اخلاقیات کی تعریف کرنا آسان نہیں کسی ایک دورکا قانون اخلاقیات کسی دوسرے دور میں بداخلاقی ہو سکتا ہے ۔ کسی خاص جغرافیائی حالات کا ضابطہ اخلاق کسی مختلف جغرافیائی حالات کے ممالک میں کچھ اور صورت اختیار کر جاتا ہے ۔ بہر حال اخلاقیات کے بالعموم قواعد کچھ یوں سے ہیں کہ لوگوں کی خدمت کرنا ، بھوکے کو کھانا کھلانا، کیے ہوئے وعدے کو پورا کرنا، کسی انسان کو دکھ یا نقصان نہ پہنچانا، دنیا میں فتنہ و فساد نہ پھیلانا، ماں باپ کی فرمانبرداری کرنا ، زمین پر اکڑ اکڑ کر نہ چلنا، علم کی قدر کرنا، گفتگو میں نرمی اختیارکرنا، کسی انسان سے ایسا سلوک نہ کرنا جو ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے ساتھ ہو ۔ اخلاق کا سار ا سفر مختصر طو ر پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ بے ضرر ہونے سے شروع ہوتا ہے اور منفعت بخش ہونے پر ختم ہو تا ہے۔ وہ جذبات اور وہ کوششیں جو انسان کے مجموعی ارتقا کے لیے کی جائیں اخلاقیات کا حصہ ہیں۔
ضابطہ اخلاق انسانوں کی بہتر سوچ کا نتیجہ ہو سکتا ہے ۔ یہ سب ضابطہ بجا اور درست مانا جا سکتا ہے اگر انسانی زندگی کا سفر دنیا تک ہی محدود ہو زندگی صرف ظاہری اخلاقی عمل تک ہی محدود نہیں۔ اس میں بے شمارعنوانات پائے جاتے ہیں۔اور یہیں سے ایک مفکر اور پیغمبر کا فرق شروع ہوتا ہے۔پیغمبروں نے دنیا کو یہ بتایا ہے کہ زندگی ظاہری موت تک ہی نہیں اس میں ایک مابعد بھی شامل ہے ۔جب انسان سے اس کے اعمال کی باز پرس ہو گی اور اس کو اس کے اعمال کے بدلے میں جزا و سزا نصیب ہو گی۔ مذہب نے یہ بھی بتایاکہ یہ زندگی اور اس زندگی کے لیے بہتر نتائج کو سمجھنے کے لیے بے حد ضروری ہے کہ انسان یہ سمجھ لے کہ وہ یہاں کیسے آیا۔ کیا وہ اپنی مرضی اور اختیار سے آیا اگر اپنی مرضی اور اپنے اختیار سے آیا ہوتا تو وہ اپنی مرضی اور اپنے اختیار سے یہاں سلامت رہتا۔چونکہ وہ یہاں ہمیشہ ٹھہر نہیں سکتا اس لیے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس کو لانے اور واپس لے جانے میں کسی اور طاقت کا دخل ہے ۔ اگر انسان صرف اپنے ماں باپ کے عمل سے پیدا ہوتا تو ماں باپ کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ چاہیں تو بیٹے پیدا ہوں اور چاہیں تو بیٹیاں ۔لیکن ایسا نہیں ہے وہ کمزور ہیں بے اختیار ہیں مجبو ر ہیں اور اسی طرح انسان اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے۔
یہ بات پیغمبروں نے بتائی کہ یہ اللہ ہے جس نے زندگی کو تخلیق فرمایا جس نے انسان کو پیدا کیا اسی نے انسان کو سفر پر بھیجا اور اسی نے ایک مقصد حیات اور عرصہ حیات کا حکم دے رکھا ہے۔
