صلیبی جہاد نے ازمنہ وسطی کے یورپ کو مشرق وسطی کے دوش بدوش کھڑا کر دیا تھا۔یورپ اس عہد کے مسیحی دماغ کی نمائندگی کرتا تھااور مشرق وسطی مسلمانوں کے دماغ کی۔اور دونوں کی متقابل حالت سے ان کی متضاد نوعیتیں آشکارا ہو گئی تھیں۔
یورپ مذہب کے مجنونانہ جوش کا علمبر دار تھا اور مسلمان علم دو انش کے علم بردار۔یورپ دعاؤں کے ہتھیار سے لڑناچاہتا تھا اور مسلمان لوہے اور آگ کے ہتھیاروں سے لڑتے تھے یورپ کا اعتماد صرف خداکی مدد پر تھا ، مسلمانوں کا خدا کی مد د پر تھا لیکن خدا کے پیدا کیے ہوئے سروساما ن پر بھی تھا۔ ایک صرف روحانی قوتوں کا معتقد تھا دوسرا روحانی اور مادی دونوں کا۔ پہلے نے معجزوں کے ظہور کا انتظار کیا دوسرے نے نتائج عمل کے ظہور کا ۔ معجزے ظاہر نہیں ہوئے لیکن نتائج عمل نے ظاہر ہو کر فتح و شکست کا فیصلہ کردیا۔
ژوایں ویل کی سرگزشت میں بھی یہ متضاد تقابل ہر جگہ نمایاں ہے ۔ جب مصری فوج نے منجنیقوں کے ذریعہ سے آگ کے بان پھینکنے شروع کیے تو فرانسیسی جن کے پاس پرانے دستی ہتھیار وں کے سوا اور کچھ نہ تھا بالکل بے بس ہو گئے ۔
ژاویل اس سلسلے میں لکھتا ہے۔
‘‘ ایک رات جب ہم ان برجیوں پر جودریا کے راستے کی حفاظت کے لیے بنائی گئی تھیں پہرہ دے رہے تھے تواچانک کیا دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے ایک انجن جسے پٹریری(یعنی منجنیق ) کہتے ہیں لا کر نصب کر دیا اوراس سے ہم پر آگ پھینکنے لگے یہ حال دیکھکر میرے لارڈ والٹر نے جوایک اچھا نائٹ تھا ہمیں یوں مخاطب کیا اس وقت ہماری زندگی کا سب سے بڑا خطرہ پیش آ گیا ہے کیونکہ اگر ہم ان نے برجیوں کو نہ چھوڑا اورمسلمانوں نے ان میں آگ لگا دی ، تو ہم بھی برجیوں کے ساتھ جل کر خاک ہو جائیں گے لیکن اگر ہم برجیوں کو چھوڑ کر نکل جاتے ہیں تو پھر ہماری بے عزتی میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ ہم ان کی حفاظت پر مامور کیے گئے ہیں ایسی حالت میں خداکے سوا کوئی نہیں جو ہمارا بچاؤ کر سکے ۔ میرا مشورہ آپ سب لوگوں کو یہ ہے کہ جوں ہی مسلمان آگ کے بان جلائیں ، ہمیں چاہییے کہ گھٹنوں کے بل جھک جائیں اور اپنے نجات دہند ہ خداوندسے دعا مانگیں کہ اس مصیبت میں ہماری مدد کرے۔’’ چنانچہ ہم سب نے ایسا ہی کیا۔ جیسے ہی مسلمانوں کا پہلابان چلا ہم گھٹنوں کے بل جھک گئے اوردعا میں مشغول ہو گئے ۔ یہ بان اتنے بڑے تھے کہ جیسے شراب کے پیپے ، اور آگ کا جو شعلہ ان سے نکلتاتھا اس کی دم اتنی لمبی ہوتی تھی جیسے ایک بہت بڑا نیزہ ، جب یہ آتا تو ایسی آواز نکلتی جیسے بادل گرج رہے ہوں۔ اس کی شکل ایسی دکھائی دیتی تھی جیسے ایک آتشیں اژدہا ہوا میں اڑ رہا ہے اس کی روشنی نہایت تیز تھی چھاؤنی کے تمام حصے اس طرح اجالے میں آجاتے تھے جیسے دن نکل آیا ہو۔’’
