دیارِ غیر سے لوٹنے والے ایک استاد کی فریاد
میں سنگاپور یونیورسٹی میں کافی عرصہ اُستاد رہا۔ یونیورسٹی کے قواعد و ضوابط کے مطابق میری مستقل رخصتی پر گھریلو سامان کی پاکستان تک ترسیل یونیورسٹی قانون کے مطابق مفت تھی، مگر ان اشیا پر پاکستان میں کسٹم ڈیوٹی میری ذمہ داری تھی۔ میں نے جب سنگاپور یونیورسٹی میں ملازمت چھوڑ ی تو یونیورسٹی نے ایک کارگو ایجنٹ کو ہدایت کی کہ وہ میری اعانت کرے اور کسٹم ڈیوٹی کے بعد میرا سامان گھر تک پہنچا دے۔ کارگو ایجنٹ نے مجھے اس کی اطلاع کردی۔ میں اسے اس کے دفتر میں ملا تو اس نے اپنی گفت و شنید میں سامان کے حصول کی دو تراکیب بتائیں۔ پہلی ترکیب ‘‘انڈر دی ٹیبل’’ (میز کے نیچے) اور دوسری ‘‘محکمانہ’’ تھی۔ ‘‘میز کے نیچے’’ میں مجھے کل کسٹم ڈیوٹی کا نصف کارگو ایجنٹ کے حوالے کرنا تھا اور سامان دوسرے دن بحفاظت میرے گھر پہنچ جانے کی ضمانت تھی۔ ‘‘محکمانہ’’ ترکیب میں کارگو ایجنٹ نے اپنا معاون میرے ہمراہ کرنا تھا جو ڈرائی ڈاک پر مجھے مشورہ دیتا، کسٹم ڈیوٹی اس اسکیم میں مجھے ادا کرنا تھی۔ بعدازاں کارگو ایجنٹ کے آدمی سامان میرے گھر پہنچانے کے ذمہ دار تھے۔
میں نے ایک عرصہ غیرممالک کی خاک چھانی ہے۔ یہ ممالک اپنے ٹیکس اور واجبات قانون کے مطابق باقاعدگی سے وصول کرتے ہیں اور میں نے بھی ان ممالک میں ایمان دار پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ کارگو ایجنٹ کی ‘‘میز کے نیچے’’ اسکیم سن کر میں بھونچکا سا رہ گیا۔ ضمیر نے حب الوطنی کی ڈینگیں مارنے والے استاد کو لمحۂ فکریہ دیا۔ اپنے تئیں صلح و ناصح کہلاتے ہو، حب الوطنی اور ایمانداری کے موضوعات پر تابڑ توڑ لیکچر جھاڑتے ہو، کرپشن، رشوت، بدعنوانی کو ملعون گردانتے ہو، کیا آزمائش کی اس گھڑی میں ‘‘میز کے نیچے’’ کھیل کھیلو گے۔ ذرا گریبان میں منہ ڈال کر تو دیکھو، رب العالمین نے تم پر کیا کیا نوازشات کیں۔ غیرممالک میں تو باقاعدہ ٹیکس اور واجبات ادا کرتے تھے کیا سوہنی دھرتی پاکستان ، جس نے پال پوس کر جوان کیا، میں آکر حق تلفی کے مرتکب ہوگے، بقول غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
میرے اس غوروفکر کو کارگو ایجنٹ نے گویا بھانپ لیا۔ بولا آپ جیسے پروفیسر لوگوں کو ‘‘میز کے نیچے’’ ترکیب سے بھلا کیا لینا دینا۔ بہتر یہی ہے آپ ‘‘محکمانہ’’ ترکیب ہی کو اپنائیں۔ وطن عزیز کو کسٹم ڈیوٹی ادا کرنا لازم ہے تاکہ ملک و قوم کا کاروبار چلتا رہے۔ میں نے ‘‘محکمانہ’’ ترکیب کو خوش آمدید کہا اور دوسرے دن کارگو ایجنٹ کے معاون کے ہمراہ ایئرپورٹ پر واقع کارگو ٹرمینل جاپہنچا تاکہ کسٹم ڈیوٹی ادا کرکے اپنا سامان حاصل کروں۔ کارگو ٹرمینل پر جانے کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔ میں جیسے وہاں پہنچا انسانوں کی فوج ظفرموج گویا میرے استقبال کو لپکی۔ یہ سبھی اپنی محنت مزدوری کی غرض سے یہاں جمع تھے۔ سبھی میرے تعارف کے خواہاں ہوئے۔ سوالات کی بوچھاڑ کردی، کہاں سے تشریف لائے؟ کس شہر کے رہنے والے ہیں، کیسا سامان ہے، الیکٹرانک ہے یا کار ہے۔ خادم کی ضرورت ہے جو آپ کی مشکل کشائی کرسکے وغیرہ وغیرہ۔ معاون نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کی تلقین کی۔ اچانک ایک صاحب شومئی قسمت کہیں سے نمودار ہوئے اور میرے ہاتھ میں ایک فارم تھما کر خاموشی سے چلے گئے۔ یہ کارگو مزدور یونین کے نمائندے تھے۔ میں نے نہایت مستعدی سے فارم مکمل کیا۔ معاون نے مشورہ دیا کہ اس فارم پر سب سے پہلے سپرنٹنڈنٹ کے دستخط ہوں گے۔ ہم دونوں سپرنٹنڈنٹ کے دفتر جاپہنچے۔وہاں اہلکاروں کی حکومت تھی۔ سپرنٹنڈنٹ کا اتا پتا پوچھا۔ایک اہلکار نے انگلی کے اشارے سے سامنے کی قطار میں بیٹھ جانے کا حکم صادر کیا۔ میں سب سے پیچھے قطار میں بیٹھ گیا۔ میرے بعد آنے والے سبھی سائل میرے آگے بیٹھتے گئے لیکن میں نے تعرض نہ کیا۔ کوئی گیارہ بجے کے لگ بھگ سپرنٹنڈنٹ صاحب مع صاحبین تشریف لائے لیکن سیدھے دفتر جاکر دروازہ اندر سے بند کرکے بیٹھ گئے۔ تمام مصاحبین بھی ان کے ہمراہ تھے۔ قطاروں میں بیٹھے تمام سائل اپنے اپنے فارم ہاتھ میں تھامے دروازے کے باہر بھیڑ کی شکل میں کھڑے ہوگئے۔ کوئی ایک گھنٹے بعد دروازہ کھلا لیکن شومئی قسمت سپرنٹنڈنٹ تیز تیز قدم اٹھاتے وہاں سے کہیں چل دیئے۔ اہلکار نے طرح لگائی: ‘‘صاحب کو میٹنگ میں جانا ہے کل آئیں گے’’۔ میں نے معاون سے مشاورت کی، تو اس نے کہا: سپرنٹنڈنٹ کے دستخط کے بغیر تو سلسلہ شروع ہی نہیں ہوسکتا۔میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے دفتر جاپہنچا اور اس سے مدعا بیان کیا۔ اس نے درشت لہجے میں کہا: ‘‘ہم ایک دوسرے کے اختیارات میں دخل اندازی نہیں کرتے، آپ کل آیئے گا’’۔ سوچا کل بھی تو یہی صورت حال ہوسکتی ہے کیوں نہ آج ہی یہ بیل منڈھے چڑھے۔ ماتھا ٹھنکا ،ڈپٹی کلکٹر کے دفتر جاپہنچا۔ ابھی دہلیز پر پاؤں رکھے تھے کہ چپراسی نے آن لیا اور گرج کر بولا: ‘‘اندر نہیں جاسکتے، پہلے سامنے والے اہلکار کے دفتر جائیں ان کی اجازت کے بغیر صاحب سے نہیں مل سکتے’’۔ میں نے سنی اَن سنی کردی۔ دروازہ کھولا اور اندر جادھمکا۔ ڈپٹی کلکٹر صاحب راجہ اِندر بنے مصاحبین سے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ کیک پیسٹری اور چائے کا دور چل رہا تھا۔ میں نے بلاتامل اپنا مدعا بیان کیا۔ ڈپٹی کلکٹر نے کھاجانے والی نظروں سے دیکھا گویا میں نے قواعد و ضوابط کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ طنز ونحوت سے گویا ہوئے: ‘‘آپ سپرنٹنڈنٹ کے دفتر میں کیوں نہیں گئے؟’’ میں نے اس موقع پر اپنا تعارفی کارڈ دکھانا مناسب سمجھا، ساتھ ہی کہا: حضور پورے تین گھنٹوں سے سپرنٹنڈنٹ کا دیدۂ راہ ہوں، وہ تو کسی میٹنگ میں ہیں۔ ڈپٹی کلکٹر میرا تعارفی کارڈ دیکھ کر نرم لہجہ اختیار کرگئے اور کہا: نچلی منزل پر قیوم صاحب ہیں، انہیں کہیں وہ دستخط کردیں گے۔میں معاون کے ہمراہ قیوم صاحب کے دفتر جاپہنچا۔ یہاں انسانوں کا پُرزور ہجوم تھا۔ معاون نے میرا ہاتھ تھاما اور ہجوم چیرتا ہوا قیوم صاحب تک جاپہنچا۔ قیوم صاحب پہلے تو برافروختہ ہوئے لیکن ہمارے استفسار پر پڑھے بغیر فارم پر دستخط کردیے۔ معاون نے مبارکباد دی لیکن توجہ دلائی کہ ابھی کئی اور مراحل باقی ہیں۔ میں نے فارم کی پشت پر لکھے مندرجات پڑھے۔ وہاں کارگو ٹرمینل پر اکاؤنٹ کھولنے کا تذکرہ تھا جو کسٹم ڈیوٹی ادا ہوجانے کے بعد خودبخود بند ہوجاتا ہے۔ میری جیب میں امریکہ ڈالر تھے سوچا لگے ہاتھوں انہیں روپوں میں تبدیل کرا کر بنک اکاؤنٹ کھلوا لوں۔ کرنسی تبدیل کرنے کی شاخیں ہوائی اڈے پر ہیں۔ وہاں پہنچا تو صرف ایک شاخ کی کھڑکی کھلی تھی۔ یہاں میرے ساتھ من مانی ہوئی۔ میں نے خسارہ برداشت کیا اور کئی ہزار امریکن ڈالر پاکستانی روپوں میں تبدیل کرالیے۔ اب دن کے کوئی دوبجے تھے۔ میں نے معاون کو دوپہر کا کھانا کھلایا۔ بعدازاں بنک میں اکاؤنٹ کھولنے کے لیے قطار میں کھڑا ہو گیا۔ جب باری آئی تو کیشئر نے کہا: کسٹم ڈیوٹی کا اکاؤنٹ صرف امریکن ڈالر میں کھل سکتا ہے۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔ بھلا پاکستانی بنک میں کسٹم ڈیوٹی کا اکاؤنٹ امریکن ڈالر میں کیوں کھلے گا۔ یہ حقیقت ہے ان دنوں پاکستان میں کسٹم ڈیوٹی کی ادائیگی کا مطالبہ امریکن ڈالروں میں ہی کیا جاتا تھا۔ میں قطار سے نکلا اور واپس ہوائی اڈے پہنچا تاکہ کرنسی ایکسچینج سے اپنے تبدیل شدہ ڈالر واپس لے سکوں لیکن کیشئر نے درشت لہجے میں انکار کردیا۔ مشورہ دیا دوبار ہ ڈالر خریدے جاسکتے ہیں۔ میں نے جب شرح خرید پوچھی تو چھکے چھوٹ گئے۔ یہ شرح فروخت سے بہت زیادہ تھی۔ چاروناچار خسارہ اٹھایا اور روپوں کو پھر ڈالروں میں تبدیل کرایا تاکہ کسٹم ڈیوٹی کی ادائیگی کے لیے بنک اکاؤنٹ کھلوا سکوں۔ جلدی سے بنک پہنچا اکاؤنٹ کھلوایا۔ اب دن کا اختتام تھا۔ سیدھی گھر کی راہ لی۔
