پہنچتا ہے ہراک مے کش کے آگے دور جام اس کا
کسی کو تشنہ لب رکھتا نہیں ہے لطف عام اس کا
گواہی دے رہی ہے اس کی یکتائی پہ ذات اس کی
دوئی کے نقش سب جھوٹے ہے سچا ایک نام اس کا
عبودیت کو بھی کیا کیا مدارج اس نے بخشے ہیں
جہاں میں بن کے آتا ہے رسول اس کا غلام اس کا
ہر اک ذرہ فضا کا داستاں اس کی سناتا ہے
ہر اک جھونکا ہوا کا آ کے دیتا ہے پیام اس کا
میں اس کو کعبہ و بت خانے میں کیوں ڈھونڈنے نکلوں
مرے ٹوٹے ہوئے دل ہی کے اندر ہے مقام اس کا
ہوئی ختم اس کی حجت اس زمیں کے بسنے والوں پر
کہ پہنچایا ہے ان سب تک محمدنے کلام اس کا
سراپا معصیت میں ہوں ، سراپا مغفرت وہ ہے
خطا کوشی روش میری ، خطا پوشی ہے کام اس کا
انتخاب ، خضر حیات ناگپوری