وہ گھڑ سواروں کا پورا دستہ تھا، گھوڑے دوڑنے کے بجائے دلکی چال چل رہے تھے۔ آپس میں باتیں بھی کر رہے تھے۔ ان کی باتوں سے مایوسی ظاہر ہورہی تھی، معلوم ہوتا تھا کہ وہ جس مہم پر نکلے ہیں، انہیں اس میں ابھی تک کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ وہ اب ایک بستی میں داخل ہو چکے تھے۔ انھوں نے اپنی رفتار مزید کم کر دی۔ اسی عالم میں ان کے ایک ساتھی نے گھوڑے کی باگیں کھینچیں اور اپنے دوسرے ساتھیوں کو رکنے کااشارہ کیا۔
‘‘کیوں رک رہے ہو بھئی؟’’
‘‘دیکھو.....آج کا شکار سامنے ہے!’’
سب نے اس کے اشارے کا پیچھا کیا۔ چند گز کے فاصلے پر خیمہ بستی میں انہیں ایک خیمے کے باہر آٹھ نو برس کا ایک لڑکا کھڑا نظر آیا۔ یہ منظر دیکھ کر ایک خوشی سے بولا:‘‘ڈاکے سے ناکامی کے بعد یہ ایک اچھا شکار نظر آیا ہے، خالی ہاتھ گھر جانے سے کچھ تو ہاتھ آنا بہتر ہے!’’ایک دوسرا سردار بولا:‘‘بڑے بے رحم ہوگئے ہو۔ ڈاکے سے ناکامی کے بعد اب اس بچے پر ہاتھ صاف کرنے کا ارادہ رکھتے ہو؟’’اشارہ کرنے والا بے رحم بولا: ‘‘تمہارے سر کی قسم ، یہ بڑا اچھا شکار ہے، ایک دو برس کے بعد اسے بیچو گے تو اچھی قیمت دے گا!’’ ‘‘یہ بچہ اچھا شکار ثابت ہوسکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ اس کا کوئی وارث آجائے، چلو قابو کر لو اسے!’’ ایک اور بولا اور اپنے ساتھیوں کو اوٹ میں جانے کا کہہ کر وہ بچے کی طرف بڑھنے لگا۔ اس نے بڑی احتیاط سے آہستہ آہستہ گھوڑا خیمے کے قریب کیا۔ بچہ اسے حیرت سے اپنی طرف آتا دیکھ رہا تھا۔ اس نے گھوڑا قریب آکر کھڑا کیا۔ گھوڑے سے اترا، بچے کو ایک مصنوعی مسکراہٹ سے دیکھا اور اس کی طرف دبے قدموں سے بڑھنے لگا۔ اس کی مسکراہٹ بچے کو دھوکا دینے میں کامیاب رہی اور بچہ ڈرنے کے بجائے اسے دلچسپی سے اپنی طرف آتے دیکھنے لگا۔ قریب آکر ڈاکو نے کسی چیل کی طرح اسے جھپٹا مار کر قابو کیا، اس کے منہ پر بڑی پھرتی سے ہاتھ بھی رکھا اور اسے اپنے گھوڑے پر ڈال کر بڑی پھرتی سے باندھا اور پھر کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر بڑی مہارت سے چھلانگ لگا کر گھوڑے پر سوار ہوا اور اسے بگٹٹ چھوڑ دیا۔ اس کے ساتھی بھی ہائے ہو کے نعرے لگاتے اس کے پیچھے ہو لیے۔
معصوم بچے کی چیخ و پکار، گھوڑے کے ٹاپوں اور غارت گروں کے قہقہوں اور نعروں میں دب گئی۔
خیمے کے اندر موجود بچے کی ماں اور اس کی نانی ابھی تک باتوں میں محو تھیں۔ انھیں اس قیامت کا ذرہ بھر علم نہ ہوسکا جو ان پر گزر چکی تھی۔ جب گھوڑوں کے بھاگنے کی آوازیں ان کے کانوں میں پڑیں تو انھیں اپنے بچے کا خیال آیا کہ کہیں وہ کسی حادثے کا شکار ہی نہ ہوجائے۔ مگر وہ نہیں جانتی تھیں کہ انہیں اب بہت دیر ہوچکی ہے۔
وہ باہر دوڑیں تو بچہ نہ پاکر رونے چلانے لگیں۔ چند لوگوں نے بتایا کہ انہوں نے بچے کو گھوڑے پر بندھے دیکھا تھا۔
یہ واقعہ ایک انہونی نہ تھا، بلکہ اس طرح کے واقعات اس دور میں عام تھے۔ پیشہ ور ڈاکو اسی طرح آتے اور لوگوں کو اغوا کر کے لے جاتے اور پھر انہیں انسانوں کی منڈی میں فروخت کر ڈالتے۔ماں پر غشی طاری ہوگئی۔ اغوا ہونے والا بچہ اس کا اکلوتا بیٹا تھا اور اپنے باپ کا بہت پیارا تھا۔ وہ بچے کے بغیر چین سے نہیں رہتا تھا۔ والد کو اپنے اس بیٹے کااس قدر خیال تھا کہ جب اس کی بیوی نے اپنی ماں کے پاس جانے کی اجازت مانگی تو اس نے پہلے اس وجہ سے انکار کر دیاتھا کہ کہیں بیٹے کو کوئی حادثہ پیش نہ آجائے۔ مگر بیوی نے ضد کر کے خاوند کو راضی کر لیا اور بیٹے کی حفاظت کابطور خاص وعدہ کیا تھا۔ اس کا میکہ یمن میں تھا۔ ماں ایک تو بیٹے کی جدائی کا صدمہ برداشت کر رہی تھی اور دوسرے اسے شوہر کے بے پناہ غصے اور ناراضی کا خوف تھا۔ اس کے آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
آخر باپ کو اس اندوہناک حادثے کا علم ہوا۔ اس پر یہ خبر بجلی بن کر گری۔ وہ اپنے سر میں خاک ڈالنے لگا۔ اس کے غم کا کسی کو اندازہ ہی نہ تھا۔ مرد ہو کر بھی وہ پھوٹ پھوٹ کر رورہا تھا۔
بیٹے کے باپ ابن شرجیل کو اچھی طرح علم تھا کہ اس طرح جب کوئی بچہ اغوا ہوتا ہے تو اسے دور دراز کے علاقے میں فروخت کردیا جاتا ہے۔ وہ یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہورہا تھا کہ نازونعم میں پلا ہوا بچہ نہ جانے اب کہاں غلامی کی ذلت سہ رہا ہوگا۔اس نے چاروں طرف گھڑ سوار دوڑا دیے۔ قریب کے تمام علاقوں میں منادی کرائی۔ ماں نے مَنتیں مانیں کہ بیٹا مل جائے تو اتنی خیرات کروں گی اور دیوتاؤں کے لیے چڑھاوے چڑھاؤں گی۔ پورا خاندان اس تلاش میں جت گیا، مگر کامیابی مقدر نہ بن سکی۔