دوسرے دن علی الصبح ڈرائی ڈاک پہنچا جو کارگو ٹرمینل سے دوکلومیٹر دُور واقع ہے۔ فارم کی پشت پر لکھے مندرجات پھر سے پڑھے۔ لکھا تھا کہ ڈرائی ڈاک کے سپرنٹنڈنٹ کے دستخط سے یہاں سلسلہ شروع ہوگا۔ اہلکار کو درد بھری کہانی سنائی تو قسمت بر آئی۔ اس نے انگلی کے اشارے سے مجھے سپرنٹنڈنٹ کے دفتر میں اندر جانے کی اجازت دے دی، لیکن سپرنٹنڈنٹ اپنی کرسی سے اُٹھ کر کہیں چل دیے۔ میں نے ان کا راستہ کاٹا اور فارم پر دستخط کی گزارش کی تاکہ میرا کام شروع ہوسکے۔ سپرنٹنڈنٹ اُلٹے پاؤں واپس آئے ، ایک مارکر اٹھایا اور میرے فارم پر موٹے حرفوں میں ‘‘۱۰۰ فی صد’’ لکھ کر چلتے بنے۔ میں نے اہلکار سے پوچھا کہ یہ کیا لکھا ہے۔ اس نے بات کیے بغیر انگلی کے اشارہ سے آگے کسی دفتر میں جانے کو کہا۔ میں سپرنٹنڈنٹ کے ‘‘۱۰۰ فی صد’’ فرمودات سے ناواقف تھا۔ یکے بعد دیگرے تین دفتروں سے گزر ہوا، تو ہر ایک نے آگے جانے کی تلقین کی۔ چوتھا دفتر ایک ایسے اہلکار کا تھا جہاں فارم کا اندراج ہوا۔ اس اہلکار نے انکشاف کیا کہ سپرنٹنڈنٹ نے آپ کے سامان کی سو فیصد پڑتال کا حکم دیا ہے۔ میں نے اس حکم کو سر آنکھوں پر لیا کیونکہ میں تو بخوشی کسٹم ڈیوٹی ادا کرنے آیا تھا۔ فارم کے اندراج کے بعد مجھے محتسب کے دفتر جانا تھا۔ جو میرے سامان کی پڑتال کرے اور کسٹم ڈیوٹی کا تخمینہ لگائے تاکہ میں کارگو ٹرمینل میں جاکر بنک میں ادائیگی کروں۔
محتسب کے دفتر میں میری پہلی مڈبھیڑ اہلکار سے ہوئی۔ وہاں پوری داستان سنائی۔ اس کے عقب میں ایک افسر جو غالباً میری کتھا کہانی سن رہے تھے اپنی نشست سے اُٹھ کر چل دیئے۔ اہلکار نے اسی افسر کی طرف اشارہ کر کے کہا یہی صاحب آپ کے سامان کا تخمینہ لگائیں گے۔ میں ان کی طرف بھاگا۔ انہیں راستے میں روک کر اپنا تعارفی کارڈ دکھا کر کسٹم ڈیوٹی ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان صاحب نے دفتر میں بیٹھے ایک اور افسر کی طرف اشارہ کیا اور خود چلتے بنے۔ ا س افسر نے مجھ سے فارم لیا اور دفتر کے باہر انتظار کے لیے بھیج دیا۔ ایک گھنٹہ بعد یہ افسر اپنے دو ملازمین کے ہمراہ تشریف لائے اور سیدھے گودام چل دیئے۔ میرے سامان کے کریٹ تلاش کیے۔ دونوں ملازمین لوہے کا ایک گُرز اُٹھا لائے تاکہ کریٹ کے اردگرد لپٹی تاریں توڑی جائیں۔ میں نے کہا حضور اس کریٹ میں حساس سامان ہے کیا آپ تاروں کو قینچی سے نہیں کاٹ سکتے۔ لوہے کا گُرز تاروں کے علاوہ سامان کا ناس مار دے گا۔ ملازمین نے سنی اَن سنی کردی اور آناً فاناً گُرز مار کر تار توڑ ڈالے۔ افسر مجاز نے ہراستعمال شدہ سامان کو نیا تصور کر کے کمالِ مہارت کا ثبوت دیا اور چار ہزار ڈالر کا بل مجھے پکڑا دیا۔
