وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ، یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ، یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ، لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ، وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ، فَکُلُوْا مِنْھَا، وََاَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ، ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَھُمْ ، وَلْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ ، وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ. (الحج۲۲:۲۷۔۲۹)
‘‘اور لوگوں میں حج کی منادی کرو، وہ دور دراز کے گہرے پہاڑی راستوں سے چلتے ہوئے تمھارے پاس پیدل بھی آئیں گے اوراُن اونٹوں پر سوار ہو کر بھی جو سفر کی وجہ سے دبلے ہوگئے ہوں تاکہ اپنے لیے منفعت کی جگہوں پرپہنچیں اور چند متعین دنوں میں اپنے اُن چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے اُن کو بخشے ہیں۔ (تم اِن کو ذبح کرو) تو اِن میں سے خود بھی کھاؤ اورتنگ دست فقیروں کو بھی کھلاؤ۔ پھر چاہیے کہ یہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اوراپنی نذر یں پوری کریں اوراِس قدیم گھر کا طواف کریں۔’’
یہ صداہے جو صدیوں پہلے بلند ہوئی اور جس کے جواب میں ‘لبیک لبیک’کہتے ہوئے ہم ام القریٰ مکہ میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بنائی ہوئی اس مسجد کے لیے عزم سفر کرتے ہیں جسے بیت الحرام کہا جاتا ہے۔یہ وہی بیت عتیق ہے جوامام فراہی کے الفاظ میں اس وادی بطحا میں خدا کا پہلا گھر تھا اورجس کے حق میں ازل سے طے کردیا گیا تھا کہ توحید سے انحراف کرنے والوں کو دورپھینکتا رہے۔ چنانچہ اس کے باشندوں نے جب بت پرستی اختیار کرلی اوراس کے جوارسے منتشر ہوئے تو پرستش کی غرض سے اس معبد کے پتھر بھی ساتھ لیتے گئے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام بابل سے ہجرت کے بعد اس کو تلاش کرتے ہوئے یہاں پہنچے تو اس کی پرانی تعمیر کا صرف ایک چمکتا ہوا پتھر باقی رہ گیا تھا۔اسمٰعیل کی قربانی کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ اس معبد کو دوبارہ تعمیر کریں۔ چنانچہ باپ بیٹے، دونوں نے مل کر اسی یادگا ر پتھر کے نیچے زمین کھودنا شروع کی۔ پرانی بنیادیں کچھ تگ ودو کے بعد نکل آئیں تو انھیں بلند کیا اوراس پتھر کو عمارت کے ایک گوشے میں نصب کردیا۔ اسمٰعیل اسی گھر کی نذر کیے گئے تھے، لہٰذا وہ اس کے خادم مقرر ہوئے اور اللہ کے حکم سے یہ صدا بلند کردی گئی کہ لوگ اب خداوند کی نذر چڑھانے کے لیے آئیں اوریہاں آکر توحید پرایمان کا جو عہد انھوں نے باندھ رکھا ہے، اسے تازہ کریں۔ اصطلاح میں اس عمل کا نام حج و عمرہ ہے۔
یہ دونوں عبادات دین ابراہیمی میں عبادت کا منتہاے کمال ہیں۔ اپنے معبودکے لیے جذبۂ پرستش کا یہ آخری درجہ ہے کہ اس کے طلب کرنے پر بندہ اپنا جان ومال، سب اس کے حضور میں نذر کردینے کے لیے حاضر ہوجائے۔ حج وعمرہ اسی نذر کی تمثیل ہیں۔ یہ دونوں ایک ہی حقیقت کو ممثل کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عمرہ اجمال ہے اور حج اس لحاظ سے اس کی تفصیل کردیتا ہے کہ اس میں وہ مقصد بھی بالکل نمایاں ہو کرسامنے آجاتا ہے جس کے لیے جان ومال نذر کردینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بتایاہے کہ آدم کی تخلیق سے اس کی جواسکیم دنیا میں برپا ہوئی ہے، ابلیس نے پہلے دن ہی سے اس کے خلاف اعلان جنگ کررکھا ہے : ‘قَالَ : فَبِمَآ أَغْوَیْتَنِیْ، لَأَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ، ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمْ مِّنْ بَیْنِ أَیْدِیْہِمْ، وَمِنْ خَلْفِہِمْ، وَعَنْ أَیْمَانِہِمْ، وَعَنْ شَمَآئِلِہِمْ، وَلَا تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکرین (اعراف ۱۶۔۱۷(بولا: اچھا تو چونکہ تونے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے، اس لیے میں بھی اب تیری سیدھی راہ پران کی گھات لگا کر بیٹھوں گا، پھر آگے اورپیچھے، اور دائیں اوربائیں سے ان پر تاخت کروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو اپنا شکر گزار نہ پائے گا)۔ قرآن کا بیان ہے کہ ابلیس کا یہ چیلنج قبول کرلیاگیا ہے اور اللہ کے بندے اب قیامت تک کے لیے اپنے اس ازلی دشمن اور اس کی ذریت کے ساتھ برسرجنگ ہیں ۔(اعراف ۱۳۔۱۴)یہی اس دنیا کی آزمایش ہے جس میں کامیابی اورناکامی پرہمارے ابدی مستقبل کا انحصار ہے ۔ اپنا جان ومال ہم اسی جنگ کے لیے اللہ کی نذر کرتے ہیں۔ انبیا علیہم السلام نے ‘یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا، کُوْنُوْا أَنصَارَ اللّٰہِ’ ۳۸۵ (الصف۶۱:۱۴۔ ‘‘ایمان والو، اللہ کے مددگار بنو۔’’ ) کی صدا تاریخ میں بارہا اسی مقصد سے بلند کی ہے۔ ابلیس کے خلاف اس جنگ کو حج میں ممثل کیا گیا ہے۔ یہ تمثیل اس طرح ہے :
اللہ کے بندے اپنے پروردگار کی ندا پر دنیا کے مال ومتاع اوراس کی لذتوں اورمصروفیتوں سے ہاتھ اٹھاتے ہیں،پھر‘لبیک لبیک’ کہتے ہوئے میدان جنگ میں پہنچتے اوربالکل مجاہدین کے طریقے پر ایک وادی میں ڈیرے ڈال دیتے ہیں۔اگلے دن ایک کھلے میدان میں پہنچ کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ،اس جنگ میں کامیابی کے لیے دعا ومناجات کرتے اور اپنے امام کا خطبہ سنتے ہیں۔تمثیل کے تقاضے سے نمازیں قصر اورجمع کرکے پڑھتے اور راستے میں مختصر پڑاؤ کرتے ہوئے دوبارہ اپنے ڈیروں پرپہنچ جاتے ہیں،
پھر شیطان پرسنگ باری کرتے، اپنے جانوروں کی قربانی پیش کرکے اپنے آپ کو خداوند کی نذر کرتے، سرمنڈاتے اورنذر کے پھیروں کے لیے اصل معبد اورقربان گاہ میں حاضر ہوجاتے ہیں۔ پھر وہاں سے لوٹتے اوراگلے دویا تین دن اسی طرح شیطان پر سنگ باری کرتے رہتے ہیں۔
اس لحاظ سے دیکھیے تو حج وعمرہ میں احرام اس بات کی علامت ہے کہ بندۂ مومن نے دنیا کی لذتوں، مصروفیتوں اورمرغوبات سے ہاتھ اٹھالیا ہے اور دو ان سلی چادروں سے اپنا بدن ڈھانپ کر وہ برہنہ سر اور کسی حد تک برہنہ پا بالکل راہبوں کی صورت بنائے ہوئے اپنے پروردگار کے حضور میں پہنچنے کے لیے گھر سے نکل کھڑا ہوا ہے۔
تلبیہ اس صدا کا جواب ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بیت الحرام کی تعمیر نو کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک پتھر پر کھڑے ہوکر بلند کی تھی( تفسیرالقرآن العظیم، ابن کثیر۲۱۶/۳۔ ) اب یہ صدا دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچ چکی ہے اوراللہ کے بندے اس کی نعمتوں کا اعتراف اور اس کی توحید کا اقرار کرتے ہوئے اس صدا کے جواب میں ‘ لبیک ، اللّٰہم لبیک’ کا یہ دل نواز ترانہ پڑھتے ہیں۔
طواف نذر کے پھیرے ہیں۔ دین ابراہیمی میں یہ روایت قدیم سے چلی آرہی ہے کہ جس کی قربانی کی جائے یا جس کو معبد کی خدمت کے لیے نذر کیا جائے، اسے معبد یا قربان گاہ کے سامنے پھرایا جائے۔ تورات کے مترجموں نے اسی بات کو جگہ جگہ ہلانے کی قربانی اور خداوند کے آگے گزراننے سے تعبیر کیا ہے۔ مثال کے طور پر گنتی میں ہے:
‘‘ اورتو لاویوں کو خداوند کے آگے لا۔ اوربنی اسرائیل اپنے ہاتھ اُن پررکھیں۔ اور ہارون لاویوں کو بنی اسرائیل کی طرف سے ہلانے کی قربانی کی طرح خداوند کے آگے گزرانے، تب وہ خداوند کی خدمت کے لیے مخصوص ہوں گے۔ تب لاوی اپنے ہاتھ دونوں بیلوں کے سروں پر رکھیں۔ تب تو ان میں سے ایک کو خطا کی قربانی کے لیے اوردوسرے کو خداوند کی سوختنی قربانی کے لیے لاویوں کے کفارے کے لیے گزران۔ اور تو لاویوں کو ہارون اور اس کے بیٹوں کے سامنے کھڑا کر اورخداوندکی ہلانے کی قربانی کی طرح ان کو گزران ،کیونکہ وہ بنی اسرائیل کے درمیان سے مجھے نذر کردیے گئے ہیں۔ میں نے بنی اسرائیل کے سب پہلوٹوں کے بدلے جو رحم کے کھولنے والے ہوں، ان کو اپنے لیے لیا ہے۔’’ (۸:۱۰۔۱۶)
بائیبل کے عربی ترجمے میں اس کے لیے ‘ ترددھم للرب’ یا ‘امام الرب’کی تعبیر اختیار کی گئی ہے جس سے یہ مفہوم بالکل واضح ہوجاتا ہے۔
حجراسود کا استلام تجدید عہد کی علامت ہے۔ اس میں بندہ اس پتھر کوتمثیلاً اپنے پروردگار کا ہاتھ قرار دے کر اس ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتا اورعہد ومیثاق کی قدیم روایت کے مطابق اس کو چوم کر اپنے اس عہد کی تجدید کرتا ہے کہ اسلام قبول کرکے وہ جنت کے عوض اپنا جان ومال ، سب اللہ تعالیٰ کے سپرد کرچکا ہے۔
سعی اسمٰعیل علیہ السلام کی قربان گاہ کا طواف ہے۔ سیدنا ابراہیم نے صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہوکر اس قربان گاہ کو دیکھا تھا اورپھر حکم کی تعمیل کے لیے ذرا تیزی کے ساتھ چلتے ہوئے مروہ کی طرف گئے تھے۔ بائیبل میں یہ واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے:
‘‘تیسرے دن ابراہیم نے نگاہ کی اور اُس جگہ کو دور سے دیکھا۔ تب ابراہیم نے اپنے جوانوں سے کہا: تم یہیں گدھے کے پاس ٹھیرو۔ میں اور یہ لڑکا ، دونوں ذرا وہاں تک جاتے ہیں اور سجدہ کرکے پھر تمھارے پاس لوٹ آئیں گے۔’’ (پیدایش ۲۲: ۴۔۵)
چنانچہ صفا ومروہ کا یہ طواف بھی نذر کے پھیرے ہی ہیں جو پہلے معبد کے سامنے اور اس کے بعد قربانی کی جگہ پر لگائے جاتے ہیں۔ تورات سے معلوم ہوتاہے کہ یہ جس طرح قربانی سے پہلے لگائے جاتے تھے، اسی طرح قربانی کے بعد بھی اس کا کوئی حصہ ہاتھ میں لے کر لگائے جاتے تھے۔ خروج میں ہے:‘‘اورتو ہارون کے تخصیصی مینڈھے کا سینہ لے کر اُس کو خداوند کے روبرو ہلانا تاکہ وہ ہلانے کا ہدیہ ہو۔ یہ تیرا حصہ ٹھیرے گا۔’’ (۲۹:۲۶)
عرفات معبد کا قائم مقام ہے، جہاں شیطان کے خلاف اس جنگ کے مجاہدین جمع ہوتے، اپنے گناہوں کی معافی مانگتے اور اس جنگ میں کامیابی کے لیے دعا ومناجات کرتے ہیں۔
مزدلفہ راستے کا پڑاؤ ہے، جہاں وہ رات گزارتے اور صبح اٹھ کر میدان میں اترنے سے پہلے ایک مرتبہ پھر دعاومناجات کرتے ہیں۔
رمی ابلیس پر لعنت اور اس کے خلاف جنگ کی علامت ہے ۔ یہ عمل اس عزم کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ بندۂ مومن ابلیس کی پسپائی سے کم کسی چیز پر راضی نہ ہوگا۔ یہ معلوم ہے کہ انسان کا یہ ازلی دشمن جب وسوسہ انگیزی کرتا ہے تو اس کے بعد خاموش نہیں ہوجاتا، بلکہ یہ سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ تاہم مزاحمت کی جائے تو اس کی تاخت بتدریج کمزور ہوجاتی ہے۔ تین دن کی رمی اوراس کے لیے پہلے بڑے اور اس کے بعد چھوٹے جمرات کی رمی سے اسی بات کو ظاہر کیا گیا ہے۔
