۱- مرض کی حالت میں انسان کے جذبات و احساسات بہت نرم ہوجاتے ہیں اور اس کے دل کے کسی گوشے میں سویا ہوا یہ خیال جاگ اُٹھتا ہے کہ سب سے بالاتر ایک ایسی ہستی بھی ہے جس کے ہاتھ میں مرض و شفا ، زندگی اور موت ہے۔ ایک مسلمان ڈاکٹر کو مریض کی اس ذہنی کیفیت کو مریض ہی کے دنیوی اور اخروی فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہیے اور اس کے جسمانی علاج کے ساتھ ساتھ اس کی روحانی صحت کے لیے بھی کوشش کرنی چاہیے۔ اس طرح مریضوں اور ان کے لواحقین کی راہ ہدایت کی طرف رہنمائی کرنا خود ڈاکٹر کے لیے بھی اجرعظیم کا ذریعہ ہوگا۔
ڈاکٹر ایک ایسا خوش نصیب انسان ہے کہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں اسے اَن گنت لوگوں سے رابطے کا موقع ملتا ہے اور یہ سب لوگ خود چل کر اس کے پاس آتے ہیں۔ اگر وہ ان لوگوں کے ساتھ رابطے کو دعوتِ دین کے لیے استعمال کرے گا تو نہ صرف ایک کثیرآبادی کی اصلاح ہوگی بلکہ یہ کام ڈاکٹر کی اخروی نجات کا ذریعہ بھی بنے گا۔
۲- ڈاکٹر کو ابتدا ہی سے یہ بات مریض اور اس کے لواحقین کے ذہن نشین کروا دینی چاہیے کہ اگرچہ ہم مرض کا بہترین علاج کرنے کی کوشش کریں گے لیکن شفا دینا اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے اس لیے اپنی ساری امیدیں اللہ تعالیٰ ہی سے وابستہ رکھیں۔ اس سے انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب ہوگی اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کے لیے انھیں قرآن میں تجویز کردہ درج ذیل نسخے کی تعلیم دینی چاہیے۔
‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ہو صبر اور نماز سے مدد لو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے’’۔ (البقرہ ۲:۱۵۳)
اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کی تلقین کرنی چاہیے اور دعا کا بہترین طریقہ نماز ہے۔ یہی تعلیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو دی جیساکہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے:
‘‘حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ ایک مرتبہ میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میری آنکھ لگ گئی تھی اور مجھے پیٹ درد کی شکایت تھی۔ حضوؐر نے مجھ سے پوچھا: ابوہریرہ! کیا تمھیں دردِشکم ہے؟ میں نے عرض کیا: ہاں یارسولؐ اللہ! آپؐ نے فرمایا: پھر تم نماز پڑھو’ نماز میں شفا ہے’’۔ (سنن ابن ماجہ)
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ سب مریض ایک صحت مند انسان کی طرح وضو کرنے اور نماز پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے ایسی صورت میں انھیں مرض کی حالت میں نماز ادا کرنے کے طریقے کی تعلیم بھی دینی چاہیے۔ مریض عورتوں کو پردے کی بھی تلقین کرنی چاہیے۔
۳- صبر’ نماز اور دعا کی تلقین کے علاوہ مریض اور اس کے لواحقین کو اللہ کا ذکر (سبحان اللّٰہ والحمدللّٰہ، ولا اِلٰہ الا اللّٰہ ، واللّٰہ اکبر ، ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم) کرنے’ استغفار (استغفر اللّٰہ الذی لا الٰہ الا ھو الحی القیوم واتوب الیہ) کرنے اور زیادہ سے زیادہ مالی صدقہ کرنے کی بھی ترغیب دلانی چاہیے۔
مریض کو یہ بات باور کرانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ بیماری اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی عذاب یا سزا نہیں ہے بلکہ اس کے لیے خطاؤں کی معافی اور اجرعظیم کا ذریعہ ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
