خاک سے اٹی صبحوں، دھول بھری دوپہروں، ہوائی بگولوں سے سجی شاموں اور خنک سردی سے لبریز راتوں کی سرزمین بلوچستان کے ضلع نوشکی کے صحرائے عظیم میں کھڑا اس سوچ میں گم تھا کہ سلسلہ روزگار سے وابستہ میں پہاڑوں، دریاؤں، ریتلی زمینوں، سمندروں سے ہوتا آج صحرائی پٹی میں پہنچ گیاہوں۔یہ اکتوبر کا اختتام تھا۔ صحرا میں دھوپ چمکے تو پسینہ آ ہی جاتا ہے۔ تیز ہوا کے جھونکے آئے ،گرد و غبار کا طوفان چلا،منظر خاک سے بھرتا گیا۔ان خاکستری لمحوں میں میرا دھیان بلوچستان میں بسی ان بستیوں، لوگوں اور راہگزروں کی طرف چلا گیا جنہوں نے میری مہمان نوازی کی تھی، جہاں میرے قدم پڑ چکے تھے۔
لاہور کی ایک ماند پڑتی دوپہر میں مجھے میرے ادارے اقوامِ متحدہ سے کال آئی کہ آپ بلوچستان تشریف لے جائیں وہاں کچھ ترقیاتی کام جو اقوامِ متحدہ نے حکومت بلوچستان کے ترقیاتی فنڈز سے سرانجام دئے ہیں ان کو دیکھیں اور اپنی رپورٹ پیش کریں۔بطور سیاح ان دیکھی زمینوں کی جانب سفر کرنا، بطور فوٹوگرافر نئے نئے مناظر کو قید کرنا اور بطور لکھاری اپنے سچے تاثرات کا اظہار کرنا ہی میرا مکمل وجود ہے جہاز نے کوئٹہ کے لئے پرواز بھری، کھڑکی سے باہر بلوچستان کا خشک، پتھریلا اور وحشت بھرا وسیع لینڈاسکیپ نظر میں رہا ان بے آباد ویرانوں میں کہیں کہیں پانی کے چھوٹے چھوٹے تالاب کالے نقطوں سے نظر پڑتے۔جہاز نے وادی کوئٹہ کا چکر کاٹا تو نیچے بسی وادی کا فضائی منظر دیکھ کر مجھے بچپن کا کوئٹہ یاد آنے لگا۔میرا جہاں جہاں جانا ہوا میرے بچپن کا کوئٹہ میرے ساتھ ساتھ چلا۔
شام ہونے کو آئی تو میں نے کوئٹہ شہر میں آوارگی کی خاطر ہوٹل چھوڑا اور سڑکوں پر گم ہونے نکل گیا۔ شہر کی رونقیں حالیہ سالوں میں دہشت گردی کی وجہ سے ماند پڑی ہوئی ہیں۔ میں جہاں جہاں چلا میرے بچپن کا بارونق کوئٹہ میرا ہمسفر رہا۔مجھے یاد ہے بیس سال پہلے کا کوئٹہ جب میں چودہ سالہ معصوم لڑکا ہوتا تھا۔گرمیوں کی چھٹیوں میں ماں باپ نے کوئٹہ لے آنا۔یہاں میرے ایک چچا مقیم تھے۔چچا سگے نہیں تھے مگر والد صاحب کے ساتھ ان کے بہت قریبی دیرینہ تعلقات تھے۔مری آباد میں آباد ان کے گھر کے کھلے کچے آنگن میں سیب کے دو درخت ہوا کرتے تھے جن پر گرمیوں میں ننھے کچے سیب لگا کرتے۔میں دوپہروں کو درختوں پر چڑھ جاتا اور کچے سیب اتار کر کھایا کرتا۔جب کوئی بڑا دیکھ لیتا تو ڈانٹ پڑتی۔مری آباد کی گلیوں میں اکیلا بھاگا کرتا۔مقامی بچے وقتی دوست بن جاتے اور ہم فٹ بال کھیلنے نکل جایا کرتے۔تب پنجابی و بلوچ و پشتون میں تمیز نہیں برتی جاتی تھی۔تب کوئی کسی کو نہیں پوچھتا تھا کہ کون ہو،نفرتوں کی بجائے کوئٹہ کی فضا میں خلوص و محبتیں سمائی تھیں۔
حنہ کی جھیل پانی سے بھری ہوا کرتی۔کوئٹہ شہر سے لے کر حنہ تک سڑک کے دونوں اطراف صاف ٹھنڈے میٹھے پانی صاف ستھری پکی نالیوں میں بہا کرتے تھے۔حنہ کو جاتی سڑک کے دو طرفہ سیبوں کے باغات ہوا کرتے جن کی شاخیں پھل کے بوجھ سے سڑک پر جھکی ہوتیں۔میں چلتی گاڑی سے ہاتھ بڑھا کر سیب اتار لیتا۔حنہ جھیل پر پکوڑے ملا کرتے جن کا ذائقہ آج تک ذہن سے نہ نکل سکا۔سریاب روڈ ہو یا پرنس،دن رات رونق رہتی۔مزے مزے کے کھانے تیار ہوا کرتے۔بچپن کا کوئٹہ گم ہو گیا ہے۔۔