قربانی جان کا فدیہ ہے اور سر کے بال مونڈنا اس بات کی علامت ہے کہ نذرپیش کردی گئی ہے اور اب بندہ اپنے خداوند کی اطاعت اور دائمی غلامی کی اس علامت کے ساتھ اپنے گھر لوٹ سکتا ہے۔ یہ دین ابراہیمی کی ایک قدیم روایت ہے۔ چنانچہ تورات میں یہ قانون بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نذر کیا جائے، وہ اپنے سر کے بال اس وقت تک نہ منڈوائے، جب تک نذر کے دن پورے نہ ہوجائیں۔ گنتی میں ہے: ‘‘اوراس کی نذارت کی منت کے دنوں میں اس کے سر پر استرہ نہ پھیرا جائے، جب تک وہ مدت جس کے لیے وہ خداوند کا نذیر بنا ہے، پوری نہ ہو تب تک وہ مقدس رہے اور اپنے سر کے بالوں کی لٹوں کو بڑھنے د ے ۔ ’’(۶:۵)‘‘اور نذیر کے لیے شرع یہ ہے کہ جب اُس کی نذارت کے دن پورے ہوجائیں تو وہ خیمۂ اجتماع کے دروازے پر حاضر کیا جائے ...پھر وہ نذیرخیمۂ اجتماع کے دروازے پراپنی نذارت کے بال منڈوائے۔’’(۶:۱۳،۱۸)
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کس قدر غیر معمولی عبادت ہے جو ہر صاحب استطاعت مسلمان پرزندگی میں کم سے کم ایک مرتبہ فرض قرار دی گئی ہے ۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ایمان اور جہاد کے بعد اسی کی فضیلت بیان کی ہے۔(بخاری، رقم ۲۶۔ مسلم، رقم۸۳)نیز فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ کے لیے حج کرے، پھر اس میں کوئی شہوت یا نافرمانی کی بات نہ کرے تو وہ حج سے اس طرح لوٹتا ہے، جس طرح اس کی ماں نے اسے آج جناہے ۔(بخاری، رقم ۱۷۲۳۔ مسلم، رقم ۱۳۵۰)اسی طرح آپ کا ارشاد ہے: عمرے کے بعدعمرہ ان کے درمیان میں ہونے والے گناہوں کے لیے کفارہ ہے اور سچے حج کا بدل تو صرف جنت ہے۔(بخاری، رقم ۱۷۲۳۔ مسلم، رقم ۱۳۵۰)
حج وعمرہ کی تاریخ
حج وعمرہ کی تاریخ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اس منادی سے شروع ہوتی ہے جس کا ذکر ہم اوپر جگہ جگہ کرچکے ہیں۔ اس کے بعد یہ سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی عرب کے لوگ ہر جگہ سے گروہ در گروہ حج و عمرہ کے لیے آتے تھے اور آپ کی بعثت کے بعد بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ قرآن نے ایک جگہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے : وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً. (آل عمران ۳:۹۷)
‘‘اور جو لوگ وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ، ان پر اللہ کے لیے اس گھر کا حج
ہمیشہ فرض رہا ہے ۔’’
اس میں شبہ نہیں کہ اس کے مناسک اور رسوم و آداب میں بعض بدعتیں ان لوگوں نے داخل کردی تھیں، لیکن روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انھی میں سے بعض لوگ ان بدعتوں پرپوری طرح متنبہ بھی تھے اور اپنا حج ابراہیمی طریقے کے مطابق ہی کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں منقول ہے کہ بعثت سے پہلے جبیر بن مطعم نے آپ کو عرفات میں دیکھا تو اسے حیرت ہوئی کہ قریش کے لوگ تو مزدلفہ سے آگے نہیں جاتے اور بنی ہاشم کا یہ فرزند وقوف عرفہ کے لیے یہاں حاضر ہے۔ اس کا بیان ہے: اضللت بعیرا لی، فذھبت اطلبہ یوم عرفۃ، فرأیت النبی واقفا بعرفۃ، فقلت: ھٰذا، واللّٰہ من الحمس، فما شأنہ ھاھنا؟ (بخاری،رقم ۱۵۸۱)
‘‘میرا اونٹ کھو گیا۔ عرفہ کے دن میں اسے تلاش کرتا ہوا گیا تو میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میدان عرفات میں کھڑے ہیں۔ ۳۹۰ میں نے خیال کیا، بخدا یہ تو قریش میں سے ہیں، پھر یہ یہاں کیا کررہے ہیں؟’’(یہ بعثت سے پہلے کا واقعہ ہے، لیکن اس کو چونکہ جبیر بن مطعم نے مسلمان ہونے کے بعد بیان کیا ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اس میں اس طریقے سے ہوا ہے۔)
اس سے واضح ہے کہ قرآن نے جب حج کا حکم دیا تو اس کے مخاطبین کے لیے یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ وہ دین میں اس کی اہمیت اور اس کے رسوم وآداب سے پوری طرح واقف تھے اور ہر سال نہایت اہتمام کے ساتھ اس کے لیے حاضر ہوتے اور اس کے مناسک ادا کرتے تھے۔ چنانچہ قرآن نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا کہ ان کی بدعتوں اور انحرافات کو ختم کرکے حج وعمرہ ، دونوں کو ان کے اصل ابراہیمی طریقے پربحال کردیا۔ یہ اس عظیم عبادت کی تاریخ کا آخری باب ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے رقم ہوا ہے۔ اس کے بعد اب اس کے تمام مناسک مسلمانوں کے اجماع اور تواتر عملی سے نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہورہے ہیں، ان میں کسی نوعیت کا کوئی ترمیم وتغیر یا اضافہ نہیں ہوا۔ قرآن نے جو اصلاحات، البتہ اس وقت کی تھیں اوراب قرآن کی آیات میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کردی گئی ہیں، وہ ہم یہاں بیان کیے دیتے ہیں۔
۱۔ بیت الحرام کے متولی ہونے کی وجہ سے قریش اپنا یہ حق سمجھتے تھے کہ وہ جس کو چاہیں حج وعمرہ کے لیے حرم میں آنے دیں اور جس کو چاہیں، اس کی حاضری سے محروم کردیں۔ قرآن نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور واضح کیا کہ یہ کسی خاندان کا اجارہ نہیں ہے۔ ہر شخص جو اللہ کی عبادت اور حج وعمرہ کے لیے اس گھر کا قصدکرے، وہ قریشی ہویا غیر قریشی، عربی ہو یا عجمی، شرقی ہو یا غربی ، اس پر کسی کو کوئی پابندی عائد کرنے کا حق نہیں ہے۔مقیم اورآفاقی، سب کے حقوق اس میں بالکل برابر ہیں۔ قریش کی حیثیت اس کے حکمرانوں اوراجارہ داروں کی نہیں ہے، بلکہ اس کے پاسبانوں اور خدمت گزاروں کی ہے۔ ان کا فرض ہے کہ اسمٰعیل علیہ السلام کی طرح وہ بھی اسے تمام دنیا کے لیے عبادت کا مرکز بنائیں اور تمام انسانوں کو دعوت دیں کہ اس کی برکتوں سے بہرہ یاب ہونے کے لیے اس آستا نۂ الٰہی پرحاضر ہوں: اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا، وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنٰہُ لِلنَّاسِ سَوَآءً الْعَاکِفُ فِیْہِ وَالْبَادِ، وَمَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِاِلْحَادٍ بِظُلْمٍ، نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ
‘‘(اِس کے برخلاف )جو لوگ منکر ہوئے اوراب اللہ کی راہ سے اور اُس مسجد حرام سے روک رہے ہیں جس کو ہم نے اُس کے شہریوں اور باہر سے آنے والوں کے لیے یکساں ٹھیرایا ہے، (وہ یقینابڑے ظلم کا ارتکاب کررہے ہیں)۔ اور(اِس مسجد کا معاملہ تو یہ ہے کہ )جو اِس میں کسی بے دینی، کسی شرک کے ارتکاب کا ارادہ کریں گے، اُن کو ہم ایک دردناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔’’ (الحج ۲۲:۲۵)
۲۔ شرک کی غلاظت توحید کے اس سب سے بڑے اور قدیم ترین مرکز میں بھی داخل کردی گئی تھی۔ قرآن نے متنبہ کیا کہ ابراہیم واسمٰعیل کو جب اس گھرکی تولیت عطا ہوئی اورانھیں یہاں آباد ہونے کے لیے کہا گیاتھا تو اللہ تعالیٰ نے پہلی ہدایت یہ فرمائی تھی کہ اس طرح کی غلاظتوں سے اس گھر کو بالکل پاک رکھا جائے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ قریش کو بھی یہی کرنا چاہیے ، ورنہ یہ عظیم امانت ان سے چھین کرا س کے اصل حق داروں کے سپرد کر دی جائے گی: وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰھِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ اَنْ لاَّ تُشْرِکْ بِیْ شَیْئًا، وَّطَھِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ، وَالْقَآئِمِیْنَ، وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ.(الحج۲۲:۲۶)
‘‘اور یا دکرو ، جب ابراہیم کے لیے اِس گھر کی جگہ کو ہم نے ٹھکانا بنایا، (اس ہدایت کے ساتھ ) کہ کسی چیز کوہمارے ساتھ شریک نہ کرو اور میرے اس گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔’’
۳۔ اپنے بتوں کے تعلق سے بعض جانور قریش نے حرام قرار دے رکھے تھے۔(الانعام۶:۱۳۸۔۱۵۰) چنانچہ وہ ان کی قربانی بھی نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح اس گھرسے متعلق سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مقدس روایات بھی اپنے دنیوی مفادات کی خاطر انھوں نے بڑی حد تک بدل ڈالی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر انھیں تنبیہ کی اوربتایا کہ جانور وہی حرام ہیں جن کی وضاحت قرآن میں کردی گئی ہے، اس لیے اس ‘افتراء علی اللّٰہ’سے بچو اور اللہ کی قائم کردہ تمام حرمتوں کی تعظیم بجا لاؤ۔ یہی تمھارے حق میں بہتر ہے: ذٰلِکَ، وَمَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰہِ فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ، وَاُحِلَّتْ لَکُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ،فَاجْتَنِبُوْا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ، وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ، حُنَفَآءَ لِلّٰہِ غَیْرَ مُشْرِکِیْنَ بِہٖ، وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ، فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ، فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ اَوْتَھْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ. ذٰلِکَ، وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ، فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الَقُلُوْبِ.
‘‘ان چیزوں کا اہتمام کرو، اور (یاد رکھو کہ) جو اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کی تعظیم کرے گا تو یہ اُس کے پروردگار کے نزدیک اُس کے لیے بہتر ہے۔ اور تمھارے لیے چوپائے حلال کیے گئے ہیں ،سوائے اُن کے جو تمھیں سنا دیے گئے ہیں ۔ سوبتوں کی غلاظت سے اجتناب کرو اور اُس جھوٹ سے اجتناب کرو ، (جو تم خدا پر باندھتے ہو)، ایک اللہ کی طرف یک سو ہو کر ، اُس کے شریک بنا کر نہیں، اور (یاد رکھو کہ) جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرائے گا تو گویا وہ آسمان سے گر گیا ، پھر پرندے اُس کو اچک لے جائیں گے یا ہوا اُس کو کسی دور دراز جگہ میں لے جاکر پھینک دے گی۔ ان چیزو ں کا اہتمام کرو، اور (یاد رکھو کہ ) جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کی تعظیم کرے گا تو(اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ )یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔’’(الحج۲۲: ۳۰۔۳۲)
۴۔ قربانی کے جانوروں سے کوئی فائدہ اٹھانا بالعموم ممنوع سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے خاص کردینے کے بعد لوگ نہ ان کا دودھ استعمال کرتے تھے اورنہ ان سے باربرداری کا کوئی کام لیتے تھے ۔(بخاری، رقم ۱۶۰۴۔ مسلم، رقم ۱۳۲۲)قرآن نے وضاحت فرمائی کہ ان شعائر کی تعظیم کے لیے یہ چیز ضروری نہیں ہے۔ قربانی کا وقت آجانے تک ان جانوروں سے ہر طرح کا فائدہ اٹھانا بالکل جائز ہے : لَکُمْ فِیْھَا مَنَافِعُ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی، ثُمَّ مَحِلُّھَآ اِلَی الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ.
‘‘(قربانی )کے اِن (جانوروں)سے تم ایک وقت مقرر تک فائدے اٹھا سکتے ہو، پھر ان کو اِسی قدیم گھر تک پہنچنا ہے۔’’(الحج ۲۲: ۳۳)
۵۔ عرب میں یہود بھی تھے اور ایک کمزور روایت کی بنا پر انھوں نے اونٹ کو حرام قرار دے رکھاتھا۔(استثنا۱۴:۷)اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ محض واہمہ ہے، لہٰذا اونٹ کی قربانی بھی بغیر کسی تردد کے کی جائے گی۔ بلکہ عربوں کو یہ جانور چونکہ نہایت عزیز ہے، لہٰذاوہ اگر اپنے پروردگار کی خوشنودی کے لیے اس کی قربانی کریں گے تو ان کے لیے یقینا یہ اللہ کے تقرب کابہت بڑا ذریعہ ہوگی: وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ، لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ، فَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْھَا صَوَآفَّ ، فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا، فَکُلُوْا مِنْھَا، وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ، کَذٰلِکَسَخَّرْنٰھَا لَکُمْ، لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ.
‘‘اور قربانی کے اونٹوں کوبھی ہم نے تمھارے لیے اللہ کے شعائرٹھیرایا ہے۔ ان میں تمھارے لیے بھلائی ہے۔ سو ان کی قطار بنا کر ان پراللہ کا نام لو۔ پھر جب وہ اپنے پہلووں پر گر پڑیں تو اُن میں سے خود بھی کھاؤ اور اُن کو بھی کھلاؤ جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور اُن کو بھی جو مانگنے کے لیے آجائیں۔ اسی طرح ہم نے اِن (جانوروں) کو تمھاری خدمت میں لگادیا ہے تاکہ تم شکرگزار بنو۔’’(الحج۲۲:۳۶)
۶۔قربانی کے بارے میں خیال کیا جاتا تھاکہ اللہ تعالیٰ اس کے گوشت اور خون سے محظوظ ہوتا ہے۔ قرآن نے متنبہ کیا کہ یہ محض حماقت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے نہیں، بلکہ اس تقویٰ سے محظوظ ہوتا ہے جو ان قربانیوں سے ان کے پیش کرنے والوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے: لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَدِمَاؤُھَا، وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ،کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ، لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ، وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْن۔
‘‘اللہ کو نہ ( تمھاری ) اِن (قربانیوں ) کا گوشت پہنچتا ہے، نہ خون، بلکہ صرف تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اُس نے اِسی طرح اِن کو تمھاری خدمت میں لگا دیا ہے تاکہ اللہ نے جو ہدایت تمھیں بخشی ہے، اُس پرتم اُس کی تکبیر کرو۔ (یہی طریقہ ہے اُن کا جو خوبی کا رویہ اختیار کریں ) اور (اے پیغمبر)اِن خوب کاروں کو بشارت دو۔’’(الحج۲۲: ۳۷)
۷۔ مروہ سیدنااسمٰعیل علیہ السلام کی قربان گاہ ہے۔ یہود چونکہ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے، اس لیے صفا ومروہ کے طواف کے بارے میں بھی طرح طرح کے شبہات پیدا کرتے رہتے تھے۔ قرآن نے اس کتمان حق پر انھیں تنبیہ کی اور صاف واضح کردیاکہ یہ دونوں پہاڑیاں اللہ کے شعائر میں سے ہیں اوران کا طواف ایک نیکی کا کام ہے۔ کسی مسلمان کو اس معاملے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے : اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ، فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ، فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا، وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ، اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِِّنٰتِ وَالْھُدٰی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِ، اُولٰٓئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰہُ، وَیَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُوْنَ.
‘‘صفا اور مروہ یقینا اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔ چنانچہ وہ لوگ جواس گھر کا حج یا عمرہ کرنے کے لیے آئیں ، اُن پرکوئی حرج نہیں کہ وہ ان کا طواف بھی کرلیں، (بلکہ یہ ایک نیکی کا کام ہے ) اورجس نے اپنے شوق سے نیکی کاکوئی کام کیا، اللہ اُسے قبول کرنے والا ہے، اُس سے پوری طرح باخبر ہے۔ (اِس معاملے میں)جو حقائق ہم نے نازل کیے اور جو ہدایت بھیجی تھی ،اُسے جو لوگ چھپاتے ہیں ،اس کے باوجود کہ اِن لوگوں کے لیے اپنی کتاب میں ہم نے اُسے کھول کر بیان کر دیا تھا ، یقیناوہی ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے او رلعنت کرنے والے بھی جن پر لعنت کریں گے۔’’(البقرہ۲:۱۵۸۔۱۵۹)
۸۔ حج کے سلسلے میں ایک بدعت یہ بھی ایجاد کرلی گئی تھی کہ حج سے واپسی پراور احرام کی حالت میں لوگ اپنے گھروں میں ان کے دروازوں سے نہیں، بلکہ پیچھے سے داخل ہوتے تھے ۔ (المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، جواد علی ۳۷۱/۶) اس عجیب و غریب حرکت کا محرک غالباًیہ وہم تھا کہ جن دروازوں سے گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے نکلے ہیں، پاک ہو جانے کے بعد بھی انھی سے گھروں میں داخل ہونا اب خلاف تقویٰ ہے ۔ قرآن نے اس احمقانہ حرکت سے روکا اورفرمایا کہ یہ ہرگز کوئی نیکی کا کام نہیں ہے، اس لیے اب اس کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے : وَلَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِھَا، وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی، وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِھَا، وَاتَّقُوا اللّٰہَ، لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.
‘‘یہ ہرگز کوئی نیکی نہیں ہے کہ (احرام کی حالت میں اور حج سے واپسی پر ) تم گھروں کے پیچھے سے داخل ہوتے ہو، بلکہ نیکی تو اصل میں اس کی ہے جو تقویٰ اختیار کرے۔ اور گھروں میں اُن کے دروازوں ہی سے آؤ، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تمھیں فلاح نصیب ہوجائے۔’’(البقرہ۲:۱۸۹)
۹۔ زمانۂ جاہلیت میں حج نے عبادت سے زیادہ ایک ـنیم مذہبی میلے کی صورت اختیار کرلی تھی۔ چنانچہ لوگ اس کے لیے ہر طرح کا اہتمام کرتے، لیکن اس بات کو بہت کم اہمیت دیتے تھے کہ اس سفرمیں اصل زادراہ تقویٰ کا زاد راہ ہے اور وہ حج کے لیے نکلے ہیں تو انھیں اب کوئی شہوت یا نافرمانی یا لڑائی جھگڑے کی بات نہیں کرنی چاہیے۔ یہ اس عظیم عبادت کی روح کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ اس سفر کے لیے آدمی کوسب سے زیادہ اسی تقویٰ کے زادہ راہ کا اہتمام کرنا چاہیے : اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ، فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ، فَلاَ رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ، وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ، وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ، یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ، وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ اَلتَّقْوٰی،وَاتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَاب
‘‘حج کے متعین مہینے ہیں۔ سو ان میں جو شخص بھی (احرام باندھ کر ) حج کا ارادہ کر لے، اُسے پھرحج کے اس زمانے میں نہ کوئی شہوت کی بات کرنی ہے ، نہ خدا کی نافرمانی کی اورنہ لڑائی جھگڑے کی کوئی بات اُس سے سرزد ہونی چاہیے۔ اور(یادرہے کہ ) جونیکی بھی تم کرو گے، اللہ اُسے جانتا ہے۔ اور (حج کے اس سفر میں تقویٰ کا ) زادراہ لے کر نکلو، اس لیے کہ بہترین زادراہ یہی تقویٰ کا زادراہ ہے۔ اور عقل والو، مجھ سے ڈرتے رہو۔’’(البقرہ ۲: ۱۹۷)
۱۰۔ حج کے بارے میں اسی غفلت کا نتیجہ تھا کہ لوگ مزدلفہ پہنچتے تووہاں تسبیح وتہلیل اور ذکر و عبادت کے بجائے بیع وشرا، تجارت اور اس طرح کے دوسرے کاموں کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے۔ قرآن نے بتایا کہ اس میں تو کوئی مضایقہ نہیں کہ حج کے ساتھ آدمی بیع وشرا کی نوعیت کا کوئی کام کرلے، لیکن حج کے مقامات ان چیزوں کی جگہ نہیں ہیں، علم ومعرفت کی یہ جلوہ گاہیں تو صرف اللہ کی یاد کے لیے خاص رہنی چاہییں: لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ، فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرََفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ، وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدٰکُمْ، وَاِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ.
‘‘اس میں کوئی حرج نہیں کہ (حج کے اس سفر میں ) تم اپنے پروردگار کا فضل تلاش کرو، لیکن (یاد رہے کہ مزدلفہ کوئی کھیل تماشے اور تجارت کی جگہ نہیں ہے، اس لیے) جب عرفات سے چلو تو مشعرالحرام کے پاس اللہ کو یاد کرو اور اسی طرح یاد کرو ، جس طرح اس نے تمھیں ہدایت فرمائی ہے۔ اور اس سے پہلے تو بلاشبہ تم لوگ گمراہوں میں سے تھے۔’’(البقرہ ۲: ۱۹۸)
۱۱۔ قریش نے اپنے لیے یہ امتیاز قائم کرلیا تھاکہ مزدلفہ سے آگے نہیں جاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بیت اللہ کے پروہت اورمجاور ہیں، لہٰذا ان کے لیے حدودحرم سے باہر نکلنا مناسب نہیں ہے ۔(المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، جواد علی۳۸۲/۶)اللہ تعالیٰ نے یہ توجیہ قبول نہیں کی اورحکم دیا کہ انھیں بھی عرفات میں اسی طرح حاضر ہونا چاہیے، جس طرح دوسرے سب لوگ ہوتے ہیں: ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ، وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ، اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
‘‘پھر (یہ بھی ضروری ہے کہ ) جہاں سے اورسب لوگ پلٹتے ہیں، تم بھی (قریش کے لوگو)، وہیں سے پلٹو اور اللہ سے مغفرت چاہو۔ یقینا اللہ بخشنے والا ہے، اس کی شفقت ابدی ہے۔’’ (البقرہ ۲:۱۹۹)
۱۲۔ منٰی کے ایام بھی زیادہ تر قصیدہ خوانی، داستان گوئی اور مفاخرت کی مجلسوں میں گزرتے تھے ۔( المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، جواد علی۳۹۰/۶) پھر یہی نہیں، بعض لوگ حج جیسی عظیم عبادت کو بھی اپنے دنیوی مفادات کے حوالے ہی سے دیکھتے تھے اوراس موقع پر بھی اللہ سے اگر کچھ مانگتے تو اسی دنیا کے لیے مانگتے تھے۔ قرآن نے اس پرتنبیہ کی اورفرمایا کہ اس طرح کے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہوگا: فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ، فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآئَکُمْ، اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا، فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ: رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا، وَّمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ. وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ: رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً، وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً، وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ، اُولٰٓئِکَ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْا، وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ.
