بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
اس گھڑی میں ہم جی رہے ہیں مگر اگلی کسی گھڑی ہمیں مرجانا ہے۔ جس طرح یہ جینا سدا کا جینا نہیں ہے’ اسی طرح وہ مرنا بھی سدا کا مرنا نہیں ہوگا۔ ایک دن ہم اسی روح و بدن کے ساتھ ایک دوسری دنیا میں کھڑے ہوں گے۔ اس روز آخری عدالت لگے لگی۔ ہم سب کے اعمال نامے کھولے جائیں گے اور ہمارے اعمال کے حساب سے ہمارے جنتی یا خدانخواستہ جہنمی ہونے کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ ہم میں سے ہر شخص اُس دن جہنم کے دردناک عذاب سے بچنا چاہتا ہے اور آخرت میں کامیابی کا طلبگار ہے مگر ہمیں یہ بات جان رکھنی چاہیے کہ وہاں کامیابی کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ تقویٰ کا راستہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘آخرت کا گھر بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو تقویٰ اختیار کریں’’۔ (الاعراف ۷:۱۴۹)
ہمیں اس راستے پر گامزن رہنے کے لیے ہرممکن طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سب سے مؤثر طریقہ روزہ ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
‘‘اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے کہ تم سے پہلوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو’’۔ (البقرہ ۲:۱۸۳)
اسی لیے پروردگار نے ہم پر رمضان کے روزے لازم کر دیے ہیں۔ اس مہینے میں انسان کو اس بات کی خصوصاً یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ اسے ایک متقی اور پرہیزگار فرد کی حیثیت سے جینا ہے اور اس کے تمام جذبے خدا کی اطاعت کے تحت ہونے چاہییں۔
فضائل و برکاتِ رمضان
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اللہ سے تعلق
روحِ انسانی کی فطرت رجوع الی اللہ ہے مگر نفس کی خواہشات اور شہوات اس کی فطرت کو مجروح کرتی رہتی ہیں۔ روزہ نفس کے میلانات پر پابندی عائد کرکے روح کو اس کے فطری رجحان کے مطابق پروان چڑھنے میں مدد دیتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں بندہ دنیا سے کٹ کر اللہ کی رضاجوئی کے لیے سرگرم عمل ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ نے اس کا خاص اجر بیان فرمایاہے۔ آپؐ نے فرمایا:
‘‘آدمی کے ہر اچھے عمل کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ اس عام قانون سے مستثنیٰ اور بالاتر ہے۔ وہ بندہ کی طرف سے خاص میرے لیے ایک تحفہ ہے اور میں ہی اس کا اجر و ثواب دوں گا۔ میرا بندہ میری رضا کے واسطے اپنی خواہش نفس اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو مسرتیں ہیں: ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک و مولیٰ کی بارگاہ میں شرف یابی کے وقت اور قسم ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے اور روزہ ڈھال ہے’’۔ (متفق علیہ)
جذبہ شکر کی تربیت
روزہ بیک وقت دو چیزوں کی تربیت ہے: ایک شکر اور دوسرا تقویٰ۔ کھانا اور پانی آدمی کی سب سے بڑی ضرورتیں ہیں۔ جب پیاس سے آدمی کا حلق سوکھ جاتا ہے اور جب بھوک سے آدمی کی انتڑیاں سوکھنے لگتی ہیں اس وقت اس کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتنا کمزور ہے اور خدا کی مدد کا کتنا زیادہ محتاج ہے۔ یہ تجربہ اس کو اللہ کی عظمت اور اس کے مقابلہ میں اپنے عجز کا احساس دلاتا ہے جو کہ تقویٰ کا حاصل ہے۔ پھر جب شام کو وہ کھانا کھاتا اور پانی پیتا ہے تو وہ اس بات کا تجربہ کرتا ہے کہ اس کے خدا نے کتنی مکمل صورت میں اس کی ضرورتوں کا انتظام کر رکھا ہے۔ اس کا دل احسان مندی کے جذبات سے بھر جاتا ہے اور اس کی زبان پر حمد اور شکر کے کلمات جاری ہوجاتے ہیں۔ وہ سوچتا ہے کہ جس خدا نے ایسی نعمتیں دی ہیں اس کے لیے اگر میں اپنی پوری زندگی بھی قربان کر دوں تو حق ادا نہیں ہوسکتا۔ یہ شکر اسے اپنے رب کی فرمانبرداری کی طرف مائل کرتا ہے۔
