ترجمہ: نوراسلم خان
طالبان کی قید میں رہنے والی اور بعد میں اسلام قبول کرنے والی وُون رِڈلے کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ یہ نومسلم صحافی خاتون مختلف مسائل پر ایک جذبۂ ایمانی سے مسلسل لکھ رہی ہیں۔ قاہرہ میں ورلڈاسمبلی آف مسلم یوتھ (WAMY)کے اجلاس میں ۲۱نومبر ۲۰۰۶ء کو انھوں نے جو تقریر کی’ قارئین کی خدمت میں اس کا ترجمہ پیش ہے۔
میں نے ۲۰۰۳ء میں اسلام قبول کیا ہے’ اس لیے میں اسلام کے حوالے سے کوئی زیادہ مستند علم نہیں رکھتی’ تاہم میری یہ کوشش ہوتی ہے کہ آج کے مضطرب نوجوانوں کے ساتھ باہمی تبادلۂ خیال کے ذریعے وہ سب کچھ جانا جا سکے جو وہ اسلام کے بارے میں کہنا چاہتے ہیں ۔
نائن الیون کی وجہ سے دنیا پر بہت گہرے اور وسیع اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ لیکن یہ کسی نئے دور کا آغاز نہیں ہوا ہے’ بلکہ یہ امریکی استعمار کی عرصے سے جاری ریشہ دوانیوں اور اسلام سے اس کے مسلسل خوف کا اظہار ہے۔ آج سے ۱۰ سال پہلے سربوں کے ہاتھوں بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی جاری تھی اور پوری دنیا تماشا دیکھ رہی تھی ۔اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑنے والے اپنے بھائیوں اور بہنوں کی مدد کے لیے مسلمان نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد دنیا کے کونے کونے سے امڈ آئی۔اس جہاد کی برکت سے دنیا بھر کے مسلمانوں کونسل’قوم اور ثقافت کی تمیز سے بالاتر ہوکر ایک مقام پر اکٹھا ہو نے اور متحد ہو نے کا موقع مل گیا ۔وہ لوگ جو بوسنیا میں آکر براہِ راست جہاد میں حصہ لینے سے قا صر تھے’ انھوں نے مالی امداد کے ساتھ ساتھ عوام کے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے ریلیاں اور جلوس نکالے تاکہ اس نسل کشی کو روکا جاسکے ۔مغرب نے صرف اس وقت مداخلت کی جب ان کو یقین ہو گیا کہ سربوں کے مقابلے میں مسلمانوں کا پلہ بھاری ہے اور وہ ایک یقینی فتح سے ہم کنار ہونے والے ہیں ۔مغرب کے لیے اپنے قلب میں ایک اسلامی ریاست کا قیام بالکل ناقابلِ برداشت تھا۔ اس لیے ان کو بالآخر مداخلت کرنی پڑی۔ یہ میں نہیں کہہ رہی ’ بلکہ اس کا اعتراف خود سابق امریکی صدر بل کلنٹن اپنی خود نوشت میں کرچکے ہیں (امریکی صدر کی خودنوشت My Life (میری زندگی) کے نام سے شائع ہوئی ہے)۔
پچھلے ۱۰ سال کے عرصے میں اسلام کے غلبے کا یہ خوف اب اس قدر بڑھ چکا ہے کہ آج چیچنیا’کشمیر ’ فلسطین’ افغانستان اور عراق میں ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے خون کا دریا بہہ رہا ہے۔ لبنان میں جو کچھ ہوا ہے یہ اس کی تازہ مثال ہے ۔ مجھے ان قتل گاہوں میں کئی دفعہ جانے کا موقع ملا ہے۔میں نے دیکھا کہ ہماری بہنوں ’ بیٹیوں ’ بچوں اور نوجوانوں کی لاشوں کے لوتھڑے بھی بالکل ان لاشوں کی طرح نظر آرہے تھے جو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ملبے سے نکالے گئے تھے۔ تاہم آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ مسلمان کے خون کی کوئی قیمت اور وقعت نہیں ہے۔ بدنام زمانہ گوانتا ناموبے’ باگرام’ ابو غریب اور ڈیگو گارشیا سمیت دنیا بھر کے دُوردراز مقامات پر واقع خفیہ قید خانوں میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو نہ ختم ہونے والی بدترین تعذیب سے گزارا جا ر ہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شام ’ اُردن ’ مراکش ’ تیونس’ ا لجزائر اور خود یہاں آپ کے ملک مصر کے اندر امریکا کے اشارے پر بہت سارے بے گناہ مسلمانوں کو بدترین اذیتیں دی جارہی ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ اس میں ہمارے نوجوانوں کے لیے کیا پیغام پوشیدہ ہے ؟
یہ نوجوان سلطان صلاح الدین ایوبی ’ خالد بن ولید ’ طارق بن زیاد کی شجاعت اور بہادری کے واقعات پڑھنے کے ساتھ ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری ’ شجاعت اور حوصلہ مندی کے بارے میں بھی سنتے رہتے ہیں ۔ آج سے پانچ سال پہلے تک میں نے نبی کریمؐ کی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں سنا تھا لیکن آج میں آپؐ کے اسم گرامی’ آپؐ کی عزت و ناموس کے تحفظ اور سنت کی پیروی کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کو تیار ہوں۔ اگرچہ حضوؐر ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ڈنمارک کے اخبار میں شائع ہونے والے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر اُمت کے اتحاد اور رد عمل نے یہ ثا بت کردیا کہ آپؐ کتنی قوت کے مالک ہیں۔
۶۰ کے عشرے میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے والے وہ دو عظیم انسان ’ میلکم ایکس (۱۹ مئی ۱۹۲۵ء- ۲۱ فروری ۱۹۶۵ء) (نبراسکا’امریکا’ میں ایک عیسائی مذہبی رہنما کے گھر پیدا ہوئے۔ جوانی میں اسلام قبول کیا اور الحاج ملک الشہباز کے نام سے شہرت پائی ۔ امریکا میں افریقی مسلمانوں کی مشہور تنظیم نیشن آف اسلام کے عظیم رہنما ؤں میں آپ کا شمار ہو تا تھا ۔ ایک سازش کے ذریعے ان کو شہید کیا گیا )’ اور سید قطب شہیدؒ اس دورِ جدید کے ہیرو ہیں۔ ان کی تحریروں نے مجھے مسلمان ہونے کا مطلب بتا یا ۔ ایسے حالات میں’ جب کہ نوجوانوں کو ایک واضح پیغام اور درست سمت کے تعین میں مشکل پیش آرہی ہے’ دونوں کی زندگی ان کے لیے ایک نمونہ ہے۔
آج اگر نوجوانوں کو ایک طرف یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں تو دوسر ی طرف ان کو یہ درس دیا جاتا ہے کہ اسلام کو پشت پر اور سر کو نیچے رکھو ۔ نائن الیون کے بعد تو اسلام کو ایک ایسے ڈھانچے میں ڈھالنے کی بہت کوشش ہورہی ہے جو مغربی معاشرے کے تقاضوں پر پورا اترسکے ۔ اس کے پیچھے بنیادی طور پر یہ سوچ کار فر ما ہے کہ اسلام کو ایک ایسے لادین معاشرتی نظام کے طور پر متعارف کروایا جائے جو اللہ کے بجائے اپنے مقابلے میں صف آرا قوتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں فخر محسوس کرے’ اور دنیا کے نظام کو خطرے میں ڈالے بغیر امن اور شانتی کے ساتھ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی سعی کرتا رہے: ایک ایسا اسلام جس کا جہاد ’شریعت اور خلافت سے’جس کو اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر قائم کرنے کا حکم دیا ہے’ کوئی واسطہ نہ ہو ۔