‘‘اس کے بعد جب حج کے مناسک پورے کر لو تو جس طرح پہلے اپنے باپ دادا کو یاد کرتے رہے ہو، اسی طرح اب اللہ کو یاد کرو، بلکہ اُس سے بھی زیادہ ۔ (یہ اللہ سے مانگنے کا موقع ہے)، مگر لوگوں میں ایسے بھی ہیں کہ وہ (اس موقع پر بھی) یہی کہتے ہیں کہ پروردگار، ہمیں دنیا میں دے دے، اور(اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پھر ) آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں رہتا۔ اور ایسے بھی ہیں کہ جن کی دعا یہ ہوتی ہے کہ پروردگار، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔ یہی ہیں جو اپنی کمائی کا حصہ پالیں گے، اور اللہ کو حساب چکاتے کبھی دیر نہیں لگتی۔’’(البقرہ ۲: ۲۰۰)
۱۳۔ اس سلسلہ کی بدترین چیز عریاں طواف کی بدعت تھی۔ بیت اللہ میں اس غرض سے لکڑی کا ایک تختہ رکھا ہوا تھا جس پر لوگ کپڑے اتار اتار کر رکھ دیتے تھے۔ پھر صرف قریش کی فیاضی ہی ان کی ستر پوشی کرتی تھی۔ ان کے مرد مردوں کو اور عورتیں عورتوں کو کپڑے مستعار دیتی تھیں،لیکن جو لوگ محروم رہ جاتے تھے، وہ برہنہ طواف کرتے اوراسی کو نیکی سمجھتے تھے۔(المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، جواد علی۳۵۹/۶) قرآن نے اسے ممنوع قرار دیا اورفرمایا کہ عبادت کی ہر جگہ پر آدمی کو ستر چھپا کر اور پورا لباس پہن کر جانا چاہیے: یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ ، خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ.
‘‘آدم کے بیٹو، ہر مسجد کی حاضری کے وقت اپنے لباس سے آراستہ رہو۔’’(الاعراف ۷:۳۱)
حج وعمرہ کا مقصد
حج وعمرہ کا مقصد وہی ہے جو اس کی حقیقت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف، اس کی توحید کا اقرار اوراس بات کی یاد دہانی کہ اسلام قبول کر کے ہم اپنے آپ کو پروردگار کی نذر کرچکے ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن کی معرفت اور دل و دماغ میں جن کے رسوخ کو قرآن نے مقامات حج کے منافع سے تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ سورۂ حج کی جو آیت ابتدا میں نقل ہوئی ہے، اس میں حج کے مناسک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :‘لیشہدوا منافع لھم’(تاکہ وہ اپنے لیے منفعت کی جگہوں پر حاضر ہوں)۔ یہ مقصد ذکر کے ان الفاظ سے نہایت خوبی کے ساتھ واضح ہوتا ہے جو اس عبادت کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسی مقصد کو نمایاں رکھنے اور ذہنوں میں پوری طرح راسخ کردینے کے لیے منتخب کیے گئے ہیں۔ چنانچہ احرام باندھ لینے کے بعد یہ الفاظ ہر شخص کی زبان پر مسلسل جاری رہتے ہیں: لَبَّیْکَ، اللّٰھمَّ لَبَّیْکَ؛ لَبَّیْکَ لَاشَرِیکَ لَکَ، لَبَّیْکَ؛ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ، وَالْمُلْکَ؛ لَاشَرِیکَ لَکَ.
‘‘میں حاضر ہوں، اے اللہ، حاضر ہوں؛ حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں؛ میں حاضر ہوں،حمد تیرے لیے ہے، سب نعمتیں تیری ہیں اوربادشاہی بھی تیرے ہی لیے ہے؛ تیرا کوئی شریک نہیں۔’’
حج وعمرہ کے ایام
عمرہ کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ یہ پورے سال میں لوگ جب چاہیں، کرسکتے ہیں۔ حج کے لیے، البتہ ۸ ؍ ذوالحجہ سے ۱۳ ؍ ذوالحجہ تک کے ایام مقرر ہیں اور یہ انھی ایام میں ہو سکتا ہے۔ لوگوں کو اس عبادت کے لیے چونکہ اقصائے عالم سے سرزمین عرب کے شہر مکہ پہنچنا ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے سفر کو محفوظ رکھنے کی غرض سے چار مہینے لڑنے بھڑنے اورجنگ وجدال کے لیے ممنوع قرار دیے ہیں۔ یہ مہینے رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اورمحرم ہیں۔ ان میں سے رجب کا مہینا عمرے کے لیے اور باقی تین حج کے لیے خاص کیے گئے ہیں۔ ان مہینوں کی یہ حرمت ہمیشہ سے قائم چلی آرہی ہے، اس معاملے میں کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اِنَّّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ ، یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ، مِنْھَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ، ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ، فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْھِنَّ اَنْفُسَکُمْ.
‘‘اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد نوشتۂ الٰہی میں اُس دن سے بارہ ہی ہے، جب اُس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا۔ ان میں چار مہینے حرام ہیں۔ یہی دین قیم ہے ، لہٰذا اِن میں تم اپنی جانوں پرظلم نہ کرو۔’’ (التوبہ ۹:۳۶)
حج وعمرہ کے مقامات
حج وعمرہ کے مقامات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے شعائر قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:‘ان الصفا والمروۃ من شعائر اللّٰہ’ (صفا اور مروہ یقینا اللہ کے شعائر میں سے ہیں)۔ یہ ‘شعیرۃ’ کی جمع ہے جس کے معنی علامت کے ہیں۔ اصطلاح میں اس سے مراد وہ مظاہر ہیں جو کسی حقیقت کا شعور ذہنوں میں قائم رکھنے کے لیے اللہ و رسول کی طرف سے بطور ایک نشان کے مقرر کیے گئے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے تو یہ دلوں کا تقوی ہے ۔(الحج۲۲:۳۲)
ان کا تعارف درج ذیل ہے:
مواقیت
حج وعمرہ کی غرض سے آنے والوں کے لیے حدود حرم سے کچھ فاصلے پر بعض جگہیں متعین کردی گئی ہیں، جن سے آگے وہ احرام کے بغیر نہیں جاسکتے۔ ان پر یاان کے برابر کسی بھی جگہ پر پہنچ کر ضروری ہے کہ احرام باندھ لیا جائے۔ اصطلاح میں انھیں میقات کہا جاتا ہے۔ یہ جگہیں پانچ ہیں: مدینہ سے آنے والوں کے لیے ذوالحلیفہ، یمن سے آنے والوں کے لیے یلملم، مصروشام سے آنے والوں کے لیے جحفہ، نجد سے آنے والوں کے لیے قرن اور مشرق کی طرف سے آنے والوں کے لیے ذات عرق۔
بیت الحرام
یہ وہی معبد ہے جسے قرآن میں ‘ البیت’ ، ‘البیت العتیق’اور ‘المسجد الحرام’ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے (الحج۲۲:۲۵۔۲۹)اس کی عمارت چونکہ مکعب بنائی گئی ہے، اس لیے اسے خانہ کعبہ بھی کہتے ہیں۔ یہ سرزمین عرب کے شہر مکہ میں واقع ہے۔ قرآن میں اس شہر کا نام ‘بکۃ’آیا ہے(آل عمران۳:۹۶) جس کے معنی آباد جگہ کے ہیں۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی تقریباً ۲۷۷ میٹر ہے اوریہ چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی آمد سے پہلے مکہ غیر آباد تھا۔ قدیم عربوں کا ایک قبیلہ جرہم، البتہ اس علاقے کا حکمران تھا اورمکہ ہی کے قرب وجوار میں رہتا تھا۔ اسمٰعیل علیہ السلام کی شادی اسی قبیلہ کی ایک لڑکی سیدہ بنت مضاض سے ہوئی تھی۔(الروض الانف ، السہیلی ۱۲/۱) ان کے فرزند نابت کی وفات کے بعد اس شہر کا اقتدار اسی قبیلہ کے ہاتھ میں چلا گیا اور وہ کئی سوسال تک اس پر حکومت کرتے رہے۔ پھر بنو خزاعہ اور بنو بکر نے اس شہر پرقبضہ کر لیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے کم و بیش ایک صدی پہلے خزاعہ کے سردار حلیل بن حبشیہ کی وفات ہوئی تو قصی بن کلاب نے اسے دوبارہ حاصل کیا اور بنی اسمٰعیل کی حکومت ایک مرتبہ پھر اس شہر پرقائم ہو گئی۔(السیرۃالنبویہ، ابن ہشام ۹۳/۱ ۔ ۱۰۴)
سیدناابراہیم علیہ السلام تقریباً چار ہزار سال پہلے جب اللہ کے حکم سے یہاں آئے تو بیت الحرام امتداد زمانہ اور سیلاب کی ستم رانیوں سے گر چکا تھا اوراس کا کوئی نام ونشان بھی باقی نہیں رہا تھا۔ پروردگار سے الہام پاکر انھوں نے اس کی پرانی بنیادیں دریافت کیں اور اپنے فرزنداسمٰعیل کی مدد سے ایک بے چھت کی عمارت کھڑی کر دی ۔(اخبار مکہ، الازرقی ۵۸/۱ ۔ ۶۶)ان کے مقدس ہاتھوں کی یہ تعمیر بھی گردش ایام سے محفوظ نہ رہی اوربالآخر منہدم ہوگئی۔ اس کے بعدپہلے عمالقہ نے اور پھرقبیلۂ جرہم نے اسے تعمیرکیا۔(شرح المواہب اللدنیہ، الزرقانی ۲۰۶/۱) بعض حوادث کی وجہ سے جرہم کی بنائی ہوئی عمارت بھی گر گئی تو قریش نے اس کی تعمیر نو کا بندوبست کیا، لیکن سرمایہ کم پڑجانے کی وجہ سے یہ عمارت اصل ابراہیمی بنیادوں پر قائم نہ ہو سکی۔ یہ واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پانچ سال پہلے پیش آیا۔ چنانچہ آپ بھی تعمیر کے اس کام میں شریک رہے ، بلکہ مورخین کا بیان ہے کہ حجراسود کے دوبارہ نصب کرنے کا قضیہ آپ ہی کے حسن تدبیر سے طے ہوا۔(السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۱۶۰/۱)
روایتوں میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر سیدہ عائشہ کے سامنے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ قریش کی تالیف قلب ملحوظ نہ ہوتی تو اس کا جو حصہ عمارت سے باہر رہ گیا ہے اورحطیم کہلاتا ہے، آپ اسے عمارت میں شامل کر کے بیت اللہ کو اس کی اصل ابراہیمی بنیادوں پر استوار کردیتے ۔ (بخاری، رقم ۱۵۰۶،۱۵۰۸۔ مسلم ، رقم ۱۳۳۳) عبداللہ بن زبیر نے آپ کی اسی خواہش کے پیش نظر قریش کی بنائی ہوئی عمارت کو گرا کر اپنے زمانۂ خلافت میں اسے ازسرنو تعمیر کیا تھا ، لیکن حجاج نے جب ان کے خلاف جنگ میں سنگ باری کی تو یہ عمارت بھی ٹوٹ گئی۔ ان کی شہادت کے بعد اس نے عبدالملک بن مروان کے حکم سے اس کو منہدم کرکے ایک مرتبہ پھر قریش کی قائم کی ہوئی بنیادوں پرتعمیر کر دیا۔ (بخاری، رقم ۱۵۰۹۔ مسلم، رقم۱۳۳۳) اس کے بعد سے یہ اسی طرح قائم ہے۔
حجر اسود اس عمارت کے کونے میں نصب ہے۔ اس سے آگے عمارت کا شمالی کونا رکن عراقی، مغربی کونا رکن شامی اور جنوبی کونا رکن یمانی کہلاتا ہے۔ بیت الحرام کا دروازہ زمین سے کوئی دو میٹر اونچا ہے۔ اس کے اور حجر اسود کے درمیان کی دیوار کو ملتزم کہا جاتا ہے۔ یہ گویا آستانۂ الٰہی کی دہلیز ہے جس سے چمٹ کر لوگ دعائیں کرتے ہیں۔ عمارت پرسیاہ کپڑے کا ایک غلاف پڑا رہتا ہے جسے ہر سال تبدیل کردیا جاتا ہے۔ عمارت کے صحن میں سفید رنگ کا ایک پتھر رکھا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اسی پر کھڑے ہوکر اس کی دیواریں بلند کی تھیں (اخبار مکہ، الازرقی۵۹/۱) اس پتھر سے کچھ فاصلے پرایک قدرتی چشمہ ہے جسے زمزم کہتے ہیں۔ بیت الحرام کی زیارت کے لیے آنے والے اس سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔
اس کے حدود چاروں طرف کئی کلومیٹر تک وسیع اورہمیشہ سے معلوم اورمتعین ہیں۔ یہ پور ا علاقہ حرم کہلاتا ہے،جس میں کسی انسان یا جانور ،حتیٰ کہ آپ سے آپ اگنے والی نباتات کو بھی نقصان پہنچانا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ قرآن نے ‘حَرَمًا اٰمِنًا (القصص۲۸ : ۵۷۔ العنکبوت۲۹:۶۷) اور ‘مَثَابَۃً لِلنَّاسِ وَأَمنا (البقرہ۲:۱۲۵) کے الفاظ میں اس کی یہی حیثیت بیان فرمائی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
ان ھذا البلد حرمہ اللّٰہ یوم خلق السمٰوات والارض، فھوحرام بحرمۃ اللّٰہ الی یوم القیٰمۃ، وانہ لم یحل القتال فیہ لاحد قبلی، ولم یحل لی الا ساعۃ من نھار، فھو حرام بحرمۃ اللّٰہ الی یوم القیٰمۃ، لا یعضد شوکہ، ولا ینفر صیدہ، ولا یلتقط الا من عرفھا، ولایختلیٰ خلاھا.