فتنوں کے دروازوں کی بندش
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
‘‘جو شخص ان دو چیزوں کے بارے میں مجھے ضمانت دے سکے جو اس کے دونوں جبڑوں اور دونوں ٹانگوں کے درمیان ہیں’ میں اس کے لیے جنت کا ضامن بنتا ہوں’’۔ (متفق علیہ)
شیطان انھی راستوں سے سب سے زیادہ انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ روزہ ان دونوں پر قابو پانو میں مدد دیتا ہے۔
قوتِ ارادی کی تربیت
رمضان میں انسان ایک ماہ تک اس بات کی مشق کرتا رہتا ہے کہ اپنے مالک و خالق کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جائز خواہشات کو بھی دبائے اور ہر سال کی یہ مشق اسے اس قابل بناتی چلی جاتی ہے کہ وہ زندگی کے ہر معاملے میں اپنی خواہشات و جذبات کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف رہے۔ اس طرح وہ خواہشات اور جذبات کی غلامی سے نکل کر اپنے پروردگار کی غلامی میں آجاتا ہے۔ یہی غلامی جنت کی ابدی بادشاہی کا پیش خیمہ ہے۔
آپ کا حصہ
اس ماہ کی عظمت اور برکت بلاشبہ عظیم ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کی رحمتیں اور برکتیں ہر اس شخص کے حصہ میں آجائیں جو اس مہینہ کو پائے۔ کسان کی طرح آپ محنت اور عمل کریں گے تو جنت کے انعامات کی فصل تیار ہوگی اور جتنی محنت کریں گے اتنی ہی اچھی فصل ہوگی’ دل پتھر کی طرح سخت ہوں گے اور آپ غافل کسان کی طرح سوتے پڑے رہ جائیں گے تو روزہ اور تراویح کی رحمتوں کی ساری بارش بہہ جائے گی اور آپ کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔ تو ایسا نہ ہو کہ رمضان گزر جائے رحمتوں اور برکتوں کے باوجود آپ اتنے بدنصیب ہوں کہ آپ کی جھولی خالی رہ جائے۔ اپنے حصہ کی رحمتیں لوٹنے کے لیے کمر کس لیجیے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ رمضان کی تیاری کیسے کی جائے اور رمضان میں کن باتوں کا خیال رکھنا اور کن باتوں سے بچنا چاہیے۔
رمضان کی تیاری کیجیے
‘‘اس آدمی کے لیے ہلاکت ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اپنے گناہوں کی بخشش اور معافی نہ حاصل کرسکا اور آپؐ نے اس کے جواب میں آمین کہی’’۔ (حاکم)
سچی توبہ: یاد رکھیے ناپاکیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے صحیح تعلق نہیں پیدا ہوسکتا۔ لہٰذا جی بھر کر اپنے پچھلے تمام گناہ چاہے دل کا گناہ ہو یا آنکھ کا’ زبان کا ہو یا کان کا’ سب ندامتِ قلب کے ساتھ بارگاہِ الٰہی میں پیش کریں اور انھیں چھوڑنے اور آیندہ کبھی نہ کرنے کا عہد کریں۔
تراویح کے لیے مسجد کا انتخاب: ایسی مسجد تلاش کریں جہاں بڑے اطمینان سے اور ٹھہرٹھہر کے قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہو۔
رمضان میں کرنے کے کام
‘‘میری اُمت اس وقت تک خیر پر رہے گی جب تک افطار میں عجلت اور سحری میں تاخیر کرتی رہے گی’’۔ (احمد)
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ‘‘افطار کے وقت روزے دار کی دعا رد نہیں کی جاتی’’۔ (سنن ابن ماجہ)
‘‘روزہ (عذابِ الٰہی کے لیے) ڈھال ہے پس روزہ دار کو چاہیے کہ نہ فحش بات کہے’ نہ بدتمیزی کرے۔ اگر کوئی شخص اُس سے لڑے یا گالی دے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں’’۔ (بخاری)
