رمضان کی برکات

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : ستمبر 2008

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

اس گھڑی میں ہم جی رہے ہیں مگر اگلی کسی گھڑی ہمیں مرجانا ہے۔ جس طرح یہ جینا سدا کا جینا نہیں ہے’ اسی طرح وہ مرنا بھی سدا کا مرنا نہیں ہوگا۔ ایک دن ہم اسی روح و بدن کے ساتھ ایک دوسری دنیا میں کھڑے ہوں گے۔ اس روز آخری عدالت لگے لگی۔ ہم سب کے اعمال نامے کھولے جائیں گے اور ہمارے اعمال کے حساب سے ہمارے جنتی یا خدانخواستہ جہنمی ہونے کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ ہم میں سے ہر شخص اُس دن جہنم کے دردناک عذاب سے بچنا چاہتا ہے اور آخرت میں کامیابی کا طلبگار ہے مگر ہمیں یہ بات جان رکھنی چاہیے کہ وہاں کامیابی کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ تقویٰ کا راستہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

‘‘آخرت کا گھر بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو تقویٰ اختیار کریں’’۔ (الاعراف ۷:۱۴۹)

ہمیں اس راستے پر گامزن رہنے کے لیے ہرممکن طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سب سے مؤثر طریقہ روزہ ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:

‘‘اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے کہ تم سے پہلوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو’’۔ (البقرہ ۲:۱۸۳)

اسی لیے پروردگار نے ہم پر رمضان کے روزے لازم کر دیے ہیں۔ اس مہینے میں انسان کو اس بات کی خصوصاً یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ اسے ایک متقی اور پرہیزگار فرد کی حیثیت سے جینا ہے اور اس کے تمام جذبے خدا کی اطاعت کے تحت ہونے چاہییں۔

فضائل و برکاتِ رمضان

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

  • ‘‘جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات جکڑ دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے سارے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بھی بند نہیں کیا جاتا اور اللہ کا منادی پکارتا ہے کہ اے خیر اور نیکی کے طالب! قدم بڑھا کے آ اور اے بدی اور بدکرداری کے شائق رک جا! آگے نہ آ۔ اور اللہ کی طرف سے بہت سے (گناہگار) بندوں کو دوزخ سے رہائی دی اجتی ہے اور یہ سب رمضان کی ہر رات میں ہوتا رہتا ہے’’۔ (جامع ترمذی)
  • ‘‘جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ‘الریان’ ہے اس دروازے سے قیامت کے دن صرف روزہ داروں کا داخلہ ہوگا’’۔ (متفق علیہ)
  • ‘‘جو رمضان میں ایک روزہ بھی (جان بوجھ کر) چھوڑ دے بغیر رخصت (شرعی) اور بلامرض کے تو تمام عمر کا روزہ رکھنا بدلہ نہیں اُتار سکتا’’۔ (ترمذی)

اللہ سے تعلق

روحِ انسانی کی فطرت رجوع الی اللہ ہے مگر نفس کی خواہشات اور شہوات اس کی فطرت کو مجروح کرتی رہتی ہیں۔ روزہ نفس کے میلانات پر پابندی عائد کرکے روح کو اس کے فطری رجحان کے مطابق پروان چڑھنے میں مدد دیتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں بندہ دنیا سے کٹ کر اللہ کی رضاجوئی کے لیے سرگرم عمل ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ نے اس کا خاص اجر بیان فرمایاہے۔ آپؐ نے فرمایا:

‘‘آدمی کے ہر اچھے عمل کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ اس عام قانون سے مستثنیٰ اور بالاتر ہے۔ وہ بندہ کی طرف سے خاص میرے لیے ایک تحفہ ہے اور میں ہی اس کا اجر و ثواب دوں گا۔ میرا بندہ میری رضا کے واسطے اپنی خواہش نفس اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو مسرتیں ہیں: ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک و مولیٰ کی بارگاہ میں شرف یابی کے وقت اور قسم ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے اور روزہ ڈھال ہے’’۔ (متفق علیہ)

