محاورے زبان کا زیور ہیں۔ یہ مطلب کو عجیب پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔ کلام کے اجزا میں ان کی حیثیت فعل کی ہوتی ہے۔مگر بناوٹ میں کسی صرفی قاعدے کے پابند نہیں ہوتے ۔ان کی بنیاد استعارے پر ہوتی ہے استعارہ جتنا موزوں ہو گا محاورہ اتنا ہی دل چسپ ہو گا۔ فعل کے ساتھ کوئی صفت یا اسم لگا دیتے ہیں اورمحاورہ بن جاتا ہے ۔ان کے استعمال میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض اوقات اچھے اچھے انشاپرداز اورشاعر چوک جاتے ہیں ۔ محاروے میں ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ دوسری زبان میں اس کا لفظی ترجمہ نہیں کر سکتے اگر ایسا کیاجائے تو ایک مذاق ہوجائے گا۔
ہر زبان ابتدا میں سادہ ہوتی ہے جوں جوں ترقی کر تی ہے اس میں بناؤ پیدا ہوتے ہیں تشبیہیں ، استعارے ، کنایے ، رمز ، اور اشارے سب زبان کو آراستہ کرتے ہیں اسی طرح محاورے بھی کلام کی زینت بڑھاتے ہیں۔
محاورہ ایک ادبی چیز ہے مگر بعض محاورے ایسے بھی ہیں کہ جو پرانے رسم و رواج پر روشنی ڈالتے ہیں۔ زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ معاشرت تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔ چنانچہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کا رواج نہیں رہا مگر محاوروں میں برابر چلی آرہی ہیں۔پرانے زمانے میں بازار میں کوڑیوں کاچلن تھا ۔ ایک پیسے میں چونسٹھ ۶۴ کوڑیاں آتی تھیں۔ ان سے چھوٹے موٹے سودے بھی ہوتے تھے ۔اگرکوئی چیز بہت سستی بک جاتی تھی تو کہتے کہ کوڑیوں کے مول بک گئی چنانچہ کوڑیوں کے مول بیچنا یا کوڑیوں کے مول لینا خلاف محاورہ بن گیا ہے جو اب تک رائج ہے ۔
ٹکادوپیسے کا ہوتاتھا ۔ یہ سکہ بھی ختم ہو چکا ہے مگر محاوروں میں ابھی تک باقی ہے ۔ ٹکا سا جواب دے دینا کا مطلب ہے صاف جواب دے دینا۔
ہن سونے کے ایک چھوٹا سکہ تھا ۔ یہ سکہ جہانگیر کے راجاؤں کا تھامگر اس کثرت سے جاری ہوا کہ دکن کی مسلم سلطنت میں رائج تھا۔ اور بہمنی دور میں بھی چلتارہا۔اس کے بعد عادل شاہی اور قطب شاہی عہد میں رائج رہا اس کی کثرت کی وجہ سے مشہور ہو گیا کہ دکن میں ہن برستا ہے ۔ چنانچہ ہن برسنا محاورہ ہو گیا جو دولت کی فراوانی کے لیے بولا جاتا ہے۔مغل دور اور انگریزی عہدمیں اشرفیوں کارواج تھا۔ اب یہاں اشرفیاں نہیں رہیں مگر محاورے میں اشرفیاں لٹیں اور کوئلوں پر مہر اب بھی باقی ہے۔
پہلے زمانے میں جب حکومت کو کوئی مہم پیش آتی تھی اور اس کے لیے کسی جانباز کی ضرورت ہوتی تو دربار میں پان کا ایک بیڑا رکھ دیا جاتا تھا ۔ جو شخص اسے اٹھا لیتا مہم اس کے سپرد کی جاتی تھی۔ اب یہ رسم تو نہیں رہی مگر بیڑا اٹھانا محاورہ باقی ہے ۔ اس کا مطلب ہے کسی اہم کام کو سرانجام دینے کاعزم کرنا۔
عقید ے کومعاشرت میں بڑا دخل ہے ۔اس سے بھی محاورے وجود میں آتے ہیں۔خیال یہ تھا کہ اگر نہا ر منہ پانی پی کر کسی کو کوسا جائے تو اثر جلد ہوتا ہے ۔ چنانچہ پانی پی پی کر کوسنا اس سے بنا ہے۔دودھ پیتے بچوں کو کوئی تکلیف ہو جائے تو مائیں یہ سمجھتی ہیں کہ انہیں نظر لگ گئی ہے اس کے لیے ایک ٹوٹکا ہے کہ نمک اوررائی کے دانے آگ پر ڈال دیتے ہیں اس سے بچہ اچھا ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ نون رائی کرنا اس سے بنا ہے۔ چراغ بجھانا منحوس سمجھاجاتاہے ۔اس کی جگہ چراغ بڑھانا بولتے ہیں۔اسی طرح دستر خوان اٹھانا نہیں کہتے بلکہ دستر خوان بڑھانا یا زیادہ کرنا بولتے ہیں۔