‘‘اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر’ فاقہ کشی’ جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں: ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے’ انھیں خوشخبری دے دو کہ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایت ہوگی۔ اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں’’۔ (البقرہ ۲: ۱۵۵- ۱۵۷)
احادیث رسولؐ میں یہ مضمون اس طرح بیان ہوا ہے: ‘‘حضرت ام العلاؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسولؐ اللہ میری عیادت کو تشریف لائے اور فرمایا: ام العلا! تمھیں خوشخبری ہو’ مسلمان کی بیماری اس کے گناہوں کو یوں دُور کر دیتی ہے جیسے آگ سونے چاندی کا کھوٹ دُور کر دیتی ہے’’۔ (ابوداؤد)
‘‘حضرت عائشہ صدیقہؓ روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی یہاں تک اسے کوئی کانٹا تک نہیں چبھتا مگر اس کے ذریعے سے اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور اس کی خطائیں دُور کر دی جاتی ہیں’’۔ (مؤطا امام مالک)
۴- ہمارے معاشرے میں مریض اور اس کے لواحقین بعض اوقات ضعیف الاعتقادی کی وجہ سے شفا کے لیے ایسے ذرائع استعمال کرتے ہیں جن میں شرک کی آلائش ہوتی ہے۔ اگر ڈاکٹر کو کوئی ایسی چیز نظر آئے تو مریض کو ایسا کرنے سے منع کر دینا چاہیے۔ اس بارے میں درج ذیل حدیث ہماری رہنمائی کرتی ہے:
‘‘حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ عبداللہ بن مسعود نے میری گردن میں ایک دھاگا بندھا ہوا دیکھا۔ پوچھا یہ دھاگا کیسا ہے۔ میں نے کہا: پڑھا ہوا گنڈا ہے۔ وہ کہتی ہیں: ابن مسعود نے اسے توڑ پھینکااور فرمایا: ابن مسعود کے گھر والو! تمھیں شرک کی باتوں سے بے نیاز رہنا چاہیے۔ میں نے رسولؐ اللہ سے خود سنا ہے آپؐ فرماتے تھے کہ جھاڑ پھونک’ نظر کے لیے منکے اور زوجین کے لیے محبت کے جادو’ یہ سب باتیں شرک ہیں’’۔ (ابوداؤد)
یہاں یہ بات بتا دینا ضروری ہے کہ اس حدیث میں زمانۂ جاہلیت کے تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک کا ذکر ہے جوکہ غیراللہ کے نام پر کیے جاتے تھے۔ لیکن قرآنی آیات اور مسنون دعاؤں کے ذریعے تعویذ کرنا یا پھونکنا شرک نہیں ہے۔
۵- ایک مسلمان ڈاکٹر کو مریضوں کا مناسب علاج کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے شفا کی دعا بھی کرنی چاہیے۔ یہ بھی مریض کے حق میں ایک صدقہ ہے اور اس سے ڈاکٹر بھی اجر کا مستحق ہوگا اور دعا کی قبولیت سے مریض کو بھی فائدہ حاصل ہوگا۔ اس بارے میں درج ذیل حدیث ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
‘‘حضرت ابودرداؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کی اپنے بھائی کے لیے غائبانہ دعا قبول ہوتی ہے اور اس کے پاس ایک فرشتہ ہے جس کے ذمے یہ کام ہے کہ جب وہ اپنے کسی بھائی کے لیے (غائبانہ) کوئی اچھی دعا کرے تو وہ کہتا ہے کہ تیری یہ دعا اللہ قبول کرے اور تجھے بھی وہی خیر عطا فرمائے (جو تو نے اپنے بھائی کے لیے مانگی ہے)’’ (صحیح مسلم)
مریض سے متعلق دعا کا ایک پہلو اور بھی ہے جس کی درج ذیل احادیث میں نشاندہی کی گئی ہے:
‘‘حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مریض کی عیادت کیا کرو اور اس سے درخواست کیا کرو کہ وہ تمھارے لیے اللہ سے دعا کرے کیوں کہ مریض کی دعا بلاشبہ مقبول ہوتی ہے اور اس کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں’’۔ (الترغیب والترہیب)
‘‘حضرت عمرؓ بن خطاب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ تو اس سے درخواست کرو کہ وہ تمھارے حق میں دعا کرے کہ اس کی دعا فرشتوں کی مانند ہوتی ہے’’۔ (سنن ابن ماجہ)
