ج: بہترین انفاق وہ ہے جو خدا کی خوشنودی کے لیے کیا جائے ، جس کا مقصد تزکیہ حاصل کرنا ہو ۔ اس کی اعلی ترین قسم وہ ہے کہ آدمی اپنی کسی ضرورت کو روک کر کسی دوسرے کی ضرورت پوری کرے ۔ اوردوسروں کی ضروریات کو اپنی ذاتی ضرورت پر ترجیح دے۔
(جاوید احمد غامدی)
حکم ربانی
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ.کَبُرَ مَقْتاً عِندَ اللَّہِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ۔ (الصف۶۱:۲،۳)
‘‘مومنو! تم ایسی باتیں کیوں کہا کرتے ہو جو کیا نہیں کرتے۔ خدا اس بات سے سخت بیزار ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں۔’’
إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِیْ الدَّرْکِ الأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَہُمْ نَصِیْراً.(النساء۴:۱۴۵)
‘‘کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور تم کسی کو ان کا مددگار نہ پاؤ گے۔’’
فرمانِ نبوی
آیۃ المنافق ثلاث، اذا حدث کذب، اذا اوتمن خان و اذا وعد اخلف۔ (صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب علامات المنافق)
‘‘منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو اسے پورا نہ کرے اور امانت میں خیانت کرے۔’’
قال رجل لحذیفۃؓ: یا ابا عبداللہ! ماالنفاق؟ فقال: ان تتکلم بالاسلام ولا تعمل بہ۔(مسند الامام الربیع)
‘‘ایک آدمی نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نفاق کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: یہ کہ تم زبان سے تو اسلامی تعلیمات کا اقرار کرو لیکن ان کے عمل نہ کرو۔’’
(جاوید احمد غامدی)
جواب: نفاق کی اصولی تعریف یہ ہے کہ دل اور زبان متفق نہ ہوں۔ اس کی دو بڑی قسمیں ہیں اعتقادی اور عملی۔ اعتقادی نفاق ایک قسم کا کفر ہے اور عملی نفاق، فسق۔ اعتقادی نفاق کی تعریف یہ ہے کہ آدمی ایمان کا اظہار تو کرے مگر دل میں ایسا انکار رکھے جو ارادتاً ہو، یا دوسرے لفظوں میں اقرار ظاہر کرنا اور انکار چھپانا۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے:
إِذَا جَاء کَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْہَدُ إِنَّکَ لَرَسُولُ اللَّہِ وَاللَّہُ یَعْلَمُ إِنَّکَ لَرَسُولُہُ وَاللَّہُ یَشْہَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَکَاذِبُونَ. اتَّخَذُوا أَیْمَانَہُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوا عَن سَبِیْلِ اللَّہِ إِنَّہُمْ سَاء مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ. (المنافقون۶۳:۱،۲)
‘‘اے محمد! جب منافق لوگ تمھارے پاس آتے ہیں تو (ازراہ نفاق) کہتے ہیں کہ ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ بے شک خدا کے پیغمبر ہیں اور خدا جانتا ہے کہ درحقیقت تم اس کے پیغمبر ہو لیکن خدا ظاہر کیے دیتا ہے کہ منافق (دل سے اعتقاد نہ رکھنے کے لحاظ سے ) جھوٹے ہیں۔ انھوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور ان کے ذریعے سے (لوگوں کو) راہِ خدا سے روک رہے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ جو کام یہ کرتے ہیں برے ہیں۔’’
نفاق عملی یہ ہے کہ دین کے احکام کو ماننے کے باوجود ان پر دانستہ اور اختیاراً عمل نہ کیا جائے جیسا کہ قرآن حکیم نے سورہ الصف میں ان لوگوں کی نکیر کی ہے جن کے قول و فعل میں تضاد ہو۔
واضح رہے کہ اعتقادی نفاق کفر کی بدترین قسم ہے اور عملی نفاق فسق کی جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ منافق کی نشانی یہ ہے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے ، امانت میں خیانت کرتا اور وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ نیز فرمایا:
