حکم ربانی
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ.کَبُرَ مَقْتاً عِندَ اللَّہِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ۔ (الصف۶۱:۲،۳)
‘‘مومنو! تم ایسی باتیں کیوں کہا کرتے ہو جو کیا نہیں کرتے۔ خدا اس بات سے سخت بیزار ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں۔’’
إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِیْ الدَّرْکِ الأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَہُمْ نَصِیْراً.(النساء۴:۱۴۵)
‘‘کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور تم کسی کو ان کا مددگار نہ پاؤ گے۔’’
فرمانِ نبوی
آیۃ المنافق ثلاث، اذا حدث کذب، اذا اوتمن خان و اذا وعد اخلف۔ (صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب علامات المنافق)
‘‘منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو اسے پورا نہ کرے اور امانت میں خیانت کرے۔’’
قال رجل لحذیفۃؓ: یا ابا عبداللہ! ماالنفاق؟ فقال: ان تتکلم بالاسلام ولا تعمل بہ۔(مسند الامام الربیع)
‘‘ایک آدمی نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نفاق کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: یہ کہ تم زبان سے تو اسلامی تعلیمات کا اقرار کرو لیکن ان کے عمل نہ کرو۔’’
(جاوید احمد غامدی)
جواب: نفاق کی اصولی تعریف یہ ہے کہ دل اور زبان متفق نہ ہوں۔ اس کی دو بڑی قسمیں ہیں اعتقادی اور عملی۔ اعتقادی نفاق ایک قسم کا کفر ہے اور عملی نفاق، فسق۔ اعتقادی نفاق کی تعریف یہ ہے کہ آدمی ایمان کا اظہار تو کرے مگر دل میں ایسا انکار رکھے جو ارادتاً ہو، یا دوسرے لفظوں میں اقرار ظاہر کرنا اور انکار چھپانا۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے:
إِذَا جَاء کَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْہَدُ إِنَّکَ لَرَسُولُ اللَّہِ وَاللَّہُ یَعْلَمُ إِنَّکَ لَرَسُولُہُ وَاللَّہُ یَشْہَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَکَاذِبُونَ. اتَّخَذُوا أَیْمَانَہُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوا عَن سَبِیْلِ اللَّہِ إِنَّہُمْ سَاء مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ. (المنافقون۶۳:۱،۲)
‘‘اے محمد! جب منافق لوگ تمھارے پاس آتے ہیں تو (ازراہ نفاق) کہتے ہیں کہ ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ بے شک خدا کے پیغمبر ہیں اور خدا جانتا ہے کہ درحقیقت تم اس کے پیغمبر ہو لیکن خدا ظاہر کیے دیتا ہے کہ منافق (دل سے اعتقاد نہ رکھنے کے لحاظ سے ) جھوٹے ہیں۔ انھوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور ان کے ذریعے سے (لوگوں کو) راہِ خدا سے روک رہے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ جو کام یہ کرتے ہیں برے ہیں۔’’
نفاق عملی یہ ہے کہ دین کے احکام کو ماننے کے باوجود ان پر دانستہ اور اختیاراً عمل نہ کیا جائے جیسا کہ قرآن حکیم نے سورہ الصف میں ان لوگوں کی نکیر کی ہے جن کے قول و فعل میں تضاد ہو۔
واضح رہے کہ اعتقادی نفاق کفر کی بدترین قسم ہے اور عملی نفاق فسق کی جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ منافق کی نشانی یہ ہے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے ، امانت میں خیانت کرتا اور وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ نیز فرمایا:
لا الہ الا اللہ کلمۃ الف اللہ بھا قلوب المسلمین. فمن قال واتبعھا بالعمل الصالح فھو مومن ومن قالھا واتبعھا بالفجور فھو منافق.(مسند الامام ربیع)
