منتخب کالم
خانہ خدا اور ایجاد افرنگ
سلیم جاوید
بہت عرصہ سے یہ سوال، میری سوچ میں ابھرتا ہے کہ آخر لاؤڈ سپیکرز کا مساجد میں کیا کام ہے؟
خدا کا نبی، نماز کی لذت میں ساری رات کھڑے گذاردیتا تھا مگر اپنی امت کے اماموں کو وصیت فرمائی کہ جماعت کی نماز مختصر پڑھایا کریں تاکہ بوڑھے اور بیمار مقتدیوں کو تکلیف نہ ہو۔ بوڑھے اور بیماروں کی خاطر، فرض نمازوں میں رعایت دینے والے شفیق و رحیم نبی کواگر پتہ چلے کہ پاکستان کے ایک ایک محلے موجود، چار چار مساجد جن کے میناروں پر نصب درجن بھر لاؤڈ سپیکرز ،بوڑھوں بیماروں کے ساتھ کیا کررہے ہیں تو اسکے دل کا کیا حال ہوگا؟
مساجد میں لاؤڈ سپیکر کا ایک استعمال تو روازنہ کا ہے یعنی نمازو اذان، پھر ہفتہ واری ہے یعنی جمعہ اور پھر سالانہ یعنی رمضان۔ مگراس کے علاوہ بھی مساجد کا لاؤڈ سپیکر بے دریغ استعمال ہوتا رہتا ہے۔
پنجاب کے دیہات میں تو روزانہ سبزی گوشت کا بھاؤ بھی مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے نشر کیا جاتاہے۔ علاوہ ازیں، پانچ دس روپے چندہ دینے والے سخی حضرات کا شجرہ بیان کرنے کا پروگرام بھی مسلسل جاری رہتا ہے۔ دن کو اگر لڑکے بالوں کے نعتیہ آڈیشن نشر ہوتے ہیں تو گاہے رات گئے، کوئی کار ازرفتہ بوڑھا بھی مسجد کے سپیکر پر ہی ریاض فرمانے آجاتا ہے۔ ایک بریکنگ نیوز، جو رات دن کے کسی بھی لمحے نشر کی جاسکتی ہے، وہ فوتگی اور جنازہ کے اعلان کی ہوتی ہے، جو شہروں میں کم اور دیہات میں زیادہ ہوتی ہے۔ حالانکہ شہروں میں نفسا نفسی ہوتی ہے جبکہ دیہات میں تو آپس کا بندھن ،سپیکر کا محتاج نہیں۔ حالت یہ ہوچکی ہے کہ لوگ مسجد کے پڑوس کا پلاٹ لینے کو تیار نہیں۔ کئی سال قبل مجھے اسکا ذاتی تجربہ ہوچکا۔ میرے دوست حامد الحق نے (جو آجکل پشاور سے تحریک انصاف کا ایم این اے ہے)، میرے لئے شیخوپورہ میں، بہت ہی کم کرائے پر ایک مکان ڈھونڈا۔ اچھا مکان تھا، دوسری منزل پر واقع تھا۔ کرایہ کم اس لئے تھا کہ اسکے صحن میں ساتھ والی مسجد کا لاوڈ سپیکر جھانک رہا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ خدا کا پڑوس، اسقدر گراں گذرے گا۔
عجیب یہ کہ جس قدر شدت سے بریلوی علمائے سلف نے لاؤڈ سپیکر کے حرام ہونے کا فتوی دیا ہے، اسی قدر انکی حالیہ نسل اسکو حرزجان بنائے ہے۔ خیر! دیوبند کے بیشتر علمائے سلف بھی لاؤڈ سپیکر کو حرام قرار دیتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ سب علماء4 بڑے صاحبِ بصیرت تھے جنہوں نے لاؤڈ سپیکر کے حرام ہونے کا فتوی دیا تھا۔
مگر ٹھہرئیے! یہاں مجھے ایک مغالطے کا جواب بھی عرض کرنے دیجئے۔