‘‘یہ وہ شہر ہے جسے اللہ نے اُس دن سے حرام ٹھیرایا ہے،جب اُس نے زمین و آسمان پیدا فرمائے تھے۔ لہٰذا اللہ کی قائم کردہ اسی حرمت کی وجہ سے یہ قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ مجھ سے پہلے کسی شخص کو اس میں قتال کی اجازت نہیں دی گئی۔ میرے لیے بھی یہ دن کی ایک گھڑی ہی کے لیے حلال کیا گیا ۔ چنانچہ اللہ کی قائم کردہ اسی حرمت کی وجہ سے یہ اب بھی قیامت تک حرام ہی رہے گا، نہ اس کے کانٹوں والے درخت کاٹے جائیں گے ، نہ اس کے شکار کو بھگایا جائے گا ، نہ اس میں گری ہوئی کوئی چیز اٹھائی جائے گی ، الا ّیہ کہ کو ئی اسے مالک تک پہنچانے کے لیے اٹھائے ، اور نہ اس کی گھاس کاٹی جائے گی۔’’ (مسلم ، رقم ۱۳۵۳)
صفا و مروہ
یہ دو پہاڑیاں ہیں جوبیت اللہ کے بالکل قریب واقع ہیں۔ سیدنا اسمٰعیل کی قربانی کا واقعہ انھی میں سے ایک پہاڑی مروہ پر پیش آیا تھا۔ امام حمید الدین فراہی نے اپنی کتاب ‘‘الرأی الصحیح فی من ھو الذبیح’’میں اسے پوری طرح مبرہن کر دیا ہے۔ چنانچہ یہی اصل قربان گاہ ہے جسے لوگوں کی سہولت کے لیے منٰی تک وسعت دے دی گئی ہے۔ اس قربان گاہ کے طواف میں ہر پھیرا صفا سے شروع ہوکر مروہ پر ختم ہوتا ہے۔ اصطلاح میں اسے سعی کہتے ہیں۔
منٰی
دوپہاڑیوں کے درمیان یہ ایک وسیع میدان ہے جس کا فاصلہ مکہ سے تقریباً پانچ کلو میٹر ہے۔ ۸؍ذوالحجہ کو مکہ سے آنے کے بعد اور۱۰ ؍ ذوالحجہ کو عرفات سے واپس آکر حجاج یہیں قیام کرتے اور حج کے باقی مناسک پورے کرتے ہیں۔
عرفات
منٰی سے تقریباً دس کلو میٹر کے فاصلے پریہ بھی ایک وسیع میدان ہے جہاں ۹ ؍ ذوالحجہ کو مسلمانوں کا امام خطبہ دیتا اور اس کے بعد حجاج غروب آفتاب تک وقوف کرتے ہیں۔
مزدلفہ
منٰی کے راستے میں یہ ایک دوسرا میدان ہے جہاں عرفات سے واپسی کے بعد حجاج رات گزارتے ہیں۔ یہ منٰی اور عرفات کے تقریباً درمیان میں واقع ہے۔ حدودحرم یہاں سے شروع ہوتے ہیں، اس لیے اسے ‘المشعر الحرام’بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن میں اس کا یہی نام آیاہے ۔ ( البقرہ۲:۱۹۸)
جمرات
منٰی کے میدان میں یہ تین ستون ہیں جنھیں شیطان کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک ستون سب سے بڑا ہے، اسے جمرۂ عقبہ یا جمرۃ الاخریٰ کہتے ہیں۔ دوسرے دو ستون جمرۃالاولیٰ اور جمرۃ الوسطیٰ کے نام سے موسوم ہیں۔ عرفات سے واپس آکر حجاج انھی ستونوں پرسنگ باری کرتے ہیں۔
حج وعمرہ کاطریقہ
حج وعمرہ کے لیے جو طریقہ شریعت میں مقرر کیا گیا ہے، وہ یہ ہے:
عمرہ
اس عبادت کی نیت سے اس کا احرام باندھا جائے،باہر سے آنے والے یہ احرام اپنی میقات سے باندھیں ؛مقیم خواہ وہ مکی ہوں یا عارضی طور پر مکہ میں ٹھیرے ہوئے ہوں، اسے حدودحرم سے باہر قریب کی کسی جگہ سے باندھیں ؛ اورجو لوگ ان حدود سے باہر، لیکن میقات کے اندر رہتے ہوں ، ان کی میقات وہی جگہ ہے ، جہاں وہ مقیم ہیں، وہ وہیں سے احرام باندھ لیں اور تلبیہ پڑھنا شروع کردیں، بیت اللہ میں پہنچنے تک تلبیہ کا ورد جاری رکھا جائے، وہاں پہنچ کر بیت اللہ کا طواف کیا جائے، پھر صفا و مروہ کی سعی کی جائے، ہدی کے جانور ساتھ ہوں تو ان کی قربانی کی جائے، قربانی کے بعد مرد سر منڈوا کر یا حجامت کر اکے اورعورتیں اپنی چوٹی کے آخر سے تھوڑے سے بال کاٹ کر احرام کھول دیں ۔
یہ احرام ایک اصطلاح ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اب وہ شہوت کی کوئی بات نہیں کریں گے؛زیب و زینت کی کوئی چیز، مثلاً خوشبو وغیرہ استعمال نہیں کریں گے؛ ناخن نہیں تراشیں گے، نہ جسم کے کسی حصے کے بال اتاریں گے، نہ میل کچیل دور کریں گے، یہاں تک کہ اپنے بدن کی جوئیں بھی نہیں ماریں گے؛ شکار نہیں کریں گے؛ سلے ہوئے کپڑے نہیں پہنیں گے؛ اپنا سر، چہرہ اور پاؤں کے اوپر کا حصہ کھلا رکھیں گے، اور ایک چادر تہ بند کے طور پر باندھیں گے اور ایک اوڑھ لیں گے۔
عورتیں ، البتہ سلے ہوئے کپڑے پہنیں گی، اور سراور پاؤں بھی ڈھانپ سکیں گی۔ ان کے لیے صرف چہر ہ اور ہاتھ کھلے رکھنے ضروری ہیں۔
تلبیہ سے مراد، ‘لبیک اللّٰھم لبیک؛ لبیک لا شریک لک، لبیک؛ ان الحمد والنعمۃ لک، والملک؛ لا شریک لک’کا ورد ہے جو احرام باندھتے ہی شروع ہوتا اور بیت اللہ میں پہنچنے تک برابر جاری رہتا ہے۔ حج وعمرہ کے لیے تنہا یہی ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔
طواف ان سات پھیروں کو کہتے ہیں جو ہر طرح کی نجاست سے پاک ہو کر بیت اللہ کے گرد لگائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ہر پھیرا حجراسود سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوتا ہے اور ہر پھیرے کی ابتدا میں حجراسود کا استلام کیا جاتا ہے۔ یہ حجراسود کو چومنے یا ہاتھ سے اس کو چھو کراپنا ہاتھ چوم لینے کے لیے ایک اصطلاح ہے۔ ہجوم کی صورت میں ہاتھ سے یا ہاتھ کی چھڑی سے یا اس طرح کی کسی دوسری چیز سے اشارہ کردینا بھی اس کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔
سعی سے مراد صفا ومروہ کا طواف ہے۔ یہ بھی سات پھیرے ہیں جو صفا سے شروع ہوتے ہیں۔ صفا سے مروہ تک ایک اور مروہ سے صفا تک دوسر ا پھیرا شمار کیا جاتا ہے۔ ان میں سے آخری پھیرا مروہ پرختم ہوتا ہے۔
قربانی کی طرح صفا ومروہ کی یہ سعی بھی بطور تطوع کی جاتی ہے۔ یہ عمرے کا کوئی لازمی حصہ نہیں ہے ۔ عمرہ اس کے بغیر بھی ہر لحاظ سے مکمل ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ، فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا، وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا ، فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ.
‘‘صفا اور مروہ یقینا اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔ چنانچہ وہ لوگ جو اس گھر کا حج یا عمرہ کرنے کے لیے آئیں، اُن پر کوئی حرج نہیں کہ وہ ان کا طواف بھی کرلیں،(بلکہ یہ ایک نیکی کا کام ہے ) اور جس نے اپنے شوق سے نیکی کا کوئی کام کیا، اللہ اُسے قبول کرنے والا ہے، اُس سے پوری طرح باخبر ہے ’’(البقرہ۲:۱۵۸)
ہدی کا لفظ ان جانوروں کے لیے بولا جاتا ہے جو حرم میں قربانی کے لیے خاص کیے گئے ہوں۔ دوسرے جانوروں سے ان کو ممیز رکھنے کے لیے ان کے جسم پر نشان لگائے جاتے اورگلے میں پٹے ڈالے جاتے ہیں۔ قرآن نے ‘القلائد (المائدہ۵:۲، ۹۷) کی تعبیر ان کے لیے اسی بناپر اختیار کی ہے۔
حج
عمرے کی طرح حج کے لیے بھی پہلا کام یہی ہے کہ اس کی نیت سے اس کا احرام باندھا جائے، باہر سے آنے والے یہ احرام اپنے میقات سے باندھیں؛ مقیم خواہ وہ مکی ہوں یا عارضی طور پر مکہ میں ٹھیرے ہوئے ہوں یا حدود حرم سے باہر، لیکن میقات کے اندر رہتے ہوں، ان کی میقات وہی جگہ ہے، جہاں وہ مقیم ہیں، وہ وہیں سے احرام باندھ لیں اور تلبیہ پڑھنا شروع کر دیں، ۸؍ذوالحجہ کو منیٰ کے لیے روانہ ہوں اوروہاں قیام کریں،
۹؍ذوالحجہ کی صبح عرفات کے لیے روانہ ہوں،
وہاں پہنچ کر امام ظہر کی نماز سے پہلے حج کا خطبہ دے، پھر ظہر اور عصر کی نماز جمع اور قصر کر کے پڑھی جائے، نماز سے فارغ ہوکر جتنی دیر کے لیے ممکن ہو، اللہ تعالیٰ کے حضور میں تسبیح وتحمید، تکبیر وتہلیل اور دعا و مناجات کی جائے،
غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ کے لیے روانہ ہوں، وہاں پہنچ کر مغرب اورعشا کی نماز جمع اورقصر کر کے پڑھی جائے، رات کو اسی میدان میں قیام کیا جائے،فجر کی نماز کے بعد یہاں بھی تھوڑی دیر کے لیے عرفات ہی کی طرح تسبیح وتحمید، تکبیر وتہلیل اور دعا و مناجات کی جائے،پھر منیٰ کے لیے روانہ ہوں اوروہاں جمرۂ عقبہ کے پاس پہنچ کر تلبیہ پڑھنا بند کر دیا جائے اور اس جمرے کو سات کنکریاں ماری جائیں، ہدی کے جانور ساتھ ہوں یا نذر اور کفارے کی کوئی قربانی واجب ہوچکی ہو تو یہ قربانی کی جائے، پھر مر د سرمنڈوا کر یا حجامت کراکے اور عورتیں اپنی چوٹی کے آخر سے تھوڑے سے بال کاٹ کر احرام کا لباس اتار دیں، پھر بیت اللہ پہنچ کر اس کا طواف کیا جائے۔ احرام کی تمام پابندیاں اس کے ساتھ ہی ختم ہوجائیں گی، اس کے بعد اگر ارادہ ہو تو بطورتطوع صفا و مروہ کی سعی بھی کر لی جائے، پھر منیٰ واپس پہنچ کر دو یا تین دن قیام کیا جائے اورروزانہ پہلے جمرۃالاولی، پھر جمرۃ الوسطیٰ اوراس کے بعد جمرۃ الاخریٰ کو سات سات کنکریاں ماری جائیں۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے حج وعمر ہ کے مناسک یہی ہیں۔ قرآن مجید نے ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی، صرف اتنا کیا ہے کہ ان سے متعلق بعض فقہی مسائل کی توضیح فرما دی ہے۔
یہ احکام درج ذیل ہیں:
پہلا حکم یہ ہے کہ حج وعمرہ کے تعلق سے جو حرمتیں اللہ تعالیٰ نے قائم کردی ہیں، ان کی تعظیم ایمان کا تقاضا ہے، وہ ہر حال میں قائم رہنی چاہییں۔ تاہم کوئی دوسرا فریق اگر انھیں ملحوظ رکھنے سے انکار کردیتا ہے تو اس کے بدلے میں مسلمانوں کو بھی حق ہے کہ وہ برابر کا اقدام کریں، اس لیے کہ اس طرح کی حرمتیں باہمی طور پر ہی قائم رہ سکتی ہیں، انھیں کوئی فریق اپنے طور پر قائم نہیں رکھ سکتا : اَلشَّھْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ ، وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ، فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ ، فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ، وَاتَّقُوا اللّٰہَ ، وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ.
