تمدنی ترقی نے کھیل کود کی بھی ‘‘ترقی یافتہ’’ شکلیں پیش کردی ہیں۔ کرکٹ ’ فٹ بال’ ہاکی’ ٹینس’ جمناسٹک’ باکسنگ’ اسکیٹنگ’ ہارس ریس’ سوئمنگ ریس’ مرد و زن کی ریس اور کار ریس وغیرہ یہ کھیل وقتی تفریح کا سامان نہیں ہیں کہ ان کی رعایت ملحوظ رکھی جائے اور نہ یہ اخلاقی حدود کے پابند ہیں کہ ان کو مفید خیال کیا جائے۔ بلکہ ان چیزوں نے لوگوں کو کھیل کود کا ایسا چسکا لگا دیا ہے کہ وہ ان کی زندگیوں کا مقصود بن گئے ہیں۔ ٹی وی’ ویڈیو اور اخبارات بڑے اہتمام کے ساتھ کھیل کے مقابلوں کی خبریں نشر کرتے ہیں۔ ان ذرائع ابلاغ کا بچوں اور نوجوانوں کے ذہنوں کو متاثر کرنے اور ان میں کھیل کود کا شوق پیدا کرکے غلط راہ پر ڈال دینے میں بہت بڑا حصہ ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تفریح طبع انسان کی فطرت کا تقاضا ہے اور اسلام نے بھی ایک حد تک اس کو جائز قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام سے اجازت چاہی تھی کہ وہ یوسف کو ان کے ساتھ کھیل اور تفریح کے لیے بھیج دیں: أرسلہ معنا غدا یرتع ویلعب (سورۃ یوسف۱۲) ‘‘کل اس کو آپ ہمارے ساتھ بھیجئے کہ کھائے پئے اور کھیلے کودے’’۔ اور حضرت یعقوب ؑ نے انھیں اس کی اجازت دے دی تھی۔اسی طرح حضرت عائشہؓ کا کم سنی میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیلنا’ چنانچہ ان کا بیان ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں جب کہ ان کی رخصتی ہوچکی تھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں۔ کنتُ العبُ بالبناتِ عند النّبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (بخاری کتاب الأدب) ‘‘میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی’’۔اور جہاں تک ایسے کھیلوں کا تعلق ہے جو صحت کے لیے مفید ہوں مثلاً دوڑ یا جن سے اپنی مدافعت کے لیے تربیت حاصل ہوتی ہو’ مثلاً تیراکی’ یا جو جہاد کی ٹریننگ کا ذریعہ ہوں مثلاً گھڑسواری وغیرہ تو اسلام نے نہ صرف ان کو مباح قرار دیا ہے بلکہ ان کی ترغیب بھی دی ہے۔ ألا ان القوۃ الرمی ، ألا ان القوۃ الرمی ، ألا ان القوۃ الرمی ، ‘‘سنو! قوت تیراندازی میں ہے’ سنو! قوت تیراندازی میں ہے’ سنو! قوت تیراندازی میں ہے۔
یہ شوقیہ کھیل نہیں تھے بلکہ قوت کی فراہمی کا ذریعہ تھے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے جہاد کے مقاصد کے لیے دیا ہے: وأعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ (سورۃ انفال) ‘‘اور جہاں تک ہوسکے ان کے (یعنی دشمنوں کے) مقابلہ کے لیے قوت فراہم کرو’’۔لیکن موجودہ متمدن دنیا کے کھیل نہ اخلاقی حدود کے پابند ہیں اور نہ کسی صحیح مقصد کے حصول کا ذریعہ ہیں’ بلکہ محض وقت گزاری کا سامان اور ایک دوسرے پر فخر کرنے کا ذریعہ ہیں۔ کرکٹ ہی کو لیجیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کھلاڑیوں نے اس کو اپنا مقصدِ حیات بنا لیا ہے۔ وہ سال بھر کھیلتے ہی رہتے ہیں اور بڑے پیمانے پر کرکٹ میچ کے مظاہرے کرتے رہتے ہیں جن کے لیے دنیا کے مختلف ممالک میں اسٹیڈیم بنائے گئے ہیں۔ کروڑہا روپیہ ان کھیلوں پر خرچ کیا جاتا ہے اور اچھے کھلاڑی ثابت ہونے پر عوام نہ صرف ان کو داد دیتے ہیں بلکہ ان کی نگاہ میں وہ محبوب اور معزز بن جاتے ہیں۔ مسلم ممالک اس میں پیش پیش ہیں اور بے تحاشا روپیہ ان کھیلوں پر برباد کرتے ہیں جو کھلاڑی جیت جاتے ہیں ان کو بڑے بڑے انعامات سے نوازا جاتا ہے گویا انھوں نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ٹی وی اور ریڈیو پر روزانہ کرکٹ کی خبریں نشر کی جاتی ہیں اور اخبارات میں ان خبروں کو نمایاں طور سے شائع کیا جاتا ہے۔ اس معاملہ میں دینی پرچے بھی پیچھے نہیں ہیں وہ کبھی اس پر گرفت نہیں کرتے۔ اکثر روزناموں میں اس کے لیے کچھ صفحات وقف ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ اب بچہ بچہ کھلاڑی بننا چاہتا ہے اور یہ شوق اس قدر بڑھ رہا ہے کہ راستوں پر بچے اور نوجوان بکثر بیٹ بال کھیلتے نظر آتے ہیں جس سے راہ گیروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ مسجد میں جماعت کھڑی ہے مگر مسجد کے بالکل سامنے کھیل کے شائقین کھیلنے میں مشغول رہتے ہیں۔ اب تومردوں کے ساتھ عورتیں بھی اسپورٹس میں شریک ہوتی ہیں اور برائے نام لباس پہن کر عریانیت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ ان کی تیراکی کے شرمناک مظاہرے ٹی وی پر پیش کیے جاتے ہیں تاکہ حیاء کا احساس دیکھنے والوں میں مردہ ہوکر رہ جائے۔ جس شخص کی موت اس حالت میں واقع ہوجائے کہ وہ کھیل تماشے میں مشغول تھا تو یہ بات اس کے لیے کس قدر حسرت کی ہوگی۔وقت’ تو برف کی طرح پگھلتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو جو مہلت عمر دی ہے وہ ہرلمحہ گھٹتی رہتی ہے۔ یہ مہلت عمر اسے اس لیے دی گئی ہے تاکہ وہ اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کرے جن کی بناء پر وہ آخرت میں جنت کا مستحق بن جائے’ لیکن اگر اس نے وقت کی قدر نہیں پہچانی اور اس مہلت کو ضائع کردیا تو آخرت میں اس کی ناکامی یقینی ہے۔
کھیل خواہ کسی قسم کا ہو…… سوائے ان کھیلوں کے جو کسی اہم مقصد کے حصول کا ذریعہ ہوں…… وہ کھیل ہی میں مشغول رہنے کا رجحان پیدا کردیتا ہے۔ پھر جب انسان اس کا عادی ہوجاتا ہے تو اس کے شوق میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور بالآخر وہ سٹے اور جوئے کی طرف بھی مائل ہو جاتا ہے۔ مقابلے اور ہار جیت کا معاملہ اسے قمار بازی پر آمادہ کرتا ہے۔ موجودہ زمانے کے بہت سے کھیلوں نے جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا جوئے کی مختلف صورتیں پیدا کردی ہیں جن سے حرام مال حاصل کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔
امام بخاری نے باب باندھا ہے: باب کل لھو باطل اذا شغلہ عن طاعۃ وقولہ تعالٰی ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللّٰہ (بخاری’ کتاب الاستیذان) ‘‘ہر وہ کھیل جو انسان کو اللہ کی اطاعت سے غافل کردے باطل ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو لہو و لعب کو خرید لیتے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے بھٹکائیں’’۔
جن لوگوں کے سامنے آخرت کا اعلیٰ نصب العین نہیں ہوتا’ وہ دنیا کو اور اس کے کھیل ہی کو اپنا مقصدحیات بنا لیتے ہیں۔ اسپورٹس کی یہ قباحتیں ایسی ہیں کہ جن کی اخلاقی حس بیدار ہو’ وہ ان سے انکار نہیں کرسکتے لیکن عام طور سے لوگ ان کی دلفریبیوں سے متاثر ہیں اور روز بروز ان میں انہماک بڑھتا جا رہا ہے۔ اسپورٹس میں یہ انہماک سوسائٹی کے موجودہ بگاڑ کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔ کاش کہ لوگ وقت کی قدروقیمت پہچان لیتے اور ان میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہوجاتا۔(بشکریہ ماہنامہ نوائے ہادی’انڈیا، جون ۲۰۰۶ء)