ایک پراپیگنڈہ چل رہا ہے کہ مولوی ہر ایجاد کو پہلے حرام قرار دیا کرتے ہیں، پھر اسے گلے لگالیتے ہیں۔ اس ضمن میں خاکسار،پرنٹنگ پریس، ڈی این اے وغیرہ موضوعات پہ پہلے ہی لکھ چکا ہے۔ آج لاؤڈ سپیکر کی کہانی بھی سنتے جائیں۔
برصغیر کی پہلے سیاسی جماعت، کانگریس نہیں تھی بلکہ جمیعت علماء ہند تھی۔ پس پہلے سیاسی جلسے تو جمعیت علماء نے کئے اور یوں پہلی بار لاؤڈ سپیکر کا استعمال بھی علماء ہند نے کیا، تو اسے حرام کیسے کہہ سکتے تھے؟فتوی میں دراصل پوچھا یہ گیا تھا کہ کیا نماز کے لئے لاؤڈ سپیکر کا استعمال جائز ہے؟ اسکے جواب میں ،نماز میں لاؤڈ سپیکر کو حرام قرار دیاگیا کیونکہ اس میں ایک فقہی باریکی تھی اوروہ یہ کہ انسانی کی بجائے، مشینی آواز پہ رکوع و سجود جائز ہے یا نہیں؟۔ (اس وقت تک یہی کنفیوزن تھی کہ سپیکر میں اصل آواز کی پِچ بلند ہوجاتی ہے یا برآمد آواز، الگ مشینی آوازہوتی ہے؟)
اس جملہ معترضہ کے بعد، واپس اپنے موضوع پہ آتے ہیں۔ مساجد میں لاؤڈ سپیکر کا روزانہ استعمال، اذان اور نماز کے لئے ہے۔
اذان کے سنت الفاظ احادیث کی کتب میں درج ہیں مگربعض مساجد میں اذان کے ساتھ مزید سابقے لاحقے ملا کر، اسکو چوتھائی گھنٹے تک کھینچا جاتا ہے۔ پھر پاکستان میں ہر مسجد میں نماز اور اذان کے اوقات الگ ہیں۔ چنانچہ ایک ہی محلے کے کئی سریلے موذن، ایک دوسرے کی اذان ختم ہونے کے انتظار میں ہوتے ہیں تاکہ ان کی باری شروع ہو اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ چونکہ مغرب کی نماز کا ایک ہی وقت ہے تو عوام کوعشاء تک وقفہ مل سکتا ہے۔ لیکن اگر اتفاق سے قریب میں اہل تشیع کی مسجد ہو تو اس وقفہ میں ایک اور طویل اذان میسر آجاتی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ اذان ہو تو خاموش ہو جاؤ پر ایسے میں آدمی بولے کب؟
دیکھئے،اذان، شعائرِ اسلام میں سے ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اذان، اصلاً عبادت ہے یا اعلان؟
اگر یہ عبادت ہے تو پھر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس کا موقع دینا چاہئے۔ سپیکر کی بجائے، مسجد کے اطراف میں کئی موذن یہ عبادت سرانجام دیکر ثواب کمائیں۔ لیکن اگر یہ اعلان ہے تو پھر ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہئے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اعلان پہنچ جائے۔ پھر لاؤڈ سپیکر کی بجائے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے، مرکزی سطح پر ایک موذن مقرر ہو، وہ اذان کہے اور پورے شہر میں سٹلائیٹ کنکشن سے یہ گونج جائے۔
میرے خیال میں، اذان اصلاً ایک عبادت ہے جسکے بڑے فضائل ہیں اور ضمناً یہ اعلان ہے۔ مدینہ میں بلال سے زیادہ فصیح اور بلند آواز صحابی بھی موجود تھے (ایک صحابی کی آواز بارہ میل تک جاتی تھی)۔ اگریہ اصلاً اعلان ہوتا تو کسی بلند آواز صحابی کو موذن بنایا جاتا۔
