ملل و نحل کی کتابوں میں اگرچہ ایسے بہت سے فرقے بتائے گئے ہیں جو اسلام کے اندر پیدا ہوئے۔ مگر پھر بھی بعض فرقوں کا ذکر رہ گیا۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک طرف مسئلہ امامت اور دوسری طرف یونانی فلسفہ کی کتابوں کے ترجمہ ہونے اور نیز مسائل کلامیہ میں بحث ہونے کا یہ لازمی نتیجہ تھا کہ اسلام کی ابتدائی دو صدیوں کے بعد سے کئی صدیوں تک یہ حالت رہی کہ ہر سال دو ایک نئے مذاہب ضرور پیدا ہوتے رہے جو اسلامی پبلک کے لیے فتنہ بن جاتے۔ حسن بن صباح، عبد اللہ بن تومرت ، مہدی المغربی اور اسی طرح کے بہت سے لوگ انھی فتنوں کی یادگار تھے۔
انھی لوگو ں میں ایک جعفر محمد بن علی شلمغانی المروف بہ ابن القراقر شلمغانی بھی تھا۔ جس کے حالات پر اب تک پردہ پڑاہوا ہے۔ یہ شخص ۳۲۲ ہجری سے کچھ عرصہ قبل ارض عراق اور سواد بغداد میں ایک خاص شہرت کے ساتھ نمودار ہوا۔ اس کے بارے میں لوگوں میں مشہور ہو ا تھا کہ یہ مدعی ربوبیت ہے ۔ اور خدائی کا دعویٰ کرتا ہے۔ بغداد کی عقلمند دنیا میں کسی تعلیم یافتہ انسان کی نسبت ایک ایسے اتہام کا لگایا جانا کسی طرح قرین قیاس تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مگر اسی ۳۲۲ ہجری میں چندر روز پہلے ایک شخص دعوائے نبوت کر کے اپنے بہت سے پیروکاروں کے ساتھ قتل ہو چکا تھا۔ لوگوں کو دل لگی سوجھی کہ پیغمبر صاحب کے معجزات تو دیکھ لیے اب جناب رب الارباب صاحب کا جلوہ بھی دیکھ لیں۔ ساتھ ہی مشہور ہوا کہ بہت سے لوگ اس شخص کی ربوبیت پر ایمان لے آئے ہیں اور ان میں بہت سے نامی گرامی اور صاحب اثر امرا بھی ہیں۔
اس سے پیشتر خلیفہ المقتدر باللہ کے عہد میں او روزیر خاقانی کے دور میں بھی اس شخص کی گرفتاری کا حکم جاری ہو چکا تھا۔ مگر وہ بغداد میں روپوش ہو کر خاموشی سے موصل چلا گیاتھا۔ اس کا فتنہ یوں دب جاتے دیکھ کر خلافت کی جانب سے اس کی گرفتاری کی کوئی کوشش نہ کی گئی۔ لیکن اب یہ شخص پھر بغداد میں نمودار ہو گیا اس مرتبہ اس کی شہرت پہلے سے زیادہ تیزی سے ہر طرف پھیل گئی۔ جس کے نتیجے میں بے شمار بندگان خدا گمراہ ہو کر اس کے اطاعت گزاروں میں شامل ہو گئے۔ حتیٰ کہ خلیفہ المقتدر باللہ کا سابق وزیراعظم حسن بن قاسم بھی اس کے اطاعت کیشوں میں شامل ہو گیا اور اس کے دونوں بیٹے ابو جعفر اور ابو علی جو امرائے بغداد میں تھے، بھی اس پر ایمان لے آئے۔ اس الحاد و گمراہی نے وہ طوفان برپا کیا کہ خلیفہ الراضی باللہ نے، جو اسی سال خلافت عباسیہ کی مسند پر رونق افروز ہوا تھا، اس کی گرفتاری کا تاکیدی حکم جاری کر دیا۔ ابن مقلہ ان دنوں وزیراعظم خلافت تھا۔ اس نے بڑی ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے ‘‘پروردگار عالم’’ کو گرفتار کر لیا اور قید خانے میں ڈال دیا۔ اس کے گھر کی جب تلاشی لی گئی تو وہاں سے معتقدین اور مومنین کے بے شمار خطوط برآمد ہوئے جن میں لکھنے والوں نے شلمغانی کو ایسے القاب سے یاد کیا تھا جو سوائے خدا کے کسی انسان کی نسبت نہیں استعمال کیے جاتے۔ وہ خطوط جب شلمغانی کے سامنے پیش کیے گئے تو اس نے کہا کہ ہاں یہ خطوط انھی لوگوں کے لکھے ہوئے ہیں جن کے نام ان میں درج ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے کہا کہ:
‘‘میں مسلمان ہوں۔ میں نے نہ خدائی کا دعویٰ کیا ہے نہ ہی کوئی نیا مذہب نکالا ہے۔ ان لوگوں نے میری نسبت جو الفاظ استعمال کیے ہیں تو یہ ان کی اپنی غلطی ہے۔ جس کا الزام مجھ کو نہیں دیا جا سکتا۔’’
انھی خطوط کی بنیاد پر اس کے دو معتقد بھی گرفتار کر لیے گئے۔ جو بغداد کے معززین میں سے تھے۔ ایک ابن ابی عون اور دوسرا ابن عبدوس۔ اب یہ دونوں اشخاص اور شلمغانی خلیفہ الراضی باللہ کے دربار میں پیش ہوئے۔ خلیفہ نے ان دونوں مریدوں کو حکم دیا کہ :
‘‘اگر تم اس شخص (شلمغانی) سے اپنی لا تعلقی ظاہر کرتے ہو تو اس کے منہ پر زور زور سے تھپڑ مارو۔’’
پہلے تو انھیں اس حکم کی تکمیل میں عذر ہوا۔ مگر جب وہ مجبور کیے گئے تو جبراً و قہراً راضی ہو گئے۔ ابن عبدوس نے ہاتھ بڑھا کر شلمغانی کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا۔ مگر ابن ابی عون نے جونہی ہاتھ اٹھایا، اس کا ہاتھ کانپ گیا اس نے آگے بڑھ کر شلمغانی کی داڑھی کو بوسہ دیا اور پکارا‘‘ الٰہی! سیدی! رزاقی! (میرے خدا! میرے سردار! میرے رازق!)
اب کیا تھا الراضی باللہ کو حجت ہاتھ آ گئی۔ وہ شلمغانی سے بولا: ‘‘تم تو کہتے تھے کہ میں نے ربوبیت کا دعویٰ نہیں کیااور یہ کیا ہے؟’’ شلمغانی نے کہا: ‘‘ابن ابی عون کے اس قول و فعل کا میں ذمہ دار نہیں۔ خدا علیم ہے۔ میں نے کبھی ان سے نہیں کہا کہ مجھے خدا کہا کرو یا میں خدا ہوں۔’’ اس پر ابن عبدوس جس نے اسے تھپڑ مارا تھا، بولا: ‘‘ہاں یہ الوہیت کے مدعی نہیں۔ ان کا دعویٰ تو یہ ہے کہ یہ امام منتظر کے باب ہیں۔ (اس سے صاف ظاہر ہے کہ باب کا لفظ ایران کے آخری بانی مذہب مرزا علی محمد باب نے پہلے پہل نہیں استعمال کیا۔ بلکہ اس سے پیشتر بھی یہ لفظ کئی مرتبہ کام میں لایا جا چکا ہے۔ نصیریوں میں اس لفظ کا چرچا رہا ہے۔ ہمارے یہاں جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بانی فرقہ علی محمد باب سے پہلے کسی نے ‘‘باب’’ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تو یہ ان کی لاعلمی اور ناواقفیت ہے) اور ابن روح کی جگہ ہیں (جس نے پہلے پہل باب ہونے کا دعویٰ کیا تھا) اور میرا خیال تھا کہ یہ تقیۃً ایسا کہتے ہیں’’۔
