نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نفل روزے خود رکھے ہیں یا لوگوں کو اسی مقصد سے ان کے رکھنے کی ترغیب دی ہے ،وہ یہ ہیں:
یوم عاشور کا روزہ
روایتوں میں اس کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ آپ بالعموم اس کا اہتمام کرتے تھے، بلکہ رمضان کے روزوں سے پہلے تو یہ روزہ آپ لازماً رکھتے اورلوگوں کو بھی اس کا حکم دیتے، اس پر ابھارتے اور اس معاملے میں ان پر نگران رہتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ قریش یہ روزہ رکھتے تھے اورایک یہ بیان کی گئی ہے کہ یہود اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ حضور ﷺنے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ یہ دن ان کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ موسیٰ اوران کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے اس دن نجات عطا فرمائی اورفرعون اور اس کی قوم کو دریا میں غرق کردیا، تب موسیٰ علیہ السلام نے اس پر شکرانے کا روزہ رکھا تھا۔ حضور ﷺنے فرمایا : موسیٰ سے ہمارا تعلق تم سے زیادہ ہے۔ چنانچہ آپ نے بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کی ہدایت فرمائی۔
یوم عرفہ کا روزہ
اس دن کی فضیلت ہر مسلمان کو معلوم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اس میں روزہ رکھا جائے تو اس کے صلے میں توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک سال پہلے اورایک سال بعد کے گناہ بخش دیں گے۔تاہم حج کے موقع پر آپ نے یہ روزہ نہیں رکھا۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہوئی کہ حج کی مشقت کے ساتھ آپ نے اسے جمع کرنا پسند نہیں فرمایا۔
شوال کے روزے
ان روزوں کی فضیلت بھی روایتوں میں بیان ہوئی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر ان کے متصل بعد شوال کے چھ روزے رکھ لیے ، وہ گویا عمر بھر روزے سے رہا۔
ہرمہینے میں تین روزے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ترغیب دی اور ان کے بارے میں وہی بات فرمائی ہے جو اوپر شوال کے روزوں کے بارے میں بیان ہوئی ہے۔سیدہ عائشہؓ کی روایت ہے کہ حضورﷺ خود بھی یہ روزے رکھتے تھے۔ تاہم ان کے لیے کوئی دن متعین نہیں تھے۔ آپ جب چاہتے، پورے مہینے میں کسی وقت یہ روزے رکھ لیتے تھے۔ بعض صحابہ کو، البتہ آپ نے ہدایت فرمائی ہے کہ وہ چاند کی تیرھویں،چودھویں اور پندرھویں تاریخ کو یہ روزے رکھیں۔
پیر اورجمعرات کا روزہ
حضورﷺ نے یہ روزے بھی رکھے ہیں۔ لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا: پیر اورجمعرات کے دن لوگوں کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ نیز فرمایا کہ پیر کا دن میری پیدایش کا دن ہے اورمجھ پر قرآن کا نزول بھی اسی دن ہوا تھا۔
شعبان کے روزے
رمضان کے علاوہ یہی مہینا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ تر روزے سے رہتے تھے۔ سیدہ عائشہ ؓکا بیان ہے کہ میں نے شعبان سے زیادہ آپ کو کسی مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔
ان کے علاوہ بھی لوگ جب چاہیں، نفل روزے رکھ سکتے ہیں۔ زیادہ روزوں کی خواہش رکھنے والوں کو آپ نے ہدایت فرمائی ہے کہ وہ اس معاملے میں سیدنا داؤدعلیہ السلام کی پیروی کریں جو ایک دن روزہ رکھتے اورایک دن چھوڑ دیتے تھے۔ تنہا جمعہ کو روزے کے لیے خاص کرلینے، پورا سال روزے رکھنے اور عید کے دنوں میں روزہ رکھنے کو، البتہ آپﷺ نے پسند نہیں فرمایا۔