ڈٖاکوؤں کو جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ انہوں نے کسی اچھے اور اونچے خاندان کا چشم و چراغ اڑایا ہے۔ لڑکے کی باتوں سے وہ سب کچھ جان چکے تھے۔ انہوں نے لڑکے کو بہت ہی خفیہ جگہ رکھا۔ اس کی حفاظت اس طرح کرتے رہے جس طرح قصائی اپنے بکرے کی کرتا ہے۔ پھر انہوں نے بڑی دیکھ بھال کر اسے دور دراز کے علاقے میں بیچ دیا۔ ادھر شرجیل بھی مایوس نہ ہوا وہ مسلسل کسی نہ کسی طرح اپنے بیٹے کو تلاش کرتا رہا۔ اس کا دل گواہی دیتا تھا کہ ا س بیٹا اسے ضرور ملے گا۔
اس حادثے کو کئی برس گزر گئے۔ شرجیل ایک دن اپنے گھر میں بیٹے کی یاد میں غمگین بیٹھا تھا کہ اس کے رشتہ داروں میں سے کچھ لوگ اسے ملنے آئے۔ یہ لوگ حج کر کے لوٹے تھے۔ انہوں نے ابن شرجیل کو ایک زبردست خبر سنائی:‘‘ابن شرجیل! خوش ہوجاؤ، ہم تمہارے بیٹے سے مل کر آئے ہیں!’’ ‘‘کہاں ہے میرے دل کا ٹکڑا؟ مجھے پوری بات سناؤ۔’’ ابن شرجیل کو اندیشہ تھا کہ کہیں اس کے ساتھ شادی مرگ کا معاملہ نہ ہو جائے۔رشتے داروں نے بتایا …… ‘‘اے ہمارے چچا کے بیٹے، ہم اس برس حج کرنے گئے تھے۔ وہاں ہم نے تیرہ چودہ برس کے ایک لڑکے کو دیکھا۔ اس کی شکل تمہارے بیٹے سے بہت ملتی جلتی تھی۔ ہمیں وہ تمہارا کھویا ہوا بیٹا ہی معلوم ہوا۔ ہم تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس کے پاس پہنچے اور پوچھا کہ اے شریف باپ کے بیٹے، تم کس قبیلے سے ہو؟ اس نے بتایا ‘‘بنی کلب قبیلے سے’’ ہم نے پوچھا کہ یہاں اکیلے کیوں ہو؟’’ کہنے لگا‘‘کچھ برس پہلے مجھے ڈاکوؤں نے اٹھا لیا تھا۔ پھر مجھے مکہ میں لگنے والے میں ایک میلے میں بیچ دیا اور اب میں ایک شریف اور اونچے خاندان کا غلام ہوں۔’’
‘‘کیا تم نے اسے اس کے باپ کی حالت نہ بتائی؟ یہ نہ کہا کہ تمہارے غم میں تمہارے باپ نے آنسو بہا بہا کر اپنی آنکھوں کا پانی خشک کر لیا ہے؟’’ ‘‘کیوں نہیں عزیز چچا زاد، ہم نے تمہارا اور تمہاری بیوی دونوں کا حال اس تک پہنچایا۔’’ ‘‘پھر اس نے کیا کہا؟’’ باپ نے گلوگیر آواز سے پوچھا۔ ‘‘اس نے ہمیں عجیب بات کہی.... کہنے لگا کہ میرے والد کو تسلی دینا اور کہنا کہ حوصلہ رکھے، غم نہ کرے، میں یہاں بہت آرام اور سکون سے ہوں۔’ ‘‘ہائے میری قسمت ، پتا نہیں بے چارہ کس حال میں ہوگا؟ میرا دل بہلانے کو کہہ دیا ہوگا کہ اچھا ہوں۔’’ وہ کچھ لمحے خلا میں گھورتا رہا.... پھر بولا:‘‘ارے دوستو! کیا تمہیں یقین ہے کہ وہ میرا ہی کھویا ہوا بیٹا ہے؟’’ ‘‘ہاں ، ہاں ! اس معاملے میں تو ہمیں ذرہ بھر شبہ نہیں۔ اس نے اپنا اور تمہارا نام بالکل ٹھیک ٹھیک بتایا تھا اور اسے یہ بھی یاد تھا کہ اسے خیمے سے باہر کھڑے ڈاکوؤں نے اٹھایا تھا۔’’
شرجیل اپنے بھائی کعب سے کہنے لگا.... ‘‘اے میرے ماں جائے، چلو ابھی اور اسی وقت چلو.... مجھے تو بیٹے کو دیکھے بغیر پل بھر بھی چین نہیں۔ ہم ابھی مکہ کی طرف چلتے ہیں۔’’
اور پھر ایک چھوٹا سا قافلہ اسی وقت مکہ روانہ ہوگیا۔ جس قدر جلدی ہوسکتی تھی، یہ قافلہ اتنی ہی جلدی مکہ جا پہنچا۔ بیٹے کے متعلق ابن شرجیل کو یہ بتایا جاچکا تھا کہ اسے عکاظ نامی میلے میں فروخت کیا گیا تھا اور اس کے خریدار کا نام ‘‘ حکیم بن حزام ’’ تھا ۔ یہ قافلہ مکہ آکر سیدھا حکیم کے گھر پہنچا ۔ حکیم ایک معزز قبیلے ‘‘ بنی سعد ’’ کا فرد تھا ۔ اس نے مہمان نوازی کی روایت کو نبھایا اور ابن شر جیل کو بتایا کہ اسی نے زید نامے لڑکے کو خریدا تھا ، مگر اب وہ اس کی ملکیت نہیں ۔ اس نے اسے اپنی ہمشیرہ کو تحفے میں دے دیا ہے ۔ ابن شرجیل فوراً اس کی بہن کے گھر کی طرف روانہ ہوئے ۔ وہاں پہنچ کر ان کی ملاقات ایک ایسے شخص کے ساتھ ہوئی جس کی شخصیت بہت ہی پروقار تھی ۔ اس طرح کا متاثر کن چہرہ ابن شرجیل اور اس کے ساتھیوں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ ابن شرجیل کو یہ چہرہ دیکھتے ہی یقین ہو گیا کہ اس کے بیٹے کو اس گھر سے کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا ۔ اس نے میزبان سے اپنے آنے کا مطلب بیان کیا اور کہا : ‘‘ اے معزز سردار عبداللہ کے بیٹے ، آپ اور آپ کا خاندان اللہ کے گھر کا نگہبان اور متولی ہے ۔ آپ مصیبت زدوں کی مدد اور قیدیوں کو کھانا کھلانے کی شہرت رکھتے ہیں ۔ ہم آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں کہ میرا بیٹا آپ کی ملکیت میں ہے ۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ جس قدر رقم چاہیں لے لیں ، مگر میرے بیٹے کو آزاد کر دیں ۔ میری آنکھیں اس کا پیارا چہرہ دیکھنے کو ترس رہی ہیں ۔ ’’ ‘‘ معزز مہمان ! آپ کس کی بات کر رہے ہیں ؟’’ میزبان نے انتہائی میٹھے لہجے میں پوچھا : ‘‘ میں حارثہ کے بیٹے زید کی بات کر رہا ہوں ۔’’ ‘‘ اچھا !’’ انہوں نے کہا اور سوچ میں پڑ گئے ۔