آج اس سوچ اور فکر کے کرشمے جگہ جگہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ آج اگر ایک طرف ترکی ’ فرانس اور الجزائر میں میری بہنوں کے سروں سے حجاب کو نوچا جارہا ہے تو ہالینڈ اور جرمنی میں اس کی ابتدا ہونے والی ہے ۔ آج برطانیہ میں سابق سیکرٹری خارجہ جیک سٹرا پردے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں ( ایک عورت ہونے کے ناطے)کسی گورے اور ادھیڑ عمر کے مرد(جیک سٹرا ) کو یہ اختیار نہیں دے سکتی کہ وہ مجھے بتا تا پھرے کہ میں کیا پہنوں اور کیا نہ پہنوں۔ میں انھیں بتا نا چاہتی ہو ں کہ وہ میرے کپڑوں کی الماری سے تو کیا ’ روئے زمین پر بسنے والی ہر بیٹی کے کپڑوں کی الماری سے دُور رہیں ۔
آج میں نے صبح قاہرہ کے ایک اخبار میں پڑھا کہ وزیر ثقافت فاروق حسنی نے نقاب کو پس ماندگی قرار دیا ہے۔ اس کو یہ کہنے کی جسارت کیسے ہوئی؟ مصر کے نوجوان تماشا دیکھنے کے بجائے اس کی زبان کو لگام کیوں نہیں دیتے۔ یہ تو ہر اس عورت کی جس نے اپنے جسم کو ڈھانک کر رکھنے کو پسند کیا ہے’ توہین اور عزت نفس کو مجروح کر نے والی بات ہے ۔ فاروق حسنی اسلام کے لیے باعث ندامت ہے ۔ وہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہمارے نوجوانوں کو اپنے دوغلے پن سے کیا پیغام دینا چاہتا ہے۔نقاب ’ برقع ’ اور حجاب تو وہ علامات ہیں جو آج نشے ’ بھنگ ’ اور کھلی جنس پرستی جیسی منفی اقدار پر مبنی مغربی طرز زندگی کو مسترد کرنے کا پیغام دے رہے ہیں۔ اس میں مغرب کے لیے یہ پیغام ہے کہ ہمیں آپ کی طرح زندگی گزارنے کا کوئی شوق نہیں ۔
مجھے ان عرب نوجوانوں پر ہنسی آتی ہے جو مغرب سے بھی زیادہ مغرب زدہ بننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کیا انھیں معلوم ہے کہ ان حرکتوں سے وہ دنیا کی نظروں سے کس قدر گر رہے ہیں ۔ ایسے وزیر کو فوراً معزول کیا جائے جس نے ہر اس بہن کی توہین کی ہے جواپنے جسم کو ڈھانکنے کا فیصلہ کر چکی ہے ۔
میں پچھلی دفعہ قاہرہ آئی تو مجھے جامعہ ازہر کے شیخ طنطاوی نے صرف اس لیے انتہا پسند کہا کہ میں نے ان سے مصا فحہ نہیں کیا ۔ انتہا پسند اور اعتدال پسند کون ہیں؟ مجھے اس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ۔میں تو بس ایک سیدھی سادی مسلمان ہوں۔ میں کسی فقیہ یا کسی فرقے کے بجاے اپنے نبیؐ اور آپؐ کی سنت کی پیروی کرتی ہوں۔ کیا ایساکرکے میں انتہا پسند بن گئی ہوں۔ میں کبھی کہتی ہوں کہ مسلمان ہونے کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کسی خاتون کو حمل ہوجائے۔ اب اگر کسی کو حمل ہے’ تو وہ ہے اور اگر نہیں ہے تو بالکل بھی نہیں ۔ کیا کسی نے آج تک یہ بھی سنا کہ کسی کو اعتدال پسنداور کسی کو شدت پسند حمل ہے؟
اسلام پچھلے ۱۴۰۰ سال سے حملوں کی زد میں ہے’ اور اب ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ کے سوا کسی اور سے امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہییں ۔ لیکن اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو جس ہاتھ سے منہ پر تھپڑ کھاتے ہیں اسی کو چومتے بھی ہیں ۔ اب وہ زمانہ گزر گیا جب محض کسی کی لمبی داڑھی اوراسلامی طرز لباس کو دیکھ کر لوگ ان سے توقعات وابستہ کریں ۔ ایسے مسلمان رہنما بھی ہیں جو مسلمانوں کی رہنمائی کرنے اور ان کے مفادات کے تحفظ کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کے دل اس فکر سے خالی ہوتے ہیں ۔
آج شاید ضمیر کی ملامت کا بوجھ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہماری زبانیں بھی گنگ ہوگئی ہیں۔ اب فلسطین اور مسلمانوں کے دیگر مقبوضہ علاقوں میں ہونے والے استشہادی حملوں کی بھی یوں مذمت ہورہی ہے جیسے نائن الیون ’ بالی اور لندن میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کی گئی تھی۔ہمیں اپنے نوجوانوں کو یہ بتا نا چاہیے کہ فلسطین ’ کشمیر ’ چیچنیا ’ عراق اور افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تو ظلم پر مبنی بیرونی فوجی قبضے کے خلاف ایک جائز مزاحمت ہے’ جب کہ نائن الیون اور لندن میں ہونے والے واقعات صریح دہشت گردی پر مبنی ہیں۔ ان دونوں کو ایک نظر سے دیکھنے کی یہ سوچ اصل میں ان بہنوں اور بھائیوں سے غداری کے مترادف ہے جن کے پاس لڑ کر مزاحمت کر نے یا روئے زمین سے ہمیشہ کے لیے مٹ جانے کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔
آج مغرب کے زرخرید غلام اسلامی جماعتوں اور حکومتوں کو شریعت کے حوالے سے تنقید کا نشا نہ بنا تے ہیں ۔ خود نوجوانوں اور طلبہ پر مشتمل وہ تنظیمیں جنھوں نے مسلسل عراق اور فلسطین کے لیے مہم چلائی ’ ان کی زبانیں محض اس لیے خاموش ہیں کہ وہ ‘اعتدال پسند’ کہلائے جائیں۔ برطانیہ میں تو آج کل ان لوگوں کی بھر مار ہے جن کو میں ‘تالی بجانے والے’ کہتی ہوں ۔ برطانیہ کی حکومت ان لوگوں کو ‘ من پسند اسلام ’ کی تبلیغ کے لیے کینیڈا ’ امریکا ’ یمن اور موریطانیہ سے درآمدکرتی ہے ۔ یہ لوگ ہمارے نوجوانوں کے ذہن کو آلودہ کر رہے ہیں اور اس سے پہلے کہ یہ ساری دنیا میں پھیل جائیں ہمیں ان کا سد باب کر نا چاہیے۔
ان لوگوں کو وہابی مکتبہ فکر سے زیادہ چڑ ہے اور بہت بدنیتی سے ان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ بعض تو حمد و نعت کا بھی غلط استعمال کرتے ہیں اور جس طرح سے یہ لوگ حمد و نعت کے ساتھ مغربی موسیقی کی لے ملا رہے ہیں ’ میرے لیے یہ کافی پریشانی کا باعث ہے۔
ان ساری کو ششوں کا مطمح نظر یہ ہے کہ اللہ کے خالص دین’ اسلام میں ملاوٹ کرکے ایک ایسا دین سامنے لایا جائے جو بنیادی طور پر کمزور ہو اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی پر سمجھوتہ کرنے والا ہو۔ ایک ایسا اسلام جس کے ماننے والے رات بھر مغربی موسیقی کے لَے میں گائے جانی والی نعتوں پر جھومتے رہیں ۔ خود مغرب میں ر ہ کر تمام تر توجہ نجی زندگی کی ترقی پر مرکوز رہے اور ظلم و جبر کے مقابلے میں ہر طرح سے مزاحمت کرنے والے اپنے بھائیوں اور بہنوں کی کوششوں پر تنقید کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے ۔ اب تو ان کے لیے دعا کر نا بھی ایک جرم بن چکا ہے ۔ ہمیں کچھ عرصے سے یہ بھی بتا یا جا رہا ہے کہ مجاہدین کے لیے دعا بھی نہ کی جائے۔
