ج: جس چیز کو آپ ضبط نفس یا Self control کہتے ہیں ، وہی تو انسانیت کا شرف ہے ۔ اللہ نے انسان کو عقل کی نعمت سے نوازا ہے ، وہ جب یہ دیکھتا ہے کہ خیر و شر کی کشمکش میں شر کی طرف میلان پیدا ہو رہا ہے تو وہ اپنے آپ کو کنٹرول کرتا ہے ۔ انسانیت کا اصلی امتیاز یہی ہے ، اگر انسان ضبط نفس سے کام نہیں لیتا تو پھر اس میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔اگر یہ بات مان لی جائے کہ ضبط نفس انسان کو نہیں کرنا تو ذرا اس بات کو بڑھا کر دیکھیے کہ نوبت کہاں پہنچ جائے گی ، جس کے پاس طاقت ہے وہ دوسروں کے حقوق غصب کر لے گا ۔ جس قوم کو اللہ تعالی نے بہت قوت اور شان و شوکت دی ہے وہ دوسروں کو پامال کر ڈالے گی ۔ جس آدمی کو جسمانی لحاظ سے طاقتور بنایا ہے وہ ہو سکتا ہے کسی کمزور کو سڑک پر ہی نہ چلنے دے ۔اصل میں ضبط نفس کا لفظ لوگ چند خاص چیزوں کے بارے میں استعمال کرتے ہیں جبکہ ضبط نفس ہر میدان میں ہے اور یہ ہی تو اصل میں انسانیت کا شرف ہے ۔ برائی صرف چند جنسی میلانات سے متعلق نہیں ہوتی ۔ ملاوٹ بھی برائی ہے ، بددیانتی بھی برائی ہے، خیانت بھی برائی ہے ، مال کی ناجائز طلب بھی برائی ہے ، مال کی ہوس بھی برائی ہے ۔ دوسروں کے حقوق تلف کرنے کے داعیات بھی برائی ہیں۔ ان ساری چیزوں میں اگر ضبط نفس کو اٹھا لیا جائے تو باقی رہ کیا جائے گا ؟ کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔ پھر تو انسان جانوروں سے کام کرے گا۔ ضبط نفس میں آدمی اگر ایک اعتدال اور توازن کے ساتھ اپنی تربیت کرتا چلا جائے تو کچھ وقت کے بعد اس پر کوئی منفی اثرات نہیں ہوتے البتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ بعض موقعوں پر بعض لوگ کچھ ایسی پابندیاں لگا دیتے ہیں جو شریعت میں نہیں ہوتیں۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان کو کمال حاصل کرنے کے لیے وہ پابندیاں اختیار کرنی چاہیےں۔ مذہبی لوگ اس کا لحاظ کیے بغیر کہ نوجوانوں کو کہاں سے تربیت دینی چاہیے، کس جگہ سے ان کو شروع کرانا چاہیے ، آخری درجے کی باتیں شروع کر دیتے ہیں تو اس سے خرابی پیدا ہوتی ہے ۔ اگر نوجوانوں کو نوجوان سمجھ کر اس چیز کا شعور دیا جائے کہ ضبط نفس ہی انسانیت کا کمال ہے ، اسی سے انسان بڑا ہوتا ہے ، اسی سے انسانیت اپنی معراج کو پہنچتی ہے اور اسی سے درحقیقت دنیا میں خیر و صلاح کے سارے داعیات پیدا ہوتے ہیں تو وہ ضروربات سنیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا مشہور واقعہ ہے کہ راستے میں چلتے ہوئے آپ نے دیکھا غالباً ابو مسعود انصاری ؓ اپنے غلام کو مار رہے تھے تو آپ نے پیچھے سے کہا کہ ابو مسعود! جتنی طاقت تم کو اپنے غلام پر حاصل ہے ، خدا کو تم پر اس سے زیادہ طاقت حاصل ہے تو نہ صرف یہ کہ وہ رک گئے بلکہ ان کی زبان سے فوراً یہ نکلا کہ میں نے غلام کو آزاد کیا ۔ ایک مظلوم کے ستم کو دور کرنے کی کیا قدرو قیمت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ابو مسعود ؓ اس وقت اگر اس کو آزاد نہ کرتے تو جہنم میں جاتے ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ضبط نفس کس قدر و قیمت کی چیز ہے ۔حضورﷺ کی آواز پر اس صحابی نے ضبط نفس ہی تو کیا۔ضبط نفس تو ہر حال میں ہونا چاہیے البتہ ضبط نفس کی تربیت نوجوانوں کو بڑی حکمت اور تدریج کے ساتھ دینی چاہیے۔ او راس میں بھی یہ فرق ملحوظ رکھنا چاہیے کہ بڑی بڑی جو خرابیاں ہیں ، ان کو پہلے موضوع بنانا چاہیے اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کو خود پیدا ہونے دینا چاہیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اس طرح کی باتیں آدمی اس وقت کرتا ہے جب اس کو کسی بات کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا ، آپ نماز کے بارے میں یا اللہ کی عبادت کے بارے میں سب سے پہلے انسان کے ذہن کو درست کریں یعنی پہلے خدا کی سچی معرفت سے اسے آگاہ کریں ۔اصل میں ہم خدا کی معرفت اور سچی پہچان پیدا کیے بغیر بعض مطالبات سامنے رکھ دیتے تو آدمی کی سمجھ میں بات نہیں آتی۔ جب آپ مخاطب کو یہ بتائیں گے ذرا تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند کر کے غور کرو کس کی بات کر رہے ہو ، اس پروردگار کی جو تمہارا خالق ، مالک ، آقا ہے تمہارے ایک ایک سانس کو اس کی احتیاج ہے ۔ اسی مالک کی یاد دہانی کے لیے یہ نماز مقرر کی گئی ہے یہ نماز اس کی یاد دہانی کراتی ہے اور انسان پر اپنی عاجزی واضح کرتی ہے ۔ خدا کی معرفت اور اس کی بندگی کا شعور اگر پیدا ہو جائے گا تو پھر انسان کبھی نماز نہیں چھوڑے گا ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: میرے عزیز ! پہلے تو چند غلط فہمیاں ہیں جن کا دورکرنا ضروری ہے۔یہ آیت جو آپ نے پڑھی ہے اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام کوئی مکمل ضابطہ حیات ہے ، اس میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے رسول اللہﷺ پر جس دین کا نزول شروع کیا تھا خواہ اس کے دس رکن تھے یا پانچ، وہ آج پورے ہو گئے۔ حضور پر کوئی نیا دین نازل نہیں ھوا تھا وہی دین جو تمام انبیا کا تھا اسی کا تسلسل تھا اسی کے بارے میں یہ بتایاجا رہا ہے کہ یہ آج پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ۔ دوسری جو غلط فہمی ہے وہ یہ ہے کہ کہ اسلام شاید ایک نظام حکومت کا نام ہے اسلام تو ایک فرد کے بندے کے ساتھ تعلق کا نام ہے ، آپ نے بحیثیت فرد کے اپنے مالک کو مالک مان لیا یہ اسلام ہے۔ جب میں توحید کو اپناتا ہوں تو اس کے لیے کسی نفاذ کی ضرورت ہے ؟ جب میں برائیوں سے اجتناب کرتا ہوں اخلاقی حدود کی پابندی کرتا ہوں تو اس کے لیے کسی حکومت کی ضرورت ہے ؟ جب میں خورو نوش کے آداب میں حرام کھانے سے بچتا ہوں تو اس کے لیے کسی حکومت کی ضرورت ہے ؟ البتہ اسلام میں چند احکام حکومت سے متعلق بھی ہیں وہ حکومتوں کو پورے کرنے چاہیے ۔ باقی سارے کا سارا دین وہ فرد سے متعلق ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ دنیا میں کوئی دور ایسا نہیں جب لوگ اس پر عمل پیرا نہ ہوں ۔ اس وقت بھی دنیا میں لاکھوں کروڑوں لوگ ہیں جو بغیر کسی حکومت کے اللہ کے دین پر عمل پیرا ہیں۔وہ لوگ جو ایسی جگہوں پر رہتے ہیں جہاں مسلمانوں کی حکومتیں نہیں ہیں تو وہاں کیا وہ دین چھوڑ بیٹھے ہیں ، وہ نماز پڑھتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں ، وہ اللہ کے حدود کا احترام کرتے ہیں اور سارے احکام پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔تو اس بات کو بہت اچھی طرح سمجھ لیں کہ اسلام درحقیقت فرد کے اندر پاکیزگی پیدا کرنے کی دعوت ہے اور اس میں وہ پوری طرح کامیاب ہے اور ہمیشہ سے موجود ہے اور پوری شان کے ساتھ اب بھی افراد کو متاثر کررہاہے ۔اور اس اسلام کو کچھ نہیں ہوا۔ یہ اب بھی بغیر کسی مادی قوت کے دلوں میں اترتا ہے ۔یہ اب بھی انسان کے پورے وجود کا احاطہ کر لیتا ہے اور اب بھی ہزاروں سینکڑوں لوگ پیدا کرتا ہے جو اپنا سب کچھ اس کے لیے چھوڑنے کو تیار ہو جاتے ہیں حتی کہ مرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ۔تو اسلام کو اس کی دعوت کی حوالے سے دیکھیے ، سیاست تو اس کا ایک جزو ہے ۔کہیں اس پر عمل ہو گیاتو اچھی بات اور نہ ہوا تو فرد کو کیا فرق پڑتا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ہمارے قدیم اسلاف سب سمجھتے ہیں کہ سنت کیا چیز ہے یعنی سنت رسول اللہﷺ اور انبیا علیہم السلام اور دین ابراہیمی کا جاری کردہ طریقہ ہے ۔ قدیم اسلاف میں تو سب کا ایک ہی موقف ہے حتی کہ ہمارے ہندستان میں جو آخری بڑے عالم ہوئے ہیں شاہ ولی اللہ انہوں نے بھی اپنی کتابوں میں دین ابراہیمی کی اس روایت کو اسی طریقے سے بیان کیا ہے جیسے میں نے کیا ہے۔ سنت در حقیقت مسلمانوں کے ایک جم غفیر نے دوسرے جم غفیر کو منتقل کی ہے ، اس وجہ سے یہ کسی حدیث کی ، کسی راوی کی اور اس کی تحقیق کی ہر گز محتاج نہیں ہوتی ۔اسی کو میں نے اس طرح بیان کیا ہے کہ سنت ہمیں اجماع او رعملی تواتر سے ملی ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ، بالکل متفق علیہ ہے۔ اس ساری بات کو میں نے ایک فہرست کی شکل میں بیان کر دیا ہے۔ میرا Contribution یہ ہے کہ میں نے اسے بالکل متعین کر کے بیان کر دیا ہے اور جن چیزوں کو غلطی سے خلط ملط کیا جا رہا تھا ان کے اخلاط کو دور کر دیا ہے ۔ اگر کوئی مفید کام ہوا ہے تو دعا کیجیے اللہ قبول کرے اور اگر غلطی ہوئی ہے تو اللہ اس کی اصلاح کرے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: محض جنت البقیع میں دفن ہونے کی وجہ سے کوئی بخش دیا جائے گا یہ روایت تو کوئی مستند روایت نہیں ہے ۔لیکن جنت البقیع بہرحال ایک ایسا قبرستان ہے جس میں صحابہ کرام اور امہات المومنین مدفون ہیں تو اس لحاظ سے ظاہر ہے کہ اس امت کے گلہائے سر سبز مدفون ہیں ، وہ ہستیاں دفن ہیں جنہوں نے اس دنیا میں اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا بہترین نمونہ پیش کیا ۔ ہر مسلمان کے اس کے ساتھ فطری جذبات وابستہ ہیں اور ہونے بھی چاہییں۔ باقی یہ کہ جنت البقیع میں جو آدمی دفن ہو جائے گا وہ محض اس کی بنیاد پر جنت میں چلا جائے گا یہ اسلام کے اصولوں کے بالکل خلاف ہے ۔جنت اور دوزخ کا فیصلہ تو قرآن نے بتا دیا ہے کہ کس بنیاد پر ہو گا اور قرآن کے ان اصولوں میں جنت البقیع میں دفن ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ اسی جنت البقیع میں حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے مشرکین بھی دفن ہیں کیونکہ وہ پرانا قبرستان ہے ۔ محض وہاں دفن ہونے سے کوئی جنت میں نہیں جائے گا۔ جنت میں ایمان و اعمال او ر اللہ کی رحمت سے جائے گا۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: مسلمان جہاں بھی رہتے ہوں انہیں تین چیزوں کا فوری اہتمام کرنا چاہیے ۔ ایک یہ کہ وہ مسلم کمیونٹی بنائیں کیونکہ انسان ماحول سے متاثر بھی ہوتا ہے اور اپنے ماحول کے سہارے پر زندہ بھی رہتا ہے ۔ کمیونٹی کے ساتھ وابستہ ہو کر رہیں ایسی کمیونٹی جو آپ کی تہذیب ، آپ کی ثقافت ، آپ کے مذہب ، اورآپ کے خیالات سے زیادہ قریب ہو ۔ دوسرا اقدام یہ ہے کہ بغیر کسی کمپرومائز کے بچوں کی تعلیم کا مناسب بندوبست کریں۔ اگر ایسا سکول یا ادارہ نہ ہو توگھر میں بچوں کی تعلیم کا زائد بندوبست کریں۔ پا کستان کے ماحول میں تو بچہ کم از کم سکول میں ہی اللہ رسول کی کوئی بات سن لے گایااسلامیات پڑھ لے گا لیکن جہاں یہ ممکن نہیں،وہاں گھروں پربندوبست ضروری ہے۔ بچوں کو صحیح دینی تعلیم دلوانے کامناسب بندوبست کیا جائے بے شک ہفتے میں ایک بار ہی ہو یامل کر کوئی سنڈے سکول قائم کر لیا جائے۔بچوں کی ذہنی سطح کے لحاظ سے دینی نصاب بنایا جائے اورتدریج کو ملحوظ رکھا جائے۔اس بات پر خاص زور دیا جائے کہ بچے قرآن سمجھ کر پڑھ لیں۔ تیسرا بڑا اہم اقدام یہ ہے کہ مسلم روایت و تہذیب کے ساتھ وابستہ رہنے اور بچوں کووابستہ رکھنے کا اہتمام کیا جائے۔ آپ کے شاعر، آپ کے ادیب، آپ کے علما، آپ کے سائنس دان، آپ کے فلسفی، آپ کے بڑے لوگ ان کے بارے میں بچوں کو مناسب علم دیں۔انسان کی کمزوری یہ ہے کہ وہ ماضی کی بڑی شخصیات کے حوالے سے اپنے آپ کو وابستہ کرنا چاہتا ہے اور وابستہ کرتا ہے اس عمل سے ہی انسان کی نفسیات بنتی ہے اور اس کے نصب العین بنتے ہیں۔اگر ہم نے اور سب کچھ بچوں کو دے دیا اور ان کو مسلم ماضی سے وابستہ نہ کیا توان کانصب العین بدل جائے گا۔ یعنی کمیونٹی بھی آپ کی بن گئی دینی تعلیم بھی دے دی لیکن شخصیات کے حوالے سے اس ماحول میں شیکسپئر کھڑا ہے ، ملٹن موجود ہے اوربرٹرنڈرسل ہے تووہ لا شعور ی طو ر پر ا ن سے وابستہ ہو گا اقبال اور غالب سے نہیں ہو گا۔ اس کو چھوٹی بات نہ سمجھیے۔ جو انسان اپنی تہذیبی ٹریڈیشن میں نہیں کھڑا ہو گا وہ نفسیات کے لحاظ سے اکھڑ جائے گا ۔ہمارے ایک پروفیسر دوست ہیں پچھلے دنوں انہوں نے بتایا کہ ان کے ہاں دین سکھانے کااہتمام توکمیونٹی سنٹر میں ہوتا ہے لیکن وہ اپنے گھر میں یوم اقبال ضرور مناتے ہیں ۔ یہ ہے تو بہت چھوٹی سی بات لیکن یہ بچوں کو اپنے ماضی سے وابستہ رکھتی ہے اورجو اپنے ماضی سے وابستہ رہے اس کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں اور جس درخت کی جڑیں جتنی مضبوط ہوں گی اس کے گرنے اوراکھڑنے کے امکانات اتنے ہی کم ہو ں گے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ان دو پہاڑیوں پر بت تھے اور مسلمان ان کی وجہ سے سعی کرنے سے ہچکچا رہے تھے تو کعبہ میں تو 365 بت تھے وہاں تومسلمانوں کو طواف کرنے سے کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی ۔ یہ محض قصہ ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ۔ اصل بات یہ تھی کہ صفا اور مروہ کی سعی کے بارے میں یہو دنے یہ پروپیگنڈہ کر رکھا تھا کہ یہ کوئی مناسک حج کی چیز ہے ہی نہیں۔ اور اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ مروہ حضرت اسماعیلؑ کی قربان گاہ ہے اور یہود کے پورے لٹریچر میں اس چیز کو ہدف کی حیثیت حاصل ہے کہ حضرت اسماعیل اور حضرت ابراہیمؑ کا تعلق مروہ یعنی کعبہ اورمکہ سے ثابت نہیں ہونا چاہیے تو وہ اس کا پروپیگنڈہ کرتے تھے ۔قرآن نے اسی کے ضمن میں اس کاذکر کیا ہے۔ جہاں یہ آیت آئی ہے اس کے فورا ًبعد بیان ہے کہ یہ یہود اللہ کے دین کی اس طرح کی حقیقتوں کو چھپاتے ہیں اور جانتے بوجھتے چھپاتے ہیں ، یہ اللہ کے غضب کو دعوت دیتے ہیں اس پر یہ سوال پیدا ہوا تو قرآن نے اس کا جواب یہ دیا کہ صفا و مروہ کی سعی کوئی بری چیز نہیں ہے یہ ایک خیر کا کام ہے ، جو آدمی بھی حج و عمرہ کے لیے آئے وہ اگر اپنی طرف سے کوئی خیر کا کام کرتا ہے تو بالکل ٹھیک کرتا ہے ۔ من تطوع خیرا فان اللہ شاکر علیم کے الفاظ بالکل واضح ہیں کہ یہ ایک نفل عبادت ہے ۔ حضور نے یہ نفل عبادت کی ہے ایسے ہی جیسے آپ نے بڑی باقاعدگی کے ساتھ فجر کی دو رکعتیں پڑھی ہیں فرضوں سے پہلے ،تو وہ فجر کی دو رکعتیں آپ کے مسلسل پڑھنے کے باوجود بھی نفل ہی رہی ہیں فرض نہیں ہو گئیں ۔تو یہ سعی بھی نفل ہی ہے اگرچہ حضور سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور بڑی اچھی عبادت ہے کرنی چاہیے۔لیکن یہ عمرے یا حج کا لازمی رکن نہیں ہے ،بس یہ بات ملحوظ رہے۔آپ کی مکہ سے واپسی حج کے بعد ہوئی ہے اس میں حضور نے سعی نہیں کی ۔ بعض علما نے یہ سمجھا کہ شاید عمرے والی سعی کو حضور نے کافی سمجھا ہے حالانکہ آپ نے ا پنے عمل سے یہ بتا دیا یعنی پہلے کر کے اور بعد میں نہ کر کے کہ یہ نفل عبادت ہے چاہے تو کر لیں اور چاہیں تو نہ کریں ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: پامسٹری ابھی علم کے درجے تک نہیں پہنچی ، قیاسات کے درجے تک ہی ہے ۔ اس میں بہت سا کام ہوا ہے ، لوگوں نے اس پر کتابیں لکھی ہیں ، ماہرین بھی ہیں اور مختلف نوعیت کے دعوے بھی کرتے رہتے ہیں لیکن سب کچھ کو پڑھنے کے بعد یہی اندازہ ہوتا ہے کہ زیادہ تر قیاسات اور قیافے پر مبنی چیزیں ہیں۔شخصیت کے مطالعے کے بعض مفید پہلواس سے مل سکتے ہیں مگر میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ خواہ پامسٹری ہو یا کوئی او ر علم جب تک وہ سائنس کے درجے تک نہ پہنچے اس وقت تک اس میں اشتغال نہ کریں۔ورنہ آپ توہم پرست ہو جائیں گے اور یہ بجائے خود ایک بڑی بیماری ہے۔ یعنی آدمی اگر اوہام میں مبتلا ہو جائے تو اس کی عقل معطل ہو جاتی ہے اور پھر وہ اوہام کی بناپر ہی فیصلے کرنے اور رائے قائم کرنے لگ جاتا ہے ۔ ایک زمانے میں اس سے بہت دلچسپی رکھنے کے باوجود میں آپ کو متنبہ کرتا ہوں کہ ایسا نہ کریں ۔یہ آدمی کے ایمان اور اس کی شخصیت پر برا اثر ڈالتی ہے۔انسان جب اوہام میں مبتلا ہو جائے تو اپنی بہت سی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ انسان کو عقل دی گئی ہے وہ اس کو استعمال کرتا ہے ، اس سے حیرت انگیز کارنامے دکھاتا ہے ۔ اس کو اللہ پر توکل کی تعلیم دی گئی ہے ، وہ اس پر بھروسہ کرتا ہے تو اس کے ایمان میں بڑھوتری ہوتی ہے۔پامسٹری اس جیسے علوم انسان کی عقل و ایمان کو متاثر کرتے ہیں۔ انسان اگر ان سے متاثر ہو جائے تو پھر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایمان کے بھی لالے پڑ جاتے ہیں اور اچھا عمل بھی انسان نہیں کر سکتا ۔اس کی اپنی صلاحیتیں بھی انہیں اوہام میں سرگرداں ہو کر گزر جاتی ہیں ۔ میں نے بہت سے لوگوں کودیکھا ہے ،جو ایک مرتبہ اس طرح کی چیزوں کا شکار ہو گئے ، وہ پھر معطل ہو کر رہ گئے حالانکہ اچھے بھلے عقلمند لوگ تھے۔ حالت یہ ہو جاتی ہے کہ اگر ان کو رفع حاجت کے لیے جانا ہو تو پھر بھی ہاتھ دیکھ رہے ہوتے ہیں ، کہ جائیں کہ نہ ۔یہ چیزیں توہم پرستی کو جنم دیتی ہیں اورایمان و توکل کوکمزور کر تی ہیں اس لیے ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ دوسری چیز جو آپ نے پوچھی ہے وہ دم کر نا ہے۔ رسول اللہﷺ سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایاکہ جو کچھ بھی تم کر رہے ہو اس میں کوئی مشرکانہ چیز نہیں ہونی چاہیے ۔آپ اللہ سے مدد مانگ کے دم کردیتے ہیں پھونک دیتے ہیں یہ اصل میں اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے ۔قرآن مجید شفا ہے ہمارے دلوں کے روگ دور کرتا ہے ، یہ ٹھیک ہے لیکن یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ قرآن دم کے لیے نہیں آیا اور نہ اس آیت کا یہ مقصد ہوتا ہے ۔اصل میں جب آپ آیت الکرسی پڑھتے ہیں تو آپ توحید کا اظہار کرتے ہیں ۔ توحید کا اظہار یا توحید پر ایمان کا اظہار یہ اصل میں اللہ کی پناہ پکڑنا ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ اس کو پڑھنا چاہیے ، قرآن مجید کی آخری دو سورتیں ہیں ان کو اگر دعا کے طور پر آپ پڑھتے ہیں تو یہ بھی بہت عمدہ چیز ہے ۔حضور بھی بعض اوقات پھونک دیتے تھے ۔ آپ نے معوذات پڑھ کے دم کیا ہے ۔یہ چیزیں انسان کو نفسیاتی طور بھی اطمینان دیتی ہیں اور اس کو اللہ کی پناہ میں بھی دیتی ہیں۔ اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس میں کوئی مشرکانہ چیز نہ ہو اور یہ ذہن میں ہو کہ قرآن کا اصل مقصد یہ نہیں ہے۔
(جاوید احمد غامدی)