حارثہ نے میزبان کے چہرے پر تردد کے آثار دیکھے تھے ۔ وہ منزل کے اس قدر آکر ایک عجیب کیفیت محسوس کر رہا تھا ۔ پھر اس کے کانوں میں میزبان کی آواز آئی …… ‘‘کیا اس کے علاوہ آپ کے یہاں آنے کا اور کوئی مقصد نہیں ؟ ’’ ‘‘ نہیں مہربان سردار ! ہم تو بیٹے کو منہ مانگی قیمت پر لینے آئے ہیں ۔ ’’ ‘‘ تو پھر سنیے میرے پاس آپ کی تجویز سے بہتر ایک تجویز ہے ۔’’
‘‘ وہ کیا ؟’’ ‘‘ وہ یہ کہ زید کو بلائے لیتے ہیں ۔ اگر وہ آپ کو پہچان لے اور آپ کے ساتھ چلنے پر راضی ہو جائے تو اسے بخوشی لے جائیے ۔ میں اس کے عوض ایک پائی بھی نہیں لوں گا ، لیکن اگر وہ آپ کے ساتھ جانے پر رضا مند نہ ہو ا تو مجھے پسند نہیں ہو گا کہ آپ لڑکے کے ساتھ زبردستی کریں ۔’’ حارثہ اور اس کے بھائی کعب ایک ساتھ بولے …… ‘‘اے شریف زادے ! اس سے بڑھ کر اور اچھی بات کیا ہو سکتی ہے ؟ آپ نے تو حق اور انصاف سے بڑھ کر بات کی ہے ۔’’ یوں بات طے ہو گئی اور زید کو بلا بھیجا گیا ۔ جیسے ہی وہ سامنے آئے پوچھا گیا : ‘‘ کیا آپ ان بزرگوں کو پہچانتے ہیں ؟’’
‘‘ کیوں نہیں آقا ، یہ میرے والد ہیں اور یہ محترم چچا!’’
‘‘ تو زید تم مجھے بھی پہچانتے ہو ، میرا خاندان بھی تمہیں معلوم ہے ۔ میں نے جو معاملہ تم سے رکھا ہے ، اس سے بھی تم بخوبی واقف ہو ۔ فیصلہ تمہارے اختیار میں ہے ، تم پر کوئی زبردستی نہیں ۔ تم چاہوتو خوشی کے ساتھ اپنے باپ کے ساتھ جا سکتے ہو ۔ چاہو تو یہاں بھی ٹھہر سکتے ہو ، تم پر زور نہیں !’’ زید کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آگئی ۔ بولے : آپ محمد بن عبد اللہ ہیں ، قریش کے معزز سردار ہیں ۔ بھلا میرے لیے آپ سے بڑھ کر اہم کون ہو سکتا ہے؟ خدا کی قسم آپ ہی میرے ماں باپ ہو سکتے ہیں اور میں ہر گز آپ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔’’
زید کی بات جذب و مستی کی تھی ۔ محبت کا ایک سمندر تھا جو ان کے جملوں سے امڈ رہا تھا ۔ باپ اور چچا کے لیے یہ سب کچھ ناقابل تصور اور ناقابل یقین تھا ۔ باپ نہ جانے کب سے بیٹے کی محبت کا چراغ سینے میں جلائے، اسے وادی وادی تلاش کر رہا تھا ، لیکن بیٹے کا جواب سن کر حیرت اور دکھ سے بولا : ‘‘ اے زید تم پر افسوس ! تم غلامی پر آزادی کو قربان کر رہے ہو ؟ خدا کی قسم ، تمہاری تلاش میں کون سا ایسا پتھر ہو گا جو میں نے نہ الٹا ہو گا اور اب تم یہ کہہ رہے ہو کہ تم ان صاحب کو نہیں چھوڑ سکتے ، اپنے باپ کے ساتھ نہیں جانا چاہتے !’’ ‘‘ اے والد محترم ، آپ نے درست فرمایا ، لیکن میں نے ان صاحب کی ذات میں جو کچھ دیکھا ہے ، ان کو جس طرح کا پایا ہے ، اس کے بعد یہ میرے بس سے باہر ہے کہ میں انہیں چھوڑ دوں ۔’’ زید کا فیصلہ اٹل تھا ۔ باپ اور چچا حیرت سے بیٹے کا فیصلہ سن رہے تھے ۔ محمد بن عبداللہ بھی اٹھ کھڑے ہوئے ۔ انہوں نے زید کا ہاتھ پکڑا اور اس کے چچا اور والد کو بھی ساتھ آنے کے لیے کہا ۔ وہ دونوں حیران تھے کہ اب کیا معاملہ ہونے والا ہے ۔ محمد بن عبداللہ کی شخصیت کا رعب ہی ایسا تھا کہ وہ نہ پوچھ سکے کہ وہ کیا ارادہ فرما چکے ہیں ۔ چپ چاپ ساتھ چل پڑے ۔آپ وہاں سے سیدھے خانہ کعبہ پہنچے ۔ اللہ کے گھر ، لوگ وہاں معمول کے مطابق موجود تھے ۔ آپ نے وہاں اونچی آواز میں ایک اعلان کیا …… بڑا ہی اہم اعلان …… لوگ آپ کی آواز سن کر اکٹھا ہو گئے ۔ پھر آپ کی آواز گونجی : ‘‘ میں تم سب لوگوں کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ آج سے زید میرا بیٹا ہے ۔ یہ میرا وارث ہے اور میں اس کا وارث !’’ اس اعلان نے زید کے باپ اور چچا دونوں کے تنگ سینے کو کھول دیا ۔ ان کے اترے ہوئے چہروں اور مایوس آنکھوں میں ایک دم سے نئی زندگی اور نئی چمک پیدا ہو گئی ۔ حارثہ سوچ رہے تھے کہ مجھے تو بیٹے کی عزت اور بہتری سے غرض ہے ۔ اس کی خوشی عزیز ہے ۔ اگر وہ یہاں خوش ہے تو میری خوشی بیٹے کی خوشی کے ساتھ ہے ۔ انہوں نے بھی اس فیصلے کو وہیں کھڑے ہو کر قبول کرنے کا اعلان کر دیا ۔ محمد بن عبداللہ نے انہیں اجازت دی کہ جب چاہیں یہاں آکر اپنے بیٹے سے مل سکتے ہیں اور انہوں نے زید کو بھی نصیحت کی کہ وہ اپنے والدین کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے ان کے ہاں جایا کریں ۔
