عام تجربہ و مشاہدہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں حساس لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ بلکہ تعداد بڑھنا کیا ہمارے معاشرے کا ہر فرد حساس آدمی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ آپ ذرا سا کسی کو چھیڑ دیجئے فوراً ہی آپ کو جواب ملے گا کہ صاحب میں بہت حساس ہوں ذرا مجھ سے زبان سنبھال کر بات کیجئے۔ اسی طرح آپ اکثر کسی نہ کسی سے سنتے ہوں گے کہ صاحب، فلاں شخص بڑا ہی حساس ہے۔ ذرا اس سے سوچ سمجھ کر گفتگو کیجئے گا۔ حساسیت کی یہ برکت اتنی عام ہو گئی ہے کہ مرد و عورت کی تمیز مشکل ہو گئی ہے۔ یعنی ریت پر کھنچی ہوئی لکیر اور پتھر پر کھنچی ہوئی لکیر میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔ ریت کی لکیر کو جتنی آسانی سے مٹایا جا سکتا ہے، پتھر کی لکیر کو بھی اتنی ہی آسانی کے ساتھ زیر و زبر کیا جا سکتا ہے۔
بظاہر معاشرے میں بڑھتی ہوئی حساسیت کی یہ کیفیت بڑی حوصلہ افزا ہے۔ حساسیت کا مطلب ہے حقیقی انسانی کیفیات کے زیادہ سے زیادہ قریب ہونا۔ خوبصورتی اور بدصورتی کے درمیان موجود فرق کے گہرے اور شدید شعور کا حامل ہونا۔ واضح رہے کہ میں یہاں خوبصورتی کو سچائی کے ہم معنی لفظ کے طور پر استعمال کر رہا ہوں۔ جیسا کہ انگریزی کے عظیم رومانوی شاعر جان کیٹس نے کہا تھا۔ حسن سچائی ہے اور سچائی وہ حسن ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
اس حوالے سے دیکھا جائے تو کسی معاشرے کے افراد میں مذکورہ بالا خصوصیات کا پیدا ہونا ایک بڑی اچھی بات ہے۔ کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ معاشرہ بڑا صحت مند اور انسانی ہے۔
افسوس کہ ہمارا معاشرہ ایسا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں پرورش پانے والی حساسیت بڑی جعلی قسم کی ہے۔ اس میں کئی بھیانک سقم پائے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر آپ کسی شخص کے ساتھ ذرا سے تیز لہجے میں گفتگو کریں گے تو اس کی حساسیت فوراً عود کر آئے گی اور وہ برا مان جائے گا۔ لیکن جب یہی شخص کسی دوسرے کے ساتھ معاملہ کرے گا تو اسے رتی برابر بھی اس بات کا احساس نہیں رہے گا کہ دوسرا شخص بھی حساس ہو سکتا ہے اور اسے بھی دکھ ہو سکتا ہے یا اس کی بات بھی بری لگ سکتی ہے۔ یعنی کوئی ہمیں ایک ذرہ اٹھا کر مارے تو قیامت برپا ہو جائے اور ہم کسی کو پورا پہاڑ بھی اٹھا کر دے ماریں تو کوئی بات نہیں۔ ہماری حساسیت کا پہلا جعلی پن تو یہ ہے۔
میرے خیال میں حساس آدمی بدصورتی کے سلسلے میں ہی نہیں خوبصورتی کے سلسلے میں بھی حساس ہوتا ہے۔ بلکہ حقیقی معنوں میں حساس آدمی ہوتا ہی وہ ہے جس میں ان دونوں جہات کے سلسلے میں حساسیت پائی جاتی ہو۔ تاہم ہمارے معاشرے کا عام تجربہ شاہد ہے کہ ہم معمولی سی بری بات کا جتنا برا مانتے ہیں، معمولی سی اچھی بات پر اتنا خوش نہیں ہوتے۔ ہم معمولی بری بات سے خود کو دوسرے سے جتنا دور محسوس کرتے ہیں، معمولی سی اچھی بات پر خود کو دوسرے کے اتنا قریب محسوس نہیں کرتے۔ اسی طرح چھوٹی سی بری بات پر دوسرے کو جتنا مطعون کرتے ہیں، چھوٹی سی اچھی بات پر دوسرے کو اتنا سراہتے نہیں۔ ہماری جعلی حساسیت کا یہ دوسرا پہلو ہے۔
اسی طرح جب ہمارے کسی جھوٹ کا پول کھلتا ہے، جب ہمارا اپنا Image ٹوٹتا ہے یا ہمارے پاس کسی بات کا جواب نہیں ہوتا تو ہماری حساسیت جاگ اٹھتی ہے۔ یہ مذکورہ بالا حساسیت کے چند پہلو ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہماری یہ حساسیت ہے کیا شئے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمارے تمام روئیے حساسیت کی نہیں بلکہ ہماری کمزور یا غیر مستحکم شخصیت کی پیداوار ہوتے ہیں، بلکہ اکثر صورتوں میں واضح احساس کمتری کی ۔ غیر مستحکم اورحساس شخصیت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