‘‘ماہ حرام کا بدلہ ماہ حرام ہے اور (اِسی طرح) دوسری حرمتوں کے بدلے ہیں۔ لہٰذا جو تم پر زیادتی کریں، انھیں اس زیادتی کے برابر ہی جواب دو، اوراللہ سے ڈرتے رہو، اورجان لو کہ اللہ اُن کے ساتھ ہے جو اس کے حدود کی پابندی کرتے ہیں۔’’(البقرہ۲: ۱۹۴)
استاذ امام امین احسن اصلاحی اس حکم کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
‘‘مطلب یہ ہے کہ اشہر حرم میں یا حدود حرم میں لڑائی بھڑائی ہے تو بہت بڑا گناہ ،لیکن جب کفار تمھارے لیے اس کی حرمت کا لحاظ نہیں کرتے تو تمھیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ قصاص کے طور پر تم بھی ان کو ان کی حرمت سے محروم کردو ۔ ہر شخص کی جان شریعت میں محترم ہے ، لیکن جب ایک شخص دوسرے کی جان کا احترام نہیں کرتا، اس کو قتل کردیتا ہے تو اس کے قصاص میں وہ بھی حرمت جان کے حق سے محروم کرکے قتل کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح اشہر حرم اورحدود حرم کا احترام مسلم ہے بشرطیکہ کفار بھی ان کا احترام ملحوظ رکھیں اور ان میں دوسروں کو ظلم وستم کا ہدف نہ بنائیں ، لیکن جب ان کی تلواریں ان مہینوں میں اور اس بلدامین میں بے نیام ہوتی ہیں تو وہ سزاوار ہیں کہ ان کے قصاص میں وہ بھی ان کے امن و احترام کے حقوق سے محروم کیے جائیں۔ مزید فرمایا کہ جس طرح اشہرحرم کا یہ قصاص ضروری ہے، اسی طرح دوسر ی حرمتوں کا قصاص بھی ہے۔ یعنی جس محترم چیز کے حقوق حرمت سے وہ تمھیں محروم کریں ، تم بھی اس کے قصاص میں اس کے حق حرمت سے انھیں محروم کرنے کا حق رکھتے ہو۔’’(تدبر قرآن ۴۷۹/۱)
دوسرا حکم یہ ہے کہ اس اجازت کے باوجود مسلمان اپنی طرف سے کوئی پیش قدمی نہیں کرسکتے۔ یہ اللہ کی حرمتیں ہیں، ان کے توڑنے میں پہل ایک بدترین جرم ہے۔ اس کا ارتکاب کسی حال میں بھی نہیں ہونا چاہیے۔ بیت الحرام پر حملہ خدا کے گھر پر حملہ ہے، جن جانوروں کے گلے میں خدا کی تخصیص کے پٹے بندھ گئے ہیں اورجو اللہ کے بندے اس کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں رخت سفر باندھ کر نکلے ہیں، ان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہونا خود اللہ ، پروردگار عالم سے تعرض کرنے کے مترادف ہے۔اس وجہ سے کسی قوم کی دشمنی بھی مسلمانوں کو اس بات پرآمادہ نہ کرے کہ وہ اس معاملے میں حدود سے تجاوز کریں۔ ان پر واضح رہنا چاہیے کہ جو پروردگار اپنے عہد ومیثاق سے قوموں پر کرم فرماتا اور انھیں سرفرازی بخشتا ہے، اس کے ہاں اس عہد و میثاق کے توڑنے کی پاداش بھی بڑی ہی سخت ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، لاَ تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّٰہِ، وَلاَ الشَّھْرَ الْحَرَامَ، وَلاَ الْھَدْیَ، وَلاَ الْقَلَآئِدَ، وَلاَ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ، یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرِضْوَانًا... وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا، وَتَعَاوَنُوْا عَلیَ الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی، وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ، وَاتَّقُوا اللّٰہَ، اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ.
‘‘ایمان والو، اللہ کے شعائر کی بے حرمتی نہ کرو، نہ حرام مہینوں کی،نہ ہدی کے جانوروں کی، نہ (اُن میں سے بالخصوص) اُن جانوروں کی جن کے گلے میں نذر کے پٹے بندھے ہوئے ہوں، اور نہ بیت الحرام کے عازمین کی جو اپنے پروردگار کے فضل اوراس کی خوشنودی کی تلاش میں نکلتے ہیں ... اور کچھ لوگوں نے مسجد الحرام کا راستہ تمھارے لیے بند کردیا ہے تو اُن کے ساتھ اس بنا پر تمھاری دشمنی بھی تمھیں ایسا مشتعل نہ کردے کہ تم حدود سے تجاوز کرو۔ (نہیں ، تم حدود الٰہی کے پابند رہو)، اورنیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو، اور گناہ اورزیادتی میں تعاون نہ کرو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اس لیے کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔’’(المائدہ۵ :۲)
جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ، وَالشَّھْرَ الْحَرَامَ، وَالْھَدْیَ، وَالْقَلَآئِدَ. ذٰلِکَ لِتَعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ، وَمَا فِی الْاَرْضِ، وَاَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْ ءٍ عَلِیْمٌ. اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ، وَاَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
‘‘اللہ نے بیت الحرام کعبہ کو لوگوں کے لیے مرکز بنایا اور حرمت کے مہینوں، قربانی کے جانوروں اور(اُن میں سے بالخصوص) اُن جانوروں کو ( شعیرہ ٹھیرایا ہے) جن کے گلے میں نذر کے پٹے بندھے ہوئے ہوں۔ یہ اس لیے کہ تمھیں معلوم ہو جائے کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ زمین وآسمان میں ہے اوراللہ ہر چیز سے واقف ہے۔ خبردار ہو جاؤ کہ اللہ سخت سزا دینے والا بھی ہے اور اللہ بخشنے والا اور مہربان بھی ہے۔’’(المائدہ ۵:۹۷۔۹۸)
تیسرا حکم یہ ہے کہ حالت احرام میں شکار کی ممانعت صرف خشکی کے جانوروں کے لیے ہے ، دریائی جانوروں کا شکار کرنا یا دوسروں کا کیا ہوا شکار کھا لینا، دونوں جائز ہیں۔ یہ رخصت اس لیے دی گئی ہے کہ خشکی کے سفر میں اگر زاد راہ تھوڑا ہوجائے تو اسے کسی نہ کسی طرح حاصل کیا جاسکتا ہے، لیکن دریا ئی سفر میں اس طرح کے موقعوں پر شکار کے سوا کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہتا۔ تاہم اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ لوگ اس رخصت سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ خشکی کا شکار ہرحال میں ممنوع ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص جانتے بوجھتے اس گناہ کا ارتکاب کربیٹھتا ہے تواسے کفارہ ادا کرنا چاہیے۔
اس کی تین صورتیں ہیں :
جس طرح کا جانور شکار کیا گیا ہے، اسی قبیل کا کوئی جانور گھریلو چوپایوں میں سے قربانی کے لیے بیت اللہ بھیجا جائے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو اس جانور کی قیمت کی نسبت سے مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے۔ یہ بھی دشوار ہو تو اتنے روزے رکھے جائیں، جتنے مسکینوں کو کھانا کھلانا کسی شخص پر عائد ہوتا ہے۔
رہی یہ بات کہ جانوروں کا بدل کیا ہے یا اگر جانور کی قربانی متعذر ہے تو اس کی قیمت کیا ہوگی یا اس کے بدلے میں کتنے مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے گا یا کتنے روزے رکھے جائیں گے تواس کا فیصلہ مسلمانوں میں سے دوثقہ آدمی کریں گے تاکہ جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے اپنے نفس کی جانب داری کا کوئی امکان باقی نہ رہے:
یٰٓایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، لَیَبْلُوَنَّکُمُ اللّٰہُ بِشَیْءٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُہٗٓ اَیْدِیْکُمْ وَرِمَاحُکُمْ، لِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّخَافُہٗ بِالْغَیْبِ، فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ، فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ. یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، لاَ تَقْتُلُواالصَّیْدَ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ، وَمَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُّتَعَمِّدًا، فَجَزَآءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ، یَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ، ھَدْیًا بٰلِغَ الْکَعْبَۃِ، اَوْکَفَّارَۃٌ طَعَامُ مَسٰکِیْنَ، اَوْ عَدْلُ ذٰلِکَ صِیَامًا، لِّیَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِہٖ. عَفَا اللّٰہُ عَمَّا سَلَفَ، وَمَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰہُ مِنْہُ، وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ. اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہٗ، مَتَاعًا لَّکُمْ وَلِلسَّیَّارَۃِ، وَحُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ، وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ.
‘‘ایمان والو، اللہ تمھیں اُس شکار کے ذریعے سے لازماً آزمائے گا جو تمھارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوگا، یہ دیکھنے کے لیے کہ تم میں سے کون غائبانہ اُس سے ڈرتا ہے۔ پھر جس نے اس تنبیہ کے بعد بھی حدود سے تجاوز کیا تو اُس کے لیے ایک دردناک عذاب ہے۔ ایمان والو، احرام کی حالت میں شکار نہ کرو، اور جو تم میں سے جان بوجھ کر ایسا کر گزرے تو اُس کا بدلہ اُسی طرح کا جانور ہے، جیسا اُس نے مارا ہے۔ اس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے اوریہ نذرانہ کعبہ پہنچایا جائے گا۔ یا نہیں تو اِس گناہ کے کفارے میں مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا یا اسی کے برابر روزے رکھنے ہوں گے تاکہ وہ اپنے کیے کی سزا چکھے۔ پہلے جو کچھ ہو چکا، اسے اللہ نے معاف کردیا ہے، لیکن جو اِس کا اعادہ کرے گا، اللہ اُس سے انتقام لے گا (یہ اللہ کا فیصلہ ہے) اور اللہ زبردست ہے، وہ انتقام لینے والا ہے۔ دریا کا شکار اور اس کا کھانا تمھارے لیے حلال کیا گیا ہے، تمھارے لیے اور تمھارے قافلوں کے زادراہ کے لیے اورخشکی کا شکار بدستور حرام ہے، جب تک تم احرام کی حالت میں ہو۔ (اس کی پابندی کرو) اوراُس اللہ سے ڈرتے رہو جس کے حضور میں تم سب حاضر کیے جاؤ گے۔’’(المائدہ ۵:۹۴۔ ۹۶)
چوتھا حکم یہ ہے کہ حج وعمرہ کے لیے سفر کرنے والے اگر کسی جگہ گھر جائیں اوران کے لیے آگے جانا ممکن نہ رہے تو اونٹ، گائے، بکری میں سے جو میسر ہو، اس کی قربانی اسی جگہ کردیں اورسرمنڈوا کر احرام کھول دیں۔ ان کا حج وعمرہ یہی ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کیاتھا۔ (بخاری،رقم۱۷۱۳،۱۷۱۶،۱۷۱۷) اس معاملے میں یہ بات، البتہ واضح رہنی چاہیے کہ قربانی اس طرح کی کسی جگہ پر کی جائے یا مکہ اورمنیٰ میں، اس سے پہلے سر منڈوانا جائز نہیں ہے ، الاّ یہ کہ کوئی شخص بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور وہ قربانی سے پہلے ہی سر منڈوانے پر مجبور ہوجائے۔ قرآن نے اجازت دی ہے کہ اس طرح کی کوئی مجبوری پیش آجائے تو لوگ سر منڈوا لیں، لیکن روزوں یا صدقے یا قربا نی کی صورت میں اس کا فدیہ دیں اور ان کی تعداد اور مقدار اپنی صواب دید سے جو مناسب سمجھیں طے کر لیں۔ روایتوں میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھاگیا توآپ نے فرمایا: تین دن کے روزے رکھ لیے جائیں یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلادیا جائے یا ایک بکری ذبح کردی جائے توکافی ہوجائے گا۔(بخاری، رقم ۱۷۱۹۔ مسلم، رقم ۱۲۰۱)
وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ، فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ، وَلاَ تَحْلِقُوْا رُءُ وْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْھَدْیُ مَحِلَّہٗ، فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِہٖٓ اَذًی مِّنْ رَّاْسِہٖ، فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْصَدَقَۃٍ اَوْ نُسُکٍ.