اس کے بعد ابن القراقر کے اصول دین کا پتا لگانے کی کوشش کی گئی۔ جس کے نتیجے میں عجیب و غریب عقیدے اور انوکھے مسائل سامنے آئے۔ مذہب کی بنیاد صرف دومسئلوں پر رکھی گئی تھی۔ ایک امامت اور دوسرا تناسخ و حلول۔ الوہیت کی شان یہ تھی کہ خود شلمغانی ہی وہ الٰہ الہٰیت ہے جو حق کو ثابت کرتا ہے۔ وہی ہے جس کی جانب الفاظ ‘‘اول، قدیم، ظاہر، باطن، اور رزاق’’ سے اشارہ کیا جاتا ہے۔ ذات باری تعالیٰ کی نسبت یہ اعتقاد تھا کہ وہ اللہ جل شانہ ہر چیز میں اس کے ظرف و تحمل کے مطابق حلول کرتا ہے۔ اور جب کسی پیکر ناسوتی میں حلول کرتا ہے تو اس سے ایسی قدرت اور ایسے معجزات ظاہر ہوتے ہیں جو اس کے خدا ہونے کی دلیل ہوتے ہیں ۔ دوسرا مسئلہ الٰہی یہ تھا کہ اس نے ہر چیز کے لیے ایک ضد اس واسطے پیدا کی تاکہ وہ جس کی ضد ہے وہ ثابت ہو جائے۔ لہٰذا ضد ہی حق کی دلیل ہے اور دلیل حق خود حق سے افضل ہوتی ہے۔ ہر چیز کے ساتھ جو چیز موافق اور مشابہ ہوتی ہے بمقابلہ ان کے اس چیز کی ضد اس سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔
اسی کا مظہر یہ ہے کہ جب خدا نے آدم کو پیدا کیا تو جس طرح وہ خود آدم میں حلول کر کے نمایاں ہوا اسی طرح آدم کے ابلیس یعنی ان کی ضد میں بھی حلول کر کے خود ہی نمودار ہوا ۔ غرض دونوں پیکروں میں وہ خود ہی تھا۔ گو بظاہر یہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف نظر آتے تھے۔ پھر جب آدم علیہ السلام غائب ہو گئے تو وہ لاہوت (خدا) کے متفرق و منتشر ہو کر پانچ ناسوتوں میں جدا جدا نمودار ہوا۔ یہ ابلیس بھی پانچ ابلیسوں میں بٹ گیا۔اس کے بعد لاہوتیت ادریس علیہ السلام کے پیکر میں منتقل ہو گئی۔ یعنی مکمل خدا نے ادریس علیہ السلام میں حلول کیا۔ اسی طرح وہ چند بھی پانچوں ابلیسوں میں سمٹ کر ادریس علیہ السلام کی ضد یعنی ان کی مخالف و معاصر ابلیس میں مجتمع ہو گئی۔ ادریس علیہ السلام اور ان کے معاصر ابلیس کے بعد پھر الوہیت دونوں ضدوں کی حیثیت سے ناسوتوں اور ابلیسوں میں منتشر ہوئی اور چند روز بعد نوح اور ان کے معاصر ابلیس میں جمع ہوئی۔ پھر منتشر ہوئی اور ہود علیہ السلام اور ان کی چند ابلیس میں جمع ہوئی۔ پھر منتشر ہو کر صالح اور ان کے ابلیس یعنی قاتل ناقۃ اللہ میں جمع ہوئی۔ پھر منتشر ہوئی اور ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ابلیس نمرود میں جمع ہوئی۔ پھر منتشر ہوئی اور موسیٰ و ہارون علیہما السلام اور ان کے معاصر ابلیس یعنی فرعون میں مجتمع ہوئی۔ اس کے بعد منتشر ہو کر سلیمان علیہ السلام اوران کے ابلیس کے پیکروں کو حلول کے لیے منتخب کیا۔ اس کے بعد منتشر ہو کر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ابلیس میں مجتمع ہوئی۔ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد وہ حواریوں میں تقسیم ہو گئی اور چند روز گزرنے کے بعد وہ جناب علی المرتضی رضی اللہ عنہ اور ان کے معاصر ابلیس میں نمودار ہوئی اور اب وہی الوہیت خود شلمغانی اور اس کے معاصر ابلیس میں نمایاں ہے۔
شلمغانی کا دعویٰ تھا کہ خدا اپنے آپ کو ہر چیز پر پیکر اور ہر معنی میں حلول کرتا ہے۔ اور ہر دل میں جو خیالات گزر رہے ہوتے ہیں اور حالت یہ ہوتی ہے کہ گویا آنکھوں کے سامنے ہیں، یہ وہی خدا ہے۔ خدا دراصل ایک معنی کا نام ہے اور لوگ جس کے محتاج ہوں وہی ان کا الٰہ (خدا) ہے۔ چنانچہ اس لحاظ سے ہر شخص خدا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جس سے کسی کو نفع پہنچے وہ اس کا رب ہے۔ ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ میں فلاں کا رب ہوں۔ وہ میرا رب ہے۔ وہ فلاں فلاں کا رب ہے۔ اور فلاں میرے رب کا رب ہے۔ یہاں تک کہ ربوبیت کا سلسلہ ابن القراقر شلمغانی تک پہنچ جاتا اور وہ دعویٰ کرتا کہ میں رب الارباب ہوں۔ کیونکہ اس زمانے میں اس سے بڑی اور کوئی ربوبیت نہ تھی۔
شلمغانی کے نزدیک جناب حسن اور حسین رضی اللہ عنہما حضرت علی کے فرزند نہیں تھے کیونکہ اس کے اعتقاد کی رو سے جس پیکر میں ربوبیت مجتمع ہو کر نمودار ہوئی تھی اس کا نہ کوئی باپ ہوتا ہے، نہ کوئی بیٹا۔ وہ تو خدا ہے او رخدا کی شان ہے: لَم یَلِد وَ لَم یُولَد.
یہ تو عقائد تھے۔ اب ذرا شلمغانی کی شریعت کا بانکپن بھی ملاحظہ ہو۔ اعتقاد تھا کہ علی رضی اللہ عنہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر قریش اور جبائر عرب کے پاس بھیجا۔ جنہیں انھوں نے حکم دیا کہ رکوع و سجود کریں۔ نماز پڑھیں (غالباً یہی خیانت ہو گی) علی نے یہ کہہ کر اجازت دے دی کہ جتنے دنوں تک اصحاب کہف سوتے رہے تھے (ساڑھے تین سو یا اس سے کم و بیش سال) اتنے ہی عرصہ تک شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کیا جائے۔ اس مدت کے گزرتے ہی احکام سابقہ کالعدم ہوں گے اور شریعت بدل کر نئی ہو جائے گی۔ (مگر افسوس کہ اس مدت کے مکمل ہونے میں ابھی اٹھائیس سال ہی باقی تھے کہ دربار بغداد نے وہ الوہیت ہی منتشر کر دی جو شلمغانی صاحب کے پیکر ناسوت میں سے عجیب وغریب آوازیں سنوا رہی تھی)
مگر جس قدر مسائل شریعت شلمغانی نے بتائے، وہ یہ تھے کہ نماز روزہ کو بالکل چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ تکلیف محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کو اپنے زمانے میں دی تھی۔ مگر اب جو تکلیف اس زمانے کے مناسب حال ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کو اپنی عورتیں ہر شخص کے لیے حلال کر دینے کی تکلیف دی جائے تاکہ لوگوں کو اپنی عورتوں سے مقاربت کرتے دیکھیں اور غصہ نہ آئے۔ چنانچہ عورتیں ہر شخص کے لیے حلال اور طیب ہیں۔ انسان اپنے ذوی الارحام اوراپنی محرمات ابدیہ تک کے ساتھ چاہے تو مقاربت کر سکتا ہے۔ کوئی مضائقہ نہیں۔ باپ اپنے بیٹے تک کی عورت سے تعلق پیدا کر سکتا ہے بلکہ دین حق (پیروان شلمغانی) والوں کوچاہیے کہ ہر شخص جو دوسرے سے افضل ہو اپنے سے کم تر درجہ والوں کی عورتوں سے مقاربت کرے۔ تاکہ ان میں نور کو پہنچا دے اور جو کوئی اس سے انکار رکے گا اس کا جنم بہ پابندی قواعد تناسخ آنے والے بعد کے دور میں عورت کے پیکر میں ہو گا۔ غرضیکہ بے حیائی اور شہوت پرستی کے رواج دینے میں شلمغانی نے مزدک کے بھی کان کاٹ لیے تھے۔
شلمغانی کی تعلیمات کے مطابق جنت اور دوزخ کوئی چیز نہ تھے۔ صرف ان کے مذہب حق کے ماننے اور اس کی معرفت کا نام جنت تھا۔ اور اس کے مذہب سے انکار کرنے اور اس کے اصول سے جاہل رہنے کا نام دوزخ ۔ اس کے اعتقاد میں ملائکہ سے مراد ہر وہ شخص تھا جو عارف حق اور اپنے نفس کا مالک ہو۔
اگرچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود بھی ابن ابی طالب تھے۔ مگر چونکہ ابی طالب کی اکثر اولادوں نے امامت کے دعوے کیے تھے اس لیے ان کے نزدیک یعنی پیروان شلمغانی کے نزدیک تمام طالبیوں اور عباسیوں کا قتل کرنا موجب ثواب اخروی تھا۔ خلاصہ یہ کہ دین اسلام اور خلافت عباسیہ دونوں کے استیصال کا پورا پورا سامان کیا تھا۔ اور جب تحقیق و تفتیش کے بعد یہ مسائل اور عقائد لوگوں کو معلوم ہوئے ہوں گے اور دربار خلافت میں فقہاء و علماء کے سامنے پیش ہوئے ہوں گے تو واقعی بڑا لطف آیا ہو گا۔
ان لوگوں کے مقدمہ کی تحقیقات خاص الراضی باللہ کے دربار ہوا کرتی تھی۔ جن صحبتوں میں فقہا، قضاۃ اور مصنفین کے علاوہ سرداران فوج بھی شریک ہوتے تھے۔ آخر فقہاء نے فتویٰ دے دیا کہ ایسے بے دین شخص کا قتل کرنا سلطنت کو مباح ہے۔ چنانچہ ابن القراقر شلمغانی اور اس کے مرید ابن ابی عون، جس نے شلمغانی کو سر دربار تھپڑ مانے کی بجائے اس کی داڑھی کو بوسہ دے کر اسے اپنا خدا اور رزاق بتایا تھا، دونوں ذی قعد ۳۲۲ ھ میں مصلوب کر دیے گئے۔ جب صلیبوں پر ان کا خاتمہ ہو چکا تو ان دونوں کی لاشیں اتار کے جلا دی گئیں۔ ان کے متبعین بجائے اس کے اٹھائیس سال گزرنے کے بعد اس دن کا جلوہ دیکھیں جس دن شریعت مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کومٹانے کے لیے شلمغانی کی تصنیف کردہ شریعت مرتضوی جاری ہونے والی تھی، بھاگ بھاگ کر اپنی جانیں بچانے اور منہ چھپانے لگے۔
شلمغانی کا خاص الخاص معزز پیرو کار حسن بن قاسم رقہ میں تھا۔ الراضی باللہ نے آدمی بھیج کر اسے قتل کروا دیا۔ اور اس کا سر عبرت روز گار ہونے کے لیے بغداد لایا گیا۔
بانیان مذہب یا مذاہب میں بدعتیں پیدا کرنے والے بہت سے گزرے ہیں لیکن ابن القراقر شلمغانی کے حالات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض ایک سازشی سیاست دان یا ملحدانہ خیالات کا فلسفی ہی نہ تھا بلکہ اول درجہ کا شہوت پرست اور بدقماش بھی تھا۔ جس کی سب سے بڑی آرزو یہ تھی کہ دنیا شہوت پرستی اور زنا کاری کا گڑھ بن جائے۔