میں کارگو ٹرمینل کی طرف بھاگا تاکہ دن ختم ہونے سے پیشتر بنک میں کسٹم ڈیوٹی ادا کرسکوں۔ بنک میں ادائیگی کے بعد واپس دوکلومیٹر ڈرائی ڈاک آیا اور دفترمجاز کے اہلکار کو رسید دکھائی۔ اس نے مجھے انشورنس کمپنی کے دفتر بھیج دیا۔ وہاں گویا میرا انتظار کیا جا رہا تھا۔ انشورنس افسر نے کہا: پروفیسر صاحب آپ کے ذمہ کراچی ڈرائی ڈاک سے اسلام آباد ڈرائی ڈاک تک کی انشورنس واجب الادا ہے۔ میں نے کہا: ماسوائے کسٹم ڈیوٹی تمام اخراجات کی ادائیگی سنگاپور یونیورسٹی کے ذمے ہے لیکن انشورنس افسر نے نہایت بے اعتنائی سے خودساختہ قوانین بتانے شروع کیے جنہیں عرف میں ‘‘گولی دینا’’ کہا جاتا ہے۔ ساتھ ہی انجام کی دھمکی دی۔ انشورنس کی رقم ادا نہ ہوئی تو سامان گودام سے باہر نہیں جاسکے گا۔ مجھے ایک واقف حال نے نصیحت کی تھی کہ کھلا سامان کبھی گودام میں چھوڑ کر مت آنا وگرنہ خالی ڈبوں کا منہ دیکھنا نصیب ہوگا۔
میں نے کوئی پندرہ ہزار روپے انشورنس افسر کو دیے جس نے مجھے باقاعدہ رسید دی۔ اس اثنا میں ساتھ پڑے فیکس کی گھنٹی بجی۔کلرک ماتحت نے فیکس پڑھا اور اپنے افسر سے مخاطب ہوکر کہا: ‘‘سر جی! پروفیسر صاحب کے لیے پیغام ہے’’۔ میں حیران و ششدر ہوا، کسی نے مجھے اس وقت یہاں کیسے فیکس بھیج دیا۔ اس فیکس میں لکھا تھا ڈرائی ڈاک کراچی کے ذمے مجھے پانچ ہزار روپے اور ادا کرنا ہیں۔ میں نے کہا: سنگاپور یونیورسٹی نے تو تمام ادائیگی کی ہوگی مزید پانچ ہزار کی ادائی کس کھاتے میں ہے۔ انشورنس افسر نے طرح لگائی۔ اگر یہ رقم ادا نہ کی تو سامان گودام سے باہر نہیں جاسکے گا۔ میں نے کھلا سامان گودام میں چھوڑ جانے پر پانچ ہزار روپے کی ادائیگی کو ترجیح دی۔ جیسے ہی میں رقم اپنی جیب سے نکال رہا تھا انشورنس افسر نے رسید کاٹ کر میرے سامنے رکھ دی۔ میں نے کہا یہ کیا ہے؟ تو افسر نے کہا: یہ سامان رکھنے کے اخراجات ہیں۔ میں نے کہا حضور میں خطیر رقم سروس چارجز کے عنوان سے پہلے ہی ادا کرچکا ہوں۔ یہ سراسر زیادتی ہے۔ آپ لوگوں کی شکایت ہوسکتی ہے۔ انشورنس افسر نے نہایت رعونت اور بے باکی سے کہا: ‘‘بڑی خوشی سے کیجیے اور جہاں چاہے شکایت کریں سر جی! یہ ادائیگی نہ ہوئی تو سامان گودام سے باہر نہیں جاسکے گا’’۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندان، میں نے ادائیگی کر دی۔ اب مجھے سامان باہر لے جانے کا اجازت نامہ مل گیا۔ جب سامان گھر پہنچا تو معلوم ہوا میری بیوی کے قیمتی پارچات کا صندوق غائب ہے۔ لوہے کے گُرز نے ٹیلی ویژن اور قیمتی نوادرات توڑ ڈالے تھے۔ کارگو ایجنٹ کے معاون نے جس کی حیثیت اس معاملہ میں محض ایک تماشائی کی تھی مجھ سے رخصت مانگی۔ میں نے بھی اس سے گلوخلاصی میں عافیت جانی۔ اس نے میری آنکھوں میں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا۔ میں نے مناسب جانا اسے پانچ سو روپے چائے پانی کے دے دوں۔ اس نے جاتے وقت نہایت آہستگی سے کہا: ‘‘سرجی! یہ پاکستان ہے۔ آپ نے صاحب کی بتائی ہوئی ‘‘میز کے نیچے’’ ترکیب پر غور نہیں کیا۔ عموماً لوگ وہی استعمال کرتے ہیں۔ میں نے معاون سے تعرض مناسب نہ جانا۔ ‘‘محکمانہ’’ ترکیب پرمیں اب بھی پوری طرح قائم ہوں اور ‘‘انڈر دی ٹیبل’’ کو جڑ سے اکھاڑنے کا پرچارک ہوں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سہل روی کو ترک کر کے ایماندارانہ کارکردگی کو بروئے کار لایا جائے۔
بیورو کریسی کے حددرجہ عمل دخل نے پاکستان میں کرپشن کلچر کو فروغ دیا ہے جسے ختم کرنا ضروری ہے۔ جب میری سنگاپور یونیورسٹی میں تعیناتی ہوئی تھی مجھے وہاں اپنے سامان کی ترسیل کے لیے ڈرائی ڈاک پر جانے کی قطعاً ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ میرا پورا سامان بحفاظت میری رہائش گاہ پر بلاکسٹم ڈیوٹی پہنچا دیا گیا تھا۔ سنگاپور کسٹم نے میرے سامان کو گھریلو سامان کے زمرے میں کسٹم ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔ پاکستانی کسٹم حکام نے کم و بیش اتنے ہی سامان پر تقریباً چار ہزار امریکن ڈالر ڈیوٹی وصول کی۔ مجھے اس رقم کی ادائیگی میں قطعاً کوئی ملال نہیں۔ مجھے خوشی ہے یہ رقم وطن عزیز کے خزانے میں جمع ہوئی۔ ملال اس وقت کے ضیاع اور بے مروتی کا ہے جو میری طرح ہر پاکستانی تارکِ وطن کو درپیش ہے۔ کارگو ٹرمینل کے باہر خدمت گار مزدوروں کا رویہ نہ صرف انسانیت کی تحقیر کا آئینہ دار ہے بلکہ کئی محکمانہ جرائم کا پیش خیمہ بھی۔ ان مزدوروں کو متبادل ذرائع آمدنی مہیا کیا جائیں۔ کسٹم حکام کو مصاحبین اور میٹنگوں پر وقت صرف کرنے کے بجائے تارکین وطن کی جائز ضروریات پر توجہ دینی چاہیے۔ تخمینہ لگانے والے عملے کو سائل کے حساس سامان کا پورا پورا احساس ہونا چاہیے۔ تخمینہ کے مندرجات سائل کے آنے سے پہلے مکمل ہونے چاہیے تاکہ اسے دفتروں کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔ اگر ممکن ہو تو ایسا انتظام کیا جائے کہ سائل صرف ایک کھڑکی پر اپنے تمام معاملات طے کرکے رقم کی ادائیگی کرے۔ کئی ترقی یافتہ ممالک میں یہی طریقہ رائج ہے۔ کسٹم ڈیوٹی امریکن ڈالر کے علاوہ پاکستانی روپوں میں بھی ادا کرنے کی سہولت ہونی چاہیے۔ آخیر میں نہایت اہم تجویز پیش کرتا ہوں۔ یہ کسٹم حکام کی کارکردگی اور اخلاقی اقدار سے متعلق ہے۔ کسٹم حکام کو فرض شناس، ہنرمند، مستعد، بلند اخلاق، بامروت اور ایمان دار ہونا لازم ہے۔ اگر یہ اخلاقی اقدار مفقود ہوں تو دنیا کا کوئی انتظامی فلسفہ کامیابی سے عمل پیرا نہیں ہوسکتا۔ اخلاقی اقدار ملک و قوم کے شاندار مستقبل کی ضمانت ہوتی ہیں۔
٭٭٭