مستقبل کے بارے میں ایک متحیرکن انکشاف قرآن مجید کی سورہ روم کی ابتدائی آیات میں پایا جاتا ہے جو رومی سلطنت کے مشرقی حصے میں قائم باز نطینی سلطنت سے متعلق ہے۔ ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ بازنطینی سلطنت ایک عظیم شکست سے دوچار ہوئی،لیکن یہ کہ اسے عنقریب ہی فتح نصیب ہو گی۔
ترجمہ: ‘‘الٓم۔اہل روم مغلوب ہو گئے۔نزدیک کے (نشیبی)ملک میں اور و ہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہو جائیں گے۔چند ہی سال میں۔ پہلے بھی اور پیچھے بھی خدا کا حکم ہے۔ اور اس روز مومن خوش ہو جائیں ہے۔’’(سورۃ الروم:۱۔۴)
بت پرست ایرانیوں کے ہاتھوں عیسائی بازنطینیوں کی بدترین شکست کے تقریباً سات سال بعد یہ آیات لگ بھگ۶۲۰ء میں نازل ہوئیں۔ ان آیات میں بتایا گیا کہ باز نطینی عنقریب فتح یاب ہوں گے۔ درحقیقت بازنطینیوں نے اس شکست کے فوراً بعد اتنے شدیدنقصانات اٹھائے تھے کہ ان کی بقا نا ممکن نظرآرہی تھی، کجا کہ دوبارہ فتح مند ہوں۔ اس وقت صرف ایرانی ہی نہیں،بلکہ آوار (Avars)، سلاوی( Slavs) اور لو مبارڈ (Lombards) نسلیں بھی باز نطینی سلطنت کے لیے شدید خطرات کا باعث تھیں۔آوار تو قسطنطنیہ کی فصیل شہر تک جا پہنچے تھے۔بازنطینی بادشاہ ہرکولیس نے حکم دیا کہ گرجا گھروں میں موجود سارا سونا اور چاندی پگھلا کر فوجوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے سکے بنا دیے جائیں۔جب یہ بھی نا کافی ثابت ہوئے تو پیتل کے مجسمے اور بت بھی پگھلا دیے گئے تاکہ ان کو نقدی میں بدلا جا سکے۔بہت سارے گورنروں نے بادشاہ ہر کو لیس کے خلاف بغاوت کر دی،اس طرح سلطنت ختم ہونے کو تھی۔ میسو پوٹا میا (Mesopotamia) سیلیسیا (Cilicia)، شام، فلسطین،مصر اور آرمینیا کے علاقوں میں جو پہلے بازنطینی سلطنت کے پاس تھے، ان میں بت پرست ایرانی حملہ آور داخل ہو چکے تھے۔
مختصراً یہ کہ اس دور میں پوری دنیا بازنطینی سلطنت کی تباہی کی توقع کر رہی تھی لیکن عین اسی وقت سورۂ روم کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں ، جن میں آنے والے کچھ برسوں میں بازنطینیوں کی فتح کا اعلان کیا گیا۔ یہ فتح کچھ اتنی غیر ممکن نظر آرہی تھی کہ عرب کے مشرکین تو اتنے آگے چلے گئے کہ ان آیات کا مذاق اڑانے لگے تھے اور ان کا خیال تھا کہ قرآن میں اعلان شدہ فتح بازنطینیوں کو کبھی بھی حاصل نہ ہو سکے گی۔
سورۂ روم کی ابتدائی آیات کے نزول کے تقریباً سات سال بعد دسمبر ۶۲۷ عیسوی میں بازنطینی اور ایرانی سلطنتوں کے مابین نینوا کے مقام پر ایک فیصلہ کن جنگ لڑی گئی اور اس وقت غیر متوقع طور پر بازنطینی فوجوں نے ایرانی فوجوں کو شکست فاش دی۔ کچھ مہینوں کے بعد ایرانیوں کو بازنطینیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا پڑا، جس میں ان کو حاصل شدہ علاقے مجبوراًواپس کرنے پڑے۔
بالآخر قرآن میں خدا کا اعلان ‘‘فتح روم’’ معجزانہ طور پر سچ ثابت ہوا۔
ان آیات میں ایک اور معجزہ ایک جغرافیائی حقیقت کا اعلان تھا جو اس وقت کسی کے علم میں نہ تھا۔
سورۂ روم کی تیسری آیت میں اطلاع دی گئی کہ رومیوں کو دنیا کے سب سے زیادہ نشیبی مقام پر شکست دی گئی۔قرآن کے متعدد تراجم میں ان عربی کلمات‘‘ادنی الا رض’’ کا ترجمہ ‘‘قریب کا علاقہ’’ کیا گیا ہے مگر یہ اصل الفاظ کے لغوی معنی نہیں بلکہ تمثیلی ترجمانی کی کوشش ہے۔عربی میں لفظ ‘‘ادنیٰ’’ لفظ ‘‘دینی’’ سے نکلا ہے، جس کے معنی ‘‘نشیب’’ ہیں اور ‘‘ارض’’ جس کے معنی ‘‘دنیا’’ کے ہیں۔ اس لیے اظہار ‘‘ادنی الارض’’ کے معنی ‘‘زمین پر سب سے نشیبی جگہ’’ کے ہوئے۔
یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ باز نطینی سلطنت اور ایرانیوں کے مابین لڑی گئی اس جنگ کے فیصلہ کن اور دو ٹوک معرکے،جن میں بازنطینیوں کو شکست ہوئی اور وہ یروشلم سے محروم ہوئے، واقعی دنیا کے پست ترین مقام پر ہوئے۔یہ مخصوص علاقہ بحر مردار کا طاس (Basin) ہے،جو کہ شام، فلسطین اور اردن کے نقطۂ اتصال (Intersection Point)پر واقع ہے۔ ‘‘بحر مردار(Dead Sea)’’ سطح سمندر سے ۳۹۵ میٹر کی گہرائی میں واقع ہے اور یہ واقعتا دنیا کا پست ترین مقام ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ بازنطینی دنیا کے پست ترین مقام پر شکست کھا گئے،جیسا کہ مذکورہ آیت میں بتایا گیا ہے۔
اس حقیقت کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بحر مردار کی اونچائی صرف جدید طریقہ پیمائش سے ناپی جا سکی ہے۔ اس سے پہلے کسی کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ جان سکتا کہ بحر مردار زمین کی سطح پر پست ترین مقام ہے۔لیکن اس علاقے کو قرآن کریم میں زمین پر دنیا کا پست ترین مقام کہا گیا ہے۔اس لیے یہ ایک اور ثبوت ہے کہ قرآن الہامی کلام ہے۔
(بحوالہ معارف فیچر سروس۔ کراچی)