یہ اس دور کا واقعہ ہے جب آپ پیغمبر نہیں بنائے گئے تھے ۔ اس دن کے بعد لوگ زید کو زید بن محمد کہنے لگے۔ زید کو یہ علم نہ تھا کہ جس ہستی کو وہ اپنے والدین پر ترجیح دے رہے ہیں ، ایک دن ان کے سر پر نبوت کا تاج ہو گا ۔
٭٭٭
زید اگرچہ لڑکپن کی عمر میں تھے ، لیکن گھر میں معمول سے ہٹ کر سرگرمی دیکھ کر سوچنے پر مجبور تھے جلد ہی انہیں معلوم ہو گیا کہ ان کا گھر ایک نئے دین کا منبع بن گیا ہے اور گھر میں ہونے والی دعوتیں اور گفتگوئیں اسی سلسلے کی کڑی ہیں ۔ اسی دوران میں حضور ﷺ نے زید کو بھی اس سے آگاہ کیا اور کہا کہ وہ بھی اللہ کی توحید کو قبول کرتے ہوئے آپ کو پیغمبر مانیں ۔ بھلا زیدؓ کو اس سے کیا انکار ہو سکتا تھا ۔ فوراً کلمہ شہادت پڑھا اور اسلام کے اولین لوگوں میں اپنا شمار کرالیا ۔
زیدؓ زندگی کی ساری سختیوں میں حضور کے ہمراہ رہے اور حضور اور ان کے خاندان کے ہمراہ بھوک پیاس کی اذیتیں برداشت کیں ۔ حمزہ ؓ جب اسلام لائے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے زید ؓ کا بھائی چارہ کر دیا ۔ دونوں میں بہت جلد قریبی تعلقات استوارہو گئے اور وہ ایک دوسرے کا دم بھرنے لگے ۔
یہ مکی زندگی ہی کا واقعہ ہے کہ ایک دن اللہ کے رسول نے اپنی خادمہ ام ایمن ؓ کے متعلق فرمایا : ‘‘ اگر کوئی شخص کسی جنتی عورت سے شادی کرنا چاہے تو وہ ام ایمن سے شادی کرے ۔’’ یہ جملہ آپ نے زیدؓ کی موجودگی میں کہا تھا ۔ عرب کے اس معاشرے میں شادی بیاہ میں عمر کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی ۔ خود رسول اللہ نے سیدہ خدیجہؓ سے شادی کی تو عمروں میں بہت تفاوت تھا ۔ یہی حال ام ایمن ؓ کا تھا ۔ ان کی عمر بھی خاصی زیادہ تھی ۔ کم وبیش سیدہ خدیجہؓ جتنی ہی تھی ۔ مگر زید کے ذہن میں اللہ کے رسول ﷺ کی بات آچکی تھی ۔ انہوں نے فوراً ان سے شادی کا فیصلہ کر لیا اور اپنی خواہش کا اظہار رسول اللہ سے کر دیا ۔ آپ ﷺ نے اس نیک کام میں دیر نہ کی اور یہ شادی بخیر و خوبی انجام پائی ۔
زیدؓ کی پہلی اولاد انہی سے ہوئی اور پہلے بیٹے کا نام اسامہ رکھا گیا ۔ اس پیدائش پر مسلمانوں نے بڑی خوشی منائی تھی ۔ ہجرت کاموقع آیا تو زیدؓ کو حضور نے پہلے ہی مدینہ بھیج دیا اور وہ اسیدؓ بن حضیر انصاری کے ہاں ٹھہرے ۔ یہ قبیلہ عبدالاشہل کے سردار تھے ۔ کچھ دنوں کے بعد رسول اللہ ﷺ بھی تشریف لے آئے ۔ اس سے قبل زید ؓ رسول اللہ ﷺ کے خاندان کے ساتھ ہی رہتے تھے ۔ یہاں آکر حضور نے انہیں علیحدہ مکان میں ٹھہرایا اور اسیدؓ بن حضیر کو ان کا اسلامی بھائی بنا دیا ۔ زید ؓ کو علیحدہ کرنے میں یہ حکمت تھی کہ لوگ انہیں آزاد اور خود مختار شخص کی حیثیت سے پہچانیں ۔ ان کی اسی حیثیت کو مزید موکد کرنے کے لیے حضور ﷺ نے ایک اور اہم اقدام کیا ۔ یہ اقدام زید ؓ کے عزت و شرف کو بڑھانے کے لیے اہم سنگ میل رکھتا تھا ۔ حضورﷺ نے اپنی پھوپھی زاد سیدہ زینبؓ بن جحش سے ان کا نکاح کرا دیا ۔ یہ نکاح اس معاشرے کو اسلامی اقدار سکھلانے کی ایک اہم کڑی تھی ۔ لوگ حیرت سے اس پر گفتگو کرتے۔ ‘‘ ایک قریشی خاندان کی عورت کو ایک آزاد کردہ غلام کے ساتھ بیا ہ دیا !’’ صحابہ ؓ ا س کا جواب دیتے ۔ ‘‘ اسلام نے غلامی کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کے لیے اصلاحات اور تدریج کا راستہ اختیار کیا ہے ۔ یہ واقعہ اسی ضمن میں رونما ہوا ہے ۔’’ مدینہ کی بستی میں اس واقعے کی باز گشت ایک عرصہ تک سنائی جاتی رہی ، مگر پھر اللہ کی حکمت بالغہ نے اسی رشتے کو اسلامی معاشرے کی تربیت کے لیے ایک اور رخ دیا ۔
اس شادی کے لیے آپ ﷺ نے سیدہ زینبؓ بن جحش کو بطور خاص آمادہ کیا تھا ۔ ان کے ذہن میں یہ بات بہرکیف تھی کہ ان کی شادی ایک آزاد کردہ غلام سے ہو رہی ہے ۔ ایک تو خاندانی شرف کا تفاوت بہت تھا اور دوسرے دونوں میاں بیوی میں مزاج کا بہت فرق نکلا۔