نٹشے نے کہیں لکھا ہے کہ فنکار ہر طرح کے تاثرات کو قبول نہیں کرتا بلکہ تاثرات کو قبول کرنے کے سلسلے میں اس کے اندر ایک مخصوص روحانی جہت ہوتی ہے۔ آپ چاہیں تو اس مثال کو حساس شخص کے اوپر منطبق کر سکتے ہیں۔ یعنی حساس آدمی وہ نہیں ہوتا جو ہر بات یا ہر واقعہ کا اثر قبول کر لے، بلکہ وہ ہوتا ہے جو مخصوص باتوں اور واقعات کا ہی اثر قبول کرتا ہے۔ اثر قبول کرنے کی اصطلاح میں یہاں بڑے مخصوص معنوں میں استعمال کر رہا ہوں۔ یعنی اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ بعض تاثرات کو قبول کرنے کے سلسلے میں بے حس ہوتا ہے، بعض باتوں کا اس پر اثر ہی نہیں ہوتا، بلکہ یہاں اثر قبول کرنے سے مراد یہ ہے کہ وہ ہر تاثر کو قبول کر کے اس پر اپنے رد عمل کا اظہار نہیں کرتا بلکہ چند تاثرات ہی ایسے ہوتے ہیں جو اس کے اندر ردعمل پیدا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس غیر مستحکم شخصیت کا مالک ہر طرح کے تاثرات کو قبول کر کے ان پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتا ہے۔ کبھی یہ رد عمل الفاظ میں ڈھل کر ظاہر ہوتا ہے اور کبھی خاموشی کے ساتھ رویوں کی تبدیلی میں جیسے کوئی آپ سے الفاظ میں کچھ نہ کہے، لیکن خاموشی کے ساتھ آپ سے دور چلا جائے۔
حساس شخصیت اور غیر مستحکم شخصیت کے درمیان ایک اور بڑا فرق پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ حساس شخصیت یہ دیکھتی ہے کہ ‘‘غلط کہا گیا’’ جبکہ غیر مستحکم یا احساس کمتری کی شکار شخصیت یہ دیکھتی ہے کہ ‘‘میرے بارے میں غلط کہا گیا’’ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حساس شخصیت کا رد عمل کچھ مرکزی اور مجرد (Abstract) اصولوں سے پیدا ہوتا ہے جبکہ غیر مستحکم شخصیت کا رد عمل اس کی اپنی ذات سے ( یا بد ذات سے) پیدا ہوتا ہے۔
حساس آدمی اور غیر مستحکم شخصیت کے درمیان ایک اور فرق ہوتا ہے۔ حساس آدمی کے منفی تجربے بھی اس کی آگہی میں اضافہ کا ذریعہ و سبب بنتے ہیں جبکہ غیر مستحکم یا احساس کمتری کے شکار فرد کے منفی تجربے اس کے لیے صرف اور صرف اذیت کا سامان ہوتے ہیں۔
مجھے تسلیم ہے کہ بچپن اور خاص طور پر بڑھاپے میں کچھ حساس لوگ بھی اپنی شخصیت کا توازن برقرار نہیں رکھ پاتے۔ چنانچہ میری ان ناچیز آرا کا اطلاق ان پر نہیں کیا جانا چاہیے۔ البتہ نوجوانوں پر میری ان معروضات کا اطلاق ہر صورت میں ہو گا۔
مجھے یہ بھی تسلیم ہے کہ بعض Extreme Situations میں حساس شخصیت اور غیر مستحکم شخصیت سے متعلق میری یہ Observations بڑی حد تک نا درست ہو سکتی ہیں۔ البتہ عام حالات میں ان کی درستگی پر شبہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔
اس پوری بحث کے پس منظر میں جب آپ اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں گے تو معلوم ہو گا کہ آپ کے معاشرے میں حساس لوگوں کے بجائے غیر مستحکم شخصیت رکھنے والے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ جب کسی معاشرے میں غیر مستحکم شخصیات کی تعداد ایک حد سے بڑھ جاتی ہے تو اس معاشرے کا جذباتی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے جس کے نتیجہ میں معاشرے کے Reactions بڑے غیر یقینی ہو جاتے ہیں ۔ دوست لمحہ بھر میں دشمن اوردشمن لمحہ بھر میں دوست بن جاتا ہے۔ یعنی ایسے معاشرے میں ہر شے سیال (Fluid) بن جاتی ہے۔ بقول شاعر
ٹکڑوں ٹکڑوں میں بسر کرتا ہوں عمر
لمحہ بھر کو جی اٹھا پھر مر گیا
ہمارے معاشرے کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اس صورت میں ایک بڑی تعمیر کا امکان بھی ہے۔ مگر یہ امکان بھی صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کے اذہان میں تعمیر اور تخریب کا فرق واضح ہے۔ کیا ہمارے اذہان میں تعمیر اور تخریب کا فرق واضح ہے؟ کوئی ہے جو جواب دے!