حادثۂ رجیع اور سیرتِ صحابہؓ کے بعض روشن پہلو

مصنف : سراج احمد برکت اللہ

سلسلہ : سیرت صحابہؓ

شمارہ : مارچ 2009

حادثۂ رجیع اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ ہے۔ یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ان مخصوص مہمات میں سے ایک ہے جس سے متعلق قرآن میں واضح اشارے ہیں۔ یہ حادثہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ بعض پہلوؤں سے یہ اپنے دامن میں بہت قیمتی دروس اور نصائح رکھتا ہے اور اس کی اوٹ سے سیرتِ صحابہؓ کے بعض روشن پہلوبہت صاف دکھائی دیتے ہیں۔ عام طور سے سیرتِ نبویؐ کے ان ابواب کو بحث و تحقیق اور حصولِ درس و عبرت کے لیے بہت کم موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ عصرِحاضر کے تناظر میں اس واقعے پر غور کرنے کی بہت ضرورت ہے اور اس سے بہت کچھ اخذ کیا جاسکتا ہے۔

حادثۂ رجیع غزوۂ احد(شوال ۳ ہجری) کے بعد کا واقعہ ہے۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق اور جیساکہ عروہؓ نے صراحتاً بیان کیا ہے۔ آپؐ نے دس صحابہؓ کو روانہ فرمایا تاکہ اہلِ مکہ کی خبر لائیں اور عاصم بن ثابتؓ کو ان کا امیر بنایا۔ واضح رہے یہ غزوۂ احد کے بعد کا زمانہ ہے۔ مسلمانوں کو اس بات کا اندیشہ رہا ہوگا کہ کہیں قریش کوئی منصوبہ تو نہیں تیار کر رہے ہیں؟ آس پاس کے قبائل سے متعلق ان کی اس وقت کیا سرگرمیاں ہیں؟ ویسے بھی قریش مکہ چونکہ مسلمانوں کے دشمن تھے اور بدر و اُحد میں مسلمانوں سے بہت نقصان اٹھایا تھا اس لیے وہ بہت کچھ کرسکتے تھے چنانچہ ان سے باخبر رہنا ضروری تھا۔

صحابہؓ مدینہ سے روانہ ہوئے اور ‘‘عسفان’’ سے آگے مکہ کی طرف چلے، ابھی صرف سات میل دُور ھدأۃ /ھدۃ نامی مقام تک ہی پہنچے تھے کہ قبیلہ بنولحیان کو کچھ آہٹ لگی اور انہیں پتا چل گیا۔ ہوا یہ کہ صحابہؓ راتوں کو چلتے اور دن میں کسی محفوظ مقام میں چھپ جاتے تھے۔ وہ رات میں رجیع پہنچے۔ ھدأۃ/ھدۃ سے ذرا پہلے حجاز کے آس پاس ہذیل کا ایک چشمہ تھا جس کے قریب کچھ آبادی تھی اسی کو یہاں رجیع کہا گیا ہے۔ یہاں سحری کے وقت صحابہؓ نے عجوہ کھجوریں کھائیں اور فجر سے پہلے پہلے قریب کی پہاڑی میں جا چھپے۔ اتفاق سے کھجور کی گٹھلیاں وہیں چھوٹ گئی تھیں۔صبح کو ایک عورت بکریاں لے کر اِدھر آئی، اس نے دیکھا اور فوراً پہچان لیا۔ وہ چِلّا پڑی یہ تو یثرب کی کھجور ہے۔ غرض بنولحیان نے گٹھلی دیکھی تو یقین ہوگیا کہ یہ یثرب والے ہیں جو غلط ارادے سے آئے ہیں اور یہیں کہیں چھپے ہیں۔ بنولحیان کے سو دوسو افراد تیر و تلوار لے کر نکلے اور ان کی تلاش میں لگ گئے۔ صحابہؓ کو جب احساس ہوا کہ ہمارا پیچھا کیا جا رہا ہے تو ایک بلند ٹیلے پر پناہ گیر ہوگئے۔ کفار نشاناتِ قدم دیکھتے ہوئے وہاں پہنچے لیکن بس نہ چلا تو کہنے لگا: ‘‘اُتر آؤ، ہم عہدوپیمان دیتے ہیں قتل نہیں کریں گے، ہماری پناہ میں آجاؤ’’۔

درج بالا تفصیل صحیح بخاری کی روایت کردہ ہے۔ ابن اسحاقؒ کا بیان اس سے کچھ مختلف ہے۔ ابن اسحاقؒ کے بقول غزوۂ احد کے بعد عضل وقارہ کی ایک جماعت (وفد) مدینہ آئی جس کا سلسلۂ نسب ھون بن خزیمہ بن مدرکہ سے ملتا ہے۔ آنے والی جماعت نے درخواست کی کہ ہمارے یہاں اسلام کا کچھ چرچا ہے۔ لہٰذا آپ کچھ لوگوں کو دین کی تعلیم دینے، قرآن پڑھانے اور شریعت کی باتیں بتانے کے لیے ہمارے ساتھ روانہ فرما دیجیے۔ آپؐ نے ان کے ہمراہ چھ صحابہ کرامؓ کو مرثد بن ابی مرثد الغنویؓ کی قیادت میں بھیج دیا۔

ابن اسحاقؒ کے حوالہ سے سیرت ابن ہشام میں ان صحابہؓ کے نام بھی درج ہیں جو حادثۂ رجیع میں شریک ہوئے تھے: ۱- مرثد بن ابی مرثد الغنویؒ ۲-خالد بن بکیر اللیثیؓ ۳-عاصم بن ثابتؓ ۴-خبیب بن عدیؓ ۵- زید بن دثنہ بن معاویہ ۶- عبداللہ بن طارقؓ، البتہ بخاری کی روایت کے مطابق مرثد بن ابی مرثد الغنویؒ کے بجائے عاصم بن ثابتؓ کی قیادت میں دس صحابہؓ روانہ کیے گئے۔

بقیہ تین افراد کے نام سیرت نگاروں کے یہاں نہیں ملتے۔ ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ باقی افراد ممکن ہے ان کے غلام اور اتباع رہے ہوں اس لیے سیرت نگاروں نے نام ذکر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ صحابہ مرثد بن ابی مرثد الغنویؓ کی قیادت میں وفد کے ہمراہ مدینہ سے چلے۔ رابغ اور جدہ کے درمیان قبیلہ ہذیل کے رجیع نامی چشمے پر پہنچے تو وفد نے دھوکہ دیا اور اپنی مدد کے لیے ہذیل کو پکارا۔ ہذیل کی ایک شاخ بنولحیان کے سو افراد ٹوٹ پڑے، تیروتلوار لے کر نکلے، صحابہؓ کو گھیر لیا اور قتال پر آمادہ ہوگئے۔

صحابہؓ چوں کہ محفوظ مقام پر جاچکے تھے، اس لیے انھیں کامیابی نہیں ملی۔ بالآخر بنولحیان نے کہا: تمھارے لیے عہدوپیمان ہے ہم تمہارے کسی آدمی کو قتل نہیں کریں گے، ہم تمہیں قتل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے، ہم تو بس اہلِ مکہ سے تمہارے بدلے کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں، ہم تمہیں اللہ کے عہد وپیمان کا واسطہ دیتے ہیں، قتل نہیں کریں گے، ہماری امان میں آجاؤ۔ کفار کی طرف سے امان کی اس پیش کش کو صحابہؓ نے ٹھکرا دیا اور کہا کہ: ‘‘خدا کی قسم! ہم کسی مشرک کی امان کبھی قبول نہیں کریں گے’’۔