زینبؓ بنت جحش ایک اونچے خاندان کی باوقار خاتون تھیں ۔ وہ حساس بھی تھیں اور رکھ رکھاؤ والی بھی ۔ دوسری طرف زید ؓ ایک حساس ، خوددار اور منکسرالمزاج انسان تھے ۔ وہ نبی ﷺ کی دلداریوں کے باوجود اپنے دورِ غلامی کو نہیں بھولے تھے ۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے زینبؓ کو اصرار کر کے شادی پر آمادہ کیا ہے ۔ اس پس منظر میں زینبؓ اگر اپنے فطری مزاج کے مطابق کبھی ذرا سپاٹ رویہ دکھاتیں تو زید ؓ اسے انہی معنوں میں لیتے کہ میری اہلیہ مجھ پر اپنی خاندانی برتری جتاناچاہتی ہیں ۔ چنانچہ وہ اکثر رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے اور کہتے کہ زینب اس تعلق سے خوش نہیں ہیں وہ اس کا اظہار تندو تیز لہجے میں کرتی ہیں ۔ حضور نے پہلے تو انہیں سمجھایا ، کبھی نرم لہجے میں کبھی سخت لہجے میں ۔ مگر دل کے آئینے میں آیا بال دور نہ ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا …… اللہ اس واقعے سے جو کام لینا چاہتا تھا وہ کام ہو کر رہنا تھا ۔ ایک دن وہ کچھ طے کر کے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور اپنا فیصلہ سنا دیا …… ‘‘ میں زینبؓ کو طلاق دینا چاہتا ہوں !’’ حضور نے زید کو روکا اور کہا کہ طلاق کے لیے انکی بتائی ہوئی وجہ کافی نہیں آپ کی یہ بات سن کر زیدؓ نے آپ ﷺ سے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! اگر تو آپ مجھے اللہ کا حکم پہنچا رہے ہیں کہ میں طلاق نہ دوں تو میں سر تسلیم خم کر دیتا ہوں ، لیکن اگر آپ ﷺ یہ بات ایک مشفق بزرگ کی حیثیت سے کہہ رہے ہیں تو میری گزارش یہی ہے کہ معاملہ میرے بس سے باہر ہو گیاہے ، میں مزید صبر نہیں کر سکتا ۔’’ رسول اللہ ﷺ نے زید ؓ کو بتایا کہ وہ یہ بات اللہ کے رسول کی حیثیت سے نہیں بلکہ بطور ایک انسان کے کر رہے ہیں ۔ تب زید ؓدوبارہ گویا ہوئے : ‘‘ تو پھر آپ سے گزارش ہے کہ اگر مجھے آپ ﷺ نے غلام نہیں بنایا تھا ، آزاد کیا تھا اور اپنا منہ بولا بیٹا بنایا قرار دیا تھا تو مجھے میرے فیصلوں اور ارادوں میں آزاد رہنے دیں ۔ میں زینبؓ کے ساتھ نباہ نہیں کر سکتا۔’’ یہ اس معاملے کا حرف آخر تھا ۔ اس کے بعد اللہ کے رسول زور دیتے تو جبر اور زبردستی کی حد شروع ہو جاتی۔ آپ ﷺ خاموش ہو گئے …… اور طلاق ہو گئی۔
زیدؓ کایہ اقدام کئی وجوہ سے نبی ﷺ کے لیے پریشانی کا باعث بنا ۔ ایک اس وجہ سے کہ آپ نے جس اعلی مقصد کے لیے یہ رشتہ کرایا تھا ، وہ مقصد اس طلاق سے مجروح ہو اتھا ۔ دوسری وجہ یہ کہ زینبؓ جنہوں نے نبی ﷺ کے اصرار پر رشتے کو قبول کیا تھا ، ان کی حیثیت عرفی کو بڑا نقصان پہنچا ۔ ان کا غم دہرا ہو گیا ۔ پہلے انہوں نے منافقین کے یہ طعنے سنے وہ ایک آزاد کردہ غلام کی بیوی ہیں اور اب ان کو یہ سننا پڑاکہ وہ ایک آزاد کردہ غلام کی مطلقہ ہیں ۔ اس سب معاملے میں آپ ﷺ زید ؓ کو بہت حد تک بری الذمہ سمجھتے تھے ۔ انہوں نے جو کچھ کیا ، ایک حساس اور خوددار انسان ہونے کے ناتے کیا ۔ یہ اقدام یہ تسلی کر لینے کے بعد کیا کہ اس کے ذریعے سے کسی حکم الہی سے بغاوت نہیں کر رہے ۔ یہی وجہ تھی کہ اس سب کے باوجود حضور نے زیدؓ سے کوئی شکایت نہ کی ۔ مگر معاملہ ابھی ختم نہ ہوا تھا …… اللہ کی حکمت ابھی پورا ہونا باقی تھی ۔
اللہ کے رسول ﷺ ا س سارے واقعے کا ذمہ دار اپنے آپ کو سمجھتے تھے ۔ چنانچہ صورتحال کی مکمل جانچ پرکھ کے بعد آپ کو اس کا یہی حل نظر آیا کہ آپ خود حضرت زینبؓ سے نکا ح کر لیں ۔ لیکن اس میں بھی متعدد قباحتیں تھیں ۔ ایک یہ کہ زینبؓ اس وقت نبی ﷺ کے منہ بولے بیٹے کی بیوی ہونے کے ناتے سے ، عربوں کے خود ساختہ تصور کے مطابق ، آپ کے لیے جائز نہیں تھیں ۔ چنانچہ یہ خدشہ تھا کہ منافقین کی سرکوبی سے پہلے ، اگر اس تصور کی اصلاح کے لیے قدم نہ اٹھایا گیا تو وہ اس سے بہت فتنہ اٹھائیں گے ۔ آپ ﷺ کے تردد کی دوسری وجہ یہ تھی کہ مردوں کے لیے شادیوں کی زیادہ سے زیادہ حد چار متعین کر دی گئی تھی اور نبی ﷺ کے ہاں پہلے ہی سے چار بیویاں موجود تھیں ۔ اس طرح قانوناً ان سے نکاح کی کوئی صورت موجود نہ تھی ۔ اس موقع پر اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو حکم ہوا کہ آپ یہ نکاح کریں تاکہ آپ ﷺ کے عمل سے عربوں کے ، متبنی کی بیوہ یا مطلقہ سے نکاح حرام سمجھنے کے تصور کا خاتمہ ہو جائے اور لوگوں تک معاشرت کے وہ اصول اور قدریں پہنچیں جو فطرت کے مطابق ہیں ۔ اس حوالے سے زید اسلامی شریعت کا اہم سبق دیے جانے کے کا باعث بنے اور آپ ؓ وہ واحد صحابی ہیں جن کا نام اس ضمن میں قرآن میں آیا ہے۔ سورہ احزاب میں ہے : ‘‘ پس جب زید نے اس سے اپنا رشتہ کاٹ لیا تو ہم نے ا سکو آپ ﷺ سے بیاہ دیا ، تاکہ آپ مومنوں کے لیے ، ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملے میں ، جبکہ وہ ان سے اپنا تعلق کاٹ لیں ، کوئی تنگی باقی نہ رہے ۔’’