اس شہر نے مسلسل پندرہ سالوں تک خشک سالی دیکھی بارشیں روٹھ چکی تھیں۔پانی کا نام و نشان نہیں رہا۔ زیر زمین پانی کی سطح بہت نیچے جا چکی ہے۔خشک سالی کے باعث لوگوں کے جانور یا تو مر گئے یا انہوں نے اونے پونے داموں بیچ دئیے۔کوئٹہ میں اب بس ریت اڑتی ہے۔حنہ کی جھیل ختم ہو چکی اب وہاں خشک بھربھرا میدان ہے۔کافی سارے باغات کٹ گئے ہیں کوئٹہ اجڑا ہوا لگتا ہے۔بیس سالوں میں محرومیوں، کدورتوں، نفرتوں اور دشمنیوں نے قبائل کے بیچ ڈیرے جما لئے ہیں۔
بے رونق رات میں آوارگی کرتا واپس ہوٹل پہنچا۔ خواب میں حنہ جھیل آتی رہی جس کے اطراف سیب کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ اگلی صبح نوشکی کی جانب نکلا۔ تین طرف صحرا سے گھرا نوشکی بھی اک صحرائی جزیرہ سا لگتا ہے۔ نوشکی کے اطراف پھیلے ریت کے ٹیلوں کا سلسلہ اک جانب افغانستان تک پھیلا ہے تو دوسری جانب ایران سے متصل ہے۔ اس عظیم صحرا کے بیچوں بیچ گاڑی بھاگتی جا رہی تھی۔ اردگرد کچی بستیاں ریت کے بلند ٹیلوں کے دامن میں بسی نظر آتی رہیں۔ مال مویشی جن میں اونٹ زیادہ تھے سڑک کے اطراف چرتے اور ریتلے ٹیلوں پر چلتے دکھتے رہے۔
پانی زندگی ہے۔ صاف پانی بقائے حیات ہے۔ ریاست کا کام اپنے ہر شہری کو صاف پانی مہیا کرنا ہے۔ بلوچستان پچھلی ایک دہائی سے شدید خشک سالی کا شکار ہے۔ پانی کی قلت سے لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ زیرزمین پانی کا حصول بھی وقت کے ساتھ ناممکن ہوتا گیا ہے۔ حکومت بلوچستان نے یو این ڈی پی کے تعاون سے نوشکی کے دور دراز گاؤں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے اقدامات اٹھائے ہیں۔ آر او پلانٹ نصب کئے گئے ہیں جو سولر انرجی پر چل رہے ہیں۔
نوشکی کی تحصیل انعم بوستان میں واقع گاؤں کلی سردار عبدالصمد میں یو این ڈی پی نے سولر پاور پر چلنے والا آر او پلانٹ لگایا ہے جس سے دور دراز علاقوں کے لوگ بھی مستفید ہو رہے ہیں۔ جب میں گاؤں میں داخل ہوا تو لوگوں نے گھیر لیا۔ گاؤں کے سردار کے بیٹے عبدالمجید سے ملاقات ہوئی۔ عبدالمجید نے بتایا ''ہمارے ابا و اجداد جب اس صحرائی زمین پر آ کر بسے تب یہاں پانی کی بہتات ہوا کرتی تھی۔ وقت کے ساتھ پانی خشک ہوتا گیا۔ پچھلے اٹھارہ ماہ سے ایک بوند بارش نہیں ہوئی اور پچھلے آٹھ دس سالوں سے خشک سالی جاری ہے۔ پانی کی قلت کے سبب ہم جانوروں کو دور افغانستان کے علاقے میں لے جایا کرتے جہاں پانی دستیاب تھا اور چراگاہیں بھی تھیں۔ اب چونکہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگا دی گئی ہے تو لوگوں کے جانور پیاس سے مرنے لگے تھے۔ اونٹ کو پانی بھی زیادہ چاہیئے ہوتا ہے پانی کی عدم دستیابی کے باعث ہم لوگوں نے اپنے اونٹ دس پندرہ ہزار میں بیچ دئے۔ گاؤں میں ایک تالاب ہوتا ہے جہاں بارش کا پانی ذخیرہ کر لیا جاتا تھا۔ جب کبھی بارش ہوتی اس کا پانی تالاب میں جمع کر لیتے۔ اسی تالاب سے انسان بھی پانی پیتے اور اسی سے جانور بھی سیراب ہوا کرتے تھے۔ کھڑا پانی گندہ ہو جاتا تھا۔ ایک ہی پانی کا ذخیرہ ہوا کرتا تھا اسی میں جانور گرمی میں اندر داخل ہو کر نہایا کرتے اور پیا کرتے اسی سے ہم لوگ پیا کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ بارش نہ ہونے کے سبب تالاب بھی خشک ہوتا گیا۔ ہماری عورتیں دور دراز کا پیدل سفر کرتیں اور جہاں کہیں پانی ملتا گھڑوں میں بھر کر لے آیا کرتیں۔ دن میں گرمی کی شدت میں دس سے بارہ کلومیٹر پانی کی تلاش میں روزانہ سفر کرنا عورتوں کی روٹین تھی۔ یو این ڈی پی نے اب سولر پاور سے چلنے والا صاف پانی مہیا کرنے کا پلانٹ ہمارے گاؤں میں لگایا ہے تو اب دور کے گاؤں سے عورتیں اور بچے بھی یہاں پانی بھرنے آتے ہیں''۔
میں نے پلانٹ کا جائزہ لینے کے بعد اس کا پانی پیا کہ پیاس سے برا حال ہوئے جا رہا تھا۔ گاوں سے الوداع ہوتے بچوں کی ٹولی میرے پاس آئی اور بولی کہ آپ نے ہماری بات تو سنی ہی نہیں۔ ہمیں اک چیز چاہیئے۔ میں نے پوچھا کہ وہ کیا؟ بچے بولے ہم کو کھیلنے کے واسطے ایک فٹ بال لا دیں بس۔ جواب سن کر میری آنکھیں دھندلا گئیں اور پھر صحرا میں تیز ہوا چلنے لگی۔
گاڑی صحرا میں دوڑتی رہی میں گاؤں گاؤں جا کر لوگوں کے حالات معلوم کرتا رہا۔ شام ہونے کو آئی تھی۔ کوئٹہ واپس آتے شام کو سورج کی سنہری کرنیں جب وادی پر اتر رہی تھیں تو میں اک بلند مقام سے شہر کو دیکھتے سوچ رہا تھا کہ اس آباد خرابے کو واپس کوئٹہ بننے میں کتنی دہائیاں لگیں گی؟ کون جانے۔
اگلی صبح میرا ارادہ قلعہ عبداللہ جانے کا تھا جو کوئٹہ شہر سے ستر کلومیٹر دور آباد ہے۔ ایک گاؤں گاڑی رکی جہاں یو این ڈی پی نے گرلز ہائی اسکول کی عمارت کو ازسر نو تعمیر کیا ہے اور پینے کے صاف پانی کی سہولت فراہم کی ہے۔ سکول کا جائزہ لے کر نکلا تو سفر کرتے میری نظریں اک گاؤں کے واحد کنویں پر پڑیں تو وہاں خواتین کا جم غفیر نظر آیا۔ساٹھ فٹ گہرے کنویں سے پانی نکالتی ہوئی یہ خواتین اکیسویں صدی کی انسان لگتی ہی نہیں تھیں لیکن ستم یہی تھا کہ وہ اکیسویں صدی میں ہی جی رہی تھیں۔پانی کا انتظام و انصرام خواتین کے حصے میں آیا تھا۔مرد حضرات کو استثنا حاصل تھا۔
بلوچی دیہاتی خواتین کیا کچھ نہیں کرتیں چودہ سال کی عمر میں شادی کر کے جب یہ پیا گھر سدھار جاتی ہیں تو گھر کا سارا کام انہی کے ذمے آ جاتا ہے۔صبح ہوتے ہی یہ کام پہ لگ جاتی ہیں۔یہ کام رات گئے تک جاری رہتا ہے۔کپڑے کشیدہ کاری کرتی ہیں۔کپڑے دھوتی ہیں،کھانا بناتی ہیں۔ تیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بڑھاپا ان کی دہلیز پر دستک دے رہا ہوتا ہے۔
اکیسویں صدی نے کروٹ بدلی پر بلوچ عورت کی قسمت نہ بدلی۔وہی ڈول، وہی کنواں اور کنویں سے پانی نکالنے کی مہم جوئی۔بسا اوقات کنواں خشک ہو جاتا ہے تو پانی کے حصول کے لیے ان خواتین کو دس بارہ کلومیٹر کی مسافت پیدل طے کرنا پڑتی ہے۔سروں پر بڑی بڑی منجلیں رکھ کر گھروں تک پہنچایا کرتی ہیں۔وہیں مجھے اک مقامی بلوچ نوجوان مل گیا۔نعمت داد بولا ''اسی قافلے میں شامل ایک میری ماں بھی ہوا کرتی تھی۔ ماں کو تھکا ہارا پاتا تو نظریں شرم کے مارے جھک جاتی تھیں۔ شرم کے مارے ماں سے اس کی تھکاوٹ کا حال بھی نہ پوچھ پاتا۔ پھر نہ جانے دو گھونٹ پانی کس شرم سے حلق کے اندر چلا جاتا!''