میں آپ کو ایک ایسی اذان کا قصہ بھی سناؤں جس میں مسجد کو بلانے کی بجائے، مسجد میں آنے سے روکا گیا۔ حضور کے دور میں ایک بار مدینہ میں شدید بارش ہوئی تو فجر کے وقت، لوگوں کو مسجد بلانے کی بجائے، گھروں میں نماز پڑھنے کا کہنے کو اذان دی گئی۔ اب اس واقعہ سے میرا استدلال یہ ہے کہ اگر صحابہ، اذان کی بنیاد پرمسجد آیا کرتے تھے تو منع کرنے والی اذان کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اذان نہ ہوتی تو وہ خودبخود مسجد کو نہ آتے۔ معلوم ہوا کہ نماز کا وقت ہوتے ہی وہ لوگ بلا اذان کا انتظار کئے، مسجد آجایا کرتے تھے۔ پس بارش والے دن ان کو منع کرنا پڑا۔ تاہم، ایک اور حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اذان، اعلان کی خاطر وجود میں آئی ورنہ پہلے اذان کے بغیر نماز ہوا کرتی تھی۔ بہرحال، جو بھی صورت ہو،لاوڈ سپیکر صاحب اس میں فٹ نہیں بیٹھتے۔
بر سبیل تذکرہ، اس سلسلے میں سب سے عجیب انداز حرم شریف میں اپنایا جاتا ہے۔ جب لاؤڈ سپیکر ایجاد نہیں ہوئے تھے تو حرم میں امام کے بعد، مکبرین حضرات، تکبیر کہتے تھے تاکہ سب کو آواز پہنچ جائے۔ اب حرم شریف میں لگے 4 ہزار لاؤڈ سپیکروں میں امام کی تکبیر، باہر ہوٹلوں تک لوگ سن لیتے ہیں تو پھر نہ جانے کیوں مکبر صاحب بھی الگ سے ایک لمبی تکبیر دہراتے ہیں جو ذوق پہ گراں گزرتی ہے۔
خیر،اب لاوڈ سپیکر کے ہفتہ واری استعمال یعنی جمعۃالمبارک کی بات بھی کرلی جائے۔
کاش یہ بات ہمارے ذہن نشین ہوجائے کہ لاؤڈ سپیکر،کانوں تک آواز پہنچانے کے لئے ہے نہ کہ آواز ٹھونسنے کیلئے۔ اب اگلی گذارش یہ ہے کہ جمعہ کا عربی خطبہ کہنا سنت ہے۔ مگر کیا سب نمازیوں کا اسے اپنے کانوں سے سننا اورسمجھنا بھی ضروری ہے؟ جب سپیکر نہیں تھے تو ہزاروں کا مجمع، جمعہ کا خطبہ کیسے سنتا تھا؟ پھرہمارے ہاں مروج ،اردو تقریر تو فقط ایک اضافہ ہے۔ تشنگانِ علم کو جمعہ کے مبارک دن یہ اضافی تقریر سننا چاہئے۔ مگر میرا مشورہ ہے کہ عربی خطبہ اورنماز سے بروقت فارغ ہوکر، چاہے عصر تک مولوی صاحب تقریر کرتے رہیں اور سچے مسلمان سنتے رہیں ،اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ البتہ میرا خیال ہے کہ جمعہ کے بعد، ان باقی ماندہ مسلمانوں کے لئے تو شاید چھوٹے ڈیک کی بھی ضرورت نہ پڑے۔