پیغمبروں کی بات کو بالعموم باتوں کی پیغمبر مانا گیا۔ وہ منتخب لوگ اخلاقیات میں اس حد تک ارفع و اعلی تھے کہ لوگوں نے انہیں سند مانا اور پیغمبروں نے یہ بات بڑی وضاحت سے بیا ن کی کہ اس زندگی کو ضابطہ اخلاق دینا انسان کے بس میں نہیں کیونکہ انسان ایک محدود سوچ رکھتا ہے ۔ ایک بڑے محدود عرصے کو دیکھ سکتا ہے ۔ یہ تو صرف اسی ذات کا حق ہے جوزندگی اورموت دینے کی قدرت رکھتا ہے۔
نظام عبادات اسی ذات کے قرب کا ذریعہ ہے اور اسی طرح اخلاقیات بھی قرب حق ہے۔ ایک ذریعہ ہے ۔ اس بات کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ جب ہم نیکی ، بدی ، اچھائی ، برائی کے تصور کے مطابق عمل کرتے ہیں تو ہم کسی نہ کسی ذات کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ اگر وہ ذات کسی ملک کا بادشاہ ہو تو بادشاہ کی خوشنودی اخلاق کے نام پر ظلم پیدا کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیک بادشاہوں کے دربار میں بھی بد درباری رہے ۔ بادشاہ رحم دل تھا لیکن اس کے مصاحب رعایا پر ظلم ڈھاتے رہے ۔ اگر وہ ذات اپنی ذات ہے تو تجربہ بتاتا ہے کہ انسان ایک فاقے کو ٹالنے کے لیے اپنی عزت تک کا سودا کرنے کوتیار ہوجاتا ہے ۔اپنی خوشنودی نفس کی خوشنودی ہو جاتی ہے اور نفس کی خوشنودی اخلاقیات کو چھوڑ دیتی ہے ۔ وہ ذات اگر اللہ ہو تواس میں حکومت ، مصلحت اور نفس پرستی شامل نہیں ہو سکتی ۔ ایک سجد ہ ہزار سجدوں سے نجات دلاتا ہے ۔
یہاں پر مذہب کی اخلاقیات اور اخلاقیات کے مذہب میں فرق آتا ہے ۔ اخلاقیات کا سفر محدود ترین سفر ہے ۔ اخلاقیات کا مذہب ،مذہب ہی نہیں یہ ہر آدمی اور ہر انسان کا اپنا اپنا مذہب ہوجاتا ہے ۔مذہب کی اخلاقیات ہر دور کے لیے ہر زمانے کے لیے ایک خوبصورت نتیجہ حاصل کرتی ہے ۔اس بات کی وضاحت یہ ہے کہ مذہب دراصل اخلاقیات میں الہیات کا شامل ہونا ہے ۔ہم جواب دہی کے تصور کے مطابق ، اللہ کے حکم کے مطابق ، نظام اخلاقیات پر کاربند رہیں توانسان ، انسان کے قریب آ سکتا ہے ۔ اور انسان اللہ کی خوشنودی حاصل کر لیتا ہے انسان کو پتا ہی چل نہیں سکتا کہ اس کے لیے کیا اچھائی ہے اور کیا برائی ہے ۔ بے شمار لوگوں نے دنیا میں اچھائی سمجھ کے برائی کی ہے یعنی ایک ایسا کام جو بظاہر اچھا ہو اور جس کا نتیجہ برا ہو ، سرزد ہو تا رہا ہے۔جس کی مثال جابر حکمرانوں کے دور میں دی جا سکتی ہے ۔فرعون کا یہ حکم کہ لوگو تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ تم میرے سامنے جھکو اور میرے لیے یہی بہتر ہے کہ میں تم پر حکومت کروں۔ کچھ لوگ تو کہتے رہے ہیں کہ سب انسان برابر ہیں اورجب انہوں نے اپنی ذات میں اس کا ثبوت نہیں دیا تو پھر یہ کہا جاتا رہا ہے کہ سب برابر تو ہیں لیکن کچھ لوگ زیادہ برابر یعنی حکومت کرنے والے کا حق اور ہے اورمحکوم ہونے والے کا حق اور ۔اور اسی طرح اخلاقیات کے نام پر مصیبتیں نازل ہوتی رہی ہیں۔یہ ممکن ہے کہ انسان اپنے لیے پسند کرے وہ چیز جو اس کے لیے نقصان دہ ہو اور ناپسند کرے وہ چیز جو اس کے لیے فائد ہ مند ہو۔ اس کی مثال ان بچوں کی زندگی سے ملتی ہے جو وقت ضائع کرنے کو پسند کرتے ہیں حالانکہ اس کا نتیجہ ان کے لیے مصیبت ہے۔انسان اپنے لیے آرام پسند کرتا ہے اور آرام طلبی کے ذریعے وہ مصیبتوں میں گرفتا ر ہو جاتا ہے ۔ اس لیے بہتر ہے کہ اپنی مرضی کو تابع فرمان الہی کر دیا جائے ۔ اگر الہیات کو اخلاقیات سے نکال دیا جائے توتنہائی کے جرائم ، جرائم نہیں رہیں گے ۔مجرم و ہ ہو گا جو قانون کی زد میں آئے گا اور جو قانون کی نظر سے بچ گیا وہ مجرم ہی نہیں کہلائے گا۔ لیکن الہیات کی شمولیت کے بعد گنا ہ کا تصور آتا ہے ۔ گناہ گار ، گناہ گار ہے چاہے وہ لوگوں میں نیکو کار ہی کیوں نہ مشہور ہو۔ ایسا انسان بد ہے ، چاہے وہ ظاہر داری میں ایک درویش صورت بن کر بیٹھ جائے ۔
اخلاقیات کا نظام جوابدہ ہے صرف زمانے کو اور دین میں اخلاقیات اور الہیات کا مجموعہ انسان کو جوابدہ کرتا ہے اس ذات کے آگے ، جس نے زندگی پیدا کی اور زندگی کو مدعا دیا کہ اے انسانوں اورجنات کے گروہ میں نے تمہیں عبادت کے لیے پیدا کیا۔ اب عبادت کی تعریف یہ کی جا سکتی ہے کہ وہ نظام عمل جس سے انسان ، انسانوں کی فلاح بھی کرسکے اور تقرب الہی بھی حاصل کر سکے ۔اس کی اعلی ترین شکل اورمکمل ترین صورت حضور اکرمﷺ کی ذات گرامی ہے پس اخلاق محمدی ہی اخلاق ہے اور شریعت محمد ی ہی ذریعہ ہے قرب حق کا۔
اسلام میں رہبانیت منع ہے۔ خدا کو چھوڑ کر بندوں میں مصروف رہنابھی رہبانیت کی ایک شکل ہے اورانسانوں کو چھوڑ کر عبادت میں مصروف رہنا بھی ایک طرح کی رہبانیت ہے ۔ برائی اچھائی کے تصور کے ساتھ اخلاقیات میں الہیات کی شمولیت سے جرم اور گناہ کا فرق معلوم ہو سکتا ہے۔ جرم حکومت کے حکم کی خلاف ورزی ہے اور گناہ الہیات کے حکم کے خلاف عمل کا نام ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ایک چیز گناہ ہو اور وہ جرم نہ کہلائی جائے ۔ یہیں سے اس دھوکے کا امکان ہے جو ہیومنزم کے نام پر کھایا جاتا رہا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہا انسان دوستی اور انسان نوازی تو کی جائے لیکن انسان پرستی نہ کی جائے ، پرستش اللہ کی اور خدمت انسان کی ۔ یہی ہماراہیومنزم ہے ۔
ہم کسی ہیومنزم کے نام پر کوئی تحریک نہیں چلا سکتے ہم صرف ایک ہی تحریک مانتے ہیں وہ تحریک ہے محسن انسانیت کی عطا کی ہوئی کہ انسانوں کوانسان کی خدمت کے ساتھ ساتھ خدا کی طرف بھی مائل کرو اور اللہ کو اس رحمت کے ساتھ انسانوں پر مہربان ہونے کی گزارش کرتے رہیں ہمارے لیے اتنا عمل اوراتنا علم اوراتنا اخلاق ہی کافی ہے۔