ایک چیز جس نے میرے دل ودماغ پر عجب طرز کے اثرات پیدا کیے وہ لیڈروں کی باہمی چشمک ہے ۔ جماعتیں اس سے خالی ہیں ، نہ افراد ۔ رہنماؤں میں الا ما شاء اللہ اس مرض کو عام پایا۔ جنہیں فرشتہ سمجھا آدمی نکلے اور بقول غالب ، آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا۔
بڑے بڑے عالی دماغ دل کے بودے اور بڑے بلند و بالا حوصلے میں کمزور نظر آئے ۔جن کے دماغ فہم و فراست میں ڈھل کے نکلے تھے ان کے دل حسد و رقابت کا شکار معلوم ہوئے ۔د وسروں کی بڑائی پر خوش ہونا ولایت سے کم نہیں۔ بہت کم لوگ ہو ں گے جن کا دل دوسروں کی عزت و شہرت پر خوش ہو۔معاصرانہ چشمک ایک ایسی بلا ہے کہ پنا ہ بخدا، کوئی عہد ، کوئی زمانہ اس سے خالی نہیں رہا۔ تاریخ انسانی میں صرف اللہ والے لوگ ایسے تھے جو معاصرت کے فتنے میں مبتلانہیں ہوئے ورنہ سیاست جیسی ہو اور جس دور کی بھی ہو فتنے سے خالی نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے کہا تھا کہ علماکی صحبت سے علم حاصل کیاکرو لیکن معاصروں کے بارے میں ان کی رائے پر اعتماد نہ کرو کہ ان میں باہمی حسد ہوتا ہے اور یہ مینڈھوں کی طرح ایک دوسرے سے سینگ لڑاتے ہیں۔
تاریخ کے ہر دور میں معاصرت کی یہ چپقلش جاری رہی ۔ قرون اولی جس نے معاشرے کے بہترین انسان پیدا کیے وہ بھی اس وبا سے محفوظ نہیں رہا۔
ہندستان میں مسلمانوں کی آمد اور یہاں ان کی سلطنت کے دوران میں معاصرت کی بڑی بڑی لڑائیاں ہوئیں کوئی عہد بھی اس سے محفوظ نہ رہا۔ غالباً تلوارکی دھار پر اتنا لہو نہیں بہا جتنا قلم کی نوک اس لہو سے گلنا ر ہے ۔ حسد طاقتور ہو تو یار لوگ رشک کہہ لیتے ہیں ورنہ رشک ریشم ہے توحسد گاڑھا۔ دونوں انسانی صفات کے لیے کفن ہو سکتے ہیں۔حسد سے رقابت اور رقابت سے عداوت، عداوت سے انتقام پھر جانے کیا کچھ پیدا نہیں ہوتا۔ دیدہ و دل میں اک آگ سی لگی رہتی ہے۔حاسد کی زبان اس کے تحمل پر بھی دل کی لو دے اٹھتی ہے اور اس کی آنکھ کے اشارے خود بخود سلگ اٹھتے ہیں۔
سیاسیات میں بے شمار فتنے اصول سے کہیں زیادہ اشخاص کی رقابت سے پیدا ہوئے تاریح کامزاج شک میں بدل گیا ، پورا معاشرہ پوری تنظیم ، پوری جماعت، پورا ملک ، پوری ملت اور پوری نسل اس سے متاثر یا اس میں ملوث ہوئی اصولی مخالفتیں کم ہوئی ہیں ، اکثر مخالفتیں شخصیتوں کے حاسدانہ جذبات سے جنم لیتی اوراپنے خفی و جلی محرکات سے پروان چڑھتی رہی ہیں۔
انسان دور رہ کر اس کا اندازہ نہیں کرسکتا لیکن قریب آ کر تمام راز کھل جاتے اور دیوتا بھی انسان نظر آنے لگتے ہیں۔فضلا ، علما، ادبا ، شعرا اورزعما میں ۹۹ فیصد افراد اس متعدی مرض میں مبتلا ہوئے اوراپنی نمود و نمائش کے لیے بڑی بڑی متاع کو بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ان کی فضیلتیں ان کا علم ، ان کی سیادت ، ان کا ادب ، ان کی شاعری اور ان کی وجاہتیں اپنی تمام بلندیوں کے باوجود فرش پر ہوتی ہیں۔وہ زمین ہی کے لوگ ہیں جنہیں ہم آسمان پر دیکھتے ہیں اورجن کے متعلق عوام کا تصور یہ ہے کہ شاید غیر معمولی انسان ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ ان میں ایک معمولی انسان بھی نہیں ہوتا۔بڑے بڑے شاعروں کو دیکھا ، ہم انہیں پوجنا چاہیں تو الگ بات ، لیکن ان میں آتش حسد کے علاوہ خبث نفس بھی تھا۔ میر تقی میر کا وہ لطیفہ تو سنا ہو گا، کسی نے پوچھا کیوں حضرت آج کل شاعر کو ن ہے ۔ فرمایا ایک سودا ، دوسرا یہ خاکسار اور آدھے خواجہ میر درد کسی نے پوچھا میر سوز ؟ چیں بہ چیں ہوئے ۔ میر سوز بھی شاعر ہیں؟ اس نے کہا نواب آصف الدولہ کے استاد ہیں ، کہا خیر یہ بات ہے تو پونے تین سہی۔غالب ، ذوق کے معاصر تھے زمانہ کی بد ذوقی نے ان سے جو سلوک کیا ، ڈھکاچھپا نہیں۔ معاصرت کا فتنہ متعاقب رہا اور انہیں کہنا پڑا،
گر نہیں ہیں میرے اشعار میں معنی نہ سہی
شبلی ، حالی ، محمد حسین واقعی بڑے آدمی تھے ، ان کے قلم سے جو شہ پارہ نکلا لا فانی ہو گیا لیکن انہیں بھی معاصر ت کے زخم سہنے پڑے۔ حالی جب تک زندہ رہے حاسدوں نے مین میخ نکالنا اپنا فرض سمجھا ۔ اودھ پنج نے لکھا
حالی کو تو بدنام کیااس کے وطن نے
پر آپ نے بدنام کیا اپنے وطن کو
شبلی اور آزاد کی چشمکیں مہدی افادی نے لکھی ہیں ۔ ہمارے زمانے میں جو ش ، احسان دانش ، سیماب ، جگر ، حفیظ ، بلکہ اقبال تک حسدو رقابت کا شکار رہے ۔ترقی پسند تحریک کا بیشتر حصہ جہاں تک نظم و نثر کا تعلق ہے ‘ انجمن ستائش باہمی ’کا منت گزار ہے لیکن اس تحریک کے نمائندوں کی تنگ دامانی اور بے مائیگی جس کے تحت الشعور میں حسد و رقابت کا جذبہ وافر تھا اور ہے اپنے خاص مطمح نظر کی وجہ سے اثباتی ادب کی غارت زدگی کا باعث ہوتی ہے ۔دین میں معاصرت کی تیغ براں بڑے بڑے عابدوں اور فقہا کے سینے میں گڑی رہی ۔ سید سلیمان ندوی ، مولانا آزاد کے عیبوں کی تلاش میں رہے ۔ مولانا عبدالماجد دریا بادی نے مولانا آزاد کا کفن نوچنے میں حیا نہ کی۔ علامہ انور شاہ کاشمیری اور مولانا حسین احمد مدنی کی قبروں میں امتیاز دیکھا۔موخر الذکر کا مزار ٹوٹ پھوٹ کر بیٹھ گیا کوئی ڈھیری نہ بنا سکا۔ بریلوی اور دیوبندی گروپ میں کشمکش کی وجہ محض عقید ہ ہی نہیں ان کا علم بھی ہے۔ دیو بند نے جو علما پیدا کیے وہ سارا ہندستان نہ پیدا کر سکا۔ لیکن مدنی گروپ اور تھانوی گروپ میں اب تک کھچاؤ چلا آ رہا ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی کو لیگ نے اس لیے شیخ الاسلام کا درجہ دیا کہ مولانا حسین احمد مدنی کو شیخ العرب و العجم لکھا جاتا تھا۔ہمارے زمانے میں سر سید پر کیا نہیں گزری ۔ انہیں شدائد کے طوفان میں سے گزرنا پڑا۔ کئی حاسدوں نے اسلام کے نام پر ان سے دو دو ہاتھ کیے ۔ تحریک خلافت میں سیاسی زندگی عروج کو پہنچی لیکن یہی زمانہ سیاسی چشمکوں کے عروج کا زمانہ بھی تھااور ان چشمکوں میں واضح طو ر پر احساس کمتر ی و احساس برتری موجود رہا۔مہاتما گاندھی نے گوکھلے اور تلک کو شہ مات دی ۔ گاندھی جی کو کلکتہ کانگرس میں کوئی مندوب بنانے کے لیے تیار نہ تھا ۔وہاں وہ ڈیلی گیٹوں کے بیت الخلا صاف کرتے رہے ۔ آخر ایک دن کانگرس کے مالک ہو گئے حتی کہ کانگرس ان کے بغیر کچھ نہ تھی۔کبھی ان کے لیے چار آنے کا ممبر بننا مشکل تھا اب وہ چار آنے کے ممبر نہ تھے لیکن کانگرس کے باپو تھے۔حکومت سے کانگرس کی ٹھنتی تو زمام کار ہمیشہ ان کے ہاتھ میں ہوتی ۔ وہ کانگرس ہائی کمانڈ کے سپریم کمانڈر تھے ۔پنڈت جواہر ان کے ہم عصر تھے لیکن گاندھی نے ان کی انا کو اس طرح سے رام کیا کہ جواہر لال کو اپنی جگہ کانگرس کا صدر بنا دیا۔ اور یہ جواہر الال کی عالمگیر شہرت کا نقطہ آغاز تھا۔ اس طرح گاندھی جی کانگرس کے مختار کل بن گئے۔سبھاش چند ر بوش نے سرکشی دکھائی تو تری پورکانگرس کے موقع پر راجکوٹ میں مرن بھرت رکھ کر تمام ہندستان کی نگاہیں اپنی ذات پر مرتکز کر لیں اوریہ حقیقت ہے کہ سبھاش چندر بوس کو ان کی وجہ سے ہندستان چھوڑنا پڑا۔ گاندھی جی مہاتماہونے کے باوجود کانگرس میں اپنے کسی حریف کو برداشت نہ کرتے تھے ۔ انہوں نے کانگرس کو گاندھی ازم کا گہوارہ بنا دیا۔ محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی دونوں دادا بھائی نوروجی کے شاگر د تھے لیکن دونوں میں ایک فاصلہ پیدا ہو گیا۔کہ ہم اس کو ہندستان اور پاکستان کا فاصلہ کہہ سکتے ہیں۔محمد علی جناح اور محمد علی جوہر میں چشمک رہی ۔سر فضل حسین اور جناح میں ٹکراؤ رہا۔محمد علی جناح نے بہمہ وجود ہندستان چھوڑ دیا اور انگلستان بس گئے۔ مولانا ابوالکلام آزادکے علم کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا لیکن محمد علی جناح نے ان کو کانگرس کا شو بوائے کہہ کر منفی کیا۔ (شورش کاشمیری کی کتاب‘ پس دیوار زنداں ’سے اقتباس)