‘‘اورحج وعمرہ (کی راہ اگر تمھارے لیے کھول دی جائے تو ان کے تمام مناسک کے ساتھ اُن) کو اللہ ہی کے لیے پورا کرو، لیکن راستے میں گھر جاؤ تو ہدیے کی جو قربانی بھی میسر ہو، اُسے پیش کردو، اور اپنے سر اُس وقت تک نہ مونڈو، جب تک یہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔ پھر جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو تو اُسے چاہیے کہ روزوں یا صدقے یا قربانی کی صورت میں اُس کا فدیہ دے۔’’(البقرہ ۲: ۱۹۶)
پانچواں حکم یہ ہے کہ باہر سے آنے والے اگر ایک ہی سفر میں حج وعمرہ ، دونوں کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ پہلے عمرہ کرکے احرام کھول دیں، پھر ۸؍ذوالحجہ کو مکہ ہی سے دوبارہ احرام باندھ کر حج کر لیں۔ یہ محض ایک رخصت ہے جو اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ سفر کی زحمت کے پیش نظر باہر سے آنے والے عازمین حج کو عطا فرمائی ہے۔ لہٰذا وہ اس کا فدیہ دیں گے۔ اس کی دو صورتیں ہیں:
اونٹ، گائے اوربکری میں سے جو جانور بھی میسر ہو، اس کی قربانی کی جائے۔
یہ ممکن نہ ہو تو دس روزے رکھے جائیں: تین حج کے دنوں میں اورسات حج سے واپسی کے بعد۔
اس سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہتر یہی ہے کہ حج کے لیے الگ اور عمرے کے لیے الگ سفر کیا جائے۔ چنانچہ قرآن نے صراحت کردی ہے کہ یہ رعایت ان لوگوں کے لیے نہیں ہے جن کے گھر در مسجد حرام کے پاس ہوں : فَاِذَآ اَمِنْتُمْ، فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ، فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ، فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ، وَسَبْعَۃٍ اِذَا َرجَعْتُمْ، تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ. ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَاتَّقُوا اللّٰہَ ، وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ.
‘‘پھر جب امن کی حالت پیدا ہوجائے تو جو کوئی حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے ، اُسے قربانی کرنا ہوگی جیسی بھی میسر ہوجائے۔ اور اگر قربانی میسر نہ ہوتو روزے رکھنا ہوں گے، تین حج کے زمانے میں اور سات (حج سے)واپسی کے بعد۔ یہ پورے دس دن ہوئے۔(اس طریقے سے ایک ہی سفر میں حج کے ساتھ ملاکر عمرے کی) یہ (رعایت) صرف اُن لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر در مسجد ِحرام کے پاس نہ ہوں۔ (اِس کی پابندی کرو) اور اللہ سے ڈرتے رہو، اورخوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔’’ (البقرہ۲:۱۹۶)
اس حکم کے بارے میں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ جولوگ اس رعایت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہوں، ان کے لیے سہولت یہ ہے کہ وہ پھر ہدی کے جانور ساتھ نہ لائیں، بلکہ قربانی کے دن وہیں سے خرید لیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان جانور وں کی قربانی یوم النحر کو ہوگی اور جیسا کہ بیان ہوا، قربانی سے پہلے وہ سر نہیں منڈواسکیں گے اور اس کے لازمی نتیجے کے طور پر احرام بھی نہیں کھول سکیں گے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی صورت پیش آگئی تھی ۔ چنانچہ آپ نے فرمایا : لو انی استقبلت من امری ما استدبرت ما اھدیت، ولولا ان معی الھدی لاحللت.
‘‘مجھ پر وہ بات اگر پہلے واضح ہوجاتی جو اب ہوئی ہے تو میں ہدی کے جانور ساتھ نہ لاتا اور نہ لاتا تو میں بھی احرام کھول دیتا۔’’(بخاری، رقم ۲۳۷۱)
چھٹا حکم یہ ہے کہ منٰی سے ۱۲؍ ذوالحجہ کو بھی واپس آ سکتے ہیں اور چاہیں تو۱۳؍ ذوالحجہ تک بھی ٹھیر سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ دونوں ہی صورتوں میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ اصل اہمیت اس کی نہیں کہ لوگ کتنے دن ٹھیرے، بلکہ اس کی ہے کہ جتنے دن بھی ٹھیرے، خدا کی یاد میں اور اس سے ڈرتے ہوئے ٹھیرے:وَاذْکُرُوا اللّٰہَ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ، فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ، وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَا ٓاِثْمَ عَلَیْہِ لِمَنِ اتَّقٰی، وَاتَّقُوا اللّٰہَ، وَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ.
‘‘اور(منیٰ کے ) چند متعین دنوں میں اللہ کو یاد کرو۔ پھر جس نے جلدی کی اور دو ہی دنوں میں چل کھڑا ہوا، اُس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو دیر سے چلا اُس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔ (ہاں، مگر) اُن کے لیے جو اللہ سے ڈریں اورتم بھی اللہ سے ڈرتے رہو، اور خوب جان لو کہ (ایک دن ) تم اُسی کے حضور میں اکٹھے کیے جاؤ گے ۔’’(البقرہ ۲:۲۰۳)
حج وعمرہ کے احکام یہی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم وعمل سے جو رہنمائی، البتہ ان کے بارے میں حاصل ہوئی ہے، اس کی تفصیلات درج ذیل ہیں :
احرام
احرام باندھتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوشبو لگاتے تھے۔ سیدہ عائشہ کابیان ہے کہ میں نے احرام سے پہلے بھی آپ کو مشک کی خوشبو لگائی ہے اوریوم النحر کو احرام کا لباس اتار دینے کے بعد بھی، جب آپ طواف کے لیے مکہ روانہ ہوئے۔ فرماتی ہیں کہ اس خوشبو کی چمک میں آپ کی مانگ میں گویا آج بھی دیکھ رہی ہوں۔ (بخاری، رقم ۱۴۶۴، ۱۴۶۵۔ مسلم، رقم۱۱۹۰، ۱۱۹۱)
احرام کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگوائے، بال جمائے اور سر بھی دھویاہے ۔(بخاری، رقم ۱۷۳۸،۱۴۶۶،۱۷۴۳۔ مسلم، رقم۱۲۰۲، ۱۲۰۵)نیز لوگوں کواجازت دی ہے کہ ان کے پاس جوتے نہ ہوں تو اس مجبوری میں وہ ٹخنوں سے نیچے تک موزے کاٹ کر انھیں استعمال کر سکتے اورتہ بند کے طور پر باندھنے کے لیے ان سلا کپڑا نہ ہو تو شلوار یا پاجامہ بھی پہن سکتے ہیں۔(بخاری، رقم۱۷۴۵،۱۷۴۶۔ مسلم، رقم ۱۱۷۷، ۱۱۷۸، ۱۱۷۹)نکاح کرنے، کرانے یا نکاح کی بات طے کرنے کو، البتہ آپ نے احرام کی حالت میں پسند نہیں فرمایا۔(مسلم، رقم ۱۴۰۹)
اس حالت میں کوئی شخص دنیا سے رخصت ہوجائے تو آپ کا ارشاد ہے کہ اسے احرام کے کپڑوں ہی میں دفن کردیا جائے اور تکفین کے موقع پر نہ اسے خوشبو لگائی جائے اورنہ اس کا سر اور منہ ڈھانپا جائے۔ فرمایا ہے کہ اللہ قیامت کے دن اس کو تلبیہ پڑھتے ہوئے اٹھائے گا۔(بخاری، رقم۱۲۰۸۔ مسلم، رقم۱۲۰۶)
اسی طرح وضاحت فرمائی ہے کہ احرام کی حالت میں شکار تو بے شک ممنوع ہے ، لیکن احرام کے بغیر کسی شخص نے شکار کیا ہو تو محرم اسے کھا سکتا ہے، بشرطیکہ اس کے ایما یا کسی اشارے کو اس میں کوئی دخل نہ ہو۔(بخاری، رقم۱۷۲۸۔ مسلم، رقم ۱۱۹۶)نیز فرمایا ہے کہ شکار کی ممانعت کے اس حکم کا موذی جانوروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس طرح کے جانور حالت احرام میں بھی بغیر کسی تردد کے مارے جا سکتے ہیں۔(بخاری،رقم ۱۷۳۰،۱۷۳۲۔ مسلم ، رقم ۱۱۹۹)
تلبیہ
تلبیہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ حج کا شعار ہے ۔ ( ابن ماجہ، رقم ۲۹۲۳) اور جب کوئی مسلمان ‘لبیک لبیک’ پکارتا ہے تو اس کے دائیں اور بائیں سے شجر وحجر بھی زمین کے آخر تک یہی پکارتے ہیں۔(ابن ماجہ، رقم۲۹۲۱) چنانچہ فرمایا ہے کہ جبریل امین نے مجھے ہدایت کی ہے کہ اسے بلند آواز سے کہا جائے ۔ابوداؤد، رقم ۱۸۱۴)
روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ آپ اسی مفہوم کے بعض الفاظ کا اضافہ بھی کردیتے تھے۔ ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حج وعمرہ کے لیے نکلتے تو ذوالحلیفہ پہنچ کر دو رکعت نماز پڑھتے، پھر مسجد کے پاس اونٹنی پر سوار ہوتے، وہ کھڑی ہو جاتی تو تلبیہ کی ابتدا اس دعا سے کرتے تھے : لَبَّیْکَ، اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ ؛ لَبَّیْکَ وَسَعْدَیکَ ؛ وَالْخَیْرُ فِی یَدَیْکَ ؛ لَبَّیْکَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَیْکَ وَالْعَمَلُ . (مسلم، رقم۱۱۸۴)
‘‘میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں؛ حاضر ہوں اور اسی سے خوش بختی حاصل کرتا ہوں؛ اور بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے ؛ حاضر ہوں اوررغبت تیری ہی طرف ہے اورعمل بھی تیر ے ہی لیے ہے۔’’
اسی طرح کے کسی موقع پر ‘ لَبَّیْکَ ، اِلٰہَ الْحَقِّ لَبَّیْکَ’ کے الفاظ بھی روایت ہوئے ہیں۔(ابن ماجہ، رقم۲۹۲۰)
طواف
حج کا طواف تو ایک ہی ہے جسے اصطلاح میں طواف افاضہ کہا جاتا ہے، لیکن حج وعمرہ سے فارغ ہوکر اپنے گھروں کے لیے رخصت ہونے والوں کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت کی ہے کہ جاتے ہوئے بیت اللہ کا طواف کر کے جائیں۔ابن عباس کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : رخصت سے پہلے تم میں سے ہر ایک کا آخری کام یہی ہونا چاہیے ۔ (مسلم، رقم۱۳۲۷) حائضہ عورتوں کو، البتہ آپ نے ان کی مجبوری کے پیش نظر نہیں کہا، بلکہ اجازت دی کہ وہ اس کے بغیر ہی مکہ سے چلی جائیں۔بخاری، رقم۱۶۷۰،۱۶۷۳۔ مسلم، رقم۱۲۱۱
طواف سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا ہے۔ (بخاری، رقم۱۵۶۰۔ مسلم، رقم۱۲۳۵) آپ کا ارشاد ہے کہ یہ نمازہی کی طرح ہے، لیکن اس کے دوران میں اگر کوئی بات کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ تاہم یہ بھلائی کی بات ہونی چاہیے۔ (ترمذی، رقم ۹۶۰)
سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں ایام سے تھی تو آپ نے فرمایا : تم اس حالت میں حج کے تمام مناسک ادا کرسکتی ہو، مگر طواف نہیں کر سکتی۔ (بخاری، رقم۱۵۶۷۔ مسلم، رقم۱۲۱۱) ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں بیمار تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر ہوا تو آپ نے مجھے سواری پر طواف کر لینے کی ہدایت فرمائی۔(بخاری،رقم ۱۵۴۰۔ مسلم،رقم۱۲۷۶) جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ مکہ پہنچ کر آپ نے پہلا طواف کیا تو اس میں تین پھیرے کندھے ہلا کر دوڑ تے ہوئے اور چار اپنی چال چلتے ہوئے لگائے ۔( ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی توجیہ یہ بیان فرمائی ہے کہ مسلمانوں کو مدینہ جاکر کمزور ہو جانے کا طعنہ دیا گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں لوگوں کو ہدایت کی کہ وہ اس طرح دوڑتے ہوئے طواف کریں اورخود بھی اسی طریقہ سے طواف کیا) پھر مقام ابراہیم کی طرف بڑھے اوراس کے پیچھے جاکر دو رکعت نماز پڑھی۔ اس کے بعد حجر اسود کی طرف واپس آئے، اس کا استلام کیا اوردروازے سے صفا کی طرف نکل گئے۔(مسلم، رقم۱۲۱۸)
ابن عباس کا بیان ہے کہ اس طواف میں آپ کا دایاں کندھا برہنہ تھا اوراپنی چادر آپ نے داہنی بغل سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈالی ہوئی تھی ۔ (ابوداؤد،رقم۱۸۸۴) طواف میں رکن یمانی کے استلام کا ذکر بھی بعض روایتوں میں ہوا ہے ۔ (بخاری، رقم ۱۵۲۹،۱۵۳۱۔ مسلم، رقم۱۲۶۷، ۱۲۶۸) اسی طرح طواف کی یہ فضیلت بھی نقل ہوئی ہے کہ جس نے طواف کیا اوراس کے ساتھ دورکعت نماز پڑھی ، اس نے گویا ایک غلام اللہ کی راہ میں آزاد کر دیا۔(ابن ماجہ، رقم۲۹۵۶)
سعی
سعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی ہے کہ طواف سے فارغ ہو کر آپ صفا کی طرف نکلے اوراس کے اوپر تک چڑھ گئے، پھر قبلہ رو ہوئے، اللہ کی توحید اورکبریائی بیان کی اورفرمایا : لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ، لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد، وھو علی کل شی قدیر، لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ، انجز وعدہ، ونصر عبدہ، وھزم الاحزاب وحدہ (مسلم، رقم۱۲۱۸)
‘‘اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہی اسی کی ہے اورحمد بھی اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں، وہ تنہا ہے، اس نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے اوراپنے بندے کی مدد کی ہے اورمنکروں کی تمام جماعتوں کو تنہا شکست دے دی ہے۔ ’’
یہی کلمات آپ نے تین مرتبہ دہرائے اوران کے درمیان میں دعا بھی کی۔ اس کے بعد مروہ کی طرف چلے۔ جب قدم نشیب میں پہنچے تو دوڑنے لگے۔ پھر جیسے ہی چڑھائی شروع ہوئی، اپنی چال چلنے لگے۔ مروہ پر پہنچ کر بھی آپ نے وہی کیا جو صفا پر کیا تھا اوراپنے سات پھیرے اسی طرح پور ے کر لیے ۔(مسلم ، رقم۱۲۱۸)
عرفات کا وقوف
منیٰ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۹؍ذوالحجہ کی صبح طلوع آفتاب کے بعد عرفات کے لیے روانہ ہوئے۔ وہاں آپ کے لیے وادی نمرہ میں خیمہ لگایا گیا تھا۔ سورج ڈھلنے تک آپ نے اس میں قیام فرمایا۔ پھر وادی کے نشیب میں آئے اورلوگوں کو خطبہ دیا۔ اس کے بعد ظہر اور عصر کی نماز ایک اذان اوردو تکبیروں کے ساتھ پڑھی۔ ان کے آگے اورپیچھے کوئی نوافل نہیں پڑھے ۔ پھر جبل رحمت کے پاس قبلہ رو ہوکر غروب آفتاب تک کھڑے دعاو مناجات کرتے رہے ۔( مسلم، رقم۱۲۱۸) انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس دن لوگ تلبیہ بھی پڑھتے رہے اور تکبیریں بھی کہتے رہے، لیکن کسی پرکوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔(بخاری، رقم۱۵۷۶۔ مسلم، رقم۱۲۸۵)
سیدہ عائشہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے قریب ہوتے ہیں، فرشتوں کے روبرو ان پر فخر ومباہات کا اظہار کرتے ہیں اوراس سے زیادہ کسی دن اپنے بندوں کو آگ سے رہائی نہیں دیتے۔(مسلم، رقم۱۳۴۸)
مزدلفہ کا قیام
مزدلفہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشا کی نماز عرفات ہی کی طرح ایک اذان اوردو تکبیر وں کے ساتھ پڑھی۔ پھر صبح تک آرام فرمایا اوراس دوران میں کوئی نوافل وغیرہ نہیں پڑھے۔ نماز فجر، البتہ ذرا سویرے ادا کی۔ اس کے بعد روشنی کے پوری طرح پھیل جانے تک مشعرالحرام کے پاس کھڑے دعا و مناجات کرتے رہے۔ طلوع آفتاب سے کچھ پہلے آپ یہاں سے روانہ ہوئے اوروادی محسر سے تیزی کے ساتھ گزرتے ہوئے منیٰ پہنچ گئے۔ (مسلم، رقم۱۲۱۸)
رمی
رمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے د ن چاشت کے وقت اوربعد کے دنوں میں سورج ڈھلنے کے بعد کی ہے۔(بخاری، رقم۱۶۵۹۔ مسلم، رقم۱۲۹۹) اس کے لیے آپ جمرے کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوئے۔ بیت الحرام آپ کے بائیں جانب اور منیٰ دائیں جانب تھا۔ پھر آپ نے سات کنکریاں ماریں اورمارتے وقت ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہی۔ پہلے دو جمروں کے پاس آپ نے وقوف بھی فرمایا اوررمی کے بعدقبلہ رو ہو کر دیر تک تسبیح وتحمید، تکبیر وتہلیل اوردعاو مناجات کرتے رہے۔ جمرۂ عقبہ کے پاس، البتہ آپ بالکل نہیں ٹھیرے۔(بخاری، رقم۱۶۶۱،۱۶۶۳،۱۶۶۴،۱۶۶۵۔ مسلم، رقم۱۲۱۸، ۱۲۹۶) اس موقع پر اوراس سے پہلے بھی جب ۸؍ذوالحجہ کو آپ مکہ سے منیٰ آئے تو جتنے دن قیام فرمایا، اس کے دوران میں تمام نمازیں قصر کر کے پڑھتے رہے (بخاری، رقم ۱۵۷۲،۱۵۷۳) علاقے کے بعض چرواہوں نے رات منیٰ میں گزارنے کے بجائے اپنے ریوڑوں کے پاس چلے جانے کی اجازت چاہی تو آپ نے اجازت دے دی اورفرمایا : یوم النحر کوکنکریاں مارنے کے بعد باقی دو دن کی کنکریاں ایک ہی دن مارلینا۔(ابوداؤد، رقم ۱۹۷۶)
قربانی
قربانی عام طریقے سے ہوئی ، تاہم ایک اہم سوال اس کے بارے میں بھی پیدا ہوا کہ ہدی کے جانور اگر راستے ہی میں مرنے کے قریب پہنچ جائیں تو کیا کیا جائے؟ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے ، جسے آپ نے قربانی کے اونٹ دے کر بھیجا تھا، پوچھا تو آپ نے فرمایا: ذبح کرکے ان کے نعل خون میں ڈبونا اورکوہان کے قریب رکھ دینا۔( یہ اس لیے فرمایا کہ بعد میں آنے والوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ مردار نہیں ، بلکہ قربانی کا گوشت ہے) پھر ان کا گوشت نہ تم کھانا اورنہ تمھارے ساتھی کھائیں۔ (مسلم، رقم ۱۳۲۵۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہی پسند فرمایا کہ اس طرح کے جانوروں کا تمام گوشت صدقہ کردیا جائے)
حلق
حجۃ الوداع کے موقع پرحضور نے خود بھی حلق کرایا اورآپ کے بعض صحابہ نے بھی اسی کو ترجیح دی۔ (بخاری، رقم۱۶۴۲۔ مسلم، رقم۱۳۰۱) ابن عمر کی روایت ہے کہ سر منڈوانے والوں کے لیے آپ نے تین مرتبہ اوربال کٹوانے والوں کے لیے ایک مرتبہ دعا فرمائی(بخاری، رقم۱۶۴۰۔مسلم، رقم ۱۳۰۳) یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ قصر کے مقابلے میں حلق کی فضیلت بہرحال زیادہ ہے۔
حج وعمرہ سے متعلق چند باتیں ان کے علاوہ بھی روایتوں میں نقل ہوئی ہیں۔
ایک یہ کہ ایک عورت نے اپنا بچہ آپ کی طرف اٹھایا اور پوچھا : کیا یہ بھی حج کر سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں، لیکن اس کا اجر تمھارے لیے ہے ۔ (مسلم، رقم۱۳۳۶۔ دوسرے کی طرف سے نیکی کے تمام کاموں کے لیے یہی اصول ہے جو آپ نے اس موقع پر واضح کر دیا ہے۔ یعنی اجر اس کے لیے جس نے وہ کام کیا ہے۔ اس مضمون کی تمام روایتوں کو اسی روشنی میں سمجھنا چاہیے)
دوسری یہ کہ قبیلۂ خثعم کی ایک عورت نے پوچھا : یارسول اللہ، میرے باپ پر حج فرض ہے، مگر وہ اتنا بوڑھا ہے کہ سواری پر ٹھیر بھی نہیں سکتا۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا : کرسکتی ہو۔ (بخاری، رقم۱۷۵۵۔ مسلم، رقم۱۳۳۴) تیسری یہ کہ جہینہ کی ایک عورت نے حضور سے پوچھا : میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی، اب وہ دنیا سے رخصت ہوگئی ہے، کیا میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا : ضرور کرو، کیا اس پر قرض ہوتا تو تم ادا نہ کرتیں؟ یہ اللہ کا قرض ہے، اسے بھی ادا کرو، اس لیے کہ اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کا قرض ادا کیاجائے۔ (بخاری، رقم۱۷۵۴)
چوتھی یہ کہ ایک شخص نے آپ کے سامنے ‘لبیک عن شبرمۃ’ کہا۔ آپ نے پوچھا: یہ شبرمہ کون ہے ؟ اس نے کہا : میرا بھائی ہے۔ آپ نے پوچھا : اپنا حج کرچکے ہو؟ اس نے کہا : نہیں۔ فرمایا : پہلے اپنا حج کرلو، اس کے بعد شبرمہ کی طرف سے کر لینا (ابوداؤد،رقم ۱۸۱۱)
پانچویں یہ کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور منیٰ میں لوگوں کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو کسی نے پوچھا: مجھے معلوم نہ تھا، میں نے قربانی سے پہلے بال منڈوا لیے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اب قربانی کرلو، کوئی حرج نہیں ۔ کسی نے پوچھا : مجھے معلوم نہ تھا، میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی ہے ؟ آپ نے فرمایا : اب رمی کر لو ، کوئی حرج نہیں ۔ غرض یہ کہ کسی بھی چیز کی تقدیم و تاخیر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے یہی کہا کہ اب کر لو ، کوئی حرج نہیں (بخاری، رقم۱۶۴۷،۱۲۴۸۔ مسلم، رقم۱۳۰۶، ۳۰۷)
چھٹی یہ کہ حرم مدینہ کے بارے میں آپ نے لوگوں کو متنبہ فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام نے جس طرح مکہ کو حرام ٹھیرایا ہے، میں نے اسی طرح مدینہ کو حرام ٹھیرایا ہے۔ لہٰذا اس کے دونوں کناروں کے درمیان میں کوئی شخص نہ کسی کا خون بہائے، نہ شکار کرے، نہ قتال کے لیے ہتھیار اٹھائے اور نہ کسی درخت کے پتے جھاڑے، الاّیہ کہ جانوروں کو کھلانا پیش نظرہو ۔ (بخاری، رقم۱۷۷۰۔ مسلم، رقم۱۳۶۲، ۱۳۷۴) اسی طرح فرمایا کہ جس نے مدینہ میں کوئی بدعت پیداکی یا بدعت پیدا کرنے والوں کو جگہ دی، اس پراللہ اوراس کے فرشتوں اورتمام انسانوں کی لعنت ہے۔ (بخاری، رقم۱۷۶۸۔ مسلم، رقم۱۳۶۶)
ساتویں یہ کہ اپنے گھر اورمنبر کے درمیان کی جگہ کے بارے میں آپ نے فرمایا ہے کہ یہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اورمیرا منبر ٹھیک اس مقام پر ہے، جہاں قیامت میں میرا حوض ہوگا۔(بخاری،رقم۱۱۳۸۔ مسلم، رقم ۱۳۹۱)