جرجان سے طوس جانے والا قافلہ دامن کوہ میں پہنچا ہی تھا کہ اچانک پہاڑی کمین گاہ سے ڈاکو اس پر ٹوٹ پڑے اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوگیااور اسی دوران میں ڈاکوؤں کے سردار نے دیکھا ایک نو عمر لڑکا اپنا تھیلا چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔ اسے پکڑ کر سردار کی خدمت میں لایا گیا لڑکے نے تھیلا سینے سے چمٹا لیا تھا ۔ سردار نے تھیلا چھین لیا لڑکا منتیں اور گریہ وزاری کرنے لگا۔ تھیلے میں جو کچھ نقدی ہے، لے لو مگر میرے کاغذات واپس کر دو۔ سردار کو بڑی حیرت ہوئی کہ اس لڑکے کو نقدی کی نہیں کاغذات کی فکر ہے۔ پوچھا ‘‘صاحبزادے ان کاغذات میں کیا ہے کہ تمہیں صرف ان کی فکر دامن گیر ہے۔’’ ان میں میرا وہ علم ہے جو میں نے مسافرت کی سختیاں جھیل کر اور شب و روز مشقت اٹھا کر حاصل کیا ہے۔ یہ اگر مجھ سے چھن گیا تو میں اپنے عزیز ترین سرمایہ حیات سے محروم ہوجاؤں گا۔’’
سردار چند لمحوں کے لیے حیرت میں ڈوب گیا۔ پھر اس کی آواز ابھری‘‘میاں صاحبزادے! وہ علم کس کام کا جس کو میرے جیسے ڈاکو لے اڑیں ہم تو سنتے آئے ہیں کہ علم وہ دولت ہے جسے کوئی چرا نہیں سکتا۔’’تھیلا لڑکے کو واپس مل گیامگر اس کے دل و دماغ میں ہلچل مچ گئی سردار کے الفاظ بار بار اس کے ذہن میں گونج رہے تھے۔ ‘‘وہ علم کس کام کا جس کو میرے جیسے ڈاکو لے اڑیں۔’’ اور پھر اس لڑکے نے اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ کر لیا۔ وہ لکھے ہوئے علم پر کبھی انحصار نہیں کرے گا۔ جو کچھ سیکھے گا اسے قرطاس کے حوالے کرنے کے بجائے دل و دماغ میں نقش کرے گا.... اور اس فیصلے نے اس کی علمی زندگی کا رنگ بدل ڈالا۔
یہ نوعمر صاحبزادے محمد بن الغزالی تھے جو آگے چل کر امام زین الدین ابو حامد محمد الغزالی کے نام اور لقب سے علم و دانش اور دعو ت و عزیمت کی دنیا میں مشہور ہوئے۔ امام غزالیؒ ۴۵۰ھ میں طوس میں پید اہوئے۔ یہ طغرل سلجوقی کا آخری دور تھا۔ والد محمد بن احمد بڑے نیک اور خدا ترس شخص تھے۔ بافندگی پیشہ تھا، اگر چہ ان پڑھ تھے مگر علما اور صلحا کی صحبت نے ا ن کے ذہن و فکر کو جلا بخش دی تھی۔ امام پندرہ برس کے تھے کہ والد فوت ہوگئے۔ تحصیل علم کا بچپن ہی سے شوق تھا۔ پہلے اپنے وطن میں تعلیم پائی کچھ مدت جرجان میں رہے اور امام ابو نصر اسمعیلی سے پڑھا۔ پھر نیشا پور چلے گئے۔ امام الحرمین اپنے عہد کے سب سے بڑے عالم تھے۔ نیشا پور کے خطیب، اوقاف اسلامی کے ناظم اور مدرسہ نظامیہ کے صدرمدرس تھے۔ ابن خلکان کے الفاظ میں علمی و دینی میدان میں ان کا کوئی حریف نہ تھا۔ محراب و منبر کی زینت تھے، خطابت، درس و تدریس اور وعظ و تذکیر میں ان کی عظمت مسلم تھی۔ امام الحرمین اپنے اس باکمال شاگرد پر بے حد نازاں تھے۔ ان کی خداداد اعلیٰ صلاحیتیں مسحور کن تھیں۔ انہوں نے تعلیم و تدریس میں انہیں اپنا نائب بنا لیا تھا۔ فرمایا کرتے تھے، غزالی علم کا بحر ذخار ہیں۔ استاد کے انتقال کے بعد نیشا پور سے نکلے۔ اس وقت آپ ۲۸ برس کے تھے۔ اتنی چھوٹی عمر کے باوجود آپ کا شمار بلاد اسلامی کے چیدہ باکمال اصحاب علم و فضل میں ہونے لگا تھا۔ یہاں سے امام نظام الملک کے دربار میں پہنچے نظام الملک تک ان کی اعلیٰ علمی صلاحیتوں کی شہرت پہنچ چکی تھی وہ ان کے ساتھ بڑے اعزاز و اکرام سے پیش آیا۔ یہاں بڑے بڑے اصحاب کمال جمع تھے۔ بحث مباحثوں اور مناظروں کی محفلیں دربار کی امتیازی خصوصیت تھیں۔ امام غزالی ان بحث مباحثوں میں سب پر حاوی رہتے تھے۔ نظام الملک ان کی قابلیت و صلاحیت سے بڑا متاثرہوا۔ اس نے انہیں مدرسہ نظامیہ کا ریکٹر بنا دیا۔ مدرسہ نظامیہ اس دور میں عالم اسلام کی سب سے بڑی یونیورسٹی تھی۔ امام غزالیؒ جلد ہی علمی حلقوں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ ان کے علمی تبحر کا شہرہ دور دور تک پھیل گیا۔ تشنگان علم ہر طرف سے آپ کے حلقہ درس میں شریک ہونے کے لیے بغداد کا رخ کرنے لگے۔ امام کامرتبہ اپنے عہد کے بڑے بڑے ارکان و اعیان سلطنت سے کم نہ تھا۔ خلیفہ مقتدی باللہ کی طرف سے انہوں نے سفارت کے فرائض بھی سر انجام دیے۔
