ایڈورڈ آرڈو گیلی آنو۔ (انتخاب و ترجمہ ، خضر حیات ناگپوری)
لاطینی امریکہ کے نامورادیبوں میں ایڈورڈ آرڈو گیلی آنو ایک نمایاں حیثیت کے حامل ادیب ہیں ان کی پیدائش ۱۹۴۰میں اروگوے کے ایک شہر مونٹے ویڈیو میں ہوئی تھی ۔انہوں نے صحافت ، تاریخ اور ادب میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ۔ ان کی کتابوں میں ‘میموری آف فائر’ اور ‘اپ سائڈ ڈاؤن’ کو نمایاں مقام حاصل ہے ۔ اپنی تحریروں کی وجہ سے انہیں ملک بدری کا زہر بھی پینا پڑا۔ یہ زمانہ انہوں نے ارجنٹائنا اور سپین میں بتایا۔ بنیاد ی طو ر پر وہ اسپینی زبان کے ادیب ہیں۔ ‘اعتراف جرم’ ان کی وہ کہانی ہے جو ریاست میں پولیس کی بربریت کو مکمل طور پر بے نقاب کر دیتی ہے۔ ہندوستان کی مشہور ادیبہ اروندھاتی رائے نے اسے اپنی پسندیدہ کہانی قرار دیتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ اس کہانی کے مطالعہ کے بعد ملاحظہ کیجیے ۔
پیڈرو الگورتا نے دو عورتوں کے قتل کے متعلق مجھے ایک کافی موٹی فائل دکھائی۔ مونٹے ویڈیو شہر میں چاقو گھونپ کر ان عورتوں کا قتل کیا گیا تھا۔ ملزمہ الما ڈ اگوستو نے اپنا جرم قبول کر لیاتھا۔ وہ گزشتہ سال بھر سے جیل میں تھی اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس نے اپنی ساری زندگی اس سڑ ن میں گزارنا طے کر لیا تھا۔حسب دستور پولیس نے اس کی عصمت دری بھی کی تھی اوراسے اذیتیں بھی پہنچائی تھیں۔مہنیے بھر کی سخت عقوبت کے بعد اس نے جرم قبول کر لیا تھا۔ الماڈ اگوستو اور دیگر مجرموں کے اعتراف جرم میں کئی مشابہتیں تھیں۔بجلی کے کوڑے کی مار کسی بھی شخص کو بے نظیرقصہ گو بنا دیتی ہے ۔الما ڈ اگوستو نے حیرت انگیز طریقے سے اپنی جائدادکی تفصیل بھی بتائی اور اپنے اعتراف جرم میں ملزمہ نے اپنے کپڑوں ، اپنی حرکات و سکنا ت ، اپنے ارد گرد کے ماحول اوراپنی حالت کے متعلق باریک سے باریک باتیں بھی وضاحت سے بیان کیں تھیں۔
ویسے الما ڈ اگوستو اندھی تھی!
اروندھاتی راے ۔مجھے یہ کہانی اس لیے پسند ہے کہ یہ پولیس کی بربریت کو پوری طرح آشکار کرتی ہے ۔ میں لگاتارکشمیر جاتی رہی ہوں۔ برسوں سے تو نہیں لیکن چار سال تو مجھے وہاں جاتے ہوئے ہو ہی گئی ہیں۔ اور وہاں سے مجھے جن باتوں کاعلم ہوا ہے ، حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں ،بربریت ، پولیس اور سرکا ر کا ظلم ، تو یہ کہانی مجھے ہر باریاد آتی ہے ۔ اور ایسا نہیں ہے کہ یہ ظلم ، یہ بربریت صرف کشمیر تک محدو د ہے ۔ پورے دیس کی یہی حالت ہے ۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ نے ایسی اذیتیں نہیں جھیلی ہیں۔ اس کہانی کا کردار الما ڈ اگوستو مجھے اپنے دیس کی جیلوں میں بند ان ہزارہا ملزموں کی طرح نظر آتی ہے جنہوں نے اپنا وہ جرم قبول کر لیا ہے جو انہوں نے کبھی کیا ہی نہیں ہے ۔
٭٭٭
مترجم۔ کیا دنیا بھر کی ریاستوں کی پولیس کا رویہ ایسا ہی نہیں ہے۔؟