اسی واقعے کے حوالے سے اللہ کا یہ فرمان بھی نازل ہوا…… ‘‘ لوگوں کو انکے باپ کی نسبت سے پکارو ، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ قرین قیاس ہے ۔’’
اس حکم کے آجانے کے بعد حضرت زیدؓ کو زید بن محمد ؐ کی بجائے زید ؓ بن حارثہ کہا جانے لگا اور اس ضمن میں وہ عظیم الشان آیت نازل ہوئی جس میں اللہ کے رسول ﷺ کا آخری ہونا قطعی طور پر امت کو معلوم ہوا…… ‘‘ اور محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ وہ اللہ کے رسولؐ ہیں اور انبیا کے لیے خاتم ہیں ۔’’
اللہ کی طرف سے یہ حکم آجانے کے بعد بھی منافقین کی طرف سے پروپیگنڈے کا غلیظ طوفان برپا کر دیا گیا ۔ اس طوفان کی زد میں اللہ کے رسولؐ ، سیدہ زینبؓ اور سیدنا زیدؓ تھے ۔
زیدؓ کو اس مرحلے پر منافقین کی طرف سے خوب بھڑکایا گیا ، مگر ان سے زیادہ اصل حقیقت سے کون واقف تھا۔ ان سے اگر کوئی بات کرتا تو وہ اس کا دندان شکن جواب دیتے ۔ مثلا ًمنافقین نے اعتراض کیا کہ مومنین کے لیے تو اللہ نے چار شادیوں کی حد مقرر کی ہے ، لیکن اللہ کے رسول کے لیے کیا کوئی حد نہیں ؟
زیدؓ اس کا جواب دیتے …… ‘‘ بطور رسول ان کے حقوق و فرائض ہم سے مختلف ہیں …… آپ پر چھ نمازیں فرض ہیں ۔ یعنی پانچ کے علاوہ تہجد کی نماز بھی…… اور وہ بھی کم از کم ایک تہائی رات کے قیام کے ساتھ …… پھر عام مسلمانوں کے لیے صدقہ حلال اور رسول اللہ اور ان کے افراد خانہ پر حرام …… آپ کی میراث ، آپ ؐ کے ورثا میں تقسیم نہیں ہو سکتی تھی اور آپ کی بیویاں امت کی مائیں ہیں ، ان کے ساتھ کوئی دوسرا شخص شادی نہیں کر سکتا ۔’’
زیدؓ انہیں مزید بتاتے کہ حضور خدا کے آخری پیغمبر ہیں، اس لیے انہیں اپنی زندگی میں شریعت کی تعلیم مکمل کرنا ہے ۔ اسی لیے انہوں نے عرب کی اس غیر فطری رسم کو ختم کرنے کے لیے زینبؓ سے بادل نخواستہ شادی کی ۔ اور اس حقیقت کو بھلا زینبؓ اور مجھ سے بہتر کون جانتا تھا کہ دونوں کی شادی پر سب سے زیادہ حضور ہی خو ش ہوئے تھے اور علیحدگی پر روئے تھے۔
اس واقعے کے ضمن میں حضرت زیدؓ کے اسی کردار نے ان کی وقعت نبی ؐ کی نگاہوں میں بہت بڑھا دی تھی ۔
حضرت زیدؓ عظیم سپاہی بھی تھے ۔ ان کے اندر سپہ سالارانہ خوبیاں تھیں ۔ رسول اللہؐ نے جب کوئی فوجی مہم بھیجی اور اس میں حضرت زیدؓ شامل تھے تو سرداری انہی کے سپرد کی ۔ اللہ کے رسولﷺ نے انہیں 9 دفعہ مختلف مہمات کی طرف بھیجا ۔
٭٭٭
صلح حدیبیہ کے بعد حالات اس حوالے سے اسلام کے موافق ہو گئے تھے کہ پورے عرب میں اسلام کا پیغام بلا روک ٹوک پھیلنے لگا تھا ۔ پھر فتح مکہ کے بعد جب پوراعرب گروہ در گروہ اسلام کے پرچم تلے جمع ہونے لگا تو آخری پیغمبر ہونے کی وجہ سے آپ ؐ نے اللہ کی ابدی ہدایت کو باقی دنیا میں بھی روشناس کرانے کی ذمہ داری نبھانے کا قصد کیا ۔ 8 ہجری میں بصرہ کے فرماں روا کو بھیجی جانے والی سفارت اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی ۔
رسول اللہﷺ نے حارث بن عمیرؓ کو اسلامی ریاست کا سفیر بناتے ہوئے شاہ بصری کی طرف روانہ کیا ۔ حارثؓ اردن کے مشرقی جانب سے ہوتے ہوئے جب ‘‘ موتہ’’ کے شہر سے گزرنے لگے تو انہیں روکا گیا۔ دراصل اس شہر کا والی غسانی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اور مذہباً نصرانی تھا ۔ اس نے حارث ؓ سے خط برآمد کر لیا اور اسے پڑھا ۔ خط میں شاہ بصر ی کو اسلام کی دعوت دی گئی تھی ۔ وہ اس بات پر سیخ پا ہو گیا اور بولا : ‘‘ تمہیں اور تمہارے آقا کویہ جرأت کیسے ہوئی کہ ہمارے ملک کے فرماں روا کو اپنا دین بدلنے کی طرف راغب کرو ۔’’
اس بدبخت سردار کا نام شرجیل بن عمرو تھا اور وہ شاہ بصری کی مملکت کے زیر تحت تھا ۔ اس نے فرماں برداری کا ثبوت مہیا کرنے کی خاطر اسی وقت حارثؓ کو شہید کر دیا ۔ رسول اللہؐ کو حضرت حارث ؓ کی شہادت کی خبر بذریعہ وحی دی گئی ۔ آپؐ نے صحابہؓؒ کو یہ اندوہناک خبر سنائی۔ کسی سفیر کا یوں قتل کر دیا جانا ایک بہت بڑی بات تھی۔ یہ ایک طرح سے کھلی جنگ کی دعوت تھی ۔ اگر آپ اس واقعے پردرگزر سے کا م لیتے تو یہ تاثر ملتا کہ مدینہ کی اسلامی ریاست اس قدر کمزور اور بزدل ہے کہ اپنے معزز سفیروں کے قتل پر بھی خاموش رہتی ہے ۔ اس پس منظر میں آپ نے شرجیل کو سز دینے کا اعلان کیا اور مسلمانوں کو جہاد کے لیے تیاری کرنے کا حکم دیا ۔