‘‘یعنی لا الہ الا اللہ وہ کلمہ ہے جس سے اللہ نے مسلمانوں کے دلوں کو باندھ رکھا ہے پس جس نے یہ کلمہ پڑھا اور اس کے مطابق صالح اعمال کیے وہ مومن ہے اور جس نے یہ کلمہ پڑھا اور برے اعمال کیے وہ منافق ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: قنفاق کا سب سے بڑا ضرر تو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے نتیجے میں جہنم کی آگ کا عذاب ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے گڑھے میں ہوں گے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: اعتقادی نفاق کا علاج ہمیں درکار نہیں ہے کیونکہ ایک مسلمان کو مسلمان رہتے ہوئے یہ مرض لاحق نہیں ہوتا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اعتقادی نفاق کا حامل خود کو مریض نہیں سمجھتا اس لیے اس کو کوئی علاج بتانا بے سود اور بے معنی ہے۔ البتہ اس نفاق میں مبتلا کسی شخص کو خیرخواہی اور تبلیغ کی نیت سے بعض طریقوں سے سمجھانے اور حق کی طرف مائل کرنے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے۔ اس کا بیان ان شاء اللہ ‘آداب تبلیغ’ میں ہو گا۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: عملی نفاق کی دو حالتیں ہیں۔ پہلی حالت تو یہ ہے کہ آدمی اس نفاق میں مبتلا ہو مگر کسی وجہ سے اس کے ضرر کو محسوس نہ کرتا ہو۔ دوسری حالت یہ ہے کہ اس کا شکار تو ہو لیکن اس سے رہائی پانے کی خواہش بھی رکھتا ہو۔پہلی حالت عموماً دو وجوہ سے پیش آتی ہے۔ ایک غلط عقائد اور دوسرے حب دنیا، اس کا علاج اصولاً تصحیح عقائد سے شروع ہو گا۔ ایسے شخص کی وہ غلطی دریافت کرنی چاہیے جس کی وجہ سے وہ اپنے نفاق کے نقصانات کی طرف پوری طرح متوجہ نہیں ہو پا رہا۔ عام طور پر اس غلطی کے دو سبب ہوتے ہیں:
(۱) اللہ کی رحمت کا غلط تصور اور
(۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا غلط تصور۔
سب سے پہلے یہ باور کرنا اور کرانا چاہیے کہ اللہ کی رحمت اگر آخرت میں بھی نافرمانوں پر ایسی عام ہو کہ بڑے سے بڑا نافرمان بھی بخشا جائے تو اس کا سیدھا سادا مطلب تو یہ ہوا کہ ، نعوذ باللہ، اللہ کے احکام محض مذاق تھے اور ظاہر ہے کہ یہ بات اللہ تبارک و تعالیٰ کی شان کے اس قدر خلاف ہے کہ خود یہ شخص بھی رحمت کا خود ساختہ تصور رکھتا ہے، اسے قبول نہیں کر سکتا۔ دوسرے سبب کا ازالہ بھی اسی نہج پر ہو گا کہ بلا قید اور عام شفاعت رسول کریم ﷺ کی عبدیت ہی نہیں بلکہ رسالت کے بھی منافی ہے کیونکہ اگر اس طرح کی شفاعت آپﷺ کو فرمانا تھی تو آپ ﷺ کا بندگی پر اصرارکوئی معنی نہیں رکھتا اور وہ پیغام بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا جو آپ انسانوں کی اخروی نجات کے واحد ذریعے کے طور پر لے کر آئے۔ باقی رہی حب دنیا تو اس کی تعریف اور علاج نفاق کے بعد زیر بحث آئے گا۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: اس معاملے میں علاج دراصل دو چیزوں کا ہو گا: ایک کسل اور دوسرے آخرت پر مطلوبہ یقین نہ ہونا۔ کسل کے علاج کا آغاز نماز با جماعت کی پابندی سے ہو گا اور رفتہ رفتہ دوسرے معاملات کا بھی احاطہ کرے گا۔ جماعت کی پابندی کسل کی دونوں قسموں یعنی ذہنی اور جسمانی کا علاج ہے۔آخرت پر مطلوبہ یقین پیدا کرنے کی بہترین تدبیر تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے جن کے قول و فعل سے اللہ کا خوف جھلکتا ہو، تاہم اگر اس طرح کی صحبت میسر نہ ہو تو آخرت سے متعلق آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ یا کوئی مستند کتاب باربار پڑھنے کی عادت ڈالی جائے۔ شروع میں اگر دل نہ لگے تو بھی یہ مطالعہ جاری رکھنا چاہیے۔ اس میں کچھ رسوخ پیدا ہو جائے تو پھر موت کو یاد رکھنے کی مشق کرنی چاہیے، یہ آخرت کے یقین کو بھی کامل کرتی ہے اور عمل کے محرکات کو بھی تقویت پہنچاتی ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
حکم ربانی
وَمَا ہَذِہِ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلَّا لَہْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوانُ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ.(العنکبوت۲۹:۶۴)
‘‘اور یہ دنیا کی زندگی تو کھیل تماشا ہے۔ آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے۔ کاش وہ اس حقیقت کو جانتے!’’
یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا وَلَا یَغُرَّنَّکُم بِاللَّہِ الْغَرُورُ.(فاطر۳۵:۵)
‘‘اے لوگو! بے شک اللہ کا وعدہ قیامت برحق ہے، لہٰذا دنیا کی زندگی تمھیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ وہ بڑا دھوکے باز تمھیں اللہ کے بارے میں دھوکا دینے پائے۔’’
فرمان نبوی
‘‘ماالدنیا فی الآخرۃ الامثل ما یجعل احدکم اصبعہ فی الیم، فلینظربما یرجع؟’’(صحیح مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا، باب فناء الدنیا)‘‘آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسے ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے تو پھر دیکھو کہ وہ کتنا پانی ساتھ لاتی ہے؟’’
‘‘عن ابی ہریرہؓ قال: رایت سبعین من اھل الصفۃ ما منھم رجل علیہ رداء، اما ازار واما کساء قدر بطوافی اعناقھم فمنھا ما یبلغ نصف الساقین ومنھا ما یبلغ الکعبین، فیجمعہ بیدہ کراھیہ ان تری عورتہ.’’(صحیح بخاری، کتاب المساجد، باب نوم الرجال فی المسجد)
‘‘حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ میں نے ستر اہل صفہ کو دیکھا ان میں کسی کے پاس جسم کے اوپر کا حصہ چھپانے کے لیے چادر نہیں تھی، کسی کے پاس نچلا دھڑ ڈھانکنے کے لیے ازار (تہ بند، دھوتی، پاجامہ وغیرہ) ہوتی یا چادر جسے وہ اپنی گردنوں میں باندھ لیتے وہ کپڑا کسی کی نصف پنڈلی تک پہنچتا اور کسی کے ٹخنوں تک، پس وہ اسے اپنے ہاتھ سے اکٹھا کر رکھتے کہ کہیں ان کا قابل ستر حصہ عریاں نہ ہو جائے۔’’
(جاوید احمد غامدی)
جواب: حب دنیا یہ ہے کہ دنیا اس قدر مطلوب ہو جائے کہ آدمی اس کے حصول کا ہر ذریعہ، خواہ صحیح ہو یا غلط، اختیار کر لے اور اس بارے میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی واضح ناراضی اور غضب کو بھی خاطر میں نہ لائے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ دنیا کی طلب اور محبت کا اللہ کی طلب اور محبت پر بداہتہً غا لب آجانا حب دنیا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: حب دنیا نہ صرف یہ کہ تمام گناہوں کی جڑ ہے بلکہ اپنے شکار کو کفر، شرک اور جہنم تک پہنچا سکتی ہے جیسا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے متعدد ارشادات سے ثابت ہوتا ہے:
اِعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَزِیْنَۃٌ وَتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِیْ الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ کَمَثَلِ غَیْثٍ أَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہُ ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرَاہُ مُصْفَرّاً ثُمَّ یَکُونُ حُطَاماً وَفِیْ الْآخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ.(الحدید۵۷:۲۰)
‘‘جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت (وآرائش) اور تمھارے آپس میں فخر (وستائش) اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب (و خواہش) ہے۔ (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے بارش کہ (اس سے کھیتی اگتی اور) کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے۔ پھر وہ خوب زور پر آتی ہے۔ پھر (اے دیکھنے والے) تو اس کو دیکھتا ہے کہ یہ(پک کر) زرد پڑ جاتی ہے پھر چورا چورا ہوتی ہے۔ اور آخرت میں(کافروں کے لیے) عذاب شدید اور( مومنوں کے لیے)خدا کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے۔