کہا جاتا تھا کہ عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی ریاست کے ذمے ہوتی ہے پر پانی جیسی بنیادی سہولت کی فراہمی کے لیے مجھے ریاست کہیں بھی نظر نہ آئی۔
''میری ماں محنت مزدوری کرتی تھی۔ کپڑے سیتی تھی،اس سے حاصل ہونے والی رقم میری تعلیم پر لگاتی تھی۔مجھے تعلیم دلوائی پر وہ خود تعلیم حاصل نہ کر سکی۔ میں ماں سے اکثر پوچھا کرتا تھا ''ماں تو پڑھی کیوں نہیں؟‘‘۔ ماں خاموش ہو جاتی۔ میں پھر پوچھ لیتا ماں کچھ نہ کہتی۔ میرے بار بار سوال کرنے پر تنگ آ جاتی.کہتی ''اسکول تھا کہاں، جو پڑھ لیتی؟''۔ گاؤں میں تعلیمی نظام تھا ہی نہیں۔ حصول تعلیم کے لیے ماں کو اکلوتے بیٹے کی جدائی سہنا پڑی اور بیٹے کو تعلیم دلوانے پچاس کلومیٹر دور رشتہ داروں کے ہاں وہاں بھیج دیا جہاں خیریت دریافت کرنے کا واحد وسیلہ خط و کتابت ہوا کرتی تھی۔ نہ ہی ماں تعلیم حاصل کر سکی اور نہ ہی گاؤں کی دیگر خواتین، تعلیم دلوانا ریاست کی ذمہ داری تھی۔حصولِ تعلیم کے لیے مجھے وہ ذمہ دار ریاست کہیں بھی نظر نہ آئی۔
میرے گاؤں کے لوگ اپنا علاج جڑی بوٹیوں سے کیا کرتے تھے(اب بھی کرتے ہیں)۔گاؤں کی ایک خاتون زچگی کی کشمکش میں مبتلا ہوئی. جڑی بوٹیوں سے کام چلایا مقامی دائی کے حربے ناکام ہوئے۔ ہسپتال کا نظام تھا ہی نہیں، سو عطائی ڈاکٹر کا سہارا لیا گیا۔ عطائی ڈاکٹر کی دوائیوں کا الٹا اثر ہوا وہ گھر جہاں چند لمحے قبل شادمانی کی
صورت حال تھی، صفِ ماتم بچھ گئی۔ ماں اور بچہ دنیا میں نہ رہے، وقت سے پہلے چل بسے۔ صحت کا معاملہ تعلیم جیسا تھا. یہاں بھی مجھے ریاست نظر نہیں آئی۔
دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ گھر میں نہ سالن کی خوشبو آ رہی تھی اور نہ ہی ماں مجھے نظر آ رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ گھر میں آگ جلانے کے لیے لکڑیاں ختم ہو گئی ہیں اور ماں لکڑیاں جمع کرنے چلی گئی ہے۔ دوپہر کا کھانا تو ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ماں دور سے لکڑیوں کا انبار سر پر سجائے نظر آئی۔ شرم سے میرا سر ایک بار پھر جھک گیا۔ ماں سے کچھ کہہ نہ پایا۔ سنا تھا سوئی گیس نام کی کوئی چیز بھی بلوچستان سے نکلتی ہے. سوئی اپنا تھا پر گیس اپنی نہ تھی. سو گاؤں میں اب بھی لکڑی لانے کا رواج ہے. البتہ لکڑیاں لانے کی ذمہ داری اب خواتین کے ذمے نہیں رہی. مردوں نے محسوس کیا اب یہ کام وہی کرتے ہیں.'' یہ سنا کر نعمت داد تو چپ ہو گیا مگر میری آنکھ کے کونے نم ہوگئے۔
