حضرت بلالؓ ایک جلیل القدر صحابی اور نبی کریمﷺ کے خادم خصوصی تھے۔ حبشہ کے رہنے والے تھے اس لیے آپ کو بلال حبشی بھی کہا جاتا ہے۔ بعثت نبوی کے آغاز میں آپ امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ جیسے ہی کلمہ حق آپ نے سنا اور اسلام کی دعوت سے آپ روشناس ہوئے آپ نے فورا ًہی اس پر لبیک کہا اور مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ ظالم آقا اطلاع ملتے ہی مشتعل ہو گیا۔ کیونکہ اسے دین حق اورنبی کریمﷺ کی ذات گرامی سے شدید بغض تھا۔ حضرت بلالؓ کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے اس نے ہر طرح کے مظالم ڈھائے کبھی چلچلاتی ہوئی دھوپ میں انہیں بٹھا دیا جاتا ، کبھی جلتی ہوئی ریت پر انہیں لٹا کر ان کے جسم پر کوئی پتھر رکھ دیا جاتا کہ وہ حرکت بھی نہ کر سکیں ، کبھی ان کے گلے میں رسی ڈال کر اوباش نوجوانوں کے ہاتھوں میں تھما دیا جاتا کہ ان کو تپتی ہوئی کنکریوں پر گھیٹتے پھریں۔ ان سب مصائب و آلام کے باوجود ان کی زبان سے صرف ‘‘احد احد’’ ہی کا نعرہ نکلتا تھا۔ ظلم و ستم کا یہ حال زار حضرت ابوبکر صدیقؓ سے دیکھا نہیں گیا اور انہوں نے منہ مانگی قیمت دیکر حضرت بلال کو خرید لیا اور اللہ کے راستے میں آزاد کر دیا۔ چنانچہ جس دن حضرت بلالؓ کا انتقال ہوا ہے اس دن حضرت عمر فاروقؓ نے وفور درد و غم سے بے تاب ہو کر اپنے تاثرات کا اظہار اس طرح فرمایا ‘‘اعتق سیدنا سیدنا مات الیوم سیدنا’’ ہمارے ایک آقا یعنی ابوبکر صدیقؓ نے ہمارے ایک اور آقا حضرت بلالؓ کو آزاد کیا۔ آج ہمار ے آقا دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔ حضرت صدیقؓ نے حضرت بلالؓ کو آزاد تو کر دیا، لیکن آزادی کے بعد وہ اپنے ملک حبشہ واپس ہونے کے بجائے مکہ مکرمہ ہی میں ٹھہر گئے اورنبی کریمﷺ کے خادم خصوصی بن گئے۔ نبی کریمﷺ نے امہات المومنین کے گھروں کی ضروریات کے سلسلے میں سازوسامان کی فراہمی کا معاملہ انہیں کے سپرد کر دیا، جسے وہ بڑی خوشی اور خوش دلی کے ساتھ انجام دیا کرتے تھے ۔ حضرت بلالؓ کے مقام و مرتبہ کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جا سکتا ہے کہ نبی کریمﷺ جب سفر معراج سے واپس تشریف لائے تو آپ نے حضرت بلالؓ سے دریافت فرمایا کہ معراج کے موقع پر جب میں جنت کا مشاہدہ کر رہا تھا تو اپنے سامنے تمہارے جوتوں کی چاپ سن رہا تھا اور مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ میں جہاں سے بھی گزرتا تھا تم میرے سامنے جا رہے ہو، آخر تمہارے پاس ایسا حسن عمل اور کار خیر کون سا ہے؟ حضرت بلالؓ نے جواب دیا کہ میں وہی عمل کرتا ہوں جن کا اللہ نے حکم دیا ہے اور آپ ؐنے ہدایت فرمائی ہے۔ البتہ آپؐ ہی کی ہدایت کی روشنی میں ایک نفل عبادت کا التزام ضرور کرتا ہوں وہ یہ کہ میں ہمیشہ باوضو رہنے کی کوشش کرتا ہوں ، جب بھی میرا وضو ختم ہوجاتا ہے، میں وضو کر لیتا ہوں او روضو کے بعد تحیۃ الوضو کے طور پر دو رکعت نماز بھی پڑھ لیتا ہوں۔ یوں تو حضرت بلالؓ کی بہت سی خصوصیات ہیں لیکن آپ کی امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ آپ کو موذن رسول ﷺ ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔
ہجرت کے بعد جب نماز کے لیے بلانے کے طریقے پر مشورہ کیا گیا تو عبداللہ بن زید کا خواب سن کر حضور نے کہا یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اسی طریقے کو پسند کرتے ہوئے حضرت بلال کو اذان دینے کا حکم دیا ۔ چنانچہ حضرت بلالؓ نے مسجد نبوی کے ایک بلند مقام پر تاریخ اسلام کی سب سے پہلی اذان دی اور یہ تھی حضرت بلالؓ کی پہلی یادگار اذان ۔
صبح کے سناٹے میں حضرت بلالؓ اذان دینے لگے تو اذان دیتے ہوئے خود بھی مسحور و مسرور ہو رہے تھے اور مدینہ منورہ کی فضاؤں کو بھی مست و مخمور کر رہے تھے۔ کلمات اذان کی صدائے دلنواز سن کر صحابہ کرام کے دلوں میں تو ہلچل مچی ہوئی تھی ۔ اہل کتاب او رمنافقین بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ لیکن یہ تاثر ان کے پتھر جیسے دلوں کو پگھلا نہیں سکا ، بلکہ یہ سوچ کر ان کی جھنجھلاہٹ اور بڑھ گئی کہ کہیں اذان بلال دعوت حق کے فروغ اور شاعت اسلام کا مزید ایک اور ذریعہ نہ بن جائے۔ ان کا یہ اندیشہ غلط بھی نہیں تھا کیونکہ بعض سلیم الفطرت لوگ اذان سن کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ حضرت بلالؓ نے جب پہلی مرتبہ اذان کا آغاز کیا تو ٹھیک اسی وقت حضرت عمرؓ بھی اذان ہی کا خواب دیکھ رہے تھے ۔ اذان بلال کی صدائے بازگشت سنتے ہی حضرت عمرؓ بیدار ہو کر چونک پڑے اور یہ جان کر ان کی حیرت و مسرت کی کوئی حد نہیں رہی کہ اذان کے جو کلمات انہیں خواب میں سکھائے جا رہے تھے بالکل وہی کلمات مسجد نبوی میں حضرت بلالؓ دہرا رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ بستر سے اٹھ کر اپنی اوڑھی ہوئی چادر سمیت اس مقام پر پہنچ گئے ، جہاں حضرت بلالؓ نبی کریمﷺ کی موجودگی میں نماز فجر کے لیے پہلی مرتبہ اذان دے رہے تھے ۔ جیسے ہی اذان ختم ہوئی تو حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ سرکار! ابھی کچھ دیر قبل بالکل یہی کلمات خواب میں مجھے بتائے گئے ہیں اس طرح ایک صحابی کے خواب کی مزید تائید و تصدیق دوسرے صحابی کے ذریعہ ہو گئی جس کی اطلاع پاکر نبی کریمﷺ نے ارشادفرمایا ‘‘فللہ الحمد’’ ساری حمد وثنا اس اللہ کے لیے سزاوار ہے جس نے اپنے دوبندوں کے ذریعے اذان کا انتظام کر دیا۔
نبی کریمﷺ ۸ ہجری میں صحابہ کرام کا لشکر اپنے ساتھ لے کر اچانک مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور کسی خون ریزی و قتل وغارت گری کے بغیر مکہ فتح کر لیا۔فتح مکہ کی کارروائی سے فارغ ہونے کے بعد نماز کا وقت ہوتے ہی آپ نے حضرت بلالؓ کو طلب فرمایا۔ بلالؓ حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے ان سے فرمایا کہ وہ خانہ کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دیں، حضرت بلالؓ اذان دینے لگے تو اپنی زندگی کا صبر آزما اور اذیت ناک ماضی ، نیز درخشندہ حال یاد کر کے خود ان پر رقت طاری ہو گئی۔ نبی کریمﷺ کے تاثر کا بھی عجیب وغریب حال تھا۔ صحابہ کرامؓ بھی بے حد متاثر ہو رہے تھے۔ باشندگان مکہ کے دلوں پر دہشت اور گھبراہٹ کی کیفیت طاری تھی اور وہ یہ سوچ کر حیران و پریشان ہو رہے تھے کہ امیہ بن خلف کا مجبور و مظلوم غلام آج خانہ کعبہ کی چھت پر اذان دے رہا ہے اور سننے والوں کے دلوں کو تڑپا رہا ہے۔ یہ تھی حضرت بلالؓ کی دوسری یادگار اذان۔
