دین و دانش
لطائف قرآنی
سید متین احمد
قرآنِ کریم میں تقریبا چار مقامات پر لَا تَتَّبِعْوا خْطْوَاتِ الشَّیطَانِ(شیطان کے نقوشِ قدم کی پیروی مت کرو) کا حکم آیا ہے۔لفظِ "خطوات" ، خطوہ کی جمع ہے جو عربی میں چھوٹا قدم لینے کے لیے بولا جاتا ہے۔شیطان کا طریقِ واردات یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کو کسی بڑے گناہ میں پھنسانے کے لیے پہلے اس گناہ سے جڑے ہوئے چھوٹے گناہ کرواتا ہے۔ان گناہوں کا پورا ایک شجرہ نسب ہوتا ہے۔آدمی ایک چھوٹا گناہ کرتا ہے تو اس سے دل میں اگلا گناہ کرنے کی استعداد اور جرات پیداہو جاتی ہے جس سے گناہ کا اگلا قدم آسان ہوتا ہے اور اس طرح آدمی گناہوں کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ لفظ "خطوات"جمع کے لفظ کے ساتھ لانے میں بھی یہی نکتہ پنہاں ہے کہ گناہ کی راہ کا قدم، کئی چھوٹے چھوٹے اقدامات پر مبنی ہوتا ہے جو بالاخر کسی بڑے گناہ پر منتج ہوتا ہے حتی کہ کفر والحاد کی نوبت بھی آسکتی ہے۔اسی لیے فقہا نے شریعتِ اسلامی میں جو سدِ ذریعہ کا اصول ذکر کیا ہے، وہ نہایت حکمت پر مبنی ہے۔
******
سورۃ قریش میں اللہ تعالیٰ نے قریش کو دو چیزوں کے عطا ہونے پر اللہ کی بندگی بجا لانے کا حکم دیا ہے: معاشی تنگی میں خوش حالی اور خوف سے امن۔ یہ دو چیزیں کسی معاشرے کی خوش حالی کی ضامن ہیں کہ اس کے باشندے اپنی جان ،مال ، عزت و آبرو کے بارے میں کسی خوف سے محفوظ ہوں اور دوسرے ان کی معاشی حالت اچھی ہو۔"خوف" اور" بھوک " کا یہ عنصر کسی معاشرے کی صحت کے لیے اتنا اہم ہے کہ قرآنِ کریم میں مختلف مقامات پر ان کو اکٹھا ذکر کیا گیا ہے؛ چناں چہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قرآنِ کریم میں جو دعائیں مذکور ہیں، وہ بنیادی طور پر دو چیزوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ایک کا تعلق دینی امور سے ہے اور دوسری کا تعلق دنیاوی امور سے اور دنیاوی امور میں بطورِ خاص قرآن نے انھی دو چیزوں کا ذکر کیا ہے۔سورۃ بقرہ میں آپ کی دعا ہے: رَبِّ اجعَل ھَذَا البَلَدًا آمِنًا وَارزْق اھلَہْ مِنَ الثَّمَرَاتِ(اے اللہ اس شہر کو پرامن بنا دے اور اس کے رہنے والوں کو پھلوں کو رزق عطا فرما۔)چوں کہ ان دو چیزوں پر معاشرے کی ترقی اور خوش حالی کا مدار ہے، اس لیے فطری طور پر اللہ نے اپنی آزمائش کا قانون بھی انھی دو چیزوں کے ساتھ جوڑ رکھا ہے، کیوں کہ آزمائش ہمیشہ محبوب ترین چیز کے ذریعے ہی ہوتی ہے؛ چناں چہ سورۃبقرہ میں ارشاد فرمایا :
وَلَنَبلْوَنَّکْم بِشَیء مِنَ الخَوفِ وَالجْوعِ وَنَقصٍ مِنَ الاموَالِ وَالاَنفْسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ} [البقرۃ: 155](ہم ضرور تمھیں کچھ خوف، بھوک اور جان ومال اور پھلوں کے نقصان کے ذریعے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو بشارت دے دو۔) ہمارے وطن کے بڑے مسائل میں سے اس وقت یہ دو مسئلے بہت بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔اسوہ ابراہیمی کی اتباع میں ان دو چیزوں سے حفاظت کو اپنے لیے اور پوری قوم کے لیے دعا میں ہمیں شامل کرنا چاہیے۔
******
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب "الوابل الصیب من الکلم الطیب " میں ایک عنوان اللہ کے ذکر اور اس کے فوائد کے بارے میں باندھا ہے اور ذکر اللہ کے سو سے زیادہ فائدے ذکر کیے ہیں۔ قرآن کریم اپنے آپ کو اکثر جگہ "الذکر" سے تعبیر کرتا ہے لہذا یہ تمام فوائد اس کتاب سے تعلق پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ ایک فائدے میں لکھتے ہیں کہ قرآن میں چار مقامات پر یہ حقیقت بتائی گئی ہے کہ نیکی کا بدلہ دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی۔