جذبہ شکر کی تربیت

روزہ بیک وقت دو چیزوں کی تربیت ہے: ایک شکر اور دوسرا تقویٰ۔ کھانا اور پانی آدمی کی سب سے بڑی ضرورتیں ہیں۔ جب پیاس سے آدمی کا حلق سوکھ جاتا ہے اور جب بھوک سے آدمی کی انتڑیاں سوکھنے لگتی ہیں اس وقت اس کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتنا کمزور ہے اور خدا کی مدد کا کتنا زیادہ محتاج ہے۔ یہ تجربہ اس کو اللہ کی عظمت اور اس کے مقابلہ میں اپنے عجز کا احساس دلاتا ہے جو کہ تقویٰ کا حاصل ہے۔ پھر جب شام کو وہ کھانا کھاتا اور پانی پیتا ہے تو وہ اس بات کا تجربہ کرتا ہے کہ اس کے خدا نے کتنی مکمل صورت میں اس کی ضرورتوں کا انتظام کر رکھا ہے۔ اس کا دل احسان مندی کے جذبات سے بھر جاتا ہے اور اس کی زبان پر حمد اور شکر کے کلمات جاری ہوجاتے ہیں۔ وہ سوچتا ہے کہ جس خدا نے ایسی نعمتیں دی ہیں اس کے لیے اگر میں اپنی پوری زندگی بھی قربان کر دوں تو حق ادا نہیں ہوسکتا۔ یہ شکر اسے اپنے رب کی فرمانبرداری کی طرف مائل کرتا ہے۔

فتنوں کے دروازوں کی بندش

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

‘‘جو شخص ان دو چیزوں کے بارے میں مجھے ضمانت دے سکے جو اس کے دونوں جبڑوں اور دونوں ٹانگوں کے درمیان ہیں’ میں اس کے لیے جنت کا ضامن بنتا ہوں’’۔ (متفق علیہ)

شیطان انھی راستوں سے سب سے زیادہ انسان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ روزہ ان دونوں پر قابو پانو میں مدد دیتا ہے۔

قوتِ ارادی کی تربیت

رمضان میں انسان ایک ماہ تک اس بات کی مشق کرتا رہتا ہے کہ اپنے مالک و خالق کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جائز خواہشات کو بھی دبائے اور ہر سال کی یہ مشق اسے اس قابل بناتی چلی جاتی ہے کہ وہ زندگی کے ہر معاملے میں اپنی خواہشات و جذبات کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف رہے۔ اس طرح وہ خواہشات اور جذبات کی غلامی سے نکل کر اپنے پروردگار کی غلامی میں آجاتا ہے۔ یہی غلامی جنت کی ابدی بادشاہی کا پیش خیمہ ہے۔

آپ کا حصہ

اس ماہ کی عظمت اور برکت بلاشبہ عظیم ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کی رحمتیں اور برکتیں ہر اس شخص کے حصہ میں آجائیں جو اس مہینہ کو پائے۔ کسان کی طرح آپ محنت اور عمل کریں گے تو جنت کے انعامات کی فصل تیار ہوگی اور جتنی محنت کریں گے اتنی ہی اچھی فصل ہوگی’ دل پتھر کی طرح سخت ہوں گے اور آپ غافل کسان کی طرح سوتے پڑے رہ جائیں گے تو روزہ اور تراویح کی رحمتوں کی ساری بارش بہہ جائے گی اور آپ کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔ تو ایسا نہ ہو کہ رمضان گزر جائے رحمتوں اور برکتوں کے باوجود آپ اتنے بدنصیب ہوں کہ آپ کی جھولی خالی رہ جائے۔ اپنے حصہ کی رحمتیں لوٹنے کے لیے کمر کس لیجیے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ رمضان کی تیاری کیسے کی جائے اور رمضان میں کن باتوں کا خیال رکھنا اور کن باتوں سے بچنا چاہیے۔

رمضان کی تیاری کیجیے

  • دعا: رمضان سے پہلے ہی یہ دعا نمازوں کے بعد چلتے پھرتے اور ہوسکے تو نمازِ حاجت پڑھ کر مانگنا شروع کر دیں کہ اے اللہ! مجھے اس رمضان سے بھرپور نفع اٹھانے کی توفیق عطا فرما۔ اس بات کو یاد رکھتے ہوئے دعا کیجیے کہ جبرئیلؑ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور فرمایا:

‘‘اس آدمی کے لیے ہلاکت ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اپنے گناہوں کی بخشش اور معافی نہ حاصل کرسکا اور آپؐ نے اس کے جواب میں آمین کہی’’۔ (حاکم)