‘‘جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیرفرض عبادت (یعنی سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانہ کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا اور اس ماہ میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانہ کے ستر فرضوں کے برابر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے جس نے اس مہینہ میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ آپؐ سے عرض کیا گیا: یارسولؐ اللہ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا تو آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی سے یا ایک کھجور سے یا ایک گھونٹ پانی سے ہی کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے گا۔ اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہ لگے گی تاآنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔ اس مبارک ماہ کا ابتدائی حصہ رحمت اور درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے رہائی ہے۔ اور جو اس ماہ میں اپنے غلام (ملازم) کے کام میں کمی کردے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو جہنم سے رہائی اور آزادی دے دے گا’’۔ (بیہقی)
خالق کی عبادت کے ساتھ اس کی مخلوق سے حسنِ سلوک بے پناہ اجر کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک نیک بخت خاتون رمضان شروع ہوتے ہی اہلِ محلہ میں سے تنگدست عورتوں کے کپڑے مفت سینا شروع کر دیتیں۔ غریب عوتیں اور ان کے بچے خوش خوش ان کے پاس بیٹھ کر اپنے کپڑے سلتے دیکھتے۔ اِس طرح سارا رمضان وہ غریب محلے داروں کی خوشیوں کا ذریعہ بنی رہتیں اور ان کی قلبی دعائیں سمیٹتیں۔ اسی طرح ہر انسان ایسے طریقے سوچ سکتا ہے جو اس کے وسائل و ذرائع کی مناسبت سے اس کے لیے رمضان میں زیادہ سے زیادہ خیروبرکت دلا سکیں۔ اہلِ ثروت حاجت مندون کی امداد کی طرف دھیان دیں۔ جو تنگدست ہیں مگر دین کا علم رکھتے ہیں وہ لوگوں کو دینی تعلیم دینے کی طرف توجہ دیں۔ جن کے پاس یہ بھی نہ ہو مگر ہوں تندرست وہ حاجت مندوں کے جسمانی کام کر کے ہی نیکیاں سمیٹنے کی کوشش کریں۔
‘‘جس نے رمضان میں روزے رکھے ایمان و احتساب کے ساتھ بخش دئیے گئے اس کے تمام سابقہ گناہ اور جس نے رمضان میں (راتوں کو) قیام کیا ایمان و احتساب کے ساتھ بخش دیئے گئے اس کے تمام سابقہ گناہ’’۔ (متفق علیہ)
‘‘روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گے (یعنی اس بندے کی جو دن میں روزہ رکھے گا اور رات میں اللہ کے حضور میں کھڑے ہوکر اس کا پاک کلام پڑھے گا یا سنے گا) روزہ عرض کرے گا اے میرے رب! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پوری کرنے سے روکے رکھا تھا’ آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما اور قرآن کہے گا کہ میں نے اس کو رات کے سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا’ خدوند آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما’ چنانچہ دونوں کی سفارش اس بندہ کے حق میں قبول فرمائی جائے گی اور اس پر خاص نوازشیں کی جائیں گی’’۔ (بیہقی)
یعنی رمضان کی راتیں یا ان کا زیادہ سے زیادہ حصہ قرآن مجید کے ساتھ بسر کیا جائے۔ روزوں کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے اور قرآن کے بارے میں ارشاد ہے کہ یہ متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔ لہٰذا روزے سے تقویٰ حاصل کیجیے اور رات کو قرآن کی بارش اپنے قلب پر برسایئے تاکہ آپ کی روح اس سے نشوونما حاصل کرے۔ تاہم یاد رہے کہ آپؐ نے فرمایا:
‘‘کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جنھیں اپنے روزوں سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی راتوں کو کھڑے ہو کر عبادت کرنے والے ایسے ہیں جنھیں اپنی اس عبادت سے رات کی نیند کو محرومی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا’’۔ (رواہ الدارمی)
آخری عشرہ
جس طرح رمضان المبارک کو دوسرے مہینوں کے مقابلے میں فضیلت حاصل ہے اسی طرح اس کا آخری عشرہ پہلے دونوں عشروں سے افضل ہے۔
‘‘جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کمرکس لیتے اور شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگا دیتے’’۔ (متفق علیہ)
آخری عشرہ کی فضیلت کی ایک وجہ اس میں لیلۃ القدر کا ہونا ہے۔ لیلۃ القدر کی فضیلت کی وجوہات درج ذیل ہیں:
‘‘ہم نے اس (قرآن) کو ایک نہایت مبارک رات میں اتارا ہے’’۔ (الدخان ۴۴:۳)
اس رات کی اہمیت کا کون اندازہ کرسکتا ہے جس میں پوری کائنات کے لیے خدائی پروگرام طے ہوتا ہے اور سارے جہاں کا فیصلہ ہوتا ہے’ نیز فرمایا: ‘‘اس میں فرشتے اور روح الامین (امور کو دنیا میں نافذ کرنے کے لیے) اترتے ہیں ہر معاملے میں اپنے رب کی اجازت سے’’۔ (القدر ۹۷:۴)
عبادت کا اہتمام: یہ کوئی عام رات نہیں ہے کہ اسے سو کر گزار دیا جائے۔ جو رحمتیں برکتیں اور خدا سے قرب کے مواقع اس ایک رات میں حاصل ہوتے ہیں وہ ہزاروں راتوں میں بھی نہیں ہوسکتے۔
آپؐ نے فرمایا:‘‘جس نے شب قدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ قیام کیا اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں’’۔ (متفق علیہ)
چنانچہ کسی شخص کو بھی اس کی تلاش سے بیگانہ نہیں ہونا چاہیے۔ کوشش کیجیے کہ کم از کم آخری عشرہ کی ہر طاق رات کا بیشتر حصہ اللہ کے حضور قیام و صلوٰۃ’ تلاوت و ذکر اور دعا و استغفار میں گزاریں۔ نصف شب سے سحری تک ہوسکے تو ضرور جاگیں۔ قرآنی و مسنون دعاؤں کی کوئی مستند کتاب لے کر اس کی تمام دعائیں رو رو کر اللہ تعالیٰ سے مانگیے تاکہ کوئی خیر مانگنے سے رہ نہ جائے۔ عبادت کرتے ہوئے یہ ارشاد نبوی یاد رہے۔
‘‘جو شخص شب قدر (کی برکات حاصل کرنے) سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا۔ اس سعادت سے صرف بے نصیب ہی محروم کیا جاتا ہے’’۔ (ابن ماجہ)
شب قدر کی خاص دعا
اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ (ترمذی) ‘‘اے اللہ تو بہت معاف اور کرم کرنے والا ہے اور معاف کر دینا تجھے پسند ہے پس تو میری خطائیں معاف فرما دے’’۔
رمضان کی آخری رات
‘‘رمضان کی آخری رات میں آپؐ کی اُمت کے لیے مغفرت اور بخشش کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ وہ شب قدر تو نہیں ہوتی لیکن عمل کرنے
والا جب اپنا عمل پورا کرے تو اس کو پوری اُجرت مل جاتی ہے’’۔ (مسند احمد)
اعتکاف
روزے کا اصل مقصد دل’ دماغ’ جسم اور روح سب کا خدا کی طرف متوجہ ہونا ہے اور اسی کو حاصل کرنے کے لیے روزے کے ساتھ اعتکاف کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اعتکاف روزہ کی طرح لازم نہیں ہے۔ اعتکاف کی چند دن کی تربیت کا عمل معتکف کے دل پر یہ گہرا اثر چھوڑے گا کہ دنیا میں اپنے چاروں طرف ہر طرح کی رنگینیاں اور دلکشیاں دیکھنے کے باوجود خدا سے تعلق مضبوط رکھے۔ خدا کی نافرمانی سے بچے’ اس کی اطاعت میں قلب و روح کا سکون تلاش کرے۔
‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔ وفات تک آپ کا یہ معمول رہا۔ آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اہتمام سے اعتکاف کرتی رہیں’’۔ (متفق علیہ)
‘‘معتکف گناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کا نیکیوں کا حساب ساری نیکیاں کرنے والے بندے کی طرح جاری رہتا ہے اور نامۂ اعمال میں لکھا جاتا رہتا ہے’’۔ (ابن ماجہ)
معتکف کو اپنا سارا وقت نوافل’ تلاوتِ قرآن ’ذکر درود اور احادیث اور علومِ دینیہ کی کتب کے مطالعے میں گزارنا چاہیے۔ کسی عمل سے طبیعت اُکتائے تو دوسرے میں لگ جائے’ بے کار باتوں میں نہ لگے۔ سادہ اور ہلکی غذا استعمال کرے تاکہ یکسوئی سے عبادت کرسکے۔