دنیا کے ایک بہت بڑے فوجی جرنیل ’ سلطان صلاح الدین ایوبی سے ’ جس کو دنیا فاتح القدس کے نام سے جانتی ہے ’ کسی نے ایک دن پوچھا کہ آپ مسکراتے کیوں نہیں ؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں کیسے مسکرا سکتا ہوں’ جب کہ بیت المقدس صلیبیوں کے قبضے میں ہے ۔ میں سوچتی ہوں کہ اگر وہ آج زندہ ہوتے تو ہمیں دیکھ کر کیا کہتے؟ وہ ہمارے نوجوانوں کو کیا مشورہ دیتے؟ ہمیں نبی کریمؐ اور صحابہ کرامؓ کی سیرت مبارکہ کی روشنی میں اپنے بچوں کی ایسی تعلیم و تربیت کرنی چاہیے کہ وہ ان کے نمونے پر چلیں اور ان سے سبق لے سکیں ۔ جب تک اس اُمت میں خالدبن ولید ’ سلطان صلاح الدین ایوبی ’ سید قطب اور میلکم ایکس جیسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے ’ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھو ٹے گا۔ یہ اسلام کی فطرت ہے کہ جابر جس قد زیادہ جبر ڈھائیں گے ’ بیداری کی لہر اس قدر شدید سے شدید تر ہوتی چلی جائے گی ۔ ہمارے نوجوانوں کوچاہیے کہ اسی اسلام (ظلم اور جبر کے مقابلے میں مزاحمت کا شعار ) کومشعل راہ بنا کر اس کی پیروی کریں ۔
فاروق حسنی اور اسی قبیل کے لوگ تودر اصل نا مرد ہیں ۔ انھوں نے محض مغرب کے رہنے والوں سے زیادہ مغربیت دکھانے کے لیے بڑے بے ڈھنگے انداز سے بزدلی اور نامردی کی بات ہے۔ فاروق حسنی جیسے لوگوں کو تاریخ کی کتابوں میں ایک جملے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی’ مگر ہماری بہنوں اور بھائیوں کی مزاحمت’ استقامت اور تاریخی بہادری پر کئی ابواب رقم کیے جائیں گے۔
آج ان مسلمان نوجوانوں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جن کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ چاہے وہ اپنے آپ کو مغربی معاشرے میں ضم کروانے کے لیے اپنے دین پر کتنا ہی سمجھوتاکیوں نہ کرلیں’ جب بھی حالات بگڑیں گے تو سب سے پہلے شک کی نگاہ ان پر پڑے گی ۔ یہ لوگ ہم مسلمانوں کو شریعت ’ خلافت اور جہاد کو بھو ل جانے کی جس قدر زیادہ تلقین کریں گے’ ان اقدار کو بچانے کے لیے مسلمانوں میں خون دینے کا جذبہ بھی اسی قدر زیادہ پروان چڑھے گا ۔
آج فلسطین ’ عراق ’ افغانستان’ کشمیر اور چیچنیا میں جو جہاد ہم دیکھ رہے ہیں ’یہ بے انصافی اور جبر کے خلاف بالکل ایک جائز جنگ ہے ۔
یادرکھیے ! جہادیوں کے طرز عمل سے مغرب یا مغرب کی طرز زندگی کو کوئی خطرہ نہیں۔ مذہبی عیسائی بنیادپرست ہیں جو ہمارے نوجوانوں کو شدت پسندی کی طرف لے جانے کا باعث بن رہے ہیں’کیونکہ بش اور بلیر دونوں ہی القاعدہ جیسی تحریکوں کے لیے بھرتی کا فریضہ بہت اچھے طریقے سے انجام دے رہے ہیں ۔ آج بہت سارے نوجوان صرف اس حقیقت کو پانے کی وجہ سے بیدار ہورہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں اصل ہدف دہشت گردی نہیں’ اسلام ہے ۔آج یہ امت کا اولین فریضہ ہے کہ اپنے نوجوانوں کی بیداری اور نشان منزل دکھانے کے لیے اس جذبے اور اخلاص سے کام کرے جس طرح حضوؐر نے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا اور ان کو راستہ دکھایا۔ آج بھی آپؐ کی ذات اقدس کی پاکیزہ تعلیمات سے سے بہت سارے لوگ نشان منزل کو پارہے ہیں ۔ آج کے نوجوانوں کو سب سے اہم بات یہ سمجھانی چاہیے کہ اللہ کے علاوہ کسی سے بھی خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