  • خریداری کی تکمیل: رمضان اور عید کی خریداری کے حوالے سے جتنے کام پہلے ممکن ہیں کرڈالیے ورنہ ہوتا یہ ہے کہ شب قدر اور چاند رات جیسی قیمتی راتیں عید کی خریداری میں ضائع ہوجاتی ہیں۔ اگر مجبوراً رمضان کے دوران بازار جانا پڑ ہی جائے تو کوشش کریں کہ کم از کم وقت لگے۔ دل میں ہر وقت یہ فکر اور دعا ہو کہ دنیا کے یہ جتنے کام ہیں جتنی جلدی ہوسکے نمٹ جائیں اور زیادہ سے زیادہ وقت اللہ کے ذکر اور قرآن کی تلاوت میں صرف ہو۔
  • ملاقاتوں کی تکمیل: بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جن سے ایک مرتبہ کی ملاقات مہینہ بھر کے لیے کافی ہوتی ہے ایسی ملاقاتوں سے بھی رمضان سے پہلے کوشش کرکے فارغ ہوجائیں۔
  • حقوق واجبہ کی ادائیگی: رمضان سے پہلے اگر حقوق اللہ آپ کے ذمہ باقی ہیں مثلاً زکوٰۃ ادا نہیں کی’ روزے قضا ہیں تو ان کو ادا کر کے فارغ ہوجائیں۔ اسی طرح حقوق العباد میں کسی کا حق مارا ہے’ کسی کے ساتھ کسی بھی طرح کی زیادتی کی ہے تو اس کا حق ادا کیجیے اور اس سے معاف کرا لیں۔ اگر بالمشافہ ہمت نہ ہو تو ایک تحریر لکھ کر اس کے پاس بھیج دیں کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے ہمیں اس سے بھرپر فائدہ اٹھانے کے لیے ایک دوسرے کو معاف کر دینا چاہیے۔ جن سے آپ کی طرف سے زیادتی ہوئی ہے ان سے ایسا خوش اسلوبی کا برتاؤ کریں کہ وہ خوش ہوجائیں۔ اگر آپ سے کسی نے زیادتی کی ہے تو اسے معاف کردیں تاکہ اللہ آپ کو معاف کردے۔

سچی توبہ: یاد رکھیے ناپاکیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے صحیح تعلق نہیں پیدا ہوسکتا۔ لہٰذا جی بھر کر اپنے پچھلے تمام گناہ چاہے دل کا گناہ ہو یا آنکھ کا’ زبان کا ہو یا کان کا’ سب ندامتِ قلب کے ساتھ بارگاہِ الٰہی میں پیش کریں اور انھیں چھوڑنے اور آیندہ کبھی نہ کرنے کا عہد کریں۔

  • گناہوں کے اسباب سے دُوری: وہ محفلیں’ وہ دوست غرض وہ تمام چیزیں جو انسان کو گمراہ کرنے کا باعث بنتی ہیں خصوصاً جو آپ کی کمزوری ہیں ان سے دُور رہنے کی کوشش کیجیے۔

تراویح کے لیے مسجد کا انتخاب: ایسی مسجد تلاش کریں جہاں بڑے اطمینان سے اور ٹھہرٹھہر کے قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہو۔

  • حفظِ قرآن اور دعائیں: ہرمسلمان کو قرآنِ حکیم کم از کم اتنا ضرور حفظ کرنا چاہیے تاکہ وہ رمضان کی راتوں میں نفل نمازوں میں طویل قیام کرسکے۔ اسی طرح نماز کا ترجمہ’ قرآنی و مسنون دعائیں بھی یاد کرنا چاہییں۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نفل نمازوں میں قیام’ سجدہ اور رکوع میں مختلف اذکار مزید کیا کرتے تھے۔ انھیں بھی یاد کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ ان کا درست تلفظ بھی سیکھیں۔
  • رمضان چارٹ: اپنا رمضان چارٹ تیار کیجیے۔ مختلف کالم بنایئے۔ کون سی کمزوریاں دُور کرنا ہیں۔ کون سی خوبیاں اپنانا ہیں۔ کتنا قرآن’ احادیث’ درود’ اذکار روزانہ پڑھنے ہیں وغیرہ۔ روزانہ اس کو پُرکیجیے اور اپنا احتساب کیجیے۔

رمضان میں کرنے کے کام

  • نیت کی درستگی: روزہ خالص آخرت کے اجر کے لیے رکھیے۔ آپؐ نے فرمایا: جس نے دکھاوے کا روزہ رکھا اس نے شرک کیا’’۔ (احمد)
  • نمازوں میں سرگرمی: ہمیں نماز کو اپنے معمولات کا سب سے اہم حصہ بنانا چاہیے۔ مسجد میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز باجماعت کی پابندی کا عزم کیا جائے اور یہ کہ آیندہ نہ کوئی نماز فوت ہوگی اور نہ جماعت چھوٹے گی۔ خواتین بھی نماز اوّل وقت میں ادا کرنے کی کوشش کریں۔
  • انفاق فی سبیل اللہ: نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان میں بہت سخاوت کرتے تھے اور آپؐ کی سخاوت چلتی ہوئی ہوا سے زیادہ ہوتی تھی’’۔ (مشکوٰۃ)
  • سحر اور افطار کے احکام: آپؐ نے فرمایا: ‘‘سحری میں برکت ہے اسے ہرگز نہ چھوڑو’ اگر کچھ نہیں تو اس وقت پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا جائے کیونکہ سحری میں کھانے پینے والوں پر اللہ تعالیٰ رحمت فرماتا ہے اور فرشتے ان کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں’’۔ (احمد)

‘‘میری اُمت اس وقت تک خیر پر رہے گی جب تک افطار میں عجلت اور سحری میں تاخیر کرتی رہے گی’’۔ (احمد)

  • افطار کی دعا: ذَہَبَ الظَّمَآءُ وَابْتَلَتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ (ابوداؤد) ‘‘پیاس چلی گئی اور رگیں تر ہوگئیں اور اگر اللہ نے چاہے تو اجر ثابت ہوگیا’’۔
  • عمرہ : آپؐ نے فرمایا: ‘‘رمضان میں عمرے کا وہی اجر ہوگا جو میرے ساتھ حج کرنے کا ہے’’۔ (متفق علیہ)
  • اہم اوقات کا دھیان رکھنا: مرد و خواتین دونوں سحری کے لیے اپنے مقرر کردہ وقت سے کم از کم پندرہ بیس منٹ’ آدھا گھنٹہ پہلے اٹھیں۔ یہ تہجد کا وقت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سب سے زیادہ انھی گھڑیوں میں متوجہ ہوتی ہے۔ نفل’ اذکار اور رو رو کے دنیا اور آخرت کے لیے دعائیں کیجیے۔ اسی طرح افطار سے دس پندرہ منٹ قبل کوشش کر کے فارغ ہوں اور اس قیمتی وقت سے بھی بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ‘‘افطار کے وقت روزے دار کی دعا رد نہیں کی جاتی’’۔ (سنن ابن ماجہ)

  • گناہوں سے پرہیز: آپؐ نے فرمایا: ‘‘جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا ہی نہ چھوڑا تو اللہ کو اس بات کی حاجت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے’’۔ (بخاری)

‘‘روزہ (عذابِ الٰہی کے لیے) ڈھال ہے پس روزہ دار کو چاہیے کہ نہ فحش بات کہے’ نہ بدتمیزی کرے۔ اگر کوئی شخص اُس سے لڑے یا گالی دے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں’’۔ (بخاری)

  • سالانہ منصوبہ بندی کیجیے: رمضان جائزے کا وقت ہے۔ اس رمضان اور آیندہ رمضان کے دوران ہم نے کیا حاصل کیا اور کیا چھوڑنا ہے’ کتنا دین کا علم حاصل کرنا ہے’ آگے پھیلانا ہے۔ کون سی خوبیاں اپنے اندر اجاگر کرنا ہیں اور کون سی برائیاں چھوڑنا ہیں۔ بچوں کی تربیت اور تعلیم کے سلسلے میں کن چند خاص مقصد کو حاصل کرنا ہے۔ اس کی منصوبہ بندی کیجیے۔ اس بابرکت مہینہ میں جو بھی منصوبہ بنایا جائے گا اس میں اللہ کی رحمت شامل ہوگی۔
  • نیکی کی جستجو: ہرلمحہ ہر قسم کی نیکی کی طلب مومن کی فطرت کا لازم جزو ہونا چاہیے۔ آپؐ نے فرمایا:

‘‘جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیرفرض عبادت (یعنی سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانہ کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا اور اس ماہ میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانہ کے ستر فرضوں کے برابر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے جس نے اس مہینہ میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ آپؐ سے عرض کیا گیا: یارسولؐ اللہ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا تو آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی سے یا ایک کھجور سے یا ایک گھونٹ پانی سے ہی کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے گا۔ اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہ لگے گی تاآنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔ اس مبارک ماہ کا ابتدائی حصہ رحمت اور درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے رہائی ہے۔ اور جو اس ماہ میں اپنے غلام (ملازم) کے کام میں کمی کردے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو جہنم سے رہائی اور آزادی دے دے گا’’۔ (بیہقی)

خالق کی عبادت کے ساتھ اس کی مخلوق سے حسنِ سلوک بے پناہ اجر کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک نیک بخت خاتون رمضان شروع ہوتے ہی اہلِ محلہ میں سے تنگدست عورتوں کے کپڑے مفت سینا شروع کر دیتیں۔ غریب عوتیں اور ان کے بچے خوش خوش ان کے پاس بیٹھ کر اپنے کپڑے سلتے دیکھتے۔ اِس طرح سارا رمضان وہ غریب محلے داروں کی خوشیوں کا ذریعہ بنی رہتیں اور ان کی قلبی دعائیں سمیٹتیں۔ اسی طرح ہر انسان ایسے طریقے سوچ سکتا ہے جو اس کے وسائل و ذرائع کی مناسبت سے اس کے لیے رمضان میں زیادہ سے زیادہ خیروبرکت دلا سکیں۔ اہلِ ثروت حاجت مندون کی امداد کی طرف دھیان دیں۔ جو تنگدست ہیں مگر دین کا علم رکھتے ہیں وہ لوگوں کو دینی تعلیم دینے کی طرف توجہ دیں۔ جن کے پاس یہ بھی نہ ہو مگر ہوں تندرست وہ حاجت مندوں کے جسمانی کام کر کے ہی نیکیاں سمیٹنے کی کوشش کریں۔

  • کھانے میں اعتدال: روزہ اس لیے ہے کہ آدمی اپنی خواہشوں پر قابو پاسکے لیکن بعض لوگ رمضان کو لذتوں اور چٹخاروں کا مہینہ بنا لیتے ہیں۔ صحیح طرزعمل یہی ہے کہ کھانے پینے کو مقصدِ روزہ نہ بنایا جائے اور اس کے لیے خصوصی اہتمام نہ کیے جائیں۔ خوشحال لوگوں کو چاہیے کہ اپنے کھانے پینے پر اسراف کے بجائے غریب اور مسکین روزہ داروں کی مدد کریں۔
  • روزہ اور قرآن کا باہمی تعلق: اللہ تعالیٰ نے قرآن کے نزول کے لیے رمضان کا مہینہ منتخب فرمایا اور اس نعمت کی شکرگزاری کے لیے اس پورے مہینے کے روزے رکھنا فرض قرار دیا۔ لہٰذا رمضان میں تلاوتِ قرآن شب و روز کرنی چاہیے۔ آپؐ نے فرمایا:

‘‘جس نے رمضان میں روزے رکھے ایمان و احتساب کے ساتھ بخش دئیے گئے اس کے تمام سابقہ گناہ اور جس نے رمضان میں (راتوں کو) قیام کیا ایمان و احتساب کے ساتھ بخش دیئے گئے اس کے تمام سابقہ گناہ’’۔ (متفق علیہ)

‘‘روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گے (یعنی اس بندے کی جو دن میں روزہ رکھے گا اور رات میں اللہ کے حضور میں کھڑے ہوکر اس کا پاک کلام پڑھے گا یا سنے گا) روزہ عرض کرے گا اے میرے رب! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پوری کرنے سے روکے رکھا تھا’ آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما اور قرآن کہے گا کہ میں نے اس کو رات کے سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا’ خدوند آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما’ چنانچہ دونوں کی سفارش اس بندہ کے حق میں قبول فرمائی جائے گی اور اس پر خاص نوازشیں کی جائیں گی’’۔ (بیہقی)

