صدقہ ، خیرات

مصنف : ڈاکٹر عبدالغنی فاروق

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : جون 2007

کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خد ا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر

(۱)

            چودھری علی احمدبدر میرے جاننے والے ہیں بزرگ آدمی ہیں۔ علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور میں رہتے ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا سمال بزنس کارپوریشن میں افسر تھا اور اس حیثیت سے وہ کئی سال تک گلگت میں تعینات رہا۔ چودھری صاحب چونکہ ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے اور فارغ تھے۔ اس لیے وہ گرمیوں کا سارا عرصہ اپنے بیٹے کے پاس گلگت میں گزارا کرتے تھے۔

            انہوں نے مجھے یہ واقعہ سنایا کہ وہاں ان کا تعارف معراج عالم نامی ایک صاحب سے ہوا جو بڑے زمیندار تھے اور پاکیزہ دینی زندگی گزار رہے تھے۔ اس زمیندار نے چودھری علی احمد بدر صاحب کو بتایا کہ چند سال قبل ان کی ایک ٹانگ کی پنڈلی پر ایک پھوڑا نکل آیا جو کسی بھی علاج سے ٹھیک نہ ہوا اور پھیلتا چلا گیا۔ حتی کہ اسلام آباد کے ایک اعلیٰ درجے کے ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بھی اسے لاعلاج قرار دے دیا اور بتایا کہ ٹانگ کاٹنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔ ورنہ زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس کے لیے ہسپتال کے سرجنوں نے اپریشن کی تاریخ دے دی اور انہیں ہسپتال میں داخل کر لیا ۔

            مذکورہ زمیندار نے بتایا کہ حتمی طور پر جب یہ طے پاگیا کہ میری ٹانگ کاٹ دی جائے گی اور مجھے ہسپتال میں داخل کر لیا گیا تو اس روز میرے پاس پچھتر ہزار روپے تھے۔ میں نے ہسپتال کے نچلے درجے کے ملازموں کو یعنی چپراسیوں، صفائی کرنے والوں اور مالیوں، بیلداروں کو بلا لیا اور ساری کی ساری رقم ان میں تقسیم کردی۔

            آپریشن والا دن آیا، تو آخری مرتبہ ڈاکٹروں کا بورڈ بیٹھا۔ ان میں ایک نیا ڈاکٹر بھی تھا۔ اس نے پھوڑا دیکھ کر کہا کہ ابھی ٹانگ نہ کاٹیں، فلاں ٹیکہ آزما لیں اور جب وہ ٹیکہ لگا یا گیا تو حیرت انگیز طور پر پھوڑا ٹھیک ہونا شروع ہوگیا اور چند روز میں پھوڑے کا وجود ختم ہوگیا۔ حالانکہ اس سے پہلے دنیا جہاں کے بہترین علاج آزمائے جاچکے تھے اور افاقے کی کوئی صورت پید انہیں ہورہی تھی۔ دراصل یہ کرامت تھی۔ پچھتر ہزار روپے کے صدقے کی۔

(۲)

            چودھری مظفر حسین مرحوم (وفات: ۲۲ جولائی۲۰۰۳) محکمہ زراعت میں اکیسویں گریڈ کے افسر تھے، لیکن انہیں تعلیم اور اقبالیات سے گہری مناسبت تھی اور اس حوالے سے وہ متعدد کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ ‘‘تعلیم’’ کے حوالے سے وہ اردو اور انگریزی زبانوں میں دو رسالے بھی شائع کرتے تھے۔

            چودھری صاحب بہت اچھے انسان تھے اور مجھ سے بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ ایک بار مَیں نے ان سے کوئی یادگار واقعہ سنانے کی فرمائش کی تو انہوں نے بتایا:‘‘چودھری غلام قادر گوجر محکمہ زراعت ہی میں افسر تھے اور میرے دوست تھے۔ ان کا آبائی تعلق قصبہ تحصیل شکر گڑھ میں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے والد زمیندار تھے اور بہت ہی نیک اور خدا ترس صوم و صلوٰۃ کے پابند انسان تھے۔ زکوٰۃ اور عشر کا بہت اہتمام کرتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بہت غریب پرور اور حساس تھے۔ انہوں نے اپنے قصبے کی بیواؤں اور یتیم بچوں کے وظائف مقرر کررکھے تھے، یتیم لڑکیوں کی شادیوں میں خرچ کرتے اور غریب طالب علموں کی دل کھول کر امداد کرتے تھے۔