تین ہزارصحابہؓ کی ایک فوج تیار ہوئی آپ نے سیدنا زیدؓ کو اس کا سپہ سالار بنایا اور دوسری بہت ساری ہدایات کے ساتھ یہ بھی فرمایاکہ اگر زید شہید ہوجائیں تو جعفرطیارؓ بن ابو طالب سپہ سالار ہونگے اور اگر یہ بھی شہید کر دیے جائیں تو عبد اللہ ؓ بن رواحہ قائد لشکر ہونگے اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو مسلمان جسے مناسب سمجھیں اپنا سالار بنالیں ۔ تین ہزار کایہ لشکر رسول اللہؐ نے اپنی خصوصی نگرانی میں روانہ کیا ۔ ادھر شرجیل نے حارثؓ کو شہید کرنے کی خبر بصری کے فرماں روا کو پہنچا دی تھی اور بصری کے فرماں روا کو اچھی طرح معلوم تھا کہ مدینہ کی اسلامی ریاست شرجیل کی اس حرکت پر خاموشی سے نہیں بیٹھے گی ۔ اس نے بھی جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں ۔ اسی اثنا میں شرجیل کے جاسوسوں نے اسے اطلاع دی کہ ایک اسلامی لشکر اسے سزا دینے کے لیے مدینہ سے چل پڑا ہے ۔ شرجیل نے فوراً شاہ بصری اور شاہ بصری نے قیصر روم کو خط لکھا کہ مسلمان ان پر حملہ کرنے آرہے ہیں ۔ قیصر روم کو پہلے ہی مسلمانوں کی فتوحات اور کامیابیوں کی اطلاع مل رہی تھی ۔ اسی عالم میں جب اسے اسلامی لشکر کی اطلاع ملی تو وہ ایک لاکھ کی فوج لیکر بڑی شان وشوکت سے اپنے ملک سے روانہ ہوا ۔ راستے میں اس نے عرب کے غیر مسلم اور مشرک قبائل کو بھی اپنے ساتھ ملایا اور دو لاکھ کا ٹڈی دل لشکر موتہ کے مقام پر خیمہ زن ہو گیا ۔ ادھر مسلمان جب موتہ کے مقام پر پہنچے تو انہیں اطلاع ملی کہ ان کا مقابلہ نہ غسانیوں کے شرجیل سے ہے اور نہ ہی شاہ بصری سے بلکہ خود شہنشاہ روم دو لاکھ کے لشکر کے ساتھ ان کا انتظار کر رہا ہے ۔ یہ صورت حال قطعی طور پر اسلامی لشکر کے لیے غیر متوقع تھی ۔ لشکر کے اہم سپہ سالاروں میں باقاعدہ ایک مجلس منعقد ہوئی تاکہ کسی حتمی فیصلے پر پہنچا جائے ۔ زیدؓ بن حارثہ سمیت اکثر سرداروں کا خیال تھا کہ لشکر روانہ کرتے وقت رسول اللہ ؐ کے پیش نظر اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ ہر گز نہ تھا ۔ اس لیے پہلے رسول اللہ ؐ کو اطلاع کی جائے تب مقابلے کا فیصلہ کیا جائے ۔ مگر عبداللہ بن رواحہؓ اس رائے کے سخت مخالف تھے ۔ وہ دراصل انصار کے بڑے شاعر اور خطیب تھے ۔ ان کی جوشیلی تقریر نے اسلامی لشکر کو جنگ پر اس قدر ابھارا کہ ہر طرف نعرے بلند ہونے لگے ۔ آخر کار یہی فیصلہ ہوا کہ دشمن اگر ان کے مقابلے میں دو لاکھ بھی ہے اور ان کی تعداد صرف تین ہزار بھی ہے ۔تب بھی ہمیں ان سے ٹکرا جانا چاہیے ۔
حضرت زیدؓ اگرچہ سپہ سالار تھے اور ان کی رائے میں یہ فیصلہ درست نہیں تھا ، مگر انہیں رسول اللہؐ کی نصیحت یاد تھی کہ ساتھیوں کے مشورے کے ساتھ فیصلہ کرنا ۔ اس لیے وہ بھی جنگ کے لیے تیار ہو گئے ۔
میمنہ پر قطبہ اور میسرہ پر عبادہ بن مالک مقرر ہوئے ۔ رومی لشکر کو جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ مسلمانوں کی تعداد صرف تین ہزار ہے لیکن کیا صرف تین ہزار کی تعداد دو لاکھ کے لشکر کا مقابلہ کرے گی ؟ اس سوال کاجواب انہیں نہیں مل رہا تھا ۔ رومی یہ سوچنے پر مجبور تھے کہ مسلمانوں نے اپنا باقی لشکر کہیں چھپا کر رکھا ہوا ہے اور جب لڑائی ہوگی تو یہ لشکر کہیں سے اچانک نمودار ہوگا اور انہیں تہس نہس کر دے گا، مگر یہ لشکر کہاں ہے؟ اس کے متعلق وہ نہیں جانتے تھے۔ مگر انہیں یقین تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔ رومیوں کے کچھ لوگ بے حد مغرور تھے ، وہ مسلمانوں کے لشکر کو دیکھ دیکھ کر ہنستے کہ یہ چند لوگ ہمارا مقابلہ کریں گے۔
