اس دنیا میں روزانہ صبح ہوتے ہی لوگ رزق کی تلاش میں زمین پر پھیل جاتے ہیں اور اس مقصد کے لیے مختلف ذرائع کام میں لاتے ہیں۔دنیا کی رنگا رنگی اور چہل پہل اسی دوڑ دھوپ کے دم سے ہے۔ بعض حضرات تو اس کے لیے باقاعدہ کوئی نہ کوئی فن سیکھتے ہیں یاعلم حاصل کرتے ہیں مگر بعض جب کچھ بھی نہیں کرپاتے تو کوئی نہ کوئی الٹا سیدھا طریقہ اختیار کرتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ بھی ویسے ہی کامیاب ہو جاتے ہیں جیسے دوسرے حضرات۔ ایسے ہی الٹے سیدھے طریقوں میں سے دو طریقوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
راقم الحروف کے ایک وکیل دوست کا بیان ہے کہ ‘‘ ایک روز میں نے ایک منشی کو وکالت خانے میں دیر سے بیٹھے ہوئے دیکھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ منشی جی کیا بات ہے آج آپ اتنی دیر تک بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس نے کہا ایک شخص کا انتظار ہے۔ میں نے پوچھا آخر وہ کون ہے جس کا آپ اتنی دیر سے انتظار کر رہے ہیں۔اس نے کہا ایک دیہاتی شخص ہے جو پانچ ہزار روپے لے کر آئے گا۔ میری دلچسپی اور بڑھی ، میں نے معاملے کو مزید کریدا تو منشی جی نے کہا ، ایک دن کی بات ہے کہ میں نے دیکھا کہ یہ دیہاتی بڑی دیر سے کچہری کے چکرلگا رہا ہے میں نے اس سے ملاقات کی اور اس کی بے چینی کی وجہ پوچھی اور اس کے کام کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔اس نے بتایا کہ اس کے پاس پانچ ایکڑ زمین کی رجسٹری ہے، اور وہ اس رجسٹر ی پر پانچ کے پچاس بنانا چاہتا ہے۔ یہ دیہاتی کسی مالدار بیوہ کا مزارع تھا۔اس نے یہ زمین بیوہ سے خریدی تھی۔ اب وہ چاہتا تھا کہ رجسٹری پر کسی طرح پچاس ہو جائے تا کہ بیوہ کی موت کے بعد وہ اس کی ساری زمین پر قابض ہو جائے۔منشی جی نے اسے یہ اطمینا ن دلایاتھا کہ وہ اس کا یہ کام کر دیں گے ۔پانچ ہزار پر معاملہ طے ہو گیا تھا۔اب وہ یہ پانچ ہزار روپے لے کر آنے والا تھا۔ میں نے منشی جی سے پوچھاکہ وہ اس پانچ کو پچاس میں کیسے تبدیل کر یں گے اور پھریہ کہ کیا واقعی اس تبدیلی سے وہ پچاس کا مالک بن جائے گا؟ منشی جی ہنسے اور بولے یہ تو کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ مالک بن جائے ۔ پھر سنجید ہ ہو کر کہنے لگے کہ دیکھیے نا وکیل صاحب ، آپ کو معلو م ہے کہ نہ میرا کوئی کاروبار ہے نہ زمین جائیداد اگر اللہ نے بیوقوف انسان پیدا نہ کیے ہوتے تو ہم جیسے لوگوں کا کیا بنتا ۔بس اللہ ان بے وقوفوں کے ذریعے سے ہماری روزی کا بندوبست کر دیتا ہے’’ ۔منشی جی نے مزید بتایا کہ وہ کسی وثیقہ نویس کو سو روپے دیں گے اور اس سے بڑی مہارت کے ساتھ پانچ کا پچاس بنوا لیں گے ۔ بس کا م ختم ۔ اب دیہاتی جانے اس کا کام۔ ہماری کچہریوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو دوسروں کی سادہ لوحی سے فائد ہ اٹھا کر اپنی روزی کماتے ہیں۔
میرے پڑوس میں ایک امیر شخص رہا کرتے تھے۔ ان کے ہاں ایک پیر صاحب آتے اور جب تک دل چاہتا ان کے ہاں قیام کرتے صاحب خانہ ان کے بے حد معتقد تھے ۔ اتفاق کی بات ہے کہ میری ان پیر صاحب سے دوستی ہو گئی۔ ایک دن بڑے موڈ میں تھے کہنے لگے میاں یہ تم کیا ڈاکٹری کرتے پھرتے ہو ہر وقت مریضوں میں گھرے رہتے ہو۔ یہ بھی کوئی کام ہے ۔چھوڑو اس کو ، کوئی اور کام کرو۔ میں نے کہا پیر صاحب اگرمیں نے ڈاکٹری چھوڑ دی تو میری روزی کا کیابنے گا۔ کہنے لگے کہ ذریعہ میں بتاؤں گا اورعمل تم کرو گے، دنوں میں ڈاکٹری سے زیادہ آمدن شروع ہو جائے گی۔میں نے کہا ٹھیک ہے آپ وہ ذریعہ بتائیے۔ کہنے لگے کہ پیری مرید ی کرو۔ میں نے کہا شاید آپ مذاق کر رہے ہیں۔ تو کہنے لگے نہیں میا ں، میں بالکل سنجید ہ ہوں۔ پھر مجھے سمجھانے کے انداز میں بولے دیکھو میاں تم نے اگر ایک ہزار مرید بنا لیے اور ہر مرید سے تم اگر سال کے بعد صرف ایک سو روپیہ چند ہ بھی لو تو سالانہ ایک لاکھ آمدن بیٹھے بٹھائے ہو جائے گی۔دو چار سو یا پانچ سو لے سکو تو تمہاری ہمت ہے ۔پھر جس مرید کے ہاں چلے جاؤ خاطر مدارات الگ۔ اور جس مرید کا جو بزنس ہے وہ بھی تمہارا۔ مثلاً کپڑا مفت ملے گا، دوائیں مفت ملیں گی ، کتابیں مفت ملیں گی پھل سبزیا ں مفت ملیں گی،اور کیا چاہیے؟ مریدوں کی تعداد جیسے جیسے بڑھتی رہے گی آمدن بھی بڑھتی رہے گی۔یہ سب فائدے گنوانے کے بعد بولے میاں تمہارے اندر پیر بننے کی پوری صلاحیت موجود ہے ،تم کو صرف ایک کام کرنا ہے کہ بہت کم بولنا ہے ۔ میں شہرت دے دوں گا کہ یہ پیر صاحب انسانوں سے کم اور روحوں اور جنوں سے زیادہ کلام کرتے ہیں۔پھر فرمانے لگے میرا ایک دوست تھا وہ بھی پیری مریدی کرتا تھا ۔ وہ کراچی گیا اور پھر واپس نہ آیا۔کافی عرصہ بعد مجھے کراچی جانے کا اتفاق ہوا تو سوچا کہ چلو اس سے بھی ملتے جاتے ہیں۔ لہذا اس کے پتے پر پہنچا تو معلوم ہو ا کہ ان سے ملنے کے لیے تو ان کے سیکرٹری سے ملنا ہو گا۔ سیکرٹری سے ملا اور اپنے نام کی چٹ لکھ کر اند ر بھجوائی ۔ تھوڑی دیر میں مجھے اند ربلا لیا گیا۔ کیادیکھتا ہوں کہ وہ صاحب ایک بڑے تخت پر گاؤ تکیہ لگا کر ایک ہزاردانہ کی تسبیح ہاتھ میں لیے بیٹھے ہیں۔ کافی دیر تک بے تکلفانہ گفتگوہوتی رہی آخر میں نے اس سے پوچھا کہ یہ جو تم نے ایک ہزار دانہ کی تسبیح ہاتھ میں پکڑ رکھی ہے اس پر کیا پڑھتے ہو۔ وہ صاحب بولے یار تم تو جانتے ہی ہو کہ میں جاہل آدمی ہوں لکھناپڑھنا نہیں جانتا۔ اس لیے تسبیح پر پڑھتا رہتا ہوں ‘‘ آتے جاؤ پھنستے جاؤ، آتے جاؤ پھنستے جاؤ’’
فی زمانہ رزق کے حصول کا ایک اہم ذریعہ نقلی مزار سازی اورجعلی گدی نشینی بھی ہے (اصل صوفیا اور ان کے اصل جانشینوں سے معذرت کے ساتھ)۔ حسن اتفاق سے ایک درگاہ کے سجادہ نشین سے راقم کے اچھے تعلقات قائم ہو گئے ۔ اس طرح درگاہ کی اندرون خانہ باتوں کا پتا چلا۔ معلوم ہوا کہ سجادہ نشینوں نے درگاہ سے ملحق قبرستان کو دھوبیوں کو کرایہ پر دے رکھا ہے وہ یہاں اپنے گدھے باندھتے ہیں اور کپڑے سکھاتے ہیں۔ درگاہ کے راستے میں جو فقیر بیٹھتے ہیں وہ اس بیٹھنے کا کرایہ سجادہ نشینوں کوادا کرتے ہیں کیوں کہ فقیروں کو اس سے اچھی خاصی آمدنی ہوتی ہے۔ ان میں سے بعض کے بنک اکاؤنٹ بھی ہیں۔ جو چادریں چڑھائی جاتی ہیں ان کی فروخت سے بھی خاصی آمدن حاصل ہوتی ہے یہ حضرات صاحب مزار کی کرامات تصنیف کر وا کے کثرت سے شائع کرتے ہیں۔ مثلاً ایک آدمی مزار پر حاضر ہوا اس سے کچھ بے ادبی ہو گئی تو صاحب مزار نے قبر سے پاؤں نکال کر اسے ایک لات رسید کی جس سے وہ معذور ہو گیا۔ ایک اور موقع پر صاحب مزار نے ایک شخص کوبے ادبی پر ڈانٹا۔عرس کے موقع پر اور ویسے روزانہ ‘‘خزانہ بکس’’ سے جوآمدن ہوتی ہے اسکا شمار تو لاکھو ں میں ہے۔
قصہ مختصر ہر آدمی اس دنیا میں حصول رزق کے لیے اپنے حوصلے ،مزاج ، صلاحیت اور ذہانت کے مطابق کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کر ہی لیتا ہے یہ الگ بحث ہے کہ وہ راستہ حلال تھا یا حرام۔