            غلام قادر گوجر نے بتایا کہ ایک برس چاول کی فصل بالکل تیار ہوچکی تھی کہ چوہوں نے یلغار کر دی اور پورا علاقہ کاٹ کر رکھ دیا۔ لیکن ہمارے کھیتوں میں پراسرار طور پر دو بڑے بڑے بلے آکر بیٹھ گئے اور انہوں نے کسی چوہے کو کھیتوں میں نہیں گھسنے دیا اور ہماری فصل بالکل محفوظ رہی، اسے معمولی سابھی نقصان نہ پہنچا۔

            دیکھنے میں آیا ہے کہ جو لوگ زکوٰۃ اور عشر وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں انہیں اس کے روحانی ثمرات ضرورحاصل ہوتے ہیں لیکن اللہ کی طرف غیر معمولی فضل و کرم ان افراد کے حصے میں آتے ہیں جو غریب پروری اور صدقات و خیرات کا غیر معمولی اہتمام کرتے ہیں۔

(۳)

            یہ واقعہ میرے گاؤں واقع ضلع سیالکوٹ، تحصیل سمبڑیال کے ایک شخص محمد شریف نے مجھے سنایا، یہ غریب آدمی ہے اور مزدور پیشہ ہے۔

            اس نے بتایا کہ سمبڑیال میں رانا شاہ نواز نامی ایک شخص تھا۔ چھوٹا زمیندار تھا اور سمبڑیال منڈی کے قریب ہی تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر اس کی چند ایک ایکڑ زمین تھی جس میں وہ سبزیاں کاشت کرایا کرتا تھا۔

            محمد شریف نے بتایا کہ کسی حادثے میں شاہ نواز کی ایک ٹانگ اس طرح متاثر ہوئی کہ اس کا فریکچر تو نہ ہوا مگر گھٹنا منجمد ہو کر رہ گیا۔ وہ حرکت نہیں کرتا تھا اور شاہ نواز کو بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ شاہ نواز مزاج کا بہت اچھا انسان تھا، نمازوں کا بھی پابند تھا اور بڑا ہی خوش اخلاق تھا۔ آلو اور سبزیاں کاشت کراتا اور جو مزدوراس کے کھیتوں میں کام کرتے ، وہ انہیں دوپہر کا کھانا بھی کِھلاتا، انہیں آرام کا موقع بھی فراہم کرتا اور کام ختم ہوجاتا تو اجرت دینے سے پہلے سب کو چائے پلاتا اور جلیبیاں کھلاتا تھا۔ یہ اس کی مستقل عادت تھی اور اس میں وہ ناغہ نہیں ہونے دیتا تھا۔

            لیکن ایک روز یوں ہوا کہ وہ جلیبیاں منگوانا بھول گیا۔ چائے کا وقت ہورہا تھا، اس نے بیساکھیاں پکڑیں اورخود جلیبیاں لانے کے لیے منڈی سمبڑیال کی طرف چل پڑا۔

            محمد شریف نے بتایا کہ تھوڑی دیر گزری تھی کہ ہم نے نہایت حیرت کے ساتھ دیکھا کہ رانا شاہ نواز اپنی دونوں ٹانگوں پر بیساکھیوں کے سہارے کے بغیر خراماں خراماں چلتا ہوا آرہا ہے۔ ہم کام روک کر ، کھڑے ہو کر اسے دیکھنے لگے۔ وہ ہمارے قریب آیا تو سب نے بیک زبان اس سے پوچھا: یہ کیا ہوگیا ؟ یہ کیسے ہوگیا؟ آپ ٹھیک ہوگئے ۔ آپ ٹھیک ہوگئے۔’’