امام غزالی کا دور فلسفہ وتعقل پرستی کا دور تھا۔ یونانی فلسفیوں کی کتابیں خصوصاً ارسطو کی تصنیفات، جو عربی میں منتقل ہوچکی تھیں، مسلمانوں کے فکر و ذہن کو بری طرح متاثر کر رہی تھیں۔دینی اصطلاحات کونئے نئے معانی پہنائے جارہے تھے۔ آیات قرآنی کی نئی نئی تعبیریں کی جارہی تھیں، جو بات عقل اور فلسفے پر پوری اترتی صرف وہی قابل قبول ہوتی اور باقی ہر شے لائق استرداد۔ دوسری طرف باطنیت کا فتنہ عروج پر تھا۔ باطینت محض ایک فکری رویہ نہ تھا بلکہ وہ ایک سیاسی رویہ بھی تھا۔ باطنیوں سے عالم اسلام کا کوئی توانا اور متحرک دینی و سیاسی رہنما اور عالم و صالح شخص محفوظ نہ تھا۔فلسفہ اور باطنیت کی ان دو بلاؤں کے درمیان مسلمان ذہنی انتشار میں مبتلا حیران پریشان کھڑے تھے۔ مسلمانوں کے دانش ور طبقے کے ایک بڑے عنصر کا رحجان فلسفہ کی طرف تھا۔ باطنیت سے خوش عقیدہ عوام الناس اور عام پڑھا لکھا عنصر مرعوب و متاثرتھا۔ نتیجہ یہ تھا کہ دین کی گرفت ذہنوں اور اعمال پر ڈھیلی پڑ گئی دینی افکار و عقائد کی بنیادیں متزلزل ہوگئیں۔ دین کو زمانے کے جدیدترین تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے اس کی تراش خراش شروع ہوگئی۔ اسلا م کے خلاف ایک بغاوت عام تھی جو برپا تھی جس سے کوئی طبقہ محفوظ نہ تھا۔ اور وہ جن پر دفاع دین کی ذمہ داری عائد ہوتی تھی یا تو خود اس سیلاب بلا خیز میں بہہ رہے تھے یا بے بسی اور بے چارگی کے عالم میں مسجدوں کے حجروں اور مدرسوں کی چار دیواریوں میں پناہ گزیں ہوگئے تھے۔ اس فساد کے آگے کھڑا ہونے اور اپنے دین کا دفاع کرنے کی توفیق اللہ نے اپنے جس بندے کو دی وہ امام غزالیؒ تھے۔
امام غزالیؒ نے اپنے عہد کی اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کی تھی۔ عقلیات اور فلسفہ ان کی علمی زندگی کا اوڑھنا بچھونا تھا، شب و روز اس بحر ظلمات کی غواصی کرتے، لیکن بایں ہمہ یہ زندگی اپنے دامن میں اطمینان کا سامان نہ رکھتی تھی۔ عقلی بحثوں اور استدلالی معرکہ آرائیوں میں وہ خود شک و ریب کے کانٹوں کا شکار ہوگئے جو گردش روز و شب کے ساتھ بڑھتے چلے گئے۔ بالآخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس زندگی سے ان کا دل اچاٹ اور بیزار ہوگیا۔ اس بیزاری نے انہیں تحقیقی مطالعہ پر راغب کیا۔ وہ سال بھر تک کتابوں کے وسیع سمندر میں ڈوبے رہے۔ اس مطالعے سے ان پر فلسفے کی نا محکمی اور عقلیات کی بے مائیگی عیاں ہوگئی۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ فلسفہ اپنے دامن میں قلب و دماغ کی تشفی کا کوئی سامان نہیں رکھتا۔ اس کی بنیاد پر قائم ہونے والی افکار و نظریات کی عمارت، سطح بینوں کوتاہ فہموں کو چاہے کتنی ہی خوش نما اور پختہ و مستحکم نظر آئے، فی الحقیقت سخت بودی اور کھوکھلی ہے۔ حقیقی علم وہ ہے جو کتاب و سنت کے صاف و شفاف سرچشمے سے حاصل ہوتا ہے۔ پھر احسان و تصوف کے کوچے میں پہنچے۔ ابو طالب مکی، حارث محاسی، جنید، شبلی، بایزید بسطامی وغیرہ اجل صوفیا کے ملفوظات اور تصنیفات کا مطالعہ کیا اور آخر کار جاہ واقبال، علم و تعلم اور عزت و شہرت کی زندگی کو لات مار کر بغداد سے نکل کھڑے ہوئے۔ گیارہ برس تک دمشق، بیت المقدس، مکہ معظمہ، مدینہ منورہ اور اپنے وطن میں سخت مجاہدہ اور ریاض کی زندگی گزاری اور شک و ریب اور بے اطمینانی کے وہ تمام کانٹے نکل گئے جن سے ان کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی تھی۔ اور سکون قلب میسر آیا۔ خالص دین پر نئے سرے سے شعوری ایمان لائے۔
غزالیؒ اس سارے سفر سعادت و یقین کی روداد شوق اپنی کتاب امنقد من الضلال میں بڑے اثر انگیز پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔
آخر کار مجھ پر یہ عیاں ہوگیا کہ آخرت کی سعاد ت اگر ہے تو اس میں کہ انسان تقویٰ اختیار کرے۔ اپنے نفس کو ہوا وہوس سے باز رکھے، دار غرور کے گردو غبار کو اپنے دامن سے جھاڑ دے۔ دنیا سے اپنے قلب کا تعلق منقطع کر لے۔ ہمیشہ کے گھر کی طرف رجوع کرے اور عزم صمیم اور ہمت بلند کے ساتھ اللہ کے راستے پر گامز ن ہوجائے اور یہ سب کچھ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک جاہ و عمل سے اعراض اور دنیا کے مشاغل و علائق سے اپنے آپ کو کاٹ نہ لیاجائے۔ میں نے اپنے احوال پر نظر ڈالی تو اپنے آپ کو علائق میں چاروں طرف سے گھرا اور ان کے اندر ڈوبا ہوا پایا۔ میں نے اپنے اعمال کا جائزہ لیا، خصوصاً تدریس و تعلیم کا جو میرے نزدیک بہترین عمل تھا۔ میں نے دیکھا کہ میں ایسے علوم میں منہمک ہوں جو نہ تو آخرت کے راستے پر لے جانے والے ہیں اور نہ اس کے لیے فائدہ مند ہیں۔ پھر میں نے جس نیت سے تعلیم و تدریس کی سند بچھا رکھی تھی، اس پر غور کیا تو اسے خالصتہً غیر وجہ اللہ پایا۔ میں نے دیکھا کہ میرے اس جذبہ کا محرک و باعث جاہ کی طلب اور شہرت کی ڈونڈی پٹانا ہے، چنانچہ مجھے یقین ہوگیا کہ میں ایک انہدام پذیر گڑھے کے کنارے پر کھڑا ہوں اور اگر میں نے اپنے احوال کو نہ بدلا تو آگ کے اندر گر پڑوں گا۔میں اپنی اس حالت پر ایک مدت تک مسلسل غور کرتا رہا۔میرے دل میں شدید کشمکش بپا ہوگئی۔ ایک روز میں ہر شے سے دستکش ہو کر بغداد چھوڑ دینے کا ارادہ باندھتا اور اگلے روز اس ارادے کو توڑ دیتا۔ ایسا بھی ہوا کہ میں نے قدم اٹھانے کا فیصلہ کر لیا، مگر پھر کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ صبح طلبِ آخرت کی رغبت دل میں پیدا ہوتی اور شام خواہشات کا لشکر اس پر حملہ کردیتا اور یہ رغبت ان کی یلغار میں تہس نہس ہو کر رہ جاتی۔ حالت یہ ہوگئی کہ شہوات دنیا مجھے اپنی زنجیروں سے اپنی جانب کھینچتیں اور ایمان کا منادی پکارتا الرحیل، الرحیل.... چلو چلو، عمر تھوڑی سی باقی رہ گئی اور درپیش سفر لمبا ہے، علم و عمل کی جس دنیا میں تم کھڑے ہوئے ہو وہ ریا اور خیال کی دنیا ہے، آخرت کی تیاری اب نہیں کرو گے تو کب کرو گے۔ یہ علائق اب نہیں کاٹوگے تو کب کاٹو گے۔ چنانچہ پھر داعیہ پیدا ہوجاتا اور ہرب و قرار پر عزم غالب آجاتا... مگر شیطان پھر لوٹ آتا‘‘یہ حالت محض ایک عارضہ ہے اور یہ عارضہ جلد ہی جاتا رہے گا، اس کے آگے جھکنے سے بچو، جھک گئے اور گہن سے پاک اس ثمرو جاہ اور شان و شوکت سے دستبردار ہوگئے تو پھر ایک وقت آئے گا کہ تم اپنی اس حرکت پر پچھتاؤ گے اور پھر ان کا دوبارہ حصول آسان نہ ہوگا۔’’
دنیاوی خواہشات اور آخرت کے دواعی کے درمیان یہ کشمکش تقریباً چھ مہینے جاری رہی۔ہر وقت اضطرار کی کیفیت طاری رہتی، پھر یہ کیفیت یہاں تک بڑھ گئی کہ اللہ نے میری زبان پر تالا ڈال دیا۔ میں پڑھانے بیٹھتا تو زبان سے ایک جملہ تک ادا نہ کرپاتا۔ پھر زبان کی یہ گرہ اور بندش میرے پورے جسم و صحت پر اثر انداز ہونے لگی۔ دل ہر وقت حزن افسردگی میں ڈوبا رہتا۔ ہاضمہ کی قوت جاتی رہی۔ کھانے کا لقمہ لینے کو جی چاہتا نہ پانی کا گھونٹ پینے کو حتیٰ کہ قویٰ مضمحل اور ضعیف ہوگئے۔ طبیبوں نے بڑا علاج کیا مگر تھک ہار کر جواب دے گئے۔
ہر طرف سے عاجز و مایوس اور ہر سعی میں ناکام ہو کر میں نے اپنے اللہ سے التجا کی، ایسی التجا جو ایک مضطر انسان سارے سہارے ٹوٹ جانے کے بعد کرتا ہے اور اللہ نے جو ہر دل مضطر کی التجا قبول کرتا ہے، میری التجا قبول کر لی۔مجھ پر مشکل آسان ہوگئی۔ بغداد چھوڑدینے کا عزم ہر دوسری خواہش پر غالب آگیا۔ میں نے شام جانے کے لیے رخت سفر باندھ لیاتاہم ظاہر یہ کیا کہ میں مکہ معظمہ جارہا ہوں۔ میں چاہتا تھا کہ خلیفہ اور دوسرے اصحاب کو میرے اس ارادے کا پتا نہ چلے کہ میں بغداد کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ رہا ہوں اور اب کبھی واپس نہیں آؤں گا....