لاؤڈ سپیکر کا سالانہ استعمال عیدین اور تراویح کی نماز کے لئے ہوتا ہے سو عبادت کے اس خصوصی ماہ کے لئے، ہر کوئی گنجائش دے گا۔ تاہم، میرا مشورہ ہے کہ ماشاء اللہ، حفاظ کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر، تراویح کی کئی جماعتیں ہوں تاکہ حفاظ کا حوصلہ بڑھے۔ بیٹھک وغیرہ کے علاوہ، بڑی مساجد میں تراویح کی الگ الگ جماعتیں ہوسکتی ہیں اور ہونا چاہئیں۔ حرم میں سپیکر کی ایجاد سے قبل، تراویح کی کئی جماعتیں ہوا کرتی تھیں۔ صاف ظاہر کہ چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں سپیکر کی ضرورت نہ رہے گی۔ بالفرض، اگر ایک ہی جماعت کرنا ہو تو بھی آواز کی منیجمنٹ، مجمع کے مطابق ہوسکتی اور اس کے لئے بھی مینار پہ لگے بھونپو کا استعمال ہرگز قابل فہم نہیں۔ بازاروں میں قرآن کی آواز اور لوگوں کے مشاغل کا ایک ساتھ چلنا بھی قرآن کی بے حرمتی ہے۔
میں تو جملہ مومنین سے یہی گذارش کروں گا کہ اپنی مساجد کو نہ سہی مگر اپنی عبادات کو کم از کم مشینی لمس سے محفوظ رکھیں اور معاشرے کو بھی سکھ کا سانس لینے دیں۔
بعض مخلص دوست، شکوہ کرتے ہیں کہ شادی بیاہ کے فنکشن پہ محلے بھر کی نیند اڑا دی جاتی تو اس پہ کوئی شکوہ نہیں لیکن مسجد کے سپیکر پر لوگوں کو اعتراض ہے۔
بھائی، اگرچہ ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ حکومت کو کسی بھی ایسے شوروغوغا پہ پابندی لگانا چاہئے جس پہ اہل علاقہ معترض ہوں یا ان کو تکلیف ہوتی ہو۔ مگر بات یہ ہے کہ کسی معاملے پر جب مذہبی ملمع چڑھا دیا جائے تو بندہ خارجی کے علاوہ اپنے داخلی مذہبی جذبات سے بلیک میل ہوکر مجبور ہو رہتا ہے۔ آپ کے گھر کوئی بوڑھا بیمار ہو اور ہمسائے میں پرشور موسیقی چل رہی ہو تو اسے منع کیا جاسکتا ہے۔ مگر ہمسائے میں مولوی ‘‘ٹوکہ’’ کی ولولہ انگیز خطابت چل رہی ہو تو اسے منع کرنا، خود بیمار کو بھی احساس گناہ میں مبتلا کرتا ہے اوراگر منع کرنے کی جرات کر بھی لے، تو جوابی وعظ سننے کے بعد، شاید موت کو ترجیح دے گا۔
یادش بخیر! یونیورسٹی کے زمانے میں ہمارے ہاسٹل کے ایک دوست نے منت کی کہ رات آپ کے کمرے میں گزارا کروں گا۔ کیوں کہ اسکا روم میٹ، تہجد کے وقت اٹھ کر، نقشبندی ذکر جہر کیا کرتا تھا جس سے ناک کے ذریعے خراٹے لے کر، خدا تک پہنچا جاتا تھا۔ یہ بیچارہ، اس کو منع کرنا گناہ سمجھتا تھا۔
بہرکیف! سو باتوں کی ایک بات یہ کہ کیا لاؤڈ سپیکرکی مساجد میں شرعی ضرورت ہے یا نہیں؟
ایک آئین پسند شہری ہونے کے ناطے، اسلامی نظریاتی کونسل سے ہی گذارش ہے کہ لاوڈ سپیکر کے مسئلے پر ضرور غور وخوض کریں 150خاکسار کا مطالبہ تو بہرحال یہ ہے کہ مساجد میں ، لاؤڈ سپیکر پرنہ صرف پابندی لگائے جائے بلکہ موجودہ سپیکروں کو بحق سرکار ضبط کرلیا جائے۔ امید ہے اسکے بعد، فرقہ پرست آتش دہن مولوی معدوم ہوجائیں گے ، جس سے نہ صرف معاشرے میں کچھ سکون آئے گا بلکہ سنجیدہ علمائے کرام کو بھی کماحقہم پذیرائی ملے گی۔