۶- مسنون دعائیں: اللہ تعالیٰ کو یہ بات بے حد پسند ہے کہ اس کے بندے اس کے حضور دعاؤں کا نذرانہ پیش کریں۔ اپنی حاجتیں اس سے مانگیں’ اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں۔ وہ سمیع الدعا (دعاؤں کا سننے والا) اور مجیب الدعوات (دعائیں قبول کرنے والا) ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
‘‘تمھارا رب کہتا ہے مجھ سے دعا مانگو میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔ جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ضرور وہ ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے’’۔ (المومن: ۶۰)
‘‘جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے پوچھیں تو آپ کہہ دیں کہ میں ان کے قریب ہی ہوں۔ ہر مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں ۔ پس وہ مجھ سے ہی مانگیں اور مجھی پر ایمان لائیں تاکہ وہ راہِ ہدایت پالیں’’۔ (البقرہ: ۱۸۶)
احادیث میں یہ مضمون یوں بیان کیا گیا ہے:
‘‘حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک کوئی چیز اور کوئی عمل دعا سے زیادہ عزیز نہیں ہے’’۔ (ترمذی)
‘‘حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ سے نہ مانگے اللہ اس پر ناراض ہوتا ہے’’۔ (ترمذی)
یوں تو مریض اور اس کے لواحقین’ اپنی زبان میں بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرسکتے ہیں’ اللہ سب دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول اور عمل سے اُمت کو قرآن و حدیث سے کئی خاص ایسی دعائیں بھی سکھلائی ہیں جن کے ذریعے سے مریض اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے مرض کی شفا کے لیے درخواست کرسکتا ہے۔ ایک اسلامی معاشرہ میں یا مسلمان ڈاکٹروں کے زیرنگرانی قائم شدہ ہسپتالوں’ نرسنگ ہومز اور کلینکس میں اس بات کا اہتمام کیا جانا چاہیے کہ یہ دعائیں مریضوں اور ان کے لواحقین کو سکھائی جائیں۔ اس کے لیے مختصر دو صفحے چھاپ کر بھی مہیا کیے جا سکتے ہیں۔ اسلامی اصلاحی تنظیمیں بھی یہ کام کرسکتی ہیں۔
دعاؤں کی فہرست ویسے تو خاصی طویل ہے لیکن مندرجہ ذیل دعاؤں کا خاص اہتمام کیا جاسکتا ہے۔
٭ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوتے تو اپنے اُوپر معوذات (قرآن کی آخری تین سورتیں: اخلاص، فلق اورناس) پڑھ کر اپنے آپ پر دم کیا کرتے تھے۔ (مرض الموت میں) جب آپؐ کی بیماری شدید ہوگئی تو پھر میں یہ سورتیں پڑھ کر آپؐ پر دم کرتی تھی اور برکت کے لیے خود آپؐ ہی کے ہاتھ آپ کے جسم پر پھیرتی تھی…… اس حدیث کے ایک راوی امام زہریؒ سے پوچھا گیا کہ حضوؐر کیسے دم کیا کرتے تھے تو انھوں نے بتایا کہ حضوؐر اپنے ہاتھوں پر دم کرتے پھر انھیں اپنے چہرے پر پھیر لیتے’’۔ (بخاری)
٭ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت ایوب علیہ السلام جب شدید بیمار ہوئے تو انھوں نے بھی بہت مختصر الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے اپنی صحت کے لیے دعا مانگی ان کی دعا ہم ان الفاظ میں مانگ سکتے ہیں:رب انی مسنی الضر وانت ارحمُ الراحمین ط (اے میرے رب! مجھے ایک بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے)
٭ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا درج ذیل قول نقل کیا گیا ہے:
واذا مرضتُ فھو یشفینط (الشعراء: ۸۰) ‘‘اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ اللہ ہی مجھے شفا دیتا ہے’’۔
یہ آیت بھی اللہ تعالیٰ سے شفا طلب کرنے کے لیے بار بار پڑھی جا سکتی ہے۔
٭ مختلف احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درج ذیل سورتوں اور آیات کو انتہائی اعلیٰ فضیلت کا حامل قرار دیا ہے۔
سورۃ فاتحہ’ سورۃ اخلاص ’ آیت الکرسی’
سورۃ البقرہ کی آخری دو آیتیں (امن الرسول سے ختم سورہ تک)