            تب شاہ نواز نے بتایا کہ میں سمبڑیال منڈی سے جلیبیاں لے کر واپس آرہا تھا کہ ریلوے لائن کے پاس ایک کھلی جگہ پر اچانک ایک بگولے نے مجھے گھیر لیا اور اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور جب میں کپڑے جھاڑتا ہوا اٹھا تو دیکھا کہ میرا گھٹنا بالکل ٹھیک کا م کررہا ہے ، اس کا تناؤ مکمل ختم ہوچکا تھا۔ میں نے جلیبیوں کا لفافہ اٹھایا اور چلتا ہوا آگیا ہوں، اب مجھے چلتے ہوئے ذرا بھی تکلیف محسوس نہیں ہورہی۔

            اور یہ اعجاز تھا شاہ نواز کی غریب پروری کا ، اپنے مزدوروں کی سچی خیر خواہی اور ہمدردی کا۔

(۴)

            میں ایک شخص عبدالرحمان کو ذاتی طور پر جانتا ہوں ۔ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور سرکاری ملازم تھا۔ تنخواہ کے سوا اس کی آمدنی کا کوئی معمولی سا بھی ذریعہ نہ تھا، مگر اللہ نے اسے بہت بڑا دل عطا فرمایا تھا اور وہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر اپنے والدین اور غریب رشتہ داروں کی مدد کرتا تھا۔ خصوصاً اس نے اپنی تین بہنوں کی خوب خدمت کی، جس کے نتیجے میں اللہ نے اسے خوب نوازا۔ اور حیرت انگیز طور پر اسے تیزی کے ساتھ ترقیاں ملتی رہیں حتیٰ کہ وہ ملازمت کے بیسویں گریڈ تک پہنچ گیا۔

            اپنے آبائی گاؤں میں عبدالرحمان کے دو بڑے بھائی بھی رہتے تھے۔ یہ خود ملازمت کے سلسلے میں لاہور میں مقیم تھا اور والد کی وفات کے بعد والدہ اسی کے ساتھ رہتی تھیں۔ گاؤں میں اس کے حصے میں تین کمروں کا ایک مکان آیا تھا اور دنیاوی اعتبار سے اس مکان کے سوا اس کی کوئی جائیداد نہ تھی۔ نہ زمین، نہ پلاٹ اور نہ کوئی دکان۔ یہی اس کا کل اثاثہ تھا۔ اب چونکہ والدہ اس کے پاس شہر میں رہتی تھی اور مکان خالی پڑا تھا، اس لیے بڑے بھائی نے وہ خریدنے کی خواہش ظاہر کی اور اس نے بہت سستی قیمت پر یعنی صرف بیس ہزار روپے میں مکان بھائی حوالے کر دیا۔

                          یہ بات مارچ ۱۹۸۳ کی ہے۔ بیس ہزار روپے کی رقم عبدالرحمان نے زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی۔ اس کی بہت سی ضروریات تھیں، مالی مسائل بھی تھے لیکن اس نے کمال ایثار سے کام لیا اور یہ ساری رقم اپنی بڑی بہن کی بیٹی کی شادی میں صرف کر دی۔ اس کا بہنوئی بہت نالائق اور غیر ذمہ دار آدمی تھا، بیوی بچوں پر کچھ بھی خرچ نہیں کرتا تھا اور ان کی کفالت بھی عبدالرحمان کے ذمے تھی۔ چنانچہ اس نے بھانجی کا سارا ضروری جہیز بنایا، شادی کے جملہ انتظامات کیے اور بارات کو کھانا وغیرہ کھلا کر بیٹی کو عزت سے رخصت کر دیا۔

            اس واقعے کو تین ہی مہینے گزرے تھے کہ جون ۱۹۸۳ میں حیرت انگیز طور پر عبدالرحمان کو لاہور کی ایک بہت اچھی بستی میں دس مرلے کا بنا بنایا ، کھلا، روشن اور ہوا دار مکان ایک سکیم میں مل گیا۔ وہ ذاتی وسائل سے عمر بھر بھی کوشش کرتا تو اس بستی میں تین مرلے کا پلاٹ بھی نہیں خرید سکتا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ بھی تو اٹل ہے کہ ‘‘جو کوئی تقوی اختیار کرے گا، اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا وہم و گمان بھی نہ ہو۔’’