جنگ ،حسابِ سود و زیاں

مصنف : نواز كمال

سلسلہ : پاکستانیات

شمارہ : جون 2025

پاكستانيات

جنگ ،حسابِ سود و زیاں

نواز كمال

بالآخر چار دن کا معرکہ اپنے اختتام کو پہنچا. اب جو میز کے کونے پہ کہنیاں ٹیک کر برِصغیر کی دو مغربی ریاستوں پاکستان اور انڈیا کے نقشے کو دیکھتا ہوں تو ایک طرف سود ہی سود ،جبکہ دوسری جانب زیاں ہی زیاں نظر آتا ہے.معرکے کے خد و خال پہ نظر ڈالیں تو انڈین اقدامات مجموعی طور پر روایتی سے لگے، جبکہ پاکستانی حکمت عملی، اندازِ حرب اور آلاتِ جنگ سب کچھ اپ ٹو دی مارک تھا. بلکہ بہ نظرِ غائر دیکھا جائے تو پاکستان نے جدید جنگی دنیا میں نئے ٹرینڈز سیٹ کیے ہیں، جو اس سے قبل اپنی مکمل صورت میں کہیں اور نظر نہیں آتے.انڈیا نے جنگ کا آغاز بہاولپور اور مریدکے سمیت دیگر شہروں پہ کروز میزائل برسا کر کیا. اگلے دن بڑی تعداد میں اسرائیلی ساختہ ہیروپ ڈرونز بھیجے ،جن کا مقصد پاکستانی تنصیبات کی نشاندہی کرنا تھا. اس سے اگلے مرحلے پر گزشتہ سے پیوستہ رات نور خان ایئربیس ،مرید ( چکوال ) ایئربیس اور شور کوٹ ایئربیس پہ براہموس اور سکالپ جیسے کروز میزائلوں سے حملہ کیا. اسی شب پاکستان کے فوجی ترجمان نے دعوی کیا تھا کہ انڈیا نے بلیسٹک میزائل بھی استعمال کیے ہیں، جن میں سے اکثر انڈین سرزمین پر ہی گرے. اس دوران انڈیا نے جتنے بھی کروز میزائل استعمال کیے، تقریباً سبھی رافیل طیاروں سے داغے گئے تھے. انڈیا کے ان تمام اقدامات میں روایت کا رنگ جھلکتا ہے، البتہ بڑی تعداد میں یکبارگی ڈرونز استعمال کرنے والی حکمت عملی کم از کم برصغیر کی جنگی تاریخ میں نئی چیز تھی-پاکستان نے پہلے ہلے میں اپنا دفاع بڑے جارحانہ انداز میں کیا اور انڈیا کے پانچ طیارے بشمول تین رافیل کے گرا کر دنیا کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا. کیونکہ رافیل کا اپنا ایک نام اور اپنی ایک الگ پہچان ہے. خریدتے وقت انڈیا نے ایف سولہ کے جدید ترین ورژن کو چھوڑ کر رافیل کا انتخاب کیا تھا. بہرحال کسی بھی جنگ میں پہلی بار فرانسیسی ساختہ طیارے مار گرائے گئے، جوکہ عسکری دنیا کے لئے تہلکہ خیز خبر تھی .

پاکستان نے حقیقی معنوں میں کل علی الصبح جواب دیا اور ایسا کرارا جواب کہ حریف کو چند ہی گھنٹوں میں صوفیہ قریشی صاحبہ کو امن کی کبوتری بنا کر کیمروں اور مائک کے سامنے بٹھانا پڑا. پاکستان کی جانب سے چالیس طیارے بیک وقت اڑے. تمام پائلٹس کو ہر صورت ہدف تک پہنچنے کی ہدایات تھیں. اسی دوران فتح ون اور ابدالی ون جیسے بلیسٹک میزائلوں نے بھی اڑان بھری. نتیجتاً شمال میں سری نگر سے لے کر جنوب میں گجرات اور مشرق میں دہلی تک کے علاقے سلگ اٹھے. ان حملوں نے انڈینز کو اتنا حواس باختہ کیا کہ انہیں اندازہ ہی نہیں ہو پا رہا تھا کہ رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں.

پاکستان نے مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت کی دیگر ریاستوں میں لگ بھگ 26 عسکری اہداف کو نشانہ بنایا ،جن میں ایئربیسز، کمانڈ سینٹرز اور میزائل سٹورز شامل تھے. گننا چاہیں تو چند نام کچھ یوں ہیں، سری نگر، اڑی، اودھم پور ،بیاس ، پٹھان کوٹ ، چندی گڑھ ، جالندھر ، سورت گڑھ ، دہلی، راجستھان اور گجرات وغیرہ وغیرہ.

اس تمام دورانیے میں انڈین فضائیہ سہمی سہمی سی رہی. ایل او سی تو شاید کراس کی مگر پاکستان کی دیگر سرحدات سے تقریباً دور ہی رہی. حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ سینہ ٹھونک کر میدان میں آتی اور پاکستانی فضائیہ کا سامنا کرتی، مگر شاید سات مئی کی ہولناک یادوں نے ان کے دل و دماغ کو آسیب کی طرح جکڑ رکھا تھا، سو وہ پردہ نشین دوشیزہ کی طرح چلمن کے اوٹ میں ہی رہی.