سورۃ آل عمران کی آخری آیات (ان فی خلق السموات سے ختم سورہ تک)
حضرت علیؓ نے سارے قرآن کو ہی امراض کا بہترین علاج قرار دیا ہے۔ قرآن کی تلاوت اور خصوصاً مندرجہ بالا سورتوں اور آیات پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شفا حاصل کی جاسکتی ہے۔
٭ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور ان الفاظ میں میرے لیے دعا کی:
اللّٰھم اشفِ سعدًا ، اللّٰھم اشف سعدًا- (اے اللہ سعد کو شفا عطا فرما’ اے اللہ سعد کو شفا عطا فرما)۔ (مسلم)
عیادت کرنے والے لوگ یا مریض کے لواحقین مریض کے پاس بیٹھ کر یہ مختصر دعا کرسکتے ہیں اور سعد کی جگہ مریض یا مریضہ کا نام لے سکتے ہیں۔
٭ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی کسی ایسے مریض کی عیادت کے لیے جائے جس کی موت کا وقت نہ آپہنچا ہو اور سات دفعہ یہ کلمات کہے تو اللہ مریض کو اس مرض سے عافیت دے گا:
اسالُ اللّٰہ العظیم رب العرشِ العظیم - ان یشفیک ط (میں بڑی عظمت والے اللہ سے جو عرش عظیم کا رب ہے’ سوالی ہوں کہ وہ تجھے شفا دے)۔ (ترمذی’ ابوداؤد)
٭حضرت عثمان بن العاصؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے جسم میں ایک درد کی شکایت کی تو رسولؐ اللہ نے فرمایا: اپنے ہاتھ درد کی جگہ پر رکھو اور تین مرتبہ بسم اللہ پڑھو اور پھر سات مرتبہ یہ دعا پڑھو:اعوذُ بعزۃِ اللّٰہِ وقدرتہ من شر ما اجد واحاذِرُ(میں اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کی قدرت کاملہ کی پناہ چاہتا ہوں اس تکلیف کے شر سے جو مجھے لاحق ہے اور اس سے بھی جس کا مجھے خطرہ ہے)۔ (مسلم)
٭حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کی عیادت کرتے ہوئے اپنا دایاں ہاتھ مریض کے جسم پر پھیرتے اور فرماتے:
اللھم اذ ھب الباس ر ب الناسِ واشفِ انت الشافِی لا شفاءَ الا شفاء ُ ک - شِفًا لا یغادِرُ سقمًا ط (اے انسانوں کے پروردگار بیماری کو دُور کردے اور شفا عطا فرما آپ کی دی ہوئی شفا کے سوا اور کوئی شفا نہیں ہے۔ ایسی شفا بخش کہ ذرا بھی بیماری نہ رہے)۔ (متفق علیہ)
٭ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات سے (اپنے دونوں نواسوں) حضرت حسنؓ اور حسین ؓ پر دم کیا کرتے تھے:
اعیذُ کما بکلماتِ اللّٰہِ التامۃِ من کل شیطانٍ ، وھامۃٍ ، وکل عین لامۃٍ ط (میں تم دونوں کو اللہ کے پورے پورے کلموں کی پناہ میں دیتا ہوں ہر شیطان کے اثر سے اور ڈسنے والے ہر زہریلے کیڑے سے اور لگنے والی ہر نظربد سے)۔ (ترمذی’ ابوداؤد)
اگر کسی ایک شخص کے لیے یہ دعا مانگنی ہو تو اُعیذُکُمَاکی بجائے اُعیِذُکَ (مرد کے لیے) اور اُعیِذُکِ (عورت کے لیے) کہنا چاہیے۔
٭ حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبریل ؑرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پوچھا: کیا آپؐ بیمار ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ جبریل ؑنے آپؐ کے لیے ان الفاظ میں دعا کی:
بسم اللّٰہ ارقیک ،من کل شی ءٍ یوذیک ، من شر کل نفسٍ او عین حاسدٍ ، اللّٰہُ یشفیک ، بسم اللّٰہِ ارقِیکَ ط (میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ کو دم کرتا ہوں ہر ایسی چیز سے جو آپ کو تکلیف دے۔ ہر شخص کی برائی سے یا حاسد کی نظربد سے۔ اللہ آپ کو شفا بخشے گا۔ میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں’’۔ (مسلم)
یہ دعا مردوں کے لیے ہے اور کسی عورت کے لیے مانگنی ہو تو کَ کے بجائے کِ پڑھیں۔
٭ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
اللھم انی اسئلکَ الصحۃَ والعفۃَ والامانۃ وحسنَ الخلقِ ، والرضٰی بالقدرِ ط (اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں صحت و تندرستی’ اور عفت و پاک دامنی اورامانت کی صفت’ اور اچھے اخلاق اور راضی بہ تقدیر رہنا)۔ (دعوات کبیر للبیہقی)
٭ دعا کے آداب میں یہ بات شامل ہے کہ:
اس حدیث پر عمل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ دعا مانگنے سے پہلے بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ، الحمدللّٰہ رب العالمین ط والصلٰوۃ والسلام علی رسولہ الکریم پڑھنا چاہیے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ دعا مانگنے کے بعد آخر میں آمین’ اور درود شریف (صلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہ محمد وعلٰی الہ واصحابہ اجمعین ، برحمتک یا ارحم الراحمین )پڑھا جائے۔
ـ۷- حالت نزع اور موت: اللہ کا فرمان ہے کہ ہر متنفس کو ایک دن موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اس سے کسی کو مفر نہیں ہے۔ ہسپتالوں میں یا گھروں میں زیرعلاج مریضوں کی موت کا وقت بھی آسکتا ہے۔ زندگی کی مہلت جب ختم ہوجاتی ہے تو اس میں ایک سیکنڈ کا اضافہ بھی ممکن نہیں ہوتا۔ ہر انسان کو اپنے پروردگار’ قادر مطلق کے فیصلے پر سرتسلیم خم کرنا ہی پڑتا ہے۔ ہمارے دین نے اس موقعے کے لیے بھی ہمیں قیمتی ہدایات دی ہیں۔ حضرت ابوسعید خدریؓ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہم تک پہنچاتے ہیں:
‘‘اپنے فوت ہونے والوں کے پاس لاالٰہ الا اللہ کے کلمات دہراتے رہو’’۔ (مسلم)
جب کوئی شخص جانکنی کے عالم میں ہو تو اس کے لواحقین کے لیے ایک اور ہدایت حضرت معقل بن یسارؓ کی اس روایت سے ملتی ہے:
‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے مرنے والوں پر سورۃ یٰس پڑھا کرو’’۔ (مسنداحمد’ ابوداؤد’ ابن ماجہ)
ہسپتالوں میں اس بات کا اہتمام ہونا چاہیے کہ وہاں قرآن کریم کے نسخے موجود ہوں جو مریضوں کے لواحقین لے کر پڑھ سکیں۔ مریض کے پاس بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کرنا باعثِ برکت ہے۔
مریض کے فوت ہونے کی صورت میں لواحقین کا رونا قدرتی امر ہے۔انھیں صبر کی تلقین کرنا چاہیے۔ زبان سے صرف اناللہ وانا الیہ راجعون یا کوئی اور بھلائی کا کلمہ کہنا چاہیے۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ حضوؐر نے فرمایا کہ اس موقعے پر مرنے والے کے عزیز’ رشتہ دار جو بات بھی زبان سے نکالتے ہیں فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔ درج ذیل حدیث میں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے:
‘‘حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بیٹے ابراہیم کے پاس تشریف لائے جب کہ وہ موت کی آغوش میں تھے۔ آپؐ کی مبارک آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ (یہ دیکھ کر) حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے آپ سے کہا: یارسولؐ اللہ! آپ بھی رو رہے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: اے عوفؓ! یہ (رونا) اللہ کی رحمت ہے اور پھر رونا شروع کر دیا اور فرمایا: آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں اور دل غمگین ہے اور ہم صرف وہی کلمات کہتے ہیں جن کو ہمارا رب پسند کرتا ہے اور اے ابراہیم ہم تیری جدائی میں غمگین ہیں’’۔ (مسلم)
ایسے موقع پر ہسپتال کے عملے کو چاہیے کہ فوت ہونے والے کے لواحقین کو صبر کی تلقین کریں۔ بلندآواز سے رونے اور برے کلمات زبان سے ادا کرنے سے منع کریں۔ اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے والوں کے لیے قرآن میں کئی مقامات پر بے پایاں اجر کا وعدہ کر رکھا ہے۔
(بحوالہ، اسلامی طبی اخلاقیات’ ص ۵۲-۶۲)