إَنَّ الَّذِیْنَ لاَ یَرْجُونَ لِقَاء نَا وَرَضُواْ بِالْحَیْاۃِ الدُّنْیَا وَاطْمَأَنُّواْ بِہَا وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ آیَاتِنَا غَافِلُونَ.أُوْلَـئِکَ مَأْوَاہُمُ النُّارُ بِمَا کَانُواْ یَکْسِبُونَ.(یونس۱۰:۷،۸)
‘‘جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی توقع نہیں اور دنیا کی زندگی سے خوش اور اس پر مطمئن ہو بیٹھے اور ہماری نشانیوں سے غافل ہو رہے ہیں’’ ان کا ٹھکانا ان (اعمال) کے سبب جو وہ کرتے ہیں دوزخ ہے۔’’
‘‘مررسول اللہ ﷺ بشاۃ میتۃ قد القاھا اھلھا فقال والذی نفسی بیدہ للدنیا اھون علی اللہ من ھذہ علی اھلھا.’’(جامع الترمذی، ابواب الزھد ، باب ماجاء فی ھوان الدنیا علی اللہ عزواجل)‘‘نبی کریم ﷺایک مری ہوئی بکری کے پاس سے گزرے جسے کوئی باہر پھینک گیا تھا اور اسے دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اللہ کے نزدیک دنیا کی اتنی بھی اہمیت نہیں جتنی اس مری ہوئی بکری کی اس کے مالک کے نزدیک ۔’’
‘‘الدنیا سجن المؤمن وجنۃ الکافر۔’’ (صحیح مسلم، کتاب الزہد، باب الدنیا سجن المؤمن)
‘‘دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت۔’’
(جاوید احمد غامدی)
جواب: نفس انسانی کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے مطلوب کو باقی دیکھنا چاہتا ہے یعنی نفس کی طلب اور رغبت کا اصول یہ ہے کہ وہ اپنے مطلوب اور مرغوب سے علی الدوام واصل رہنا چاہتا ہے۔ اگر اس پر یہ بات عقلاً ہی نہیں تجربے اور مشاہدے سے بھی ثابت ہوجائے کہ یہ جس کی طلب میں سرگرداں ہے وہ خود بھی فانی ہے اور اس کو بھی فنا سے نہیں بچا سکتا تو اس صورت میں اس کی طلب و رغبت کا رخ بدل سکتا ہے۔ اور یہ اصول کہ نفس کا سب سے بڑا مطلوب بقا اور دوام راحت ہے، ایسا بدیہی امر ہے کہ کوئی شخص اس کی دلیل طلب کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ دوسری طرف یہ بھی اتنی ہی حتمی اور یقینی بات ہے کہ دنیا اور دنیا کی راحتیں خود اس کے طالب کے ساتھ فنا ہو جانے والی ہیں۔ اس تجربی صداقت کا استحضار اور اس ایمانی حقیقت کی یاد دہانی کہ آخرت اور اس کی راحتیں نہ صرف یہ کہ خود باقی رہنے والی ہیں بلکہ اپنے طالب کی مطلوبہ بقا کا بھی سامان رکھتی ہیں، حب دنیا کی گرفت کمزور کرنے کی واحد اصولی تدبیر ہے۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مرض اتنا گہرا اور پیچیدہ ہے کہ جب تک مریض خود اس سے نکلنے کی جان توڑ کوشش، جسے اصطلاح میں مجاہدہ کہتے ہیں، نہیں کرے گا، پورا افاقہ نہیں ہو سکتا۔ اس مجاہدے کے اجزاء یہ ہیں:
(۱) انفاق: جس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ اپنی ضرورت سے زائد اللہ کی راہ میں خرچ کرو(البقرہ ۲:۲۱۹)۔ شریعت نے ‘‘ضرورت’’ کے بے لچک حدود مقرر نہیں فرمائے ہیں۔ ہم معالجے کی مصلحت سے یہ تجویز کریں گے کہ بہت بنیادی ضروریات سے زیادہ مال و اسباب کو اللہ کی راہ میں خرچ کر دینا انفاق کا وہ درجہ ہے جس کا پسندیدہ ہونا شرعاً بھی ثابت ہے، تاہم حب دنیا کے علاج کے لیے اسے لازم سمجھنا چاہیے۔ انفاق کے اس درجے پر ایک ضابطہ اور بھی ملحوظ رکھنا چاہیے اور وہ یہ کہ ہر وہ زائد از ضرورت چیز فوری طور پر کسی مستحق کو دے دی جائے جس کی طرف نفس میں رغبت پائی جاتی ہو۔
(۲) گھر میں دنیا کی باتیں نہ کرنا مثلاً اولاد سے اس طرح گفتگو کہ تمھیں ڈاکٹر بنناہے یا انجینئر، مضر ہے بلکہ ان کے مستقبل پر اس طرح بات کرنی چاہیے کہ تمھیں ہر حال میں مسنون زندگی گزارنی ہے خواہ اس کا نتیجہ دنیاوی تنگی ہی کیوں نہ ہو۔ اس طرح آدمی کا فوری ماحول کم از کم اتنا ضرور ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے لیے دنیا کی محبت کا محرک نہ بنے۔ یہ ضابطہ رفتہ رفتہ دیگر تعلقات پر بھی عائد کرنا چاہیے۔
(۳) موت کی یاد، قبر کا دھیان اور قبرستان میں عبرت کے حصول کے لیے آمدورفت۔
(۴) دوستوں کی خبرگیری اور ان کی محبت بڑھانے کی تدابیر سوچنا۔ اس سے دو چیزیں میسر آئیں گی جو حب دنیا کے علاج میں نہایت مفید ہیں۔ ایک ایثار اور دوسرے انکسار۔ رفتہ رفتہ خبرگیری کے اس دائرے کو وسعت دے کر عام مسلمانوں تک پہنچا دینا چاہیے۔
(جاوید احمد غامدی)
حکم ربانی
وَلاَ تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا. (الاسراء ۱۷:۳۷)‘‘اور زمین پر اکڑ کر نہ چلو۔’’
تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُونَ عُلُوّاً فِیْ الْأَرْضِ وَلَا فَسَاداً وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ.(القصص۲۸:۸۳)
‘‘یہ آخرت کا گھر ہم انہی لوگوں کے لیے خاص کرتے ہیں جو دنیا میں بڑائی چاہتے ہیں اور نہ فساد اور اچھا انجام پرہیزگاروں کے لیے ہے۔’’
فرمانِ نبوی
‘‘الااخبرکم باھل النار؟ کل عتل جواظ مستکبر’’(صحیح بخاری، کتاب التفسیر و صحیح مسلم، کتاب الجنۃ ، باب النار یدخلھا الجبارون)
‘‘کیا میں تمھیں جہنمیوں کی خبر نہ دوں؟ ہر سرکش، بخیل اور متکبر جہنمی ہے۔’’
‘‘قال اللّٰہ عزوجل: العزا زاری، والکبریاء ردائی، فمن یناز عنی عذبتہ’’(صحیح مسلم، کتاب السر، باب تحریم الکبر)
‘‘اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ عزت میرا پہناوا ہے اور بڑائی میری چادر ہے پس جو بھی ان میں سے کوئی ایک چیز بھی مجھ سے کھینچے گا میں اسے عذاب دوں گا۔’’
(جاوید احمد غامدی)
جواب: دوسروں کی تحقیر کرتے ہوئے اپنے آپ کو بڑا سمجھنا تکبر ہے۔ کسی واقعی خوبی اور فضیلت کی بنیاد پر اپنے کو بعض ایسے لوگوں سے بہتر سمجھنا جو وہی خوبی یا فضیلت یا تو سرے سے نہیں رکھتے یا مقابلتاً کم رکھتے ہیں، ممکن ہے کہ نا مناسب تو ہو مگر تکبر نہیں ہے۔ تکبر کا ایک لازمی جزو دوسروں کو حقارت سے دیکھنا ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے: ‘‘الکبر بطر الحق وغمط الناس’’ (صحیح مسلم، کتاب الایمان)یعنی تکبر یہ ہے کہ آدمی جانتے بوجھتے حق بات کو رد کرے اور لوگوں کی تحقیر کرے۔
تکبر کی دو قسمیں ہیں: ایک مطلق اور دوسرے جزوی۔ مطلق تکبر یہ ہے کہ آدمی اپنی واقعی یا فرضی خوبی کی نسبت اللہ کی طرف کیے بغیر دوسروں کو تحقیر کی نظر سے دیکھے۔ یہ تکبر شرک اور کفر تک پہنچا دیتا ہے۔ جزوی تکبر میں آدمی اس خوبی کو اللہ کی دین سمجھتا ہے مگر اس کی روح سے بیگانہ ہو کر اسے دوسروں کی توہین و تحقیر کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔ گویا تکبر کی ہر قسم میں دو چیزیں مشترک ہیں: خود کو بڑاجاننا اور دوسروں کی تحقیر، خواہ احساس میں ہو یا عمل میں۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: (۱) اللہ کی رضا سے محرومی۔
اِنَّہٗ لاَ یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَ. (النحل۱۶:۲۳)‘‘بے شک وہ (یعنی اللہ) تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔’’
(۲) جہنم میں ہمیشگی کا عذاب۔
قِیْلَ ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَہَنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْہَا فَبِءْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ. (الزمر۳۹:۷۲)‘‘(اللہ کا) حکم ہو گا کہ جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ اس میں ہمیشہ رہنے کے لیے۔ وہ کیا برا ٹھکانا ہے متکبر لوگوں کا۔’’نبی کریم ﷺنے بھی فرمایا ہے کہ متکبر جہنم کا ایندھن بنیں گے اور یہ کہ جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت سے محروم رہے گا۔ (مسند احمد بن حنبل، ج ۴،ص ۳۰۶)
(۳) لوگوں کی نفرت کا نشانہ بننا کیونکہ متکبر کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: آدمی کو مسلمان ہوتے ہوئے بھی تکبر کی یہ بدترین قسم پیش آسکتی ہے۔ ایک مسلمان اس تکبر میں اس طرح مبتلا ہوتا ہے کہ اس کے اندر یہ احساس تقریباً غائب ہو جاتا ہے کہ اس کی حقیقی یا مزعومہ خوبیاں اللہ کی دین ہیں، تاہم عقلی طور پر وہ اس کا انکار نہیں کرتا۔ مرض کی اس صورت میں مریض کو ایسے ماحول یا ایسے آدمیوں کی تفصیلی صحبت اختیار کرنے کا مشورہ دیا جائے گا جو ان امور میں، جن کی بنیاد پر تکبر پیدا ہوتا ہے، اس سے بڑھے ہوئے ہوں، مثلاً ایک شخص اس بات پر تکبر میں مبتلا ہو کہ وہ بہت ذہین یا طاقتور ہے تو اسے ایسے اشخاص کے پاس بھیجا جائے گا جو اس سے کہیں زیادہ ذہین اور طاقتور ہوں۔ اس طرح اس کا اپنے بارے میں یقین جو دعویٰ بن گیا ہے، متزلزل ہو جائے گا۔ پہلے قدم پر یہی تزلزل درکار ہے۔ اسی سے فائدہ اٹھا کر اسے یہ باور کرایا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسا کوئی ذریعہ عطا نہیں فرمایا جس کی بنیاد پر ہم اپنی کامل فضیلت کا کوئی حتمی فیصلہ کر سکیں۔ آگے کا معالجہ ان شاء اللہ تعالیٰ ان دو اقدام کے بعد خود بخود ہوتا جائے گا۔
ایک بات ملحوظ رہے کہ بعض لوگوں میں جو یہ مشہور ہے کہ متکبر کا علاج یہ ہے کہ اس کی تحقیر کی جائے تو یہ ہر صورت حال میں کارگر نہیں ہوتا۔ اکثر اوقات تحقیر سے تکبر بڑھتا ہے، کم نہیں ہوتا۔ ہاں! اسی طرح کا علاج اس تکبر میں موثر ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺکے انکار تک جا پہنچا ہو۔ اس میں تحقیر ہی واحد راستہ ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: دنیا میں ہر برائی سمجھانے سے ٹھیک ہو جاتی ہے لیکن سمجھانے کے بھی کئی مدارج ہوتے ہیں۔ تکبر میں جس طرح کا سمجھانا درکار ہے وہ یہ ہے کہ اونٹ کو پہاڑ تلے لے آیا جائے یعنی اسے ایک ٹھوس تقابل میں ڈال دیا جائے جس کے نتیجے میں اس کے پاس سوائے اعتراف کمتری کے کوئی اور راستہ نہ رہے۔ یہی تکبر کے تمام معالجوں کی بنیاد ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: یقینا کسی بھی معالجے کی کامیابی کی سطح برقرار رکھنا نہایت ضروری ہے اور یہ مختلف تدابیر کا تقاضا کرتا ہے۔ تکبر کے علاج کی تاثیر کو برقرار رکھنے اور ترقی دینے کے لیے چار طرح کے اعمال کی پابندی مفید اور موثر ہے۔
(۱) جماعت کی اس طرح پابندی کی صف میں اپنے قریب والے نمازی سے بالکل جڑ کر کھڑے ہونے کی عادت ڈالی جائے۔
(۲) وہ قرآنی آیات جو اللہ تعالیٰ کے جلال و کبریائی کا اظہار کرتی ہیں انھیں تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کی جائے اور ان میں سے بعض کو اپنا ورد بنایا جائے۔
(۳) کثرت تسبیح و تحمید تاکہ علاج میں ایسا مبالغہ بھی نہ ہو جائے کہ آدمی اپنی واقعی خوبیوں کا بھی منکر ہو جائے۔
(۴) کثرت استغفار۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: جی ہاں! جزوی تکبر کے ازالے کے لیے بھی وہی سب کچھ کرنا ہو گا جو اوپر بیان ہوا۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: جی نہیں! یہ تکبر نہیں ہے کیونکہ متکبر آدمی کسی چیز کی کوشش یا خواہش نہیں کرتا، اسے تو اپنے زعم میں ہر چیز حاصل ہوتی ہے۔ سوال میں بیان کردہ صورت اگر اعتدال کے ساتھ ہو تو فطری ہے لیکن اگر اعتدال کے ساتھ نہ ہو تو حب جاہ کا پیش خیمہ ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: اصولاً تکبر اور حب جاہ میں فرق ہے تاہم حب جاہ اپنی انتہاء کو پہنچ کر تکبر میں ڈھل جاتی ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
حکم ربانی
اِعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَزِیْنَۃٌ وَتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِیْ الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ کَمَثَلِ غَیْثٍ أَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہُ ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرَاہُ مُصْفَرّاً ثُمَّ یَکُونُ حُطَاماً وَفِیْ الْآخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ.(الحدید۵۷:۲۰)
‘‘جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت (وآرائش) اور تمھارے آپس میں فخر (وستائش) اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب (و خواہش) ہے۔ (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے بارش کہ (اس سے کھیتی اگتی اور) کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے۔ پھر وہ خوب زور پر آتی ہے۔ پھر (اے دیکھنے والے) تو اس کو دیکھتا ہے کہ یہ(پک کر) زرد پڑ جاتی ہے پھر چورا چورا ہوتی ہے۔ اور آخرت میں(کافروں کے لیے) عذاب شدید اور( مومنوں کے لیے)خدا کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے۔
أَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُ.حَتَّی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ.کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ.ثُمَّ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ.کَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ ……
‘‘تم کو کثرت (مال و جاہ) کی طلب نے غافل کر دیا یہاں تک کہ تم نے قبریں جا کر دیکھیں، دیکھو تمھیں عنقریب معلوم ہو جائے گا، پھر دیکھو تمھیں عنقریب معلوم ہو جائے گا، دیکھو اگر تم جانتے (یعنی) علم الیقین (رکھتے تو غفلت نہ کرتے) ’’(التکاثر۱۰۲:۱۔۵)
فرمانِ نبوی
ماذئبان جائعان ارسلا فی غنم بافسدلھا من حرص المرء علی المال والشرف لدینہ’’(جامع الترمذی، ابواب الزہد)
‘‘دوبھوکے بھیڑیے جو بکریوں کے ریوڑ میں گھس جائیں اس کا اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا حب مال و جاہ انسان کے دین کا کرتے ہیں۔’’
عن ابی موسیٰ قال: دخلت علی النبی ﷺ انا ورجلان من بنی عمی: فقال احد الرجلین، یا رسول اللہ! امرنا علی بعض ماولاک اللہ عزوجل؟ وقال الآخر مثل ذلک، فقال: انا، واللہ لا نولی علی ھذا العمل احدا سالہ، ولا احدًا حرص علیہ۔(صحیح مسلم، کتاب الامارہ)
‘‘حضرت ابو موسیٰؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریمﷺ سے ملنے گیا جب کہ میرے ساتھ میرے دو رشتہ دار بھی تھے۔ ان دونوں نے نبی اکرم سے درخواست کی کہ انھیں مناصب دیے جائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو مناصب کی حرص کرے اور ان کا مطالبہ کرے، ہم اسے یہ نہیں دیتے۔’’
(جاوید احمد غامدی)
جواب: حب جاہ کی پوری تعریف یہ ہے: بڑا بننے کی ایسی خواہش جو بندگی کی روح کے خلاف ہو اور جائز و ناجائز کی تفریق مٹا دے۔