نبی کریمﷺ کے انتقال ہوا تو سب سے زیادہ متاثر اور مغموم ہونے میں حضرت عمرؓ کے بعد حضرت بلالؓ ہی تھے۔ دیار مدینہ میں سرکار مدینہ ان کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئے تو ان کی آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا اور زندگی اجیرن ہو گئی۔ انہیں یوں محسوس ہو رہا تھا کہ مسجد نبوی کے درو دیوار سوگوار ہیں اور مدینتہ النبی کی گلیوں میں رونق باقی نہیں رہی ہے۔ ہر طرف اداسی چھائی ہوئی ہے، مدینہ منورہ میں کہیں بھی ان کے دل بے قرار کو چین و سکون نہیں مل رہا ہے ۔ نہ گھر میں کوئی تسلی کا سامان نظر آتا ہے اور نہ باہر اطمینان حاصل ہو رہا ہے۔ محبوب کی جدائی کا زخم اس قدر گہرا ہے کہ وہ کسی بھی طرح مندمل نہیں ہو رہا ہے۔ اضطراب مسلسل سے تنگ آکر حضرت بلالؓ نے آخر یہ فیصلہ کیا کہ کچھ عرصے کے لیے مدینہ منورہ سے باہر چلے جائیں چنانچہ مدینہ منورہ کی یاد اپنے پہلو میں لیے ہوئے دمشق پہنچ کر ٹھہر تو گئے لیکن ان کے تصور میں مدینہ ہی مدینہ تھا اور سرکار مدینہ کو یاد کر کے ان کا سینہ شق ہوا جا رہا تھا۔ دمشق میں رہتے ہوئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزراتھا کہ ایک شب خواب میں نبی کریمﷺ کی زیارت نصیب ہوئی ، آقائے نامدار ﷺ ان سے فرما رہے تھے کہ ‘‘بلال! ہم کو چھوڑ کر تم کہاں چلے گئے؟ کیا ہم سے ناراض ہو گئے؟
بیدار ہو کروہ فوراً دمشق سے مدینہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ باشندگان مدینہ کو حضرت بلالؓ کی واپسی کا حال معلوم ہوا تو سب نے بڑے خلوص ومحبت کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ حضرت بلالؓ مدینہ منورہ پہنچے تو فطری طور پر اہل مدینہ کے دلوں میں خیال پیدا ہوا کہ نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ میں حضرت بلالؓ جس طرح ہر نماز کے لیے اذان دیا کرتے تھے اسی طرح پھر اذان کا سلسلہ شروع کر دیں گے لیکن بلال نے اذان دینا چھوڑ دی۔ لوگوں نے اذان کے لیے یاد دہائی کرائی بھی تو وہ تیار نہیں ہوئے اور معذرت کرتے رہے۔ پھر اہل مدینہ جگر گوشہ ہائے رسول اور فاطمہ بتولؓ کے لال حسن ؓ و حسینؓ سے ملے اور درخواست کی کہ وہ دونوں بلال کو اذان دینے پر آمادہ کریں چنانچہ حسنین نے بلال سے گزارش کی کہ حضرت بلال ہر نمازکے لیے نہ سہی کسی ایک نماز کے لیے تو اذان دے دیں۔ نبی کریمﷺ کے لاڈلے نواسوں کی پرخلوص درخواست حضرت بلال رد نہیں کر سکے اور نماز کا وقت آیا تو مسجد نبوی کے سامنے کھڑے ہو کر اذان دینے لگے۔ یہ اذان بلالی ان کی پچھلی ساری اذانوں سے بالکل نرالی تھی ، سوز وساز تو انکی آواز میں ہوتا ہی تھا مگر اس اذان میں سوز وساز کے ساتھ درد و گداز بھی شامل ہو گیا تھا۔ اذان کا آغاز ہوتے ہی سارا مدینہ گوش بر آواز تھا ۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ حضرت بلال اذان نہیں دے رہے ہیں بلکہ ہجر و فراق کی داستان بیان کر رہے ہیں ۔ بڑی رقت کے ساتھ اللہ اکبر اور اشھد ان لا الہ الا اللہ کے کلمات زبان سے ادا کر سکے جب اشھد ان محمد ارسول اللہ کہنا چاہا تو نگاہیں کسی کو تلاش کرنے لگیں اور وہ تھے سرکار مدینہﷺ ۔ جب سرکار مدینہﷺ نظر نہیں آئے تو حضرت بلالؓ بے قرار ہو کر نیچے گر پڑے ، گرتے ہی ہوش و حواس جاتے رہے ، بڑی مشکل کے ساتھ انہیں ہوش میں لایا گیا ۔ یہ تھی حضرت بلالؓ کی تیسری اور آخری یادگار اذان جس کے بعد پھر کبھی حضرت بلالؓ نے اذان نہیں دی اور کسی نے ان کو اذان دینے پر اصرار بھی نہیں کیا ۔