چنانچہ میں نے بغداد چھوڑ دیا اور اس کے ساتھ ہی وہ مال و متاع بھی چھوڑ دیا جو میں نے یہاں رہ کر جمع کیا تھا، اگر چہ وہ بقدر کفاف ہی تھا۔ شام میں تقریباً دو برس عزلت نشین رہا۔ اس سارے عرصے میں تزکیہ نفس، صفائے قلب اور تہذیب اخلاق کے لیے خلوت وعزلت میں ریاضت و مجاہدہ اور ذکر الٰہی کے سوا میرا اور کوئی کام نہ تھا۔ ایک مدت تک دمشق کی مسجد میں معتکف رہا۔ مسجد کے مینار پر چڑھ جاتا اور دروازہ بند کر کے دن بھر بیٹھا رہتا۔ پھر دمشق سے بیت المقدس پہنچا۔ یہاں بھی روزانہ مسجد صخرا میں جاتا اور دروازے بند کرکے اوراد و وظائف میں مصروف رہتا۔ پھر فریضہ حج اداکرنے اور مکہ و مدینہ کی برکات سے دامن دل بھرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرنے کا ذوق و شوق دل میں پیدا ہوا چنانچہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی قبر کی زیارت کرنے کے بعد حجاز کی طرف چل کھڑا ہوا۔ پھر بچوں کے بلاوے اور بہن کی محبت وطن کی طرف کھینچ لے گئی۔ یہاں بھی میں خلق خدا سے الگ تھلگ عزلت نشینی کی زندگی بسر کرنے لگا، تزکیہ قلب اور ذکر الٰہی دن رات کا وظیفہ تھا۔ زمانے کے حادثات، اہل و عیال کے اہم معاملات اور معاشی ضروریات اس خلوت و عزلت میں تشویش و فکر کا باعث بنیں۔ اس طرح خاصا وقت ان الجھنوں کو سلجھانے میں لگ جاتا۔ تاہم حالات چاہے جیسے بھی ہوتے، میں جس زندگی کو چھوڑ کر آیاتھااس کی طرف لوٹنے کا کبھی خیال تک نہ آیا... اس طرح تقریبا دس برس اور گزر گئے۔ ان خلوتوں کے دوران میں مجھ پرجن امور کا انکشاف ہوا ان کا نہ تو شمار ممکن ہے اور نہ استقصا.....’’
اس سارے عرصے میں امامؒ نے خلوت نشینی اور عزلت گزینی ہی پر اکتفا نہ کیا۔ انہیں مسلمانوں کے ہر طبقے کی فکری و علمی خرابیوں اور گمراہیوں سے آشنا ہونے کا موقع ملا تھا۔ فلسفہ زدگی، متصوفین کی گمراہی، علما کی بے عملی اور متکلمین کی موشگافیوں نے اکثر طبقات کا ایمان متزلزل اور عقائد کو بے لنگر کر دیا تھا ۔ ان خرابیوں اور کمزوریوں کے حقیقی اسباب و عوامل پر ان کی گہری مشاہداتی اور تجرباتی نظر تھی۔ مختلف علوم کے وسیع اور جامع مطالعے اور کتاب و سنت سے گہری واقفیت کی بدولت وہ بجا طور پر محسوس کر رہے تھے کہ وہ مسلمانوں کے ان فکری و عملی امراض اور عقیدہ اخلاق میں پھیلے ہوئے مقاصد کا مداوا کرنے کی استطاعت اور صلاحیت سے بہرہ ور ہیں، تاہم انہیں یہ بھی احساس تھا کہ یہ کوئی آسان کام نہیں بلکہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے۔ سارے زمانے کی مخالفت اور عداوت کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن انہیں اپنے سوا کوئی اور مرد میدان نظر نہیں آرہا تھا۔ مرض وبائی صورت اختیار کر گیا تھا اور مسیحا خود بیمار تھے۔ ایک طرف کٹھن کام اور اس راہ کی مشکلات اور صعوبتیں تھیں نیز دنیا کے ہنگاموں سے نفور وہ مزاج تھا جسے عزلت گزینی نے ایک خاص سانچے میں ڈھال دیا تھادوسری جانب فرض کا احساس تھا جو انہیں میدان میں نکلنے کی دعوت دے رہا تھا۔ ابھی وہ شش و پنج میں تھے کہ نیشا پور سے سلطان کابلاوا پہنچا کہ وہ مدرسہ نظامیہ کی زمام صدارت سنبھالیں، یہ گویا اشارۂ غیبی تھا۔ امام خلوت و عزلت ترک کر کے پھر میدان علم و عمل میں پہنچ گئے۔
امام غزالیؒ گیارہ برس کے بعد پھر مدرسہ نظامیہ میں زینت آرائے مسند درس تھے۔ مگر اس غزالی اور گیارہ برس پہلے کے غزالی میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ گیارہ برس پہلے کے غزالی میں محض ایک فلسفی ، مناظر اور جاہ و عزت کے طلب گار صاحب علم تھے جن کے سامنے متکلمانہ موشگافیوں، فلسفیانہ مباحث، مناظروں اور بے روح درس وتدریس کے سوا اور کوئی مقصد نہ تھا۔ اب وہ ایک مصلح، مجدد اور انقلابی غزالی تھے۔ امت کے طبیب او ر مسیحا جن کا ہاتھ امت کی نبض پر تھا، جس کے امراض کے مداوا کی فکر، انہیں مضطرب اور بے قرار کیے دیتی تھی۔ درس و تدریس کاشغل تھا یا تالیف و تصنیف کا سلسلہ، اب ان سب کا مقصود ایک تھا۔ اصلاح فکرو کردار۔ وہ خود المنقد من الضلال میں لکھتے ہیں:
‘‘میری پہلی اور موجودہ حالت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پہلے میں اس علم اشاعت کیا کرتا تھا جو حصول جاہ کا ذریعہ ہے، یہی میرے قول وعمل کا مقصود تھا۔ اور میں اسی کی دعوت دیا کرتا تھا۔ اب میں اس علم کی دعوت دیتا ہوں جس سے جاہ تج دینا پڑتا ہے۔ اب میں اپنی اور دوسروں کی اصلاح چاہتا ہوں۔’’اب امام غزالیؒ نے اپنی ساری جدو جہدیونانی فلسفہ اور باطنیت کی فتنہ آرائیوں کے سدباب اور اسلامی معاشرہ کی فکری و عملی غلط کاریوں پر تنقید اور اس کی اصلاح پر مرکوز کر دی۔ ان کا کام ہمہ جہتی تھا۔ اس کام کے نمایاں خدو خال یہ ہیں ـ:
انہوں نے یونانی فلسفہ کے تناقضات پر اسی کے نقطہ نظر سے تنقید کی، اس کی کمزوریوں کو آشکار کیا اور استدلال کی قوت سے ان کے افکار و تخیلات کی بے مائیگی ثابت کی۔ اس طرح فلسفہ یونان کے اس رعب و طلسم کو توڑا جس کا مسلمانوں کا دانشور طبقہ بری طرح اسیر ہوچکا تھا۔ اب تک فلسفہ اور اس کے نظریات پر دفاعی انداز میں تنقید کی جاتی رہی تھی۔ امامؒ پہلے فرد ہیں جنہوں نے مدافعانہ لہجے کے بجائے جارحانہ انداز اختیار کیا۔ اسی طرح علما کے اندر اس کے مقابلے میں جو احساس کمتری اور نفسیاتی عدم استحکام پیدا ہوگیا تھا، اسے نہ صرف دور کیا بلکہ ان کے اندر اپنے عقائد و افکار پر اعتماد و یقین پیدا کیا۔ عقلیت پرستی کے تارو پود بکھیرے اور اسلام کے اصول وعقائد کو عقلیت پرستی کے نام پر جس طرح توڑا اور مسخ کیا جارہا تھا، جس کے نتیجے میں بے اعتقادی جنم لے رہی تھی، اس کا گہرا تجزیہ کیا اور مسلمانوں کو عقلی استدلال کے ذریعے بتایا کہ تمہارے دینی عقائد کا اثبات نام نہاد معقولات کواپنانے پر منحصر نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی باطنیت کی فکری و سیاسی بنیادی پر ضرب کاری لگائی جس نے بظاہرایک نیا فلسفہ اور علم کلام اور نئی اصطلاحات وضع کر لی تھیں لیکن در حقیقت جس کی شاخیں یونانی و عجمی فلسفہ کی جڑوں ہی سے پھوٹی تھیں۔
مسلمان معاشرے کے ایک ایک طبقے پر کڑی تنقید کی اور ان اسباب و عوامل کی نشاندہی کی۔جو مسلمانوں کے دینی و اخلاقی انحطاط و زوال کے پیچھے کام کررہے تھے۔ امام کے نزدیک مسلمان معاشرے میں پھیلی ہوئی دینی ، اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں اور مقاصد کے سب سے بڑے ذمہ دار علما اور حکمران تھے۔انہوں نے ان دونوں طبقات پر کڑی نکتہ چینی کی۔ خصوصاً علما کی کمزوریوں اور ذمہ داریوں پر سیر حاصل تنقید و تبصرہ کیا۔ مزید برآں دولت مندوں اور عوام الناس کے کردار و اعمال کا ناقدانہ جائزہ لیا۔ اس طرح پورے نظام اجتماعی کے مقاصد اس کی کمزوریوں اور امراض کی نشاندہی کی اور اس میں نہ کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا کی اور نہ کسی مصلحت اور خوف کو خاطر میں لائے۔ فی الواقع یہ اس دور میں اتنا عظیم الشان کام تھا کہ امام غزالیؒ ہی کو زیب دیتا تھا۔ امام کے وسیع علم، ان کی گہری بصیرت اور ان کے کام کی عظمت کا اندازہ کرنے کے لیے ان کی کتاب احیائے علوم و الدین کامطالعہ کافی ہے،جسے یورپ کے اہل علم تک نے خراج تحسین ادا کیا ہے۔ یہ کتاب عقائد و فقہ، تزکیہ نفس اور تہذیب اخلاق اور احسان(تصوف) کے موضوعات سے بحث کرتی ہے اور بلاشبہ سمندر کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے جو حق کے طلب گاروں کو مطمئن کرتا ہے، اس میں کمال کی تاثیر ہے مولانا شبلیؒ نے ‘‘الغزالی’’ میں اس کتاب کے اس پہلو کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
‘‘احیا العلوم میں یہ عام خصوصیت ہے کہ اس کے پڑھنے سے دل پر عجیب اثر ہوتا ہے۔ ہر فقرہ نشتر کی طرح دل میں چبھ جاتا ہے، ہر بات جادو کی طرح تاثیر کرتی ہے، ہر لفظ پر وجد کی کفیت طاری ہوتی ہے۔ اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ یہ کتاب جس زمانے میں لکھی گئی خود امام صاحب تاثیر کے نشے میں سرشار تھے۔’’