فرق بس اتنا ہے کہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق بنولحیان کو کچھ آہٹ لگی کہ مدینہ کے کچھ افراد ادھر سے گزرے ہیں اور یہ سوچ لیا کہ وہ غلط ارادے سے آئے ہوں گے۔ انہوں نے پیچھا کیا اور آگے کے واقعات پیش آئے۔ ابن اسحاق کے بیان میں یہ ہے کہ اس مقام پر پہنچ کر وفد کے لوگوں نے دھوکہ دیا اور مدد کے لیے بنولحیان کو آواز دی، اس پر وہ تیروتلوار لے کر ٹوٹ پڑے اور مقابلہ کیا۔ غرض کفار نے اپنا مطالبہ دہرایا تو عاصم بن ثابتؓ نے برجستہ اشعار کہے اور اپنا موقف ظاہر کیا۔ ان اشعار کا ترجمہ یہ ہے: ‘‘ہم کمزوری کا اظہار کیوں کریں؟ ہم بہادر قوم ہیں، ہم مضبوط تیر اور کمان رکھتے ہیں، ہمارے ساتھ فریب کا معاملہ کیا گیا ہے۔ آج کے دن مرنا حق اور جینا باطل ہے۔ اللہ کا جو فیصلہ ہے وہ ہوکر رہے گا۔ بندہ اس فیصلے سے بچ نہیں سکتا۔ اگر میں تم کو قتل نہ کروں تو میری ماں روئے، میں ابوسلیمان ہوں، بہادر دشمنوں کے تیروں کا مقابلہ کرنے والا اور سخت ٹیڑھا ہوں اس درخت کی طرح جس سے کمان بنایا جاتا ہے۔ میدانِ جنگ میں دشمنوں کا ایسا صفایا کرتا ہوں جیسے شعلہ زن بھڑکتی ہوئی تیز آگ آن کی آن میں چیزوں کو جلا کر خاکستر کردیتی ہے، جب دشمنوں کی بڑی بڑی فوجیں مقابلے میں ہوں تو بھی خوف نہیں کرتا، بہادر دشمن کی ڈھال کی پروا کیے بغیر لڑتا جاتا ہوں اور آخری بات جان لو میں محمدﷺ پر ایمان رکھتا ہوں’’۔ حضرت عاصم بن ثابتؓ کے اشعار پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہی صحابہؓ کی جماعت کے امیر تھے۔

حضرت عاصم بن ثابتؓ نے امان قبول کرنے سے انکار کردیا اور اپنے رفقاء سمیت مقابلے پر ڈٹے رہے۔ بنولحیان نے تیروں کی بوچھاڑ کردی۔ صحابہ ہر طرف سے گھِر چکے تھے، چوطرفہ تیروں کی بارش ہو رہی تھی۔ حضرت عاصم بن ثابتؓ اور ان کے رفقاء شہید ہوگئے لیکن مشرکین کی امان قبول نہ کی۔ صرف تین صحابہؓ باقی بچے۔ اب پھر بنولحیان نے اپنا عہدوپیمان دہرایا۔ اس پر تینوں صحابہؓ مشرکین کی امان میں آگئے لیکن قابو پاتے ہی انہوں نے بدعہدی کی اور ان کو قید کرلیا۔

بنولحیان کے حملہ اور ان کے تیروں کا مقابلہ کرتے ہوئے جو صحابہؓ شہید ہوئے ان میں حضرت عاصم بھی تھے۔ یہ کفار کے بڑے سخت دشمن تھے۔ انھوں نے بدرواُحد میں بڑی شجاعت کا مظاہرہ کیا تھا اور قریش کو سخت نقصان پہنچایا تھا۔ سلافۃ بنت سعد کے دو بیٹوں، مسافع بن طلحہ العبدری اور جلاس بن طلحہ العبدری کو بدر میں مارا تھا اور قریش کے ایک بڑے سردار عقبہ بن ابی معیط کو جو بدر میں قید ہوا تھا، واپسی کے دوران بحکم رسولؐ انھی حضرت عاصمؓ نے قتل کیا تھا۔ جب یہی حضرت عاصمؓ شہید ہوگئے تو کفار نے چاہا ان کا سرکاٹ لیں اور سلافۃ بنت سعد بن سہیل کے ہاتھوں فروخت کردیں۔ اس عورت نے نذر مان رکھی تھی کہ اگر قدرت ملی تو عاصمؓ کی کھوپڑی میں شراب پیوں گی۔ قریش والوں نے بھی اپنے کچھ آدمی بھیجے تاکہ ان کا سر یا جسم کا کوئی حصہ لائیں جس سے سلافۃ کی نذر پوری ہوسکے۔

