حکم ربانی
وَمَا ہَذِہِ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلَّا لَہْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوانُ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ.(العنکبوت۲۹:۶۴)
‘‘اور یہ دنیا کی زندگی تو کھیل تماشا ہے۔ آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے۔ کاش وہ اس حقیقت کو جانتے!’’
یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا وَلَا یَغُرَّنَّکُم بِاللَّہِ الْغَرُورُ.(فاطر۳۵:۵)
‘‘اے لوگو! بے شک اللہ کا وعدہ قیامت برحق ہے، لہٰذا دنیا کی زندگی تمھیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ وہ بڑا دھوکے باز تمھیں اللہ کے بارے میں دھوکا دینے پائے۔’’
فرمان نبوی
‘‘ماالدنیا فی الآخرۃ الامثل ما یجعل احدکم اصبعہ فی الیم، فلینظربما یرجع؟’’(صحیح مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا، باب فناء الدنیا)‘‘آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسے ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے تو پھر دیکھو کہ وہ کتنا پانی ساتھ لاتی ہے؟’’
‘‘عن ابی ہریرہؓ قال: رایت سبعین من اھل الصفۃ ما منھم رجل علیہ رداء، اما ازار واما کساء قدر بطوافی اعناقھم فمنھا ما یبلغ نصف الساقین ومنھا ما یبلغ الکعبین، فیجمعہ بیدہ کراھیہ ان تری عورتہ.’’(صحیح بخاری، کتاب المساجد، باب نوم الرجال فی المسجد)
‘‘حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ میں نے ستر اہل صفہ کو دیکھا ان میں کسی کے پاس جسم کے اوپر کا حصہ چھپانے کے لیے چادر نہیں تھی، کسی کے پاس نچلا دھڑ ڈھانکنے کے لیے ازار (تہ بند، دھوتی، پاجامہ وغیرہ) ہوتی یا چادر جسے وہ اپنی گردنوں میں باندھ لیتے وہ کپڑا کسی کی نصف پنڈلی تک پہنچتا اور کسی کے ٹخنوں تک، پس وہ اسے اپنے ہاتھ سے اکٹھا کر رکھتے کہ کہیں ان کا قابل ستر حصہ عریاں نہ ہو جائے۔’’
(جاوید احمد غامدی)
جواب: حب دنیا یہ ہے کہ دنیا اس قدر مطلوب ہو جائے کہ آدمی اس کے حصول کا ہر ذریعہ، خواہ صحیح ہو یا غلط، اختیار کر لے اور اس بارے میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی واضح ناراضی اور غضب کو بھی خاطر میں نہ لائے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ دنیا کی طلب اور محبت کا اللہ کی طلب اور محبت پر بداہتہً غا لب آجانا حب دنیا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: حب دنیا نہ صرف یہ کہ تمام گناہوں کی جڑ ہے بلکہ اپنے شکار کو کفر، شرک اور جہنم تک پہنچا سکتی ہے جیسا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے متعدد ارشادات سے ثابت ہوتا ہے:
اِعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَزِیْنَۃٌ وَتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِیْ الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ کَمَثَلِ غَیْثٍ أَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہُ ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرَاہُ مُصْفَرّاً ثُمَّ یَکُونُ حُطَاماً وَفِیْ الْآخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ.(الحدید۵۷:۲۰)
‘‘جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت (وآرائش) اور تمھارے آپس میں فخر (وستائش) اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب (و خواہش) ہے۔ (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے بارش کہ (اس سے کھیتی اگتی اور) کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے۔ پھر وہ خوب زور پر آتی ہے۔ پھر (اے دیکھنے والے) تو اس کو دیکھتا ہے کہ یہ(پک کر) زرد پڑ جاتی ہے پھر چورا چورا ہوتی ہے۔ اور آخرت میں(کافروں کے لیے) عذاب شدید اور( مومنوں کے لیے)خدا کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے۔
إَنَّ الَّذِیْنَ لاَ یَرْجُونَ لِقَاء نَا وَرَضُواْ بِالْحَیْاۃِ الدُّنْیَا وَاطْمَأَنُّواْ بِہَا وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ آیَاتِنَا غَافِلُونَ.أُوْلَـئِکَ مَأْوَاہُمُ النُّارُ بِمَا کَانُواْ یَکْسِبُونَ.(یونس۱۰:۷،۸)
‘‘جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی توقع نہیں اور دنیا کی زندگی سے خوش اور اس پر مطمئن ہو بیٹھے اور ہماری نشانیوں سے غافل ہو رہے ہیں’’ ان کا ٹھکانا ان (اعمال) کے سبب جو وہ کرتے ہیں دوزخ ہے۔’’
‘‘مررسول اللہ ﷺ بشاۃ میتۃ قد القاھا اھلھا فقال والذی نفسی بیدہ للدنیا اھون علی اللہ من ھذہ علی اھلھا.’’(جامع الترمذی، ابواب الزھد ، باب ماجاء فی ھوان الدنیا علی اللہ عزواجل)‘‘نبی کریم ﷺایک مری ہوئی بکری کے پاس سے گزرے جسے کوئی باہر پھینک گیا تھا اور اسے دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اللہ کے نزدیک دنیا کی اتنی بھی اہمیت نہیں جتنی اس مری ہوئی بکری کی اس کے مالک کے نزدیک ۔’’
‘‘الدنیا سجن المؤمن وجنۃ الکافر۔’’ (صحیح مسلم، کتاب الزہد، باب الدنیا سجن المؤمن)
‘‘دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت۔’’
(جاوید احمد غامدی)
جواب: نفس انسانی کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے مطلوب کو باقی دیکھنا چاہتا ہے یعنی نفس کی طلب اور رغبت کا اصول یہ ہے کہ وہ اپنے مطلوب اور مرغوب سے علی الدوام واصل رہنا چاہتا ہے۔ اگر اس پر یہ بات عقلاً ہی نہیں تجربے اور مشاہدے سے بھی ثابت ہوجائے کہ یہ جس کی طلب میں سرگرداں ہے وہ خود بھی فانی ہے اور اس کو بھی فنا سے نہیں بچا سکتا تو اس صورت میں اس کی طلب و رغبت کا رخ بدل سکتا ہے۔ اور یہ اصول کہ نفس کا سب سے بڑا مطلوب بقا اور دوام راحت ہے، ایسا بدیہی امر ہے کہ کوئی شخص اس کی دلیل طلب کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ دوسری طرف یہ بھی اتنی ہی حتمی اور یقینی بات ہے کہ دنیا اور دنیا کی راحتیں خود اس کے طالب کے ساتھ فنا ہو جانے والی ہیں۔ اس تجربی صداقت کا استحضار اور اس ایمانی حقیقت کی یاد دہانی کہ آخرت اور اس کی راحتیں نہ صرف یہ کہ خود باقی رہنے والی ہیں بلکہ اپنے طالب کی مطلوبہ بقا کا بھی سامان رکھتی ہیں، حب دنیا کی گرفت کمزور کرنے کی واحد اصولی تدبیر ہے۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مرض اتنا گہرا اور پیچیدہ ہے کہ جب تک مریض خود اس سے نکلنے کی جان توڑ کوشش، جسے اصطلاح میں مجاہدہ کہتے ہیں، نہیں کرے گا، پورا افاقہ نہیں ہو سکتا۔ اس مجاہدے کے اجزاء یہ ہیں:
(۱) انفاق: جس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ اپنی ضرورت سے زائد اللہ کی راہ میں خرچ کرو(البقرہ ۲:۲۱۹)۔ شریعت نے ‘‘ضرورت’’ کے بے لچک حدود مقرر نہیں فرمائے ہیں۔ ہم معالجے کی مصلحت سے یہ تجویز کریں گے کہ بہت بنیادی ضروریات سے زیادہ مال و اسباب کو اللہ کی راہ میں خرچ کر دینا انفاق کا وہ درجہ ہے جس کا پسندیدہ ہونا شرعاً بھی ثابت ہے، تاہم حب دنیا کے علاج کے لیے اسے لازم سمجھنا چاہیے۔ انفاق کے اس درجے پر ایک ضابطہ اور بھی ملحوظ رکھنا چاہیے اور وہ یہ کہ ہر وہ زائد از ضرورت چیز فوری طور پر کسی مستحق کو دے دی جائے جس کی طرف نفس میں رغبت پائی جاتی ہو۔
(۲) گھر میں دنیا کی باتیں نہ کرنا مثلاً اولاد سے اس طرح گفتگو کہ تمھیں ڈاکٹر بنناہے یا انجینئر، مضر ہے بلکہ ان کے مستقبل پر اس طرح بات کرنی چاہیے کہ تمھیں ہر حال میں مسنون زندگی گزارنی ہے خواہ اس کا نتیجہ دنیاوی تنگی ہی کیوں نہ ہو۔ اس طرح آدمی کا فوری ماحول کم از کم اتنا ضرور ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے لیے دنیا کی محبت کا محرک نہ بنے۔ یہ ضابطہ رفتہ رفتہ دیگر تعلقات پر بھی عائد کرنا چاہیے۔
(۳) موت کی یاد، قبر کا دھیان اور قبرستان میں عبرت کے حصول کے لیے آمدورفت۔
(۴) دوستوں کی خبرگیری اور ان کی محبت بڑھانے کی تدابیر سوچنا۔ اس سے دو چیزیں میسر آئیں گی جو حب دنیا کے علاج میں نہایت مفید ہیں۔ ایک ایثار اور دوسرے انکسار۔ رفتہ رفتہ خبرگیری کے اس دائرے کو وسعت دے کر عام مسلمانوں تک پہنچا دینا چاہیے۔
(جاوید احمد غامدی)