اس کتاب کے مطالعے سے پتاچلتا ہے کہ امام غزالیؒ کی نظر اپنے دور کی اجتماعی زندگی پر وسیع بھی تھی اور گہری بھی۔ وہ اس اجتماعی زندگی کی خرابیوں کا بنیادی طور پر ذمہ دارعلما کو قرار دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کے نزدیک سلاطین و حکام میں پھیلے ہوئے بگاڑ کا سبب بھی علما ہیں کہ وہ اپنے فرائض سے غفلت بھی برتتے ہیں اور ان کے مقابلے میں کمزوری اور مداہنت کا مظاہر ہ بھی۔ علما کی اس ذمہ داری کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
‘‘رعیت کی خرابی کا سبب سلاطین کی خرابی ہے اور سلاطین کی خرابی کا سبب علما کی خرابی ہے۔ اگر خدا ترس قاضی اور علما ئے حق ہوتے تو سلاطین اس طرح نہ بگڑتے ۔ ان کو علما کی روک ٹوک کا کھٹکا ہوتا۔’’
امام غزالیؒ علما کی خرابی کا سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ ان علما میں اکثر دنیا کے لٹیرے بن گئے ہیں اور دولت و جاہ کی طلب ان کی زندگی کا مقصد قرار پا گئی ہے اور اس چیز نے ان سے جرأت ،حق گوئی چھین لی ہے۔مزید یہ کہ ان کے قول و فعل میں تضاد پیدا ہوگیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں:
‘‘طمع دنیا نے علما کی زبانیں گنگ کر دی ہیں اور وہ خاموش ہیں، اگر بولتے بھی ہیں تو ان کے قول اور عمل میں مطابقت نہیں ہوتی اس لیے ان کی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اگر آج بھی خلوص اور صداقت سے کام لیں اور علم کا حق اداکرنے کی کوشش کریں تو ان کو ضرور کامیابی ہو۔ کیونکہ رعیت کی خرابی سلاطین کی خرابی کا نتیجہ ہے اور علما کی خرابی کی وجہ دولت اور جاہ کی محبت کا غلبہ ہے اور جس پر دنیا کی محبت غالب آجائے وہ سلاطین اور ایمان و اکابر کا احتساب تو کیا کرے گا ادنیٰ درجے کے لوگوں کا بھی محاسبہ اور روک ٹوک نہیں کرسکتا۔’’
یہ وہ شخص تھا جس نے زندیقوں اور ملحدوں کو صاحب ایمان اور کافروں کو مسلمان بنایا، جس نے عوام و خواص کی اصلاح و تربیت کا سامان کیا اور معاشرے کے اندر اخلاق و حسین کردار کی روح پھونکی مگر بایں ہمہ وہ اپنے ہم عصر علما کے ہاتھوں سے مامون و مصؤن نہ رہ سکا۔ انہوں نے مصر کے بازاروں میں احیا کے نسخے جلائے اور امام کی سخت مخالفت کی، انہیں ضال اور مضل ٹھہرایا۔ لیکن یہ تو معاصرانہ چشمک کا نتیجہ تھا یا مسلکی تعصب کا المیہ، جب امام غزالیؒ انتقال کر گئے تو انہی لوگوں نے شہادت دی کہ :‘‘امام غزالیؒ حجۃ الاسلام تھے اور ان کی کتاب اس لائق ہے کہ آب زریں سے لکھی جائے۔’’
امام غزالیؓ دوسری مرتبہ مدرسہ نظامیہ میں تھوڑی مدت ہی رہے اس زمانے میں ایک باطنی کے ہاتھوں نظام الملک کے بیٹے اور سلجوقی سلطنت کے وزیر اعظم فخر الملک کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ (محرم ۵۰۰ھ) اس حادثے کے تھوڑے دن بعد امام مدرسہ نظامیہ سے مستعفی ہوگئے اور اپنے وطن طوس چلے گئے جہاں انہوں نے ایک مدرسہ اور خانقاہ کی بنیاد ڈالی اور علم کی روشنی سے ذہنوں کو منور اور تربیت کی سان پر سیرت و کردار کو صیقل کرنے میں مصروف ہوگئے۔ امام غزالیؒ اپنے عہد کے عظیم ترین صاحب علم و فضل تھے۔ ان کے چلے جانے سے مدرسہ نظامیہ کی زینت اور سنگھار جیسے رخصت ہوگیا۔خلیفہ المستنصرباللہ، سلجوقی سلطان سنجر بن ملک شاہ اور وزیر اعظم قوام الدین نظام الملک نے امام غزالیؒ کو خطوط لکھے کہ آپ تو جہاں بیٹھ جائیں گے وہیں اپنی شان پیدا کر لیں گے، لیکن یہاں مدرسہ نظامیہ جو سلطنت عباسیہ کی زیب و زینت اور بغداد کے ماتھے کا جھومر ہے آپ کے بغیر اپنی عظمت سے محروم ہوچکا ہے، تشریف لائیے اور اس کی مسند عالیہ کو زینت بخشیے۔ امامؒ نے ان خطوط کے جواب میں معذرت کر دی اور لکھا کہ یہاں طوس میں ڈیڑھ سو طالب علم تحصیل علم میں مصروف ہیں، یہ لوگ جو سلطنت کے دور دراز گوشوں سے یہاں آئے ہیں، انہیں میں نہیں چھوڑ سکتا اور اگر بغداد ساتھ لے چلوں تو ان کو زحمت ہوگی۔ اور دوسرے جب میں بغداد میں تھا تو میرے اہل و عیال نہ تھے۔ اب بال بچوں کا جنجال ہے اور یہ لوگ ترک وطن کی زحمت نہیں اٹھا سکتے۔ تیسرے میں نے مقام خلیل پر تین باتوں کا عہد کیا تھا کہ میں کبھی بحث و مناظرہ نہیں کروں گا، دربارِخلافت میں حاضری نہیں دوں گا اور یہ دونوں باتیں بغداد میں رہتے ہوئے ممکن نہیں۔ تیسری بات جس کا میں نے عہد کیا تھا یہ تھی کہ میں مشاہرہ اور وظیفہ قبول نہیں کروں گا۔ اور یہ وہاں اس لیے ممکن نہیں کہ بغداد میں میری کوئی جائیداد نہیں جس پر میں گزر بسر کر سکوں۔
امامؒ کو طوس میں سکونت اختیار کیے زیادہ مدت نہیں گزری تھی کہ پیک اجل آپہنچا اور امامؒ نے نہایت اطمینان و سکون کے ساتھ جو اہل اللہ کا خاصہ رہا، اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔ ان کے چھوٹے بھائی احمد غزالی اس قابل رشک موت کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
‘‘میرے بھائی ابو حامد دو شنبہ (۴جمادی الآخر۵۰۵ھ) کے دن صبح کے وقت بستر خواب سے اٹھے، وضو کیا، نماز فجر ادا کی، پھر کفن منگوایا اور آنکھوں سے لگا کر فرمایا‘‘آقا کا حکم سر آنکھوں پر’’ یہ کہہ کر قبلہ رو لیٹ گئے۔ لوگوں نے دیکھا تو روح پرواز کر چکی تھی۔’’
امام غزالیؒ دوسرے تمام آئمہ و صلحا کی طرح زاہد و متورع تو تھے ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ بڑے بے باک اور حق گو بھی تھے۔ ان کا زمانہ مطلق العنان بادشاہوں کا زمانہ تھا۔ جنہوں نے اپنے آپ کو قوانین سے بالاتر قرار دے لیا تھا۔ ان پر اعتراض کرنا اپنے آپ کو موت کے منہ میں دینے کے مترادف تھا، لیکن امام نے پوری جرأت کے ساتھ بادشاہوں، ان کے حکام اور نظام حکومت پر کھلے عام تنقید کی۔ ان کی ایک ایک کمزوری اور کوتاہی پر گرفت کی۔ یہ سلاطین و حکام لوگوں کے ضمیر بھاری عطیات اور مناصب دے کر خریدا کرتے تھے۔ اس خرید و فروخت میں بڑے بڑے علما اور مشائخ حصہ لیتے اور اس میں ذرہ برابر کراہت محسوس نہ کرتے۔ امام غزالیؒ نے اس پر سخت تنقید کی اور سلاطین و حکام کے اموال کو ناجائز اور حرام قرار دیا، چنانچہ احیا العلوم الدین میں لکھتے ہیں:‘‘بادشاہوں کے مال آج کے زمانے میں بالعموم حرمت سے خالی نہیں ہیں۔حلال مال ان کے پاس یا تو سرے سے ہوتا ہی نہیں یا بہت کم ہوتا ہے۔’’ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
‘‘آج سلاطین ان ہی لوگوں کے ساتھ یہ فیاضی کرتے ہیں جن کے بارے میں انہیں امید ہوتی ہے کہ وہ ان سے کام لے سکیں گے، ان کے لیے سہارا بنیں گے اور ان سے اپنی اغراض پوری کر سکیں گے۔ ان سے ان کے درباروں اور مجلسوں کی رونق بڑھے گی اور وہ ہمیشہ دعا گو، ثنا خوانی اور حاضرو غائب ان کی تعریف و توصیف میں لگے رہیں گے... اگر کوئی شخص اس کے لیے تیار نہیں ہوتا تو خواہ وہ امام شافعیؒ کے مرتبے کا ہو، یہ سلاطین ایک پیسہ بھی اس پر خرچ کرنا گوارا نہیں کریں گے۔ اس لیے بادشاہوں سے ایسے مال کا قبول کرنا بھی جائز نہیں جس کے متعلق یہ علم ہوکہ وہ حلال ہے، اس لیے کہ اس کے وہ نتائج ہوں گے جن کا اوپر ذکر ہوا ہے اس مال کا کیا مذکور جس کے متعلق حرام اور مشتبہ ہونا صاف ظاہر ہے۔’’امام غزالیؒ نے یہاں تک فرمایا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ ان سلاطین و حکام سے الگ تھلگ رہیں اور ان کے غلط کردار سے بغض رکھیں اور ظالمانہ افعال سے نفرت کریں۔
‘‘دوسری حالت یہ ہے کہ انسان ان سلاطین سے الگ رہیں کہ ان کاسامنا ہی نہ ہونے پائے اور یہ واجب ہے، اور اسی میں( دین و ایمان کا) تحفظ ہے۔ انسان کو ان کے مظالم کی بنا پر ان سے بغض رکھنا چاہیے۔ وہ نہ ان کی زندگی کا خواہشمند ہو نہ ان کے حالات کی جستجو رکھے نہ ان کے مقربین سے میل جول۔’’
آخری دور میں امام گورنروں اور وزرا کو اکثر خط لکھا کرتے تھے اور انہیں رعایا پر ہونے والے مظالم کی طرف توجہ دلاتے ۔ ایک وزیر کو تحریر فرمایا:‘‘ظلم حد سے گزر چکا ہے چونکہ مجھے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھنا پڑتا تھا اس لیے تقریباً ایک سال سے میں نے طوس کا قیام ترک کر دیا ہے تاکہ بے رحم اور بے حیا ظالموں کی حرکات دیکھنے میں نہ آئیں۔’’
ایک مرتبہ سلطان سنجر نے انہیں دربار میں طلب کیا تو بھرے دربار میں اس سے کہا‘‘ افسوس مسلمانوں کی گردنیں مصیبت اور تکلیف سے ٹوٹی جاتی ہیں اور تیرے گھوڑوں کی گردنیں طوقہائے زرین کے بار سے۔’’
امام غزالیؒ کی اصلاحی جدوجہد اور علمی کمالات و مساعی کا ان کے عہد پر گہرا اثر پڑا، ان کے افکار سے یورپ تک متاثر ہوا اور علم اور حریت فکر کا جھونکا اس کی زندگی میں آیا۔ تاہم ان کی جدو جہد کا ایک نقش حسیں وہ اسلامی سلطنت تھی جس کی بنیاد امام کے ایک شاگرد نے رکھی اور جسے امام صاحب کی تائید و حمایت حاصل تھی اس اسلامی سلطنت کے بارے میں مولانا شبلی نے جو کچھ اپنی کتاب الغزالی میں تحریر کیا ہے اس کے آئینے میں امام غزالیؒ کے اپنے عہد پر اثرات کا ایک اہم پہلودیکھا جاسکتا ہے:
‘‘امام صاحب کو ان باتوں (یعنی بگڑے ہوئے حکمرانوں پر تنقید وغیرہ) پر تسلی نہ تھی۔ وہ دیکھتے تھے کہ موجودہ سلطنتوں کا سرے سے خمیر ہی بگڑ گیا ہے۔ اس لیے جب تک اسلامی اصول کے موافق ایک نئی سلطنت نہ قائم کی جائے، اصل مقصد نہیں حاصل ہوسکتا، لیکن امام صاحب کور یاضت، مجاہدہ اور مراقبہ سے اتنی فرصت نہ تھی کہ ایسے بڑے کام میں ہاتھ ڈال سکتے۔ اتفاق یہ کہ جب احیا ء العلوم شائع ہوئی اور ۵۰۱ھ اسپین پہنچی تو علی بن یوسف تاشفین نے جو اسپین کا بادشاہ تھا، تعصب اور تنگ دلی سے اس کتاب کے جلانے کا حکم دیا اور نہایت بے دردی سے اس حکم کی تعمیل کی گئی۔ امام صاحب کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو سخت رنج ہوا۔ اسی اثنا میں اسپین سے ایک شخص امام صاحب کی خدمت میں تحصیل علم کے لیے آیاجس کا نام محمد بن عبداللہ تومرت تھا۔ یہ ایک نہایت معزز خاندان کا آدمی تھا اور اس کے آباؤ اجداد ہمیشہ سے آزادی پسند اور صاحب حوصلہ چلے آتے تھے۔امام صاحب کی خدمت میں رہ کر اس نے تمام علوم میں نہایت کمال پیدا کیا اور اپنے ذاتی حوصلہ یا امام صاحب کی فیض صحبت سے یہ ارادہ کیا کہ اسپین میں علی بن یوسف کی سلطنت کو مٹا کر ایک نئی سلطنت کی بنیاد ڈالے۔ یہ خیال اس نے امام صاحب کے سامنے پیش کیا۔ امام صاحب نے جو خود ایک عادلانہ سلطنت کے خواہشمند تھے اس رائے کو پسند کیا، لیکن پہلے یہ دریافت کیا کہ اس مہم کے انجام دینے کے اسباب بھی مہیا ہیں یا نہیں؟ محمد بن عبداللہ نے اطمینان دلایاتو امام صاحب نے نہایت خوشی سے اجازت دے دی.....’’
محمد بن عبداللہ تومرت نے واپس جا کر امر بالمعروف کے شعار سے ایک نئی سلطنت کی بنیاد ڈالی جو مدت تک قائم رہی اور موحدین کے لقب سے پکاری جاتی تھی۔ علی بن یوسف کی حکومت میں بدکرداری بہت پھیل گئی تھی، فوج کے لوگ علانیہ لوگوں کے گھروں میں گھس جاتے تھے اور عفت ماب خواتین کے ناموس برباد کرتے تھے۔ علی بن یوسف کے خاندان میں ایک مدت سے یہ الٹا دستور چلا آرہا تھا کہ مرد منہ پر نقاب ڈالتے تھے اور عورتیں کھلے منہ پھرتی تھیں۔ اس لحاظ سے یہ لوگ ملثمین کہلاتے تھے، محمد بن عبداللہ تومرت نے اول اول انہی دونوں برائیوں کے مٹانے پر کمر باندھی اور رفتہ رفتہ اسی سلسلہ میں شلثمین کی حکومت برباد ہو کر ایک نئی سلطنت قائم ہوگئی۔ محمد بن ومرت نے خود فرماں روائی کا قصد نہیں کیا بلکہ ایک لائق شخص کو جس کا نام عبدالمومن تھا، تخت پیش کیا۔
عبدالمومن اور اس کے خاندان نے جس طرز پر حکومت کی وہ بالکل اسی اصول کے موافق تھی، جو امام غزالی کی تمنا تھی.....
ابن خلدون عبدالمومن اور اس کی اولاد کے متعلق لکھتا ہے: ان کی حکومت کا یہ انداز تھا کہ تمام واقعات و معاملات میں ان(علما) سے مشورہ لے کر کام کیا جاتا تھا، داد خواہوں کی فرد سنی جاتی تھی اور رعایا پر عمال ظلم کرتے تھے تو ان کو سزا دی جاتی تھی۔ ظالموں کا ہاتھ روک دیا گیا تھا، شاہی ایوانوں میں مسجدیں تعمیر کی گئی تھیں، تمام سرحدی ناکے جہاں یورپ کا ڈانڈا ملتا تھا فوجی طاقت سے مضبوط کر دیے گئے تھے اور غزوات و فتوحات کو روز افزوں ترقی تھی۔’’