اس کے بعد خود لوئس کی نسبت لکھتا ہے۔
‘‘ ہر مرتبہ جب بان چھوٹنے کی آواز ہمارا ولی صفت بادشاہ سنتا تھا توبستر سے اٹھ کھڑا ہوتا تھا اور روتے روتے ہاتھ اٹھا اٹھا کر ہمارے نجات دہند ہ سے التجائیں کرتا ،مہربان مولی میرے آدمیوں کی حفاظت کر ، میں یقین کرتا ہوں کہ ہمارے پادشاہ کی ان دعاؤں نے ہمیں ضرورفائد ہ پہنچایا۔’’
لیکن فائدہ کا یہ یقین خوش اعتقاد انہ وہم سے زیاد ہ نہ تھا کیونکہ بالآخر کوئی دعا بھی سود مند نہ ہوئی اور آگ کے بانوں نے تمام برجیوں کو جلا کر خاکستر کرد یا۔
یہ حال تو تیرھویں صدی مسیحی کا تھا لیکن چند صدیوں کے بعد جب پھر یورپ اور مشرق کا مقابلہ ہواتو اب صورت حال یکسر الٹ چکی تھی اب دونوں جماعتوں کے متضاد خصائص اسی طرح نمایاں تھے جس طرح صلیبی جنگ کے عہد میں رہے تھے اور جو جگہ مسلمانوں کی تھی اسے اب یورپ نے اختیارکر لیا تھا۔
اٹھارویں صدی کے اواخر میں جب نپولین نے مصر پر حملہ کیا تو مرادبک نے جامع ازہر کے علما کو جمع کر کے ان سے مشورہ کیا تھا کہ اب کیا کرنا چاہیے علمائے ازہر نے بالاتفاق یہ رائے دی تھی کہ جامع ازہر میں صحیح بخاری کا ختم شروع کر دینا چاہیے کہ انجاح مقاصد کے لیے تیر بہدف ہے ۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا لیکن ابھی صحیح بخاری کا ختم ، ختم نہیں ہوا تھا کہ اہرام کی لڑائی نے مصر ی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ شیخ عبدالرحمن الجبرتی نے اس عہد کے چشم دید حالات قلمبند کیے ہیں اوریہ بڑے ہی عبرت انگیز ہیں۔ انیسویں صدی کے اوائل میں جب روسیوں نے بخارا کا محاصر ہ کیاتھا تو امیر بخارا نے اسے حکم دیا کہ تمام مدرسوں اورمسجدوں میں ختم خواجگان پڑھا جائے ادھر روسیوں کی قلعہ شکن توپیں شہر کا حصار منہدم کر رہی تھیں ادھر لوگ ختم خواجگان کے حلقوں میں بیٹھے یا مقلب القلوب ، یا محول الاحوال کے نعرے لگا رہے تھے بالآخر وہی نتیجہ نکلا جو ایک ایسے مقابلہ کا نکلنا تھا جس میں ایک طرف گولہ بارود ہو دوسری طرف ختم خواجگان دعائیں ضرور فائد ہ پہنچاتی ہیں مگر انہی کو پہنچاتی ہیں جو عزم و ہمت رکھتے ہیں بے ہمتوں کے لیے تو وہ ترک عمل اورتعلطل قوی کا حیلہ بن جاتی ہیں۔
(ابوالکلام آزاد ،بحوالہ غبار خاطر، مرتبہ مالک رام، اسلامک پبلشنگ ہاؤس ص، ۱۴۶تا ۱۴۸)