اس کالم کو پڑھنے کے بعد ایک دفعہ پھر پچھلے شمارے میں شائع ہونے والے آواز دوست ‘‘زلزلہ اور مولوی’’ کو پڑھیے گا
حاجی صاحب نے تھیلہ الٹ دیا ، میز پر نوٹوں کا انبار لگ گیا ، میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ اتنے نوٹ اکٹھے دیکھے تھے ۔ میں پریشان ہو گیا ، حاجی صاحب پان چبا رہے تھے ۔ انہوں نے دائیں جبڑے میں دبا پان بائیں جبڑے میں منتقل کیا اور مسکرا کر بولے ‘‘ پورے ایک کروڑ روپے ہیں ’’ میں نے عرض کیا ‘‘ حضور ابھی تو آپ پچھلے ہفتے ایک کروڑ روپے لیکر آئے تھے ’’ ۔ انہوں نے اثبات میں سر ہلایا اور پان کو واپس دائیں جبڑے تلے دفن کر دیا ‘‘ یہ دوسرا کروڑ ہے میں نے دو کروڑ روپے امداد دینے کا فیصلہ کیا تھا ’’ ان کے چہرے پر اطمینان تھا میں نے پوچھا ‘‘آپ یہ رقم کس کو دیں گے’’ وہ مسکرائے ‘‘ انہیں کو جن کو میں نے پچھلے ہفتے دی تھی ’’ وہ صوفے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے ، میں نے زندگی میں پہلی بار کسی کروڑ پتی کو یوں بیٹھے دیکھا تھا ۔
حاجی صاحب سے میری یہ دوسری ملاقات تھی ، وہ کراچی کی سبزی منڈی میں بیوپار کرتے ہیں ، ان پر اللہ کا خصوصی کرم ہے ، وہ روزانہ سبزی اور فروٹ کے دو سو ٹرک بیچ لیتے ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ وہ سالانہ پچیس تیس کروڑ روپے کما لیتے ہیں، پچھلے ہفتے وہ میرے پاس آئے ، انہوں نے ایک میلا ساتھیلا گود میں رکھا اور بڑی معصومیت سے بولے ‘‘میرے پاس ایک کروڑ روپے ہیں ، میں یہ روپے زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے لایا ہوں ، آپ مہربانی کر کے مجھے کوئی مخلص ادارہ بتا دیں ’’ میں نے انہیں مشورہ دیا ‘‘ آپ یہ روپے سرکار ی فنڈ میں جمع کروا دیں ، حکومت ایک جامع نظام کے تحت متاثرین کی مدد کر رہی ہے ’’ حاجی صاحب نے انکار میں سر ہلا دیا ، میں ان کی طرف دیکھتا رہا ، وہ پان چبا کر بولے ‘‘ بھائی میاں حکومت بہت اچھی ہے ، زلزلہ زدگان کی مدد بھی کر رہی ہے مگر اس کے باوجود صدقے خیرات اور زکوۃ کی رقم حکومت کے حوالے کرنے کو دل نہیں مانتا ، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہماری رقم ضائع ہو جائے گی ، لہذا آپ براہ مہربانی کوئی دوسرا ادارہ بتا دیں’’۔ میں نے انہیں حکومتی فنڈ کے فضائل بتانے شروع کر دیے میں نے انہیں بتایا حکومت کے مختلف ادارے کس طرح عوام کے فنڈ کا اندراج کرتے ہیں ، یہ فنڈ کس کس راستے اور کس کس چینل سے ہوتے ہوئے متاثرہ علاقوں تک پہنچتے ہیں اور حکومت مستقبل میں اس فنڈ کی کیسے کیسے پڑتال کرے گی ۔ حاجی صاحب نے میری بات بڑے غور سے سنی جب میں خاموش ہو گیا تو انہوں نے انکار میں سر ہلا کر جواب دیا ‘‘ حضور آپ کی بات درست ہے ، میری عقل بھی اسے مانتی ہے لیکن اس کے باوجود دل نہیں مانتا ’’ ۔ مجھے محسوس ہوا کہ حاجی صاحب حکومت پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں چنانچہ میں نے انہیں ‘‘مولویوں ’’ کے ایک ادارے کا ان کو ایڈریس دے دیا حاجی صاحب نے مجھے سلام کیا اور رخصت ہو گئے لیکن ایک ہفتے بعد وہ دوبارہ میرے سامنے بیٹھے تھے ۔ میں نے ان سے پوچھا ‘‘ آپ مولویوں کو مزید ایک کروڑ روپے دینے جا رہے ہیں ’’ ۔ حاجی صاحب نے اثبات میں سرہلایا اور پان کو حلق میں دھکیل کر بولے ‘‘ میں نے ایک کروڑ روپے مولویوں کے فنڈ میں جمع کروائے تھے ، مولویوں کے خزانچی نے مجھے رسید دے دی ، میں کراچی واپس چلا گیا، پانچ دن بعد میں واپس آیا، سیدھا مولویوں کے کیمپ میں گیا اور میں نے ان سے پوچھا ‘‘ میں نے آپ لوگوں کوایک کروڑ روپے دیے تھے ، میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میرے روپے کہاں خرچ ہوئے ہیں ’’۔ تنظیم کا ایک رضاکار مجھے کمپیوٹر روم میں لے گیا ، کمپیوٹر پر ایک باریش نوجوان بیٹھا تھا ، رضاکار نے میرا رسید نمبر لکھوایا ، کمپیوٹر پر بیٹھے نوجوان نے بٹن دبایا اور سکرین پر میرے روپوں کی تفصیل آگئی ، نوجوان نے تفصیل پڑھنا شروع کر دی ، اس نے مجھے بتایا میری رقم میں سے اتنے لاکھ کی دوائیں خریدی ہیں ، اتنے لاکھ کے کمبل ، رضائیاں ، چادریں ، خیمے اور برتن اور اتنے لاکھ کا گھی ، آٹا، چاول اور دالیں اس کے بعد اس نے یہ بتانا شروع کیا کہ یہ سامان کس کس علاقے کے کس کس شخص کو دیا گیا ، آپ یقین کرو میرے پیسوں سے جو سامان خریدا گیا تھا اور جس جس ٹرک پر یہ سامان لاد کر متاثرہ علاقوں میں پہنچایا گیا تھا وہ ساری تفصیل کمپیوٹر میں موجود تھی ۔ آخر میں نوجوان نے مجھے ایک فہرست تھما دی، اس فہرست میں ان تمام لوگوں کے نام اور پتے درج تھے جنہیں انہوں نے میرے پیسوں سے سامان خرید کر دیا تھا ، میں یہ فہرست لیکر وہاں سے نکلا اور میں نے فہرست میں درج لوگوں کی تلاش شروع کر دی ، میں اس فہرست میں درج پندرہ مختلف خاندانوں سے ملا ، ان سب نے گواہی دی کہ اس تنظیم کے کارکنوں نے انہیں واقعی یہ سامان دیا تھا ، میں مطمئن ہو گیا اور کراچی گیا ، دوسرا کروڑ تھیلے میں ڈالا، اور یہاں آگیا ، میں یہ رقم بھی اب انہیں دے دوں گا ’’۔ میں حاجی صاحب کی بات سن کر حیران رہ گیا ، انہوں نے پان کی پوزیشن تبدیل کی اور ذرا سا مسکرا کر بولے ‘‘ لیکن اس بار میں اپنی رقم کی تصدیق کے لیے نہیں آؤں گا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ میری یہ رقم بھی جائز جگہ خرچ ہو گی ’’ ۔ حاجی صاحب نے روپے تھیلے میں ڈالے ، مجھے سلام کیا اور رخصت ہو گئے ۔
حاجی صاحب کے اس یقین کو معیشت کی زبان میں کریڈیبلٹی کہا جاتا ہے ۔ اس فلاحی تنظیم نے اپنے عمل کے ذریعے حاجی صاحب کے دل میں اپنی کریڈیبلٹی قائم کر دی ہے ۔ لہذا اب جب بھی حاجی صاحب کے پاس پیسے جمع ہونگے وہ آنکھیں بند کر کے وہی پیسے مولویوں کی اس تنظیم کی جھولی میں ڈال دیں گے ۔ یہ ایک ایسی تنظیم کی کریڈیبلٹی ہے جس پر اقوام متحدہ نے پابندی لگا رکھی ہے جبکہ دوسری طرف حکومت کی کریڈیبلٹی کا یہ عالم ہے کہ لوگ زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے اسے ایک رضائی ، ایک کمبل اور ایک خیمہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔
19 نومبر کو اسلام آباد میں ڈونرز کانفرنس تھی ، اس کانفرنس میں ہر ڈونر بار بار کہہ رہا تھا ‘‘امداد کی یہ رقم صحیح جگہ پر لگنی چاہیے ’’ حکومتی نمائندے بھی اپنی تقریروں میں ڈونرز کو یقین دہانی کرا رہے ہیں ‘‘امداد کے استعمال کے لیے ایک شفاف نظام بنایا جائے گا ’’ ۔ یہ اعتراض اور یہ جواب اعتراض ثابت کرتا ہے ہماری حکومتی مشینری کے پاس سب کچھ ہے لیکن کریڈیبلٹی نہیں ، دنیا کے تمام بڑے معیشت دان کہتے ہیں اگر کسی ادارے کی ساکھ قائم ہو تو وہ مٹی کو سونے کے بھاؤ بیچ سکتا ہے لیکن اگر اس کی ساکھ بیٹھ جائے تو اس کا خالص سونا مٹی کے بھاؤ نہیں بکتا ۔ میں سوچتا ہوں اگر جدید تعلیم اور جدید تربیت سے نا بلد مدرسے کے طالبعلم ایک ایسا شفاف نظام بنا سکتے ہیں جو حاجی صاحب جیسے ڈونرکو مطمئن کر سکتا ہے تو ہماری روشن خیال پڑھی لکھی حکومت ایسا کیوں نہیں کر سکتی ۔ چینی کہاوت ہے‘‘ جس شخص پر اس کے گھر والے اعتماد نہ کریں اسے نہ کبھی دوکان کھولنی چاہیے اور نہ ہی چندہ جمع کرنا چاہیے’’ ۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ 25 نومبر 2005 ، لاہور ۔)