حب جاہ کے علاج میں بڑی مدد ان امور سے بھی مل سکتی ہے جو تکبر اور حب جاہ کے لیے بتائے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ اس کے علاج میں دو اصول مستقلاً ملحوظ رکھنے چاہئیں: ایک ایثار اور دوسرے اخفائے صلاحیت۔ یہاں ایثار کے معنی یہ ہیں کہ آدمی ایک چیز کا شرعاً اور قانوناً مستحق ہوتے ہوئے بھی اسے کسی دوسرے مستحق کے لیے چھوڑ دے اور اخفاء کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی اپنی ان صلاحیتوں کو ایسے مواقع پر ظاہر نہ ہونے دے جہاں ان کے اظہار کے نتیجے میں کوئی مرتبہ و منصب حاصل ہو سکتا ہو۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: آپ کی پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ حصول مقصود کا ذریعہ اور اس کے حصول کا استحقاق اگر شرعی جواز کے ساتھ ثابت ہوں اور ناکامی کی صورت میں بھی کامیاب ہونے والوں سے حسد یا بغض وغیرہ پیدا نہ ہو تو ہم کہیں گے کہ آگے بڑھنے کی خواہش میں اعتدال ملحوظ رہا ہے۔ اس صورت میں آگے بڑھنے کی خواہش فطری ہے اور اس سے کسی نقص و ضرر کا احتمال نہیں ہوتا۔ ان چیزوں کا نہ ہونا البتہ اعتدال کے خلاف ہے اور حب جاہ پر دلالت کرتا ہے۔
جہاں تک آپ کے دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ حب جاہ کی تعریف میں بڑا بننے کی خواہش کے ‘‘خلاف بندگی’’ ہونے کا کیا مطلب ہے تو اس کے دو پہلو ہیں: ایک تو یہ کہ طالب جاہ اللہ سے ایک مشروط تعلق رکھتا ہے۔ مثلاً اس کی شکر گزاری اس وقت تک ہوتی ہے جب تک تمام معاملات اس کی خواہش کے مطابق چلتے رہتے ہیں، جوں ہی کوئی چیز خلاف مرضی ہوئی یہ شخص شکایت اور شکوے تک پہنچ جاتا ہے یعنی اس کا رویہ تسلیم و رضا کے خلاف ہوتا ہے۔ دوسرا پہلوعملی ہے اور وہ یہ کہ طالب جاہ کی امیدیں اگر پوری نہ ہوں تو اس کی عبادات میں بھی خلل پڑ جاتا ہے۔ یہ حب جاہ کی ایسی یقینی نشانی ہے کہ اسے ایک کلیہ سمجھنا چاہیے۔
خلاصہ یہ کہ بندگی کے دو اہم اجزاء ہیں: ایک ہر حال میں راضی برضا رہنا، ذہنی طور پر بھی اور طبعی طور پر بھی، دوسرے اعمال عبودیت کو ان کے بتائے ہوئے معیار کے ساتھ انجام دینا۔ طلب جاہ اگر پوری نہ ہو تو یہ دونوں چیزیں لازماً متاثر ہوتی ہیں۔ آدمی جانتے بوجھتے اللہ کی رضا سے نامطمئن ہو جاتا ہے اور اپنی امیدیں پوری نہ ہونے کی وجہ سے اس کی عبادت بھی کسی نہ کسی پہلو سے متاثر ہوتی ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: یہ قابل اصلاح حالت تو ہے لیکن یہ حب جاہ نہیں ہے کیونکہ حب جاہ کا مریض اپنے عدم تسلیم و رضا کے ردعمل کو ٹھیک سمجھتا ہے جبکہ زیر نظر سوال میں آدمی شکایت یا بے اطمینانی کا احساس رکھنے کے باوجود ایک تو اس کے مقتضاء پر عمل نہیں کرتا اور دوسرے اس کی اصلاح کی خواہش بھی رکھتا ہے۔ لہٰذا اسے مجموعی طور پر نفس کی کمزوری سے تو تعبیر کیا جائے گا لیکن حب جاہ کا نام نہیں دیا جائے گا۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: اس کا علاج یہ ہے کہ لمبی دعا مانگی جائے اور اس دعا کے بیشتر مضامین اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول اور آخرت کی بہتری سے متعلق ہوں۔ ان شاء اللہ اس پر مداومت سے اس کیفیت میں نمایاں بہتری کے آثار پیدا ہوں گے۔ اس کا تفصیلی بیان اس جگہ آئے گا جہاں ہم تعلق باللہ کی مضبوطی کے ذرائع پر گفتگو کریں گے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: فساد دین بلکہ دین کا خاتمہ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دو بھوکے بھیڑیے ریوڑ کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا حب جاہ اور حب مال انسان کے دین کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ (سنن ترمذی، کتاب الزہد)
حب جاہ کے نقصانات اور علاج کا تفصیلی بیان اس جگہ آئے گا جہاں ہم تعلق باللہ کی مضبوطی کے ذرائع پر گفتگو کریں گے۔
(جاوید احمد غامدی)