان کے کسی بھی لخت جگر تک پہنچنے نہ پائے۔ ان کے ہاتھ اپنے مولا کے حضور جب بھی اٹھتے اور ان کے لب جب بھی وا ہوتے تو ان سے یہی صدا آتی
پھلا پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
میرا ان سے گہرا تعلق نہ تھا مگر اس کے باوجود انھوں نے اپنے بیٹے کے برسرروزگار ہونے کی خوشی میں اپنے دوستوں کی جو ضیافت تھی اس میں مجھے بھی خاص طور سے بلایا تھا۔ انھیں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ بچوں کی ہر چھوٹی بڑی خوشی والدین کو کتنی عزیز ہوتی ہے۔ اس دن اتنے خوش نظر آنے والے خاں صاحب تھوڑے ہی دنوں بعد اداس رہنے لگے۔ یوں لگتا کہ جیسے اب وہ بارِ زندگی اپنے کندھوں سے اتار دینا چاہتے ہوں۔ خاں صاحب اب محفلوں سے غائب ہونے لگے۔ پتا چلا کہ صاحب فراش ہیں اور پھر خبر ملی کہ زندگی کا جبرِ مسلسل کینسر کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ بس پھر کیا تھا۔اللہ کو منظور نہ ہوا کہ عمر بھر دوسروں کا بوجھ اٹھانے والا خود بوجھ بن جائے اور ایک دن خاموشی سے پیغام اجل آن پہنچا اور خاں صاحب اداسیوں کے سائے اور گہرے کرتے ہوئے اپنے اصلی گھر کو سدھار گئے اور میں جب ان کو سفر آخرت پہ روانہ کرنے حاضر ہوا تو کہیں دور سے یہ صدا آ رہی تھی
اب وہ آئے تو کہنا کہ مسافر تو گیا
اور یہ بھی کہنا کہ بھلا اب بھی نہ جاتا لوگو
زندگی کا جبر مسلسل کوئی برداشت کرے مگر آخر کب تک!
اور آج جبکہ، خاں صاحب عرصہ ہوا اپنے گھر پہنچ چکے تو اکثر یہ خیال آتا ہے کہ دنیا میں خاں صاحب تو اور بھی ہوں گے اور ہوتے رہیں گے مگر کیا ہر خاں صاحب کو گلریز و دل آویز بھی مل جاتے ہیں۔
اس کا جواب اثبات میں دینا شاید اتنا آسان نہ ہو ۔
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
ہاں واقعی یہ نصیبوں کی بات ہی تو ہے ۔زمانے کا چلن تو یہی ہے کہ لوگ جانے والوں کو اگلے ہی روزسے بھلانے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں جیسا کہ ازہر درانی نے کہا تھا۔
اپنے ہاتھوں سے جو میں نے
گھرکے دروازے پہ اپنے
لٹکائی ہے شوق سے اپنے نام کی تختی
راہنما ہے میرے ملنے والوں کی
لیکن موت جو ناگن بن کر
ڈس لیتی ہے انساں کو
مجھ کو بھی تو ڈس لے گی
کل جب میں اس دنیا سے اٹھ جاؤں گا
میرا ملنے والا بھی کوئی نہ ہو گا
گھر کے دروازے پہ میرے نام کی تختی
بوجھ بنے گی گھر میں رہنے والوں پر
جیسے اس تختی سے میں نے
باپ کا نام مٹا کر اس پر اپنا نام لکھایا ہے
اک دن یونہی میرا وارث
میرا نام مٹا کر اس پر اپنا نام لکھائے گا
لکڑی کی یہ ظالم تختی
جب تک قائم ہے نہ جانے کتنی نسلیں کھائے گی
مگر خاں صاحب کی اولاد نے تو انہیں بھلانے کی کوششوں یا تختی سے ان کا نام مٹانے کے بجائے اور زیادہ نمایاں کرکے لکھوا دیا ہے اور خاں صاحب کے گھر کے دروازے پہ لگی اسی تختی سے اب مجھے معلوم ہوا کہ ان کا نام مظہر آصف خاں تھا۔
اللہ کریم ان کی مغفرت فرمائے اور ان پر بے حد و حساب رحمتیں نازل فرمائے۔