اس پس منظر میں جب جنگ شروع ہوئی تو مسلمان صرف اور صرف شہادت کی خاطر لڑے۔ اپنے ایمان کی پختگی نے انہیں اس محیر العقول کارنامے پر ابھارا جبکہ رومی لشکر طرح طرح کے وسوسوں اور اندیشوں میں گھرا ہوا تھا۔ زیدؓ لشکر کے قلب کے بجائے سب سے آگے تھے۔ لشکر کا ٹکراؤ ہوا تو رومیوں کو پہلی دفعہ اندازہ ہوا کہ ان کا مقابلہ دنیا کے سب سے بہادر لوگوں سے ہے۔خود حضرت زیدؓ اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے لشکر کے اندر گھس گئے۔انہوں نے اکیلے بیسیوں رومیوں کو قتل کیا، مگر آخر کار دشمن کے ان گنت نیزے ان کے جسم میں پیوست ہوگئے۔عَلَم اب بھی حضرت زیدؓ کے ہاتھ میں تھا۔ حضرت جعفر طیارؓ انہیں گرتا ہوا دیکھ کر بجلی کی سی رفتار سے آگے بڑھے اور ان کے گرنے سے قبل ہی اسے اٹھا لیا۔ اب حضرت زیدؓ کی جگہ انہوں نے لے لی تھی۔ وہ بھی اسی شان سے بڑھے اور اسی شان سے شہید ہوئے۔ جب وہ گرنے لگے تو رسول اللہﷺ کی نصیحت کے مطابق حضرت عبداللہؓ بن رواحہ آگے بڑھے، مگر ان کے پہنچنے سے قبل جس ہاتھ میں حضرت جعفرؓ نے پرچم تھام رکھا تھا وہ ہاتھ کاٹ ڈالاگیا۔ حضرت جعفرؓ نے پرچم دوسرے ہاتھ میں لے لیا۔ دشمن بھی ہر قیمت پر اسلامی پرچم گرانے پر تلا ہواتھا۔ اس نے یہ ہاتھ بھی کاٹ ڈالا۔ حضرت جعفر طیارؓ نے پرچم کو کٹے ہوئے دونوں بازوؤں میں تھام لیا۔ تب دشمن نے تلوار مار کر ان کے جسم کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا، مگر اس وقت تک حضرت عبداللہ ؓ بن رواحہ وہاں پہنچ چکے تھے اور پرچم ان کے ہاتھ آگیا تھا۔ اسے گرانے کی حسرت ان کے دل ہی میں رہی۔ اپنے دونوں پیش روؤں کی طرح حضرت عبداللہؓ بن رواحہ بھی جان توڑ کر لڑے۔ بیسیوں زخم کھائے،بیسیوں دشمن جہنم رسید کیے۔ بالآخر گرے، مگر جھنڈا ایک مرتبہ پھر چوتھے مجاہد نے تھام لیا اور ان کا نام تھا حضرت ثابت بن ارقمؓ۔ حضرت ثابت بن ارقمؓ کی اس بہادری پر اسلامی لشکر نے جن انہیں سپہ سالار بننے کے لیے کہا تو انہوں نے حضرت خالدؓ بن ولید کا نام لیا۔ حضرت خالدؓ کے نام پر سب نے اتفاق کیا اور اسلامی لشکر کی کمان انہوں نے سنبھال لی۔
حضرت خالدؓ خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ اسلامی لشکر کو رومی ٹڈی دل سے محفوظ رکھنے کے لیے کوئی انوکھا طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔ ادھر جنگ بھی جاری تھی اور اسے فوری طور پر روکنا مشکل تھا۔ حضرت خالدؓ بن ولید نے حکم دیا کہ فی الحال جنگ اسی طرح جاری رکھی جائے۔ سورج غروب ہوا تو جنگ بھی رک گئی۔ اس زمانے میں لمبی جنگوں کا یہ ہی دستور ہوا کرتا تھا کہ سپاہی رات کو آرام کرتے تھے اور اگلی صبح پھر میدان لگتا تھا۔ اس معرکے میں اسلامی لشکر نے رات کو ایک زبردست سکیم سوچی۔
جنگ شروع ہوئی تو رومیوں نے دیکھا کہ اسلامی لشکر نے اپنی ساری کی ساری فوج کی ترتیب بدل دی ہے۔ اگلی لائن پچھلی صفوں میں چلی گئی ہے اور پچھلی لائن آگے آگئی ہے یہ دیکھ کر رومی سوچنے لگے کہ یقینا مسلمانوں کو کمک پہنچ گئی ہے۔
پھر جب جنگ شروع ہوئی تو ابتدا کی جھڑپ کے بعد ہی اسلامی لشکر کی پچھلی صفیں آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگیں۔ رومیوں کا شک یقین میں بدل گیا کہ یہ ضرور کوئی چال ہے۔ کل جس لشکر نے ایک انچ پیچھے ہٹنا گورانہیں کیا تھا اور جن کے سرداروں کے ہاتھوں تلواروں پر تلواریں ٹوٹی تھیں بھلا آج اس قدر جلدی وہ کیسے شکست تسلیم کرنے کو تیار ہوں گے! یہ سوچ کر انہوں نے اسلامی لشکر کو پیچھے ہٹنے دیا اور اس کا تعاقب نہ کیا۔
ایک رومی سپہ سالار نے یہ کہا کہ مسلمان انہیں آہستہ آہستہ صحرا میں لے جانا چاہتے ہیں تا کہ وہاں انہیں گرمی میں تڑپا تڑپا کر ماریں۔ ا س نے یہ رائے دی کہ اسلامی لشکر کا پیچھا کرنے کے بجائے رومیوں کو اپنے علاقے کی طرف پلٹنا چاہیے۔
یوں اسلامی لشکر آہستہ آہستہ لڑتے ہوئے پیچھے ہٹتا گیا اور محفوظ طریقے سے محاذ جنگ سے واپس آگیا ۔ اس پوری جنگ میں مسلمانوں کے بارہ افراد شہید ہوئے اور دشمن کے ہلاک شدگا ن کی تعداد سینکڑوں تھی۔ رسول اللہ ﷺ کو حضرت زیدؓ اور دوسرے سپہ سالار ان کی شہادت کی خبر بذریعہ وحی دی گئی، آپؐ فوراً حضرت زیدؓ کے گھر روانہ ہوئے۔ اپنے والد کی شہادت کی خبر سن کر حضرت زیدؓ کی بیٹی رقیہؓ رونے لگیں۔ انہیں روتا دیکھ کر رسولﷺ بھی ضبط نہ کر سکے اور آپؐ کے آنسو بھی رواں ہوگئے۔آپؐ نے اسی وقت اعلان کیا کہ رومیوں سے ایک جنگ اور ہوگی اور اس کے سپہ سالار زیدؓ کے بیٹے اسامہؓ ہوں گے۔حضرت اسامہؓ کا لشکر تیار تھا کہ رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے۔ پھر یہ ہی لشکر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے میں گیا اور فتح و کامرانی کے ساتھ واپس لوٹا۔حضرت زیدؓ نے 54یا55برس کی عمر میں شہادت پائی۔ انہوں نے مختلف وقتوں میں متعدد شادیاں کیں۔ آپؓ کے ہاں دو لڑکے اور ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ ان میں صرف حضرت اسامہؓ ہی زندہ رہے۔
٭٭٭