صحیح بخاری میں ہے کہ باوجود لاکھ کوششوں کے کفار ایسا نہ کرسکے کیونکہ لاش کی حفاظت کے لیے اللہ نے بھڑوں کے ایک بڑے جھنڈ کو بھیج دیاجس نے چاروں طرف سے گھیر لیا اور بادل کی طرح چھا گئے۔ کفار نے سوچا اس وقت رہنے دو رات ہوگی تو آئیں گے اور سر کاٹ کر لے جائیں گے۔ لیکن اللہ کی مشیت کہ بارش ہوئی اور سیلاب میں لاش بہہ کر نامعلوم جگہ چلی گئی اور کفار کو ہاتھ نہ لگ سکی۔

درحقیقت حضرت عاصمؓ نے اللہ سے یہ عہدوپیمان کر رکھا تھا کہ نہ انہیں کوئی مشرک چھوئے گا اور نہ وہ اپنی حیات میں کسی مشرک کو چھوئیں گے کیونکہ وہ نجس ہوتے ہیں۔ بعد میں جب حضرت عمر فاروقؓ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ فرمایا کرتے تھے: ‘‘اللہ اپنے مومن بندے کی حفاظت اس کی وفات کے بعد بھی کرتا ہے جیسے وہ اس کی زندگی میں کرتا ہے’’۔

جو تین صحابہؓ زندہ رہ گئے تھے وہ کفار کی امان میں آگئے لیکن قابو پاتے ہی انہوں نے غداری کی اور ان کو قید کرلیا۔ اس زمانے میں ہذیل کے کچھ افراد اہلِ مکہ کی قید میں تھے۔ کفار نے چاہا کہ ان کے بدلے اپنے قیدیوں کو اہلِ مکہ سے آزاد کرالیں۔ اس تبادلے کی غرض سے ان کو لے کر مکہ چلے۔ راستہ میں جب ظہران پہنچے تو عبداللہ بن طارقؓ نے موقع پاکر اپنے ہاتھ کھول لیے، تلوار اُٹھالی اور یہ کہتے ہوئے: ‘‘ہمارے ساتھ یہ پہلی بدعہدی ہے’’ جانے سے انکار کردیا۔ لوگوں نے بڑی کوشش کی، کھینچ گھیسٹ کر لے جانا چاہا لیکن کامیاب نہ ہوئے بالآخر ان کو شہید کردیا گیا۔

حضرت زید بن دثنہؓ

باقی دو صحابہ کو کمان کی تانت سے باندھ کر مکہ لایا گیا۔ زید بن دثنہؓ کو صفوان بن اُمیہ نے اپنے باپ اُمیہ بن خلف کے بدلے قتل کرنے کے لیے خریدلیا۔ اس ناپاک ارادے سے اپنے ایک غلام نسطاط کو ساتھ لیا اور آپ کو مکہ سے باہر‘تنعیم’ لایا تاکہ حرم، جہاں خون بہانا مذہبی جرم سمجھا جاتا تھا، سے باہر ہوکر بآسانی شہید کردے۔ اس موقع پر قریش کے بہت سے لوگ بھی آئے کہ دیکھیں صفوان اپنے باپ کے بدلے ایک نہتے قیدی کو قتل کر کے اپنی بہادری کے کیا جوہر دکھاتا ہے؟

جب ساری تیاریاں مکمل ہوچکیں، لوگ بھی اکٹھا ہوگئے تو ابوسفیان بن حرب نے حضرت زیدؓ سے پوچھا: زید! اللہ کی قسم دے کر تجھ سے پوچھتا ہوں کہ کیا تم یہ پسند کرو گے کہ تمہاری جگہ محمد(ﷺ) ہوتے، ہم ان کی گردن اڑا دیتے اور تم اپنے اہل و عیال میں خوش رہتے؟ انہوں نے جواب دیا: ‘‘نہیں خدا کی قسم! مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ میں اپنے اہل و عیال میں رہوں اور اس کے بدلے محمدﷺ کو جہاں اس وقت آپؐ ہیں وہاں رہتے ہوئے کوئی کانٹا چبھے اور وہ آپؐ کو تکلیف میں مبتلا کردے’’۔ یہ جواب سنتے ہی ابوسفیان بول پڑا کہ میں نے آج تک کسی کو کسی سے اتنی محبت کرتے نہیں دیکھا جتنی محمد(ﷺ) کے دیوانے محمد(ﷺ) سے محبت کرتے ہیں۔

ابن کثیرؒ نے لکھا ہے: بیان کیا جