ج: میرے عزیز ! پہلے تو چند غلط فہمیاں ہیں جن کا دورکرنا ضروری ہے۔یہ آیت جو آپ نے پڑھی ہے اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام کوئی مکمل ضابطہ حیات ہے ، اس میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے رسول اللہﷺ پر جس دین کا نزول شروع کیا تھا خواہ اس کے دس رکن تھے یا پانچ، وہ آج پورے ہو گئے۔ حضور پر کوئی نیا دین نازل نہیں ھوا تھا وہی دین جو تمام انبیا کا تھا اسی کا تسلسل تھا اسی کے بارے میں یہ بتایاجا رہا ہے کہ یہ آج پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ۔ دوسری جو غلط فہمی ہے وہ یہ ہے کہ کہ اسلام شاید ایک نظام حکومت کا نام ہے اسلام تو ایک فرد کے بندے کے ساتھ تعلق کا نام ہے ، آپ نے بحیثیت فرد کے اپنے مالک کو مالک مان لیا یہ اسلام ہے۔ جب میں توحید کو اپناتا ہوں تو اس کے لیے کسی نفاذ کی ضرورت ہے ؟ جب میں برائیوں سے اجتناب کرتا ہوں اخلاقی حدود کی پابندی کرتا ہوں تو اس کے لیے کسی حکومت کی ضرورت ہے ؟ جب میں خورو نوش کے آداب میں حرام کھانے سے بچتا ہوں تو اس کے لیے کسی حکومت کی ضرورت ہے ؟ البتہ اسلام میں چند احکام حکومت سے متعلق بھی ہیں وہ حکومتوں کو پورے کرنے چاہیے ۔ باقی سارے کا سارا دین وہ فرد سے متعلق ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ دنیا میں کوئی دور ایسا نہیں جب لوگ اس پر عمل پیرا نہ ہوں ۔ اس وقت بھی دنیا میں لاکھوں کروڑوں لوگ ہیں جو بغیر کسی حکومت کے اللہ کے دین پر عمل پیرا ہیں۔وہ لوگ جو ایسی جگہوں پر رہتے ہیں جہاں مسلمانوں کی حکومتیں نہیں ہیں تو وہاں کیا وہ دین چھوڑ بیٹھے ہیں ، وہ نماز پڑھتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں ، وہ اللہ کے حدود کا احترام کرتے ہیں اور سارے احکام پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔تو اس بات کو بہت اچھی طرح سمجھ لیں کہ اسلام درحقیقت فرد کے اندر پاکیزگی پیدا کرنے کی دعوت ہے اور اس میں وہ پوری طرح کامیاب ہے اور ہمیشہ سے موجود ہے اور پوری شان کے ساتھ اب بھی افراد کو متاثر کررہاہے ۔اور اس اسلام کو کچھ نہیں ہوا۔ یہ اب بھی بغیر کسی مادی قوت کے دلوں میں اترتا ہے ۔یہ اب بھی انسان کے پورے وجود کا احاطہ کر لیتا ہے اور اب بھی ہزاروں سینکڑوں لوگ پیدا کرتا ہے جو اپنا سب کچھ اس کے لیے چھوڑنے کو تیار ہو جاتے ہیں حتی کہ مرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ۔تو اسلام کو اس کی دعوت کی حوالے سے دیکھیے ، سیاست تو اس کا ایک جزو ہے ۔کہیں اس پر عمل ہو گیاتو اچھی بات اور نہ ہوا تو فرد کو کیا فرق پڑتا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب۔ بعض لوگوں کی یہ بات کہ قرآن ایک مکمل ضابطہ ء حیات ہے، گو ہمیں قرآن کے بارے میں ایک بڑا خراجِ تحسین محسوس ہوتی ہے جس سے اس کے کامل اور مکمل ہونے کا تاثر ملتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ صحیح بات نہیں ہے۔ کیسے؟
ضابطہ ء حیات کا مطلب قاعدہ، قانون اور دستور العمل ہے اور مکمل ضابطہ حیات کا مطلب ‘‘مکمل قاعدہ، قانون اور دستور العمل’’ ہے۔ اس تصور کے مطابق ضروری ہے کہ قرآن ہمیں زمانی و مکانی ہر اعتبار سے زندگی کی سینکڑوں متنوع صورتوں میں ہر سطح پر تفصیلی اور مکمل قواعد، قوانین اور دساتیر العمل دے۔ کیونکہ اس میں کسی حوالے سے بھی اگر کوئی کمی رہ گئی تو لفظ ‘‘مکمل ’’ کا استعمال بے جا ہو گا۔دیکھیں اللہ کی ذات ایک مکمل ذات ہے، خدا ہونے کے حوالے سے اس میں کوئی کمی نہیں، اسی طرح اگر وہ ہمیں کوئی مکمل ضابطہء حیات دے گا تو پھر اس میں ضابطہء حیات ہونے کے حوالے سے کسی درجے میں بھی کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے، یعنی اس صورت میں ایسا نہیں ہونا چاہیے اور بالکل نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں کچھ اصولوں کی روشنی میں خود سے کچٰھ قواعد، قوانین اور دساتیر العمل بنانے پڑیں۔ اب آپ یہ بتائیے کہ قرآن نے ہمیں زندگی کے کس کس معاملے میں مکمل قواعد،قوانین اور دساتیر العمل دیئے ہیں؟ آپ غور کریں اور اس بات کا جواب تلاش کریں۔ دیکھیں اس کی نشانی یہ ہوگی کہ زندگی کے جن جن معاملات میں قرآن نے مکمل ضابطہء حیات دیا ہو گا، ان سب میں کسی فقیہ کو کسی قسم کی کوئی قانون سازی نہ کرنی پڑے گی۔اگر یہ بات کہی جائے کہ قرآن ایسا تو نہیں کرتا کہ وہ مکمل تفصیلی قوانین، سبھی قواعد اور پورا پورا دستور العمل بیان کرے، وہ تو صرف اصول بیان کرتا ہے ۔قوانین تو ہمیشہ فقہا کو قرآن و سنت کی روشنی میں خود سے وجود میں لانے پڑتے ہیں، تو پھر غور کیجیے ہم اس سے الگ کوئی بات نہیں کہہ رہے۔
قرآنِ مجید فرقان ہے، یعنی یہ ہدایت کے معاملے میں حق و باطل میں فرق کر دینے والی کتاب ہے۔ اس میں جو ہدایت ہے وہ سراسر حق ہے اور اس کے مقابل میں کھڑی ہونے والی ہر بات باطل ہے۔ یہ حق اور باطل دونوں کی نشان دہی کرتی ہے۔اس بات کا مطلب ہے کہ یہ کتاب آسمانی کتب کے حوالے سے اگر کوئی بات کہے تو اُنھیں اس میں موجود ہدایت کے مطابق درست کر لو، اگر فطرتِ انسانی کے بارے میں کوئی بات کہے تو اسے اس کے مطابق درست کر لو اور انسانی رویوں کے بارے میں کوئی بات کہے تو انھیں اس کے مطابق درست کر لو۔ اس میں ہر اس حوالے سے ہدایت کی بات کی گئی ہے، جس حوالے سے انسان کو تاقیامت ضرورت پیش آنی ہے۔ ہدایت کے اعتبار سے یہ ایک مکمل کتاب ہے۔ اس میں ہدایت کو بیان بھی کیا گیا ہے اور گمراہی کی نشان دہی کر کے اس سے روکا بھی گیا ہے، چنانچہ اسی حوالے سے اسے فرقان کہا گیا ہے۔اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ قرآن مجید دین کی آخری کتاب ہے، لہذا، جو شریعت اللہ تعالی نے اس سے پہلے نازل کی ہے وہ بھی قیامت تک کے لیے الہامی قانون کا حصہ ہے، دین میں اسے انبیائے کرام کی سنت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیے کہ ہماری شریعت کا ایک بڑا حصہ نزولِ قرآن سے پہلے مختلف سنن کی شکل میں، دینِ ابراہیمی کے طور پر عربوں کے ہاں موجود تھا۔ اللہ تعالی نے اس میں اپنے رسول کے ذریعے سے تجدید و اصلاح اور بعض اضافے کیے اور یوں اسے مسلمانوں کے لیے ایک مکمل شریعت بنا کر جاری کر دیا۔ پس ہماری اس شریعت کا کچھ حصہ قرآن میں موجود ہے اور کچھ سنت نبویؐ میں۔
(محمد رفیع مفتی)