رمضان کے بعد
۱- مومن کے دو دروازے ہیں: ایک عارضی اور ایک دائمی۔ عارضی درواز ہ رمضان میں اور دائمی دروازہ شعور کی عمر سے موت تک ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ‘‘اور مرتے دم تک اپنے رب کی بندگی میں لگے رہو’’۔ (الحجر۱۵:۹۹)
کیسے تعجب کی بات ہے کہ عارضی روزے کی پابندی اور دائمی روزے کو کھیل بنا لیا جائے۔
۲- رمضان کا سب سے بڑا تحفہ قرآن مجید ہے۔ رمضان اس نعمت کی یاد دہانی کرا کر رخصت ہوجاتا ہے۔ لازم ہے کہ بقیہ سارا سال اس کی تلاوت اور اس میں غوروتدبر جاری رہے۔
۳- ہر ماہ چند نفلی روزے ضرور رکھیے تاکہ نفس پر قابو پانے کی جو تربیت آپ نے رمضان کا پورا مہینہ لی اس کی مشق بقیہ گیارہ ماہ میں بھی ہوتی رہے۔ آپؐ نے فرمایا:
‘‘ جس نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ایک نفلی روزہ رکھا اللہ اسے جہنم سے اتنا دُور کردیں گے جتنا فاصلہ ایک کوا جینے سے مرنے تک طے کرسکتا ہے’’۔ (احمد)
۴- رمضان ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ موجودہ بے روزگاری اور گرانی سے ان لوگوں کی تعداد بہت بڑھا دی ہے جو محتاج ہونے کے باوجود کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتے۔ ان سب بھائی بہنوں کی رمصان کے بعد بھی خبر لیتے رہیے۔
آخری بات
زندگی کا سفر برق رفتاری سے جاری ہے۔ اس راہ میں شیطانی ہواؤں کے جھلسا دینے والے جھکڑ بھی ہیں۔ نفس کو بے تاب کر دینے والی خواہشیں بھی ہیں’ آرزوؤں اور تمناؤں کے الجھا دینے والے جال بھی ہیں’ گناہوں کے تباہ کر دینے والے حملے بھی ہیں اور آدمی کو غیرسنجیدہ’ لاپرواہ اور نادان بنا دینے والی فضا بھی۔
ان تباہ کن قوتوں سے مقابلہ کرنے اور ان کے شر سے محفوظ رہتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے شب و روز کی اس گردش میں جگہ جگہ ایسے پڑاؤ مہیا کیے ہیں کہ آپ ان پر پہنچ کر بقیہ سفر کے لیے خود کو تازم دم بنا لیں۔ ہر طرح سے مسلح اور تازہ دم ہوکر اگلا سفر شروع کریں۔ آپ کے لیے رمضان ایک بار پھر یہ موقع لے کر آرہا ہے کہ آپ اپنی محنت و ریاضت سے اس مہینے میں اپنے آپ کو اس لائق بنا لیں کہ سال بھر شیطان اور اپنے نفس سے جوانمردی سے نبٹ سکیں’ خواہشات کو زیر کرنے میں ہمت اور حوصلہ سے کام لے سکیں۔ اور رمضان کے شب و روز کی عبادتوں سے اپنے اندر اتنی توانائی پیدا کرلیں کہ آسانی کے ساتھ بقیہ سفر طے کرسکیں۔ خدانخواستہ یہ قیمتی لمحے اگر یونہی ضائع ہوگئے اور آپ کچھ حاصل نہ کرسکے تو اپنی بے بسی’ بے چارگی اور بے پناہ مشکلات کا اندازہ کیجیے۔ آنے والے گیارہ ماہ شیطان اس کے لشکر اور نفس جیسے مکار دشمن کے تباہ کن حملوں کا تصور کیجیے۔ کیسے یہ سفر آپ بغیر کسی ڈھال کے طے کرسکیں گے۔ پھر یہ موقع گیارہ ماہ کی طویل گردش کے بعد ہی آپ کو میسر آسکے گا اور نامعلوم کون دورانِ سفر ہی اس موقع سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائیں گے۔
سمجھ دار اور مبارک باد کے مستحق ہوں گے وہ لوگ جو اس مبارک موقع سے خاطرخواہ فائدہ اٹھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کر کے قلب و روح میں تازگی پیدا کرکے روزے رکھ کر تقویٰ کی ناقابلِ تسخیر قوت فراہم کر کے باقی ماندہ سفر شروع کریں گے۔ ان شاء اللہ جنت کی منزل انھی کی منتظر ہوگی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس مبارک ماہ کے تمام روزے پورے آداب کے ساتھ رکھنے اور اس ماہ کی فضیلتوں سے بھرپور حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!