ایک کولیگ کی وفات پر مدیر سوئے حرم کے تاثرات
انصار صاحب کی ناگہانی وفات نے ایک بار پھر اس حقیقت کو تازہ کر دیا ہے کہ موت کس طرح انسان کے لیے گھات لگائے بیٹھی ہے ۔کوئی چاہے نہ چاہے وہ اپنے مقررہ وقت پرسب کے درمیان سے انسان کو اچک لے جاتی ہے ۔زندہ رہ جانے والے موت کے اسباب پہ بحث کرتے رہ جاتے ہیں جبکہ موت ایک تبسم کے ساتھ یہ سب کچھ سنتی ہے اور اگلے ٹارگٹ کی طرف روانہ ہوجاتی ہے۔
پردیس میں کام کر نے والے ہر پردیسی کی طرح انصار صاحب بھی چھٹیوں میں خوشی خوشی اپنے گھر کو سدھارے تھے مگر کسے خبر تھی کہ ان کو واپسی نصیب نہ ہو گی۔موت کا معاملہ کچھ ایسا ہی معاملہ ہے یہ کسی کو گھر جانے دیتی ہے تو واپس نہیں آنے دیتی اور کسی کو آنے دیتی ہے تو جانے نہیں دیتی۔ یہ آنا، جانا ہی تو زندگی ہے ۔ اسی آنے جانے کو موت جب چاہے کاٹ کے رکھ دیتی ہے ۔اور پھر انسان آتا ہے توجاتا نہیں اور جاتا ہے تو آتا نہیں۔کہنے کو تو انسان دنیا سے کچھ نہیں لے کر جاتا مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ اپنے پیاروں کی بہت سی چیزیں لے جاتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کے سر کا سایہ لے جاتا ہے اور اب وہ زندگی کی چلچلاتی دھوپ میں تنہا کھڑے رہ جاتے ہیں۔ وہ اپنی شریک حیات کے ہونٹو ں کا تبسم ، دل کی خوشیاں اورروح کا سکون لے جاتا ہے ،وہ اپنے بھائیوں کے بازو، بہنوں کے سر کی چھتری اور انجمن دوستاں کی رونقیں لے جاتا ہے۔یقینا انصار صاحب بھی یہ سب چیزیں اپنے ساتھ لے گئے مگر میرے خیال میں سب سے قیمتی چیزجو وہ ساتھ لے گئے، وہ ہیں ان کے نیک اعمال۔ان کی خشوع و خضوع سے لبریز نمازیں ، ان کی پرسوزتلاوت، ان کی پر خلوص دعائیں، کسی کو نقصان نہ پہنچانے کی ان کی صفت ، انسانوں سے ان کی محبت اور دوستوں کی مدد اور نصرت۔
مجھے انصار صاحب کے خانگی اور خاندانی حالات کا زیادہ علم نہیں اس لیے کہ میری ان سے ملاقات کو ابھی صرف ڈھائی برس ہی تو ہوئے ہیں اور وہ ملاقات بھی محدود رہی ان کی دفتری مصروفیات ، معاملات اورحالات تک۔البتہ اس مشاہدے کی بنا پر میں بلا خوف و خطر یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگرچہ اداروں کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اداروں کی تاسیس، ان کی نشوونما، ان کی ترقی اور ان کی بقا چند شخصیات کی مرہون منت ہی ہوتی ہے۔مرحوم انصار صاحب بھی ایسی شخصیت کے حامل تھے کہ جن کی بدولت ادارے ترقی کی منازل طے کرتے اور پھلتے پھولتے رہتے ہیں۔وہ جس ادارے میں کام کرتے تھے ان کی زندگی کے شب وروز بس اسی کے لیے وقف تھے۔عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ کسی ادارے یا کسی مقصد کے لیے خود کو وقف کر دیتے ہیں وہ اپنے اوپر کچھ مافوق الفطرت سے لبادے اوڑھ لیتے ہیں اور انسانوں سے الگ تھلگ ہو کر رہنے میں اپنی عظمت سمجھتے ہیں۔ مگر انصار صاحب کی بڑائی اور عظمت یہ ہے کہ وہ اپنی تمام تر محویت اور لگن کے باوجودنہ صرف ‘‘انسان’’ رہے بلکہ انسانوں میں گھل مل کر رہے اور ان کے مسائل کے حل میں پوری نصرت کرتے رہے۔ رحمت الہی سے امید ہے کہ ان کے اندر موجود نصر ت کا جذبہ ان کے لیے مغفرت اور حصول جنت کا سبب بنے گا۔ہرجانے والے کے بعد ایک رسمی جملہ عام طور پربولا جاتا ہے کہ جانے والے کا خلا پر نہ ہو سکے گا۔ مگر انصار صاحب کے بارے میں یہ جملہ رسمی نہیں حقیقت لگتا ہے ۔ ان کے ادارے میں ان کا خلا شاید کبھی پرُ نہ ہو سکے اور اگر کبھی پرُ ہوابھی تواس میں یقیناً بہت دیر لگے گی۔ اللہ کریم ان کی مغفر ت فرمائے ،خزانہ غیب سے ان کے بچوں کی سرپر ستی فرمائے اور ان کی اہلیہ کو صبر و حوصلہ اور استقامت نصیب فرمائے۔