نادر چیزوں سے بھی محاورے بنتے ہیں۔ مثلاً اپنے آپ کوشاخ زعفران سمجھنا کے معنی اپنے آپ کو انوکھا سمجھنا یا بہت موزوں ہونا ہیں۔ شاخ زعفران ایک نایاب چیز ہے اسے ایسے موقع پر بولتے ہیں جس موقع پر سرخاب کا پر کہتے ہیں۔بہت بڑا صناع جب کوئی نادر چیز بنا کر بادشاہ کے سامنے پیش کرتا تو بادشاہ خوش ہوکر بہت بڑا انعام دیتا تھا مگر بعض اوقات اس کے ہاتھ بھی کٹوا دیتا تھا تا کہ اس کے مانند دوسری چیز نہ بن سکے۔ چنانچہ ہاتھ قلم کرانا محاورہ بن گیا۔
قصیدوں پر شاعروں کو بڑے بڑے انعام ملے ہیں۔ بعض اوقات بادشاہ خوش ہوکر حکم دیتا کہ شاعر کا منہ موتیوں سے بھر دیا جائے چنانچہ منہ موتیوں سے بھرنا محاورہ بن گیا۔
تلوار اور جنگ مترادف لفظ ہیں۔ پہلے زمانے میں جنگ کا فیصلہ تلوار کرتی تھی۔ اب تلوار ہتھیاروں میں شمار نہیں ہوتی ۔چنانچہ میدان جنگ میں سپاہی کے پاس تلوار نہیں ہوتی بلکہ دوسرے ہتھیار ہوتے ہیں۔مگر تلواراٹھانا اب بھی جنگ کرنا کے معنی میں بولاجاتا ہے۔یہی حال تیر کمان کا ہے ۔ بندوق کی ایجاد سے پہلے تیر اندازوں کا دستہ فوج میں ضرور ہوتاتھا اب تیر کمان کی ضرورت نہیں رہی مگر تیر مارنا محاورہ باقی ہے۔پہلے زمانے میں قلعہ فتح کرنا بہت مشکل کام تھا اب قلعہ کی اہمیت نہیں رہی مگر گڑھ جیتنا اب بھی مشکل کام کرنے کے معنی میں بولا جاتا ہے۔
چراغ اب اپنی عمرطبیعی کو پہنچ چکا ہے مگر محاوروں میں ابھی تک زندہ ہے ۔ جیسے چراغ دکھانایعنی روشنی دکھانا، چراغ جلنا یعنی فروغ پانا، چراغ لے کر ڈھونڈنا یعنی کسی کی تلاش نہایت محنت سے کرنا۔ گھی آج کل کھا نے کو نہیں ملتامگر گھی کے چراغ امیر جلاناامیر غریب سب بولتے ہیں۔
کاجل عورتوں کے سولہ سنگارمیں شامل تھا۔ اب اس کا رواج کم ہوگیا ہے مگر اس کے محاورو ں کو زوال نہیں آیا۔ چنانچہ آنکھوں کا کاجل چرانایعن چوری کے فن میں یکتا ہونا ہے۔ترکوں کی بہادری مشہور ہے ۔ چنانچہ ترکی کے معنی مردانگی کے ہیں۔ اب تو شاید یہ صورت حال نہیں رہی مگر ترکی تمام ہونا محاورہ بن گیا ۔
مونچھیں چہرے پر شان پیدا کرتی ہیں۔ یہ جتنی گھنی اور لمبی ہوتی ہیں اتنا ہی رعب پیدا کرتی ہیں۔ ان کوموڑ کر کٹارے کی شکل بنایاکرتے تھے۔ چنانچہ اس سے جو محاورے بنے ہیں وہ رعب جمانے کے لیے ہیں۔ مثلاً مونچھ مروڑ نا ، مونچھوں پر تاؤ دینا، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ محاورے کب تک چلتے ہیں کیونکہ مونچھ تو غائب ہوتی جا رہی ہے۔
زمانے کے ساتھ ساتھ ناپ تول کے پیمانے بھی بدل رہے ہیں ۔ گز کی جگہ میٹر نے لے لی ہے لیکن گز بھر کی زبان موجود ہے اسی طرح کوس کی جگہ میل اور پھر کلو میٹر آگیالیکن محاورے میں کالے کوسوں ہی بولا جاتا ہے۔
یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ محاوروں کی ابتدا کب ہوئی اور کن حضرات نے بنائے ۔ لیکن اتنا ضرور اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ محاورے بنانے میں عورتیں مردوں سے پیچھے نہیں رہیں۔بول چال میں عورتیں محاورے زیادہ بولتی ہیں۔ ان میں گویائی کا مادہ زیادہ ہوتا ہے۔اور ان کے محاوروں میں لطافت بھی زیادہ ہوتی ہے۔نسوانی زبان آلائشوں سے پاک ہوتی ہے۔ تہذیب سے گری ہوئی باتوں کو عورتیں ایسے مہذ ب پیرائے میں بیان کرتی ہیں کہ سننے میں ناگوار نہیں گزرتی ۔ عورتیں زبان کی صحت کا زیادہ خیال رکھتی ہیں۔ آپ کو کسی محاورے یا روز مرہ میں شبہ پیدا ہو جائے تو عورتوں سے اس کی صحت ہو سکتی ہے۔ایک شہر سے دوسرے شہر میں چلی جائیں تو وہاں کے محاورے یا روزمرہ کو اختیار نہیں کرتیں اور لہجے میں بھی فرق نہیں آنے دیتیں۔ ان کو جو زبان ورثہ میں ملی ہوتی ہے اس کی حفاظت کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہر جگہ ‘ مادری زبان’ کی پوچھ ہے۔
( جناب غلام ربانی کی کتاب الفاظ کا مزاج سے ماخوذ)