لا الہ الا اللہ کلمۃ الف اللہ بھا قلوب المسلمین. فمن قال واتبعھا بالعمل الصالح فھو مومن ومن قالھا واتبعھا بالفجور فھو منافق.(مسند الامام ربیع)
‘‘یعنی لا الہ الا اللہ وہ کلمہ ہے جس سے اللہ نے مسلمانوں کے دلوں کو باندھ رکھا ہے پس جس نے یہ کلمہ پڑھا اور اس کے مطابق صالح اعمال کیے وہ مومن ہے اور جس نے یہ کلمہ پڑھا اور برے اعمال کیے وہ منافق ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: قنفاق کا سب سے بڑا ضرر تو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے نتیجے میں جہنم کی آگ کا عذاب ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے گڑھے میں ہوں گے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: اعتقادی نفاق کا علاج ہمیں درکار نہیں ہے کیونکہ ایک مسلمان کو مسلمان رہتے ہوئے یہ مرض لاحق نہیں ہوتا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اعتقادی نفاق کا حامل خود کو مریض نہیں سمجھتا اس لیے اس کو کوئی علاج بتانا بے سود اور بے معنی ہے۔ البتہ اس نفاق میں مبتلا کسی شخص کو خیرخواہی اور تبلیغ کی نیت سے بعض طریقوں سے سمجھانے اور حق کی طرف مائل کرنے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے۔ اس کا بیان ان شاء اللہ ‘آداب تبلیغ’ میں ہو گا۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: عملی نفاق کی دو حالتیں ہیں۔ پہلی حالت تو یہ ہے کہ آدمی اس نفاق میں مبتلا ہو مگر کسی وجہ سے اس کے ضرر کو محسوس نہ کرتا ہو۔ دوسری حالت یہ ہے کہ اس کا شکار تو ہو لیکن اس سے رہائی پانے کی خواہش بھی رکھتا ہو۔پہلی حالت عموماً دو وجوہ سے پیش آتی ہے۔ ایک غلط عقائد اور دوسرے حب دنیا، اس کا علاج اصولاً تصحیح عقائد سے شروع ہو گا۔ ایسے شخص کی وہ غلطی دریافت کرنی چاہیے جس کی وجہ سے وہ اپنے نفاق کے نقصانات کی طرف پوری طرح متوجہ نہیں ہو پا رہا۔ عام طور پر اس غلطی کے دو سبب ہوتے ہیں:
(۱) اللہ کی رحمت کا غلط تصور اور
(۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا غلط تصور۔
سب سے پہلے یہ باور کرنا اور کرانا چاہیے کہ اللہ کی رحمت اگر آخرت میں بھی نافرمانوں پر ایسی عام ہو کہ بڑے سے بڑا نافرمان بھی بخشا جائے تو اس کا سیدھا سادا مطلب تو یہ ہوا کہ ، نعوذ باللہ، اللہ کے احکام محض مذاق تھے اور ظاہر ہے کہ یہ بات اللہ تبارک و تعالیٰ کی شان کے اس قدر خلاف ہے کہ خود یہ شخص بھی رحمت کا خود ساختہ تصور رکھتا ہے، اسے قبول نہیں کر سکتا۔ دوسرے سبب کا ازالہ بھی اسی نہج پر ہو گا کہ بلا قید اور عام شفاعت رسول کریم ﷺ کی عبدیت ہی نہیں بلکہ رسالت کے بھی منافی ہے کیونکہ اگر اس طرح کی شفاعت آپﷺ کو فرمانا تھی تو آپ ﷺ کا بندگی پر اصرارکوئی معنی نہیں رکھتا اور وہ پیغام بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا جو آپ انسانوں کی اخروی نجات کے واحد ذریعے کے طور پر لے کر آئے۔ باقی رہی حب دنیا تو اس کی تعریف اور علاج نفاق کے بعد زیر بحث آئے گا۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: اس معاملے میں علاج دراصل دو چیزوں کا ہو گا: ایک کسل اور دوسرے آخرت پر مطلوبہ یقین نہ ہونا۔ کسل کے علاج کا آغاز نماز با جماعت کی پابندی سے ہو گا اور رفتہ رفتہ دوسرے معاملات کا بھی احاطہ کرے گا۔ جماعت کی پابندی کسل کی دونوں قسموں یعنی ذہنی اور جسمانی کا علاج ہے۔آخرت پر مطلوبہ یقین پیدا کرنے کی بہترین تدبیر تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے جن کے قول و فعل سے اللہ کا خوف جھلکتا ہو، تاہم اگر اس طرح کی صحبت میسر نہ ہو تو آخرت سے متعلق آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ یا کوئی مستند کتاب باربار پڑھنے کی عادت ڈالی جائے۔ شروع میں اگر دل نہ لگے تو بھی یہ مطالعہ جاری رکھنا چاہیے۔ اس میں کچھ رسوخ پیدا ہو جائے تو پھر موت کو یاد رکھنے کی مشق کرنی چاہیے، یہ آخرت کے یقین کو بھی کامل کرتی ہے اور عمل کے محرکات کو بھی تقویت پہنچاتی ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: نفس انسانی کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے مطلوب کو باقی دیکھنا چاہتا ہے یعنی نفس کی طلب اور رغبت کا اصول یہ ہے کہ وہ اپنے مطلوب اور مرغوب سے علی الدوام واصل رہنا چاہتا ہے۔ اگر اس پر یہ بات عقلاً ہی نہیں تجربے اور مشاہدے سے بھی ثابت ہوجائے کہ یہ جس کی طلب میں سرگرداں ہے وہ خود بھی فانی ہے اور اس کو بھی فنا سے نہیں بچا سکتا تو اس صورت میں اس کی طلب و رغبت کا رخ بدل سکتا ہے۔ اور یہ اصول کہ نفس کا سب سے بڑا مطلوب بقا اور دوام راحت ہے، ایسا بدیہی امر ہے کہ کوئی شخص اس کی دلیل طلب کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ دوسری طرف یہ بھی اتنی ہی حتمی اور یقینی بات ہے کہ دنیا اور دنیا کی راحتیں خود اس کے طالب کے ساتھ فنا ہو جانے والی ہیں۔ اس تجربی صداقت کا استحضار اور اس ایمانی حقیقت کی یاد دہانی کہ آخرت اور اس کی راحتیں نہ صرف یہ کہ خود باقی رہنے والی ہیں بلکہ اپنے طالب کی مطلوبہ بقا کا بھی سامان رکھتی ہیں، حب دنیا کی گرفت کمزور کرنے کی واحد اصولی تدبیر ہے۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مرض اتنا گہرا اور پیچیدہ ہے کہ جب تک مریض خود اس سے نکلنے کی جان توڑ کوشش، جسے اصطلاح میں مجاہدہ کہتے ہیں، نہیں کرے گا، پورا افاقہ نہیں ہو سکتا۔ اس مجاہدے کے اجزاء یہ ہیں:
(۱) انفاق: جس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ اپنی ضرورت سے زائد اللہ کی راہ میں خرچ کرو(البقرہ ۲:۲۱۹)۔ شریعت نے ‘‘ضرورت’’ کے بے لچک حدود مقرر نہیں فرمائے ہیں۔ ہم معالجے کی مصلحت سے یہ تجویز کریں گے کہ بہت بنیادی ضروریات سے زیادہ مال و اسباب کو اللہ کی راہ میں خرچ کر دینا انفاق کا وہ درجہ ہے جس کا پسندیدہ ہونا شرعاً بھی ثابت ہے، تاہم حب دنیا کے علاج کے لیے اسے لازم سمجھنا چاہیے۔ انفاق کے اس درجے پر ایک ضابطہ اور بھی ملحوظ رکھنا چاہیے اور وہ یہ کہ ہر وہ زائد از ضرورت چیز فوری طور پر کسی مستحق کو دے دی جائے جس کی طرف نفس میں رغبت پائی جاتی ہو۔
(۲) گھر میں دنیا کی باتیں نہ کرنا مثلاً اولاد سے اس طرح گفتگو کہ تمھیں ڈاکٹر بنناہے یا انجینئر، مضر ہے بلکہ ان کے مستقبل پر اس طرح بات کرنی چاہیے کہ تمھیں ہر حال میں مسنون زندگی گزارنی ہے خواہ اس کا نتیجہ دنیاوی تنگی ہی کیوں نہ ہو۔ اس طرح آدمی کا فوری ماحول کم از کم اتنا ضرور ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے لیے دنیا کی محبت کا محرک نہ بنے۔ یہ ضابطہ رفتہ رفتہ دیگر تعلقات پر بھی عائد کرنا چاہیے۔
(۳) موت کی یاد، قبر کا دھیان اور قبرستان میں عبرت کے حصول کے لیے آمدورفت۔
(۴) دوستوں کی خبرگیری اور ان کی محبت بڑھانے کی تدابیر سوچنا۔ اس سے دو چیزیں میسر آئیں گی جو حب دنیا کے علاج میں نہایت مفید ہیں۔ ایک ایثار اور دوسرے انکسار۔ رفتہ رفتہ خبرگیری کے اس دائرے کو وسعت دے کر عام مسلمانوں تک پہنچا دینا چاہیے۔
(جاوید احمد غامدی)