آج کا انسان صرف گھڑی کی مدد سے ہی وقت کا پتا لگاتا ہے۔ مگر جب گھڑی کی ایجاد نہیں ہوئی تھی تو لوگ دن میں وقت معلوم کرنے کے لیے سورج کی مدد لیتے تھے اور راتوں میں ستاروں کی۔ستاروں کی مدد سے لوگ صرف وقت ہی نہیں بلکہ سمتوں کا بھی صحیح اندازہ لگا لیتے تھے اور اپنا سفر صحیح سمت میں جاری رکھ پاتے تھے۔ اور چاند تو کھلے آسمان میں ایک قدرتی کیلنڈر ہے جس سے وقت کیا، دن، مہینے اور سال کی بھی پیمائش ہوتی تھی اور آج کے سائنسی دور میں بھی یہ برابر کارآمد ہے۔
ان قدرتی ذرائع سے آج انسان سے کہیں زیادہ چرند، پرند، نباتات، جمادات فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وقت کی اہمیت صرف انسان ہی نہیں بلکہ جانور بھی سمجھتے ہیں۔ وہ وقت کے بڑے پابند ہوتے ہیں اور ہر کام مقررہ وقت پر کرتے ہیں۔ وقت معلوم کرنے کے لیے ان کے پاس انسانوں کی طرح گھڑی نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے قدرت نے ایک حسیاتی نظام ان کے جسم میں کمپیوٹر پروگرامنگ کی طرح فٹ کر رکھا ہے جس کی مدد سے وہ اپنے کام مقررہ وقت پر انجام دیتے ہیں، وقت اور موسموں کا انہیں احساس ہوتا رہتا ہے۔
مرغا روزانہ صبح صادق کے وقت بانگ دیتا ہے، نہ ایک منٹ کم اور نہ زیادہ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قدرتی طور پر ان کے دماغ میں ایک رقیق مادہ ٹھیک مقررہ وقت پر حرکت کرتا ہے اور سبھی مرغے ایک وقت یعنی صبح صادق ہوتے ہی چاروں طرف سے بانگ دینا شروع کر دیتے ہیں۔ کبوتر اور چڑیاں بھی مرغوں کی طرح وقت کا احساس رکھتے ہیں اور وقت کے بہت پابند بھی ہوتے ہیں۔ ایک خاندان کے بزرگ صبح چھ بجے چڑیوں اور کبوتروں کو دانہ کھلایا کرتے تھے۔ یہ پرندے وقت سے پانچ منٹ پہلے ہی مقررہ مقام پر پہنچ جایا کرتے تھے۔ کیا مجال ہے کہ وہ کبھی بھی وقت سے ایک منٹ آگے یا پیچھے پہنچے ہوں۔ اسی طرح سمندری کیڑوں کو بھی وقت کا احساس رہتا ہے جیسے ہی جوار بھاٹے کا وقت ہوتا ہے وہ اپنی حفاظت کے لیے محفوظ مقامات پر چھپ جاتے ہیں۔ انہیں یہ بھی پتا ہوتا ہے کہ پانی کب واپس لوٹے گا۔ کچھ سائنس دانوں نے ان کیڑوں پر تجربات کیے تو انہیں معلوم ہوا کہ ٹھیک آدھ گھنٹے میں جیسے ہی پانی لوٹتا ہے کیڑے اپنے محفوظ مقام سے نکل کر باہر آجاتے ہیں۔ انہیں بڑی حیرت ہوئی کہ اتنے چھوٹے کیڑوں کو بھی وقت کا کتنا صحیح علم ہوتا ہے۔ سائنس دانوں نے شہد کی مکھیوں پر کچھ تجربات کیے تو انہیں معلوم ہوا کہ شہد کی مکھیوں کو بھی وقت کا صحیح صحیح احساس ہوتا ہے۔ انھوں نے کچھ مکھیوں کو رنگ دیا اور پھر یہ رنگی ہوئی مکھیاں اپنے چھتوں سے اُڑتیں تو ٹھیک تین گھنٹے کے بعد شہد اکٹھا کر کے دوبارہ اپنے چھتے میں لوٹ آتی تھیں۔ ان تین گھنٹوں کے وقفہ میں انھوں نے کبھی منٹوں کا بھی فرق نہیں ہونے دیا۔ یہ سچ مچ بڑی انوکھی بات ہے جیسے ان سے کہہ دیا گیا ہو کہ اتنے ہی وقت میں یہ کام پورا کرنا ہے۔
اٹلی کے ایک شخص نے بلی پال رکھی تھی۔ اسے ہرروز پانچ بجے فیکٹری میں کام کے لیے جانا ہوتا تھا۔ مگر اس کی آنکھ دیر سے کھلتی تھی جس کی وجہ سے وہ اکثر لیٹ ہوجاتا۔ ایک روز وہ کافی پریشان تھا اور گھر میں اس مسئلہ پر گفتگو کر رہا تھا۔ اس وقت بلی بھی وہاں موجود تھی۔ اگلے روز سے اس کی بلی اسے چار بجے جگانے لگی۔ وہ اپنے مالک کے پاس جاتی اور اس کا ہاتھ چاٹ کر اسے جگا دیتی۔ جب تک یہ سلسلہ چلا بلی کبھی بھی اپنے معین وقت سے اِدھر اُدھر نہیں ہوئی۔
موسم اور ماحولیاتی تبدیلی کا احساس چرند پرند میں ہم انسانوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح بہت سے جانوروں کو زلزلہ آنے کا پہلے ہی احساس ہوجاتا ہے۔ ان میں چیونٹی، دیمک، چوہا، خرگوش اور سانپ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
زلزلہ کے ہلکے سے جھٹکے کو بھی یہ جانور محسوس کرلیتے ہیں اور ان کے برتاؤ میں ایک دم سے حیرت انگیز تبدیلی آجاتی ہے جس سے آنے والے خطرے کا کافی پہلے سے پتا چل جاتا ہے اور قہرالٰہی اور عذاب کا بھی انہیں انسانوں سے پہلے احساس ہوجاتا ہے۔ چین اور جاپان میں جانوروں کی اس طرح کی حرکتوں سے ہوشیار ہوکر کئی بار بھیانک زلزلوں سے بہت حد تک جانی و مالی نقصان سے بچا جاچکا ہے۔
اس طرح جاندار قدرت کے قانون کے پوری طرح قائل اور پابند ہیں اور خداتعالیٰ کی حمدوثنااور شکرگزاری بھی قدرتی ضابطے کے مطابق کر رہے ہیں۔ مگر انسان اب تک قدرتی قانون اور احکام الٰہی سے دُور رہا ہے اور اپنی نفس کی پیروی کر رہا ہے۔ جب گھڑی خراب ہوتی ہے تو وہ غفلت میں سویا رہ جاتا ہے اور فجر کی نماز چھوٹ جاتی ہے۔
(ماہنامہ حجاب، اگست ۲۰۰۵ء)