یعنی رمضان کی راتیں یا ان کا زیادہ سے زیادہ حصہ قرآن مجید کے ساتھ بسر کیا جائے۔ روزوں کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے اور قرآن کے بارے میں ارشاد ہے کہ یہ متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔ لہٰذا روزے سے تقویٰ حاصل کیجیے اور رات کو قرآن کی بارش اپنے قلب پر برسایئے تاکہ آپ کی روح اس سے نشوونما حاصل کرے۔ تاہم یاد رہے کہ آپؐ نے فرمایا:

‘‘کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جنھیں اپنے روزوں سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی راتوں کو کھڑے ہو کر عبادت کرنے والے ایسے ہیں جنھیں اپنی اس عبادت سے رات کی نیند کو محرومی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا’’۔ (رواہ الدارمی)

  • دعوت الی القرآن: دنیا کی ساری نعمتیں آخری سانس کے ساتھ ہمارے لیے ختم ہوجائیں گی۔ جو چیز زندگی کے ان فانی لمحات کو لازوال زندگی میں اور ان ختم ہوجانے والی نعمتوں کو ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتوں میں بدل سکتی ہے۔ وہ صرف قرآن مجید کی نعمت ہے۔ کسی انسان کی سب سے بڑی خدمت اور اس کے ساتھ سب سے بڑی ہمدردی اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتی کہ آپ اسے اللہ کے غضب اور اس کی آگ سے بچاکر جنت سے ہم کنار کردیں۔ دنیا کی بھوک پیاس دنیا کی زندگی کے ساتھ ختم ہوجائے گی’ یہاں کا ہر دکھ گزر جائے گا مگر آخرت کی بھوک پیاس کبھی ختم نہ ہوگی وہاں کے دکھ درد کبھی ختم نہ ہوں گے وہاں کانٹوں کا کھانا اور لہو’ پیپ اور کھولتے ہوئے پانی کے گھونٹ ہمیشہ کا مقدر بن جائیں گے۔ فیصلہ اور دعا کیجیے کہ رمضان اور اس کے بعد آپ کے جان’ مال’ وقت کا ایک حصہ قرآن سیکھنے اور سکھانے کے کام میں صرف ہوگا۔

آخری عشرہ

جس طرح رمضان المبارک کو دوسرے مہینوں کے مقابلے میں فضیلت حاصل ہے اسی طرح اس کا آخری عشرہ پہلے دونوں عشروں سے افضل ہے۔

‘‘جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کمرکس لیتے اور شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگا دیتے’’۔ (متفق علیہ)

آخری عشرہ کی فضیلت کی ایک وجہ اس میں لیلۃ القدر کا ہونا ہے۔ لیلۃ القدر کی فضیلت کی وجوہات درج ذیل ہیں:

  • قرآن مجید کا نزول: قرآن مجید لیلۃ القدر میں نازل ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ‘‘ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا’’۔ (القدر ۹۷:۱)

‘‘ہم نے اس (قرآن) کو ایک نہایت مبارک رات میں اتارا ہے’’۔ (الدخان ۴۴:۳)

  • امورِ دنیا کی تقدیر و تقسیم: قرآن نے اس رات کو لیلۃ القدر یعنی فیصلوں کی رات کہا ہے۔ سورۃ الدخان میں ارشاد ہے: ‘‘اس رات میں تمام پر حکمت امور کی تقسیم ہوتی ہے خاص ہمارے حکم سے’’۔ (۴۴:۴)

اس رات کی اہمیت کا کون اندازہ کرسکتا ہے جس میں پوری کائنات کے لیے خدائی پروگرام طے ہوتا ہے اور سارے جہاں کا فیصلہ ہوتا ہے’ نیز فرمایا: ‘‘اس میں فرشتے اور روح الامین (امور کو دنیا میں نافذ کرنے کے لیے) اترتے ہیں ہر معاملے میں اپنے رب کی اجازت سے’’۔ (القدر ۹۷:۴)

  • برکت اور سلامتی کی عظیم رات: سورہ قدر میں اس رات کی عظمت کو دو پہلوؤں سے بیان کیا گیا ہے کہ ‘‘یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے’’۔ اور ‘‘یہ رات سلامتی ہے طلوعِ فجر تک’’۔
  • لیلۃ القدر کا تعین: آپؐ نے فرمایا: ‘‘لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو’’۔ (بخاری)

عبادت کا اہتمام: یہ کوئی عام رات نہیں ہے کہ اسے سو کر گزار دیا جائے۔ جو رحمتیں برکتیں اور خدا سے قرب کے مواقع اس ایک رات میں حاصل ہوتے ہیں وہ ہزاروں راتوں میں بھی نہیں ہوسکتے۔

آپؐ نے فرمایا:‘‘جس نے شب قدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ قیام کیا اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں’’۔ (متفق علیہ)

چنانچہ کسی شخص کو بھی اس کی تلاش سے بیگانہ نہیں ہونا چاہیے۔ کوشش کیجیے کہ کم از کم آخری عشرہ کی ہر طاق رات کا بیشتر حصہ اللہ کے حضور قیام و صلوٰۃ’ تلاوت و ذکر اور دعا و استغفار میں گزاریں۔ نصف شب سے سحری تک ہوسکے تو ضرور جاگیں۔ قرآنی و مسنون دعاؤں کی کوئی مستند کتاب لے کر اس کی تمام دعائیں رو رو کر اللہ تعالیٰ سے مانگیے تاکہ کوئی خیر مانگنے سے رہ نہ جائے۔ عبادت کرتے ہوئے یہ ارشاد نبوی یاد رہے۔

‘‘جو شخص شب قدر (کی برکات حاصل کرنے) سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا۔ اس سعادت سے صرف بے نصیب ہی محروم کیا جاتا ہے’’۔ (ابن ماجہ)

شب قدر کی خاص دعا

اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ (ترمذی) ‘‘اے اللہ تو بہت معاف اور کرم کرنے والا ہے اور معاف کر دینا تجھے پسند ہے پس تو میری خطائیں معاف فرما دے’’۔

رمضان کی آخری رات

‘‘رمضان کی آخری رات میں آپؐ کی اُمت کے لیے مغفرت اور بخشش کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ وہ شب قدر تو نہیں ہوتی لیکن عمل کرنے

 والا جب اپنا عمل پورا کرے تو اس کو پوری اُجرت مل جاتی ہے’’۔ (مسند احمد)

اعتکاف

روزے کا اصل مقصد دل’ دماغ’ جسم اور روح سب کا خدا کی طرف متوجہ ہونا ہے اور اسی کو حاصل کرنے کے لیے روزے کے ساتھ اعتکاف کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اعتکاف روزہ کی طرح لازم نہیں ہے۔ اعتکاف کی چند دن کی تربیت کا عمل معتکف کے دل پر یہ گہرا اثر چھوڑے گا کہ دنیا میں اپنے چاروں طرف ہر طرح کی رنگینیاں اور دلکشیاں دیکھنے کے باوجود خدا سے تعلق مضبوط رکھے۔ خدا کی نافرمانی سے بچے’ اس کی اطاعت میں قلب و روح کا سکون تلاش کرے۔

‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔ وفات تک آپ کا یہ معمول رہا۔ آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اہتمام سے اعتکاف کرتی رہیں’’۔ (متفق علیہ)

‘‘معتکف گناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کا نیکیوں کا حساب ساری نیکیاں کرنے والے بندے کی طرح جاری رہتا ہے اور نامۂ اعمال میں لکھا جاتا رہتا ہے’’۔ (ابن ماجہ)

معتکف کو اپنا سارا وقت نوافل’ تلاوتِ قرآن ’ذکر درود اور احادیث اور علومِ دینیہ کی کتب کے مطالعے میں گزارنا چاہیے۔ کسی عمل سے طبیعت اُکتائے تو دوسرے میں لگ جائے’ بے کار باتوں میں نہ لگے۔ سادہ اور ہلکی غذا استعمال کرے تاکہ یکسوئی سے عبادت کرسکے۔

رمضان کے بعد

۱- مومن کے دو دروازے ہیں: ایک عارضی اور ایک دائمی۔ عارضی درواز ہ رمضان میں اور دائمی دروازہ شعور کی عمر سے موت تک ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ‘‘اور مرتے دم تک اپنے رب کی بندگی میں لگے رہو’’۔ (الحجر۱۵:۹۹)