1. سورۃ ہود، آیت 3
2. سورۃ نحل، آیت 41، 47
3. سورۃ زمر، آیت 6
(دنیا اور آخرت میں یکجا ذکر مراد ہے ورنہ انفرادی مواقع اور بھی ہیں. )
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خیر اور احسان کوئی ایسی چیز نہیں جس کا وعدہ صرف آخرت پر اٹھا رکھا گیا ہو بلکہ اخلاص سے کیے گئے اعمال دنیا کی زندگی میں بھی سکون اور آرام لانے کا سبب بنتے ہیں۔
*****
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اخلاق کی تمام اعلی ترین خوبیاں دل کے خشوع اور بلند ہمتی سے پھوٹتی ہیں۔خشوع دل کی نرمی کا نام ہے اور جس دل میں یہ وصف جتنا زیادہ ہو گا، قرآن کا اثر بھی اس دل پر زیادہ ہو گا۔ چنانچہ قرآن دو مقامات پر ان افراد کا ذکر کرتا ہے جو اللہ کی آیات کے ذکر پر ڈھ پڑتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔
سورۃ مریم (آیت 58) میں پہلے عظیم انبیا اور گزشتہ امتوں کے ان افراد کا ذکر ہے جو اللہ کے انعام یافتہ لوگ ہیں۔ ان انعام یافتوں کے ذکر کے بعد فرمایا کہ ان لوگوں پر جب رحمان کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں. اسی طرح سورُۃ سجدہ آیت 15 میں فرمایا گیا کہ ہماری آیات پر ایمان وہی لوگ رکھتے ہیں کہ جب انہیں ان آیات کے ذریعے تذکیر کی جاتی ہے تو سجدے میں گر پڑتے ہیں۔
یہ دو آیات یہ بتاتی ہیں کہ وہی دل زرخیز اور معرفت ربانی کا مرکز بن سکتا ہے جو نرمی اور خشوع کی صفت سے متصف ہو. اگر قرآن کے تعلق سے یہ مزاج پیدا نہیں ہو رہا تو پھر انسان چاہے قرآن کے علوم کا بڑا محقق بن جائے، ممکن ہے قرآن کی اصل غذا سے محروم رہے جس کو پانے کے بعد زندگی میں ربانیت کی خوشبو رچ بس سکتی ہے۔
*****
ذہین آدمی کے لیے جھک کر اپنی غلطی مان لینا سب سے مشکل کام ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ذہانت انسان میں انفرادیت پسندی کا مزاج پیدا کرتی ہے جس کے باعث اس میں Urge to dominant (غلبے کی خواہش ) کا مادہ اپنے شباب پر ہوتا ہے اور جھک جانے میں اسے اپنی شخصیت کی انفرادیت فنا ہوتی نظر آتی ہے۔دینی اور دنیاوی دونوں میدانوں میں فرقوں اور نئی نئی گروہ بندیوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اس کے اسباب میں یہ سبب بنیادی نظر آتا ہے۔ اس dominant رہنے کی خواہش کو قرآن نے "ارادہ علو " سے تعبیر کیا ہے. مولانا وحید الدین خان نے ایک جگہ معروف ماہر نفسیات الفرڈ ایڈلر کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے ساری زندگی انسانی جذبات کا مطالعہ کیا ہے اور ان میں غلبے کی خواہش کو بنیادی پایا ہے۔ عجیب بات ہے کہ قرآن میں بالکل اسی بات کو موضوع بحث بنا کر فرمایا گیا ہے : تلک الدار الآخرۃ نجعلھا للذین لایریدون علوا فی الارض ولا فسادا۔ وہ آخرت کا گھر ہم نے صرف ان لوگوں کی خاطر بنا رکھا ہے جو زمین میں برتری اور فساد نہیں چاہتے۔
*****
قرآن میں صالحین کے دو خوف مذکور ہیں جو اللہ کی شان بے نیازی کی معرفت سے پیدا ہوتے ہیں :
َ اپنے نیک اعمال کے مردود ہو جانے کا خوف۔سورۃ مومنون میں ہے۔ والذین یؤتون مآ آتوا وقلوبہم وجلۃ
(وہ جو عمل کرتے ہیں تو ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان کے دل سہمے رہتے ہیں۔)
۲۔ ہدایت پانے کے بعد دل کے ٹیڑھے ہونے اور ہدایت سے پھر جانے کا خوف . سورۃ آل عمران میں ہے. ربنا لاتزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا۔ (اے اللہ ہمارے دل ہدایت کے بعد نہ پھیر دینا۔)