پاکستان نے کل ایک اور کارنامہ سرانجام دیا. وہ کہ پاکستانی افواج نے روسی ساختہ فضائی نظام ایس 400 کی دو بیٹریاں تباہ کیں. یہ خبر اپنی تہلکہ خیزی میں رافیل گرانے سے کم ہرگز نہیں. بلکہ قیمتاً دیکھا جائے تو یہ نظام اتنا مہنگا ہے کہ ایک ایس 400 سسٹم کے بدلے پانچ رافیل طیارے خریدے جاسکتے ہیں. البتہ فرق یہ ہے کہ رافیل پہلے کسی جنگ میں گرایا نہ جاسکا تھا ،جبکہ روسی دفاعی نظام کو یوکرائن کریمیا اور مشرقی یوکرائن میں کامیابی سے نشانہ بنا چکا ہے.انڈیا نے جنگ میں کروز میزائلوں کو استعمال کیا جبکہ پاکستان نے ابتدا ہی فتح ون جیسے بلیسٹک میزائل سے کی، جو کہ ہلاکت خیزی اور ہولناکی کے لحاظ سے کروز میزائل سے آگے کا قدم تھا . یہی وجہ ہے کہ انڈین میڈیا چیخ اٹھا کہ پاکستان آخر میں بروئے کار لائے جانے والے ہتھیاروں کو ابتدا ہی میں استعمال کر رہا ہے.پاکستان ترک ڈرونز کو بھی کام میں لایا مگر چونکہ انڈیا بھی ڈرونز استعمال کر رہا تھا، لہٰذا اس میں کوئی نیا پن نہ تھا. البتہ پاکستان نے نیا اور انوکھا کام یہ کیا کہ وسیع پیمانے پر سائبر حملے بھی کیے، جو بےحد کامیاب رہے. ان حملوں کے ذریعے اہم سرکاری اور دفاعی ویب سائٹس سمیت کارپوریٹ ویب سائٹس کو بھی نشانہ بنایا گیا. سائبر جنگجو انڈیا کے بجلی پیدا کرنے والے نظام کو بھی ناکارہ بنانے میں کامیاب رہے. پاکستان ستر فیصد بجلی کی بندش کا دعوی کرتا ہے، جسے کچھ غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے بھی رپورٹ کیا ہے. ستر فیصد نہ بھی تسلیم کیا جائے تو بھی اتنی بات طے ہے کہ اچھے خاصے علاقوں کی بجلی کچھ وقت کے لیے غائب رہی. یہ برصغیر کی جنگوں بلکہ جدید حربی دنیا میں بھی ایک بالکل انوکھا حربہ تھا ،جس کی کم از کم پاکستان سے کوئی بھی توقع نہیں کر رہا تھا-پاکستان نے اپنی جوابی طاقت کی صرف ایک جھلک ہی دکھائی تھی کہ انڈین فوجی خاتون ترجمان نے صلح کا پھریرا لہرا دیا. پرسوں تک جو امریکا اس جدل و پیکار سے لاتعلق رہنے کی بانگیں دے رہا تھا، اب صلح جوئی کا چولا پہن کر امن امن کہتا ہوا میدان میں کود پڑا اور جنگ بندی ہوگئی. وجہ یہ تھی کہ انڈیا کی ناک خاک آلود ہو رہی تھی، جس کی ایک دن پہلے انکل سام کو بالکل توقع نہ تھی.

جنگ سے پہلے منظر یہ تھا کہ ہفتہ قبل تک انڈیا پگڑی کا شملہ اور مونچھیں کھڑی کرکے برصغیر کا چوہدری بنا بیٹھا تھا. حتی کہ افغانستان بھی پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لئے اس کی جانب دیکھ دیکھ کر محبت سے مسکرا دیتا تھا. دنیا نے اسے اب پاکستان کی بجائے چین کا حریف سمجھنا شروع کر دیا تھا. اور تو اور اسرائیل بھی پاکستان جیسے "شریکوں" کو جلانے کی غرض سے اس سے پینگیں بڑھاتا تھا. اب صورت حال یہ ہے کہ اس کی مضبوط دفاعی طاقت ہونے کا تاثر ہوا میں تحلیل ہو چکا ہے. کیا چینی، کیا عرب اور کیا افریقی سبھی ٹھٹھہ اڑا رہے ہیں. لطیفے بن ریے ہیں. جگتیں ہو رہی ہیں.دوسری جانب پاکستان برصغیری محلے میں نئے چوہدری کا روپ دھار چکا ہے. عسکری ماہرین ایڑیوں کے بل اٹھ اٹھ کر پاکستان کی جانب دیکھ رہے ہیں. اس کی فضائیہ کے جنگی حلقوں میں چرچے ہیں. اپنے خوش اور بیگانے اداس ہیں. تل ابیب اور دہلی کی فضا افسردہ ہے ،جبکہ ڈھاکہ، بیجنگ ، غزہ ، استنبول، آذر بائی جان اور اسلام آباد شگفتہ پھول بنے کھلکھلا ریے ہیں. اہلِ پاکستان جو اپنوں سے لڑ لڑ کر تھک چکے تھے، عالم اسلام کی دگرگوں صورت حال پہ دل گرفتہ اور ہر طرف سے امڈتی غمناک خبروں سے ملول تھے ، یک بہ یک جیسے جی اٹھے ہیں. اکہتر کا دکھ کم ہوا. کارگل کی ادھوری کہانی اپنے مکمل پنے کی جانب ذرا سی کھسک گئی.

جشن کا دن ہے. آج ہم خوش ہیں اور خوشی کا سورج پوری آب و تاب سے جگمگا رہا ہے.