کیسے تعجب کی بات ہے کہ عارضی روزے کی پابندی اور دائمی روزے کو کھیل بنا لیا جائے۔

۲- رمضان کا سب سے بڑا تحفہ قرآن مجید ہے۔ رمضان اس نعمت کی یاد دہانی کرا کر رخصت ہوجاتا ہے۔ لازم ہے کہ بقیہ سارا سال اس کی تلاوت اور اس میں غوروتدبر جاری رہے۔

۳- ہر ماہ چند نفلی روزے ضرور رکھیے تاکہ نفس پر قابو پانے کی جو تربیت آپ نے رمضان کا پورا مہینہ لی اس کی مشق بقیہ گیارہ ماہ میں بھی ہوتی رہے۔ آپؐ نے فرمایا:

‘‘ جس نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ایک نفلی روزہ رکھا اللہ اسے جہنم سے اتنا دُور کردیں گے جتنا فاصلہ ایک کوا جینے سے مرنے تک طے کرسکتا ہے’’۔ (احمد)

۴- رمضان ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ موجودہ بے روزگاری اور گرانی سے ان لوگوں کی تعداد بہت بڑھا دی ہے جو محتاج ہونے کے باوجود کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتے۔ ان سب بھائی بہنوں کی رمصان کے بعد بھی خبر لیتے رہیے۔

آخری بات

زندگی کا سفر برق رفتاری سے جاری ہے۔ اس راہ میں شیطانی ہواؤں کے جھلسا دینے والے جھکڑ بھی ہیں۔ نفس کو بے تاب کر دینے والی خواہشیں بھی ہیں’ آرزوؤں اور تمناؤں کے الجھا دینے والے جال بھی ہیں’ گناہوں کے تباہ کر دینے والے حملے بھی ہیں اور آدمی کو غیرسنجیدہ’ لاپرواہ اور نادان بنا دینے والی فضا بھی۔

ان تباہ کن قوتوں سے مقابلہ کرنے اور ان کے شر سے محفوظ رہتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے شب و روز کی اس گردش میں جگہ جگہ ایسے پڑاؤ مہیا کیے ہیں کہ آپ ان پر پہنچ کر بقیہ سفر کے لیے خود کو تازم دم بنا لیں۔ ہر طرح سے مسلح اور تازہ دم ہوکر اگلا سفر شروع کریں۔ آپ کے لیے رمضان ایک بار پھر یہ موقع لے کر آرہا ہے کہ آپ اپنی محنت و ریاضت سے اس مہینے میں اپنے آپ کو اس لائق بنا لیں کہ سال بھر شیطان اور اپنے نفس سے جوانمردی سے نبٹ سکیں’ خواہشات کو زیر کرنے میں ہمت اور حوصلہ سے کام لے سکیں۔ اور رمضان کے شب و روز کی عبادتوں سے اپنے اندر اتنی توانائی پیدا کرلیں کہ آسانی کے ساتھ بقیہ سفر طے کرسکیں۔ خدانخواستہ یہ قیمتی لمحے اگر یونہی ضائع ہوگئے اور آپ کچھ حاصل نہ کرسکے تو اپنی بے بسی’ بے چارگی اور بے پناہ مشکلات کا اندازہ کیجیے۔ آنے والے گیارہ ماہ شیطان اس کے لشکر اور نفس جیسے مکار دشمن کے تباہ کن حملوں کا تصور کیجیے۔ کیسے یہ سفر آپ بغیر کسی ڈھال کے طے کرسکیں گے۔ پھر یہ موقع گیارہ ماہ کی طویل گردش کے بعد ہی آپ کو میسر آسکے گا اور نامعلوم کون دورانِ سفر ہی اس موقع سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائیں گے۔

سمجھ دار اور مبارک باد کے مستحق ہوں گے وہ لوگ جو اس مبارک موقع سے خاطرخواہ فائدہ اٹھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کر کے قلب و روح میں تازگی پیدا کرکے روزے رکھ کر تقویٰ کی ناقابلِ تسخیر قوت فراہم کر کے باقی ماندہ سفر شروع کریں گے۔ ان شاء اللہ جنت کی منزل انھی کی منتظر ہوگی۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس مبارک ماہ کے تمام روزے پورے آداب کے ساتھ رکھنے اور اس ماہ کی فضیلتوں سے بھرپور حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!