احساسِ محرومی کے سائے میں پھلتی پھولتی ہوئی ایک نسل جوان ہوئی۔ایک جانب احساس محرومی، غربت اور بنیادی حقوق کی عدم دستیابی تو دوسری جانب تعلیم سے دوری، یہ وہ اسباب تھے جنہوں نے بلوچ نوجوانوں کے ذریعہ معاش کا حصول ناممکن بنا دیا۔ بے چینی کی فضا قائم ہوئی۔ریاست تو انہوں نے دیکھی نہیں تھی سو اپنی ریاست قائم کر دی۔ وہ ریاست جو صحت، تعلیم، پانی، بجلی، گیس کی صورت میں کہیں نظر نہیں آئی،اب وہ مقامیوں سے مزاحمت کرتی ہوئی نظر آئی۔ ریاست اور غیر ریاستی قوتوں کے مابین جنگ کا آغاز ہوا۔ اب تو فقط جنگوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
بلوچستان میں چلنے والی شورش نے ایک تناؤ کی کیفیت پیدا کی۔ طاقت کی اس جنگ میں جہاں ریاستی ادارے اور علیحدگی پسند تنظیمیں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ بسا اوقات ان کا نشانہ چوک جاتا ہے۔ نشانہ وہ افراد بن جاتے ہیں جو اپنا دامن بچائے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنگ چونکہ مسلط شدہ ہے، اس سے متاثر ہونا ہی ہونا ہے۔ سو اس کا نتیجہ نقل مکانی کی صورت میں نکلتا ہے۔ جنگ و جدل کی اس فضا سے متاثرہ خاندانوں کے خاندان نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ نقل مکانی کا یہ سلسلہ ایک علاقہ یا ضلع تک محدود نہیں رہا
بلکہ اس نے پورے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔بے سروساماں یہ لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں نکلے۔ بہت سارے آج بھی دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے۔ ان کے زخموں کا نہ مداوا کیا گیا اور نہ ہی انہیں شیلٹر فراہم کیا گیا۔ انہیں آج بھی ایسی صورتحال دکھائی نہیں دیتی جس سے وہ دوبارہ اپنے علاقہ میں آباد ہو جائیں۔ جہاں ان کی بچپن کی یادیں وابسطہ ہیں۔جنگ کی اس فضا میں گاؤں کے گاؤں ویرانے میں تبدیل ہو گئے۔ نقل مکانی کے منفی اثرات ابھی سے واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ جس کا اندازہ حالیہ مردم شماری کی نتائج سے بلوچ پشتونوں کی آبادی کے تقابلی جائزے سے لگایا جا سکتا ہے۔جنگ و جدل کی اس فضا میں زیادہ نقصان وہ طبقہ اٹھا رہا ہے جو جنگی ایندھن نہیں بننا چاہتا، سہانے خواب دیکھتا ہے، خوابوں کو آنکھوں میں سجاتا ہے۔ اپنی کمائی کو بچوں کی تعلیم و تربیت پہ خرچ کرنا چاہتا ہے۔ وہ وہی خواب دیکھتا ہے جو اس ریاست کا ہر باسی دیکھتا ہے۔ وہ ایک اچھے مستقبل کا خواہاں ہوتا ہے۔ وہ روز جینے کی تمنا لے کر اٹھتا ہے لیکن شام ہوتے ہی امیدیں مایوسی سے دامن گیر ہوجاتی ہیں اورایک نیا المیہ جنم لے لیتا ہے۔
جنہوں نے ریاست کا سلوک سنگدل سوتیلی ماں جیسا اور چہرہ باوردی دیکھا ہو ان لوگوں میں اگر پھر بھی ریاست سے لگاؤ باقی ہے تو ہم سب کو انہیں گلے سے لگا کر معذرت کرنا چاہیئے۔ ایک بلوچ نوجوان نے فرمائش کی تھی کہ جب کبھی ہم پر لکھیں تو میری جانب سے یہ شعر بنام ریاست بھی لکھ دیجیئے گا۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک