آئی ایم ایف میں دس بڑے ممالک دنیا کی معیشت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف میں امریکہ کا شیئر سب سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد جاپان، جرمنی، فرانس، انگلینڈ، اٹلی، چین، سعودی عرب، کینیڈا اور روس ہے۔ آئی ایم ایف ایک ایسا پھندا ہے جو اس میں پھنس جائے وہ کبھی رہائی نہیں پا سکتا۔ آئی ایم ایف کی 63 سالہ تاریخ میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں جس نے ایک بار ان سے سودی قرض نہ لیا ہو۔ قرض دینے کا کاروبار اس وقت چھ بڑے مالیاتی اداروں، 30 ملکوں اور 32 ممالک کے بڑے بینکوں کے ہاتھ میں ہے۔ ان بینکوں کو اے پلس بینک کہا جاتا ہے۔ دنیا میں بہت کم ایسی مثالیں موجود ہیں جن کو آئی ایم ایف کے ذریعے ریلیف ملا ہو۔ حال ہی میں ہمارے سامنے ایک بڑی مثال کینیا کی ہے۔ آئی ایم ایف کی مداخلت سے قبل کینیا کا بینک کرنسی کی نقل و حرکت پر چیک رکھتا تھا مگر جب آئی ایم ایف نے قرضے فراہم کرنے کے بعد اپنی ظالمانہ پالیسیاں نافذ کیں اور سینٹرل بینک کو کرنسی کی آزادانہ نقل وحرکت کی اجازت دینے پر مجبور کیا تو کینیا کی پوری کی پوری معیشت ہی بیٹھ گئی اور دنیا میں کرپشن کا ایک انوکھا اسکینڈل سامنے آیا جس کو گولڈن برج اسکینڈل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میں ایک ہندو تاجر کمپلش پٹنی کینیا کی تمام کرنسی کو بیرونی ممالک میں منتقل کرنے میں کامیاب ہوا اور ملک کو بدترین حالات میں چھوڑ دیا گیا۔ آئی ایم ایف نے اس ہندو تاجر کے ساتھ پورا تعاون کیا۔ رومانیہ نے بھی ایسی ہی غلطی کی اور پھر اس کے وزیراعظم کو مجبوری کے عالم میں کہنا پڑا کہ 2005ء کے بعد آئی ایم ایف کی مشاورت پر عمل کر کے ملک کو سنگین بحران سے دوچار کر دیا گیا ہے۔
آئی ایم ایف کے ریکارڈ میں ایک اور دلچسپ حقیقت بھی موجود ہے کہ دنیا میں صرف 21 ممالک ایسے ہیں جنہوں نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کیا ہے، ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ 90ء کی دہائی میں پاکستان کے ساتھ بھی یہ عمل دہرایا گیا تھا ۔
بے نظیر اور نواز شریف نے اپنے دو ر اقتدار میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں پر عمل درآمد کرنے سے اجتناب کیا جب کہ اس کے مقابلے میں جنرل ضیاء الحق (مرحوم) اور جنرل (ر) پرویز مشرف نے آئی ایم ایف معاہدوں پر مکمل عملدرآمد کیا تھا۔ اس طرح کے فیصلے فوجی آمر ہی کر سکتے ہیں، کوئی بھی جمہوری حکومت عوام کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کی جرأت نہیں کر سکتی۔
پاکستان کے عاقبت نااندیش حکمرانوں نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ملک کے وسائل کو اپنی عیاشیوں کے لیے بے دریغ استعمال کیاگیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان 15 ملین ڈالر سے زائد کی پر تعیش اشیاء درآمد کرتا ہے جو ہماری برآمدات کے آدھے سے بھی دو گنا ہے۔ خادمانِ پاکستان کے استعمال میں قیمتی گاڑیاں ہیں جن کا ایندھن عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ادا کیا جاتا ہے۔ ملک میں وزرا کی فوج ظفر موج ہے۔ ایک وزیر ہمیں سال میں ایک کروڑ میں پڑتا ہے اور سونے پر سہاگہ قائمہ کمیٹیاں ، وزرائے مملکت، شاہی ڈنر، لنچ اورعصرانے اور اس پر ان کی کارکردگی صفر بٹا صفر۔ اور سچ تو یہ ہے کہ قوم ان عیاشوں کو اپنی فاقہ کشی پر پال رہی ہے۔
اسلام کے شیدائی اور پیرو کار طالبان نے افغانستان کے لیے سودی قرض کی شدید متنفرانہ مخالفت کی جو امریکہ کے لیے ایک دھچکا تھا۔ لہٰذا مغربی اتحادیوں نے سوچی سمجھی سکیم کے تحت افغانستان پر قبضہ کر کے ہمیشہ کے لیے قرض کے پھندے میں جکڑ لیا۔ چونکہ پاکستانی حکمران اور سیاستدان ملکی سرمایہ سمگل کر کے قرضوں کے سہارے ملک چلانا چاہتے ہیں، لہٰذا آئی ایم ایف کی تباہ کن شرائط تسلیم کر کے وطن کو بحران سے دوچار کر دیں گے۔ اگر صرف چین جو اس وقت اقتصادی طور پر سب سے مستحکم ہے اور جس کا امریکہ بھی مقروض ہے، سے وابستگی کی جائے تو بھارت کبھی جنگ کرنے کا جواز بھی پیدا نہ کرے گا۔ سعودی عرب، چین، ایران، متحدہ عرب امارات اور اسلامی ممالک سے ہمیں اس قدر امداد مل جائے گی کہ ہمیں آئی ایم ایف سے 16 فیصد شرح پر سود لینا نہیں پڑے گا بشرطیکہ ہمارے مقتدر حضرات اور سرمایہ داران شخصیات ملکی سرمایہ بیرون ملک منتقل نہ کریں۔ مگر ہمارے حکمرانوں کو اس کے لیے آگے بڑھنا ہو گا اور پاکستان کے مستقبل کو محفوظ کرنا ہو گا۔
(بشکریہ حجاز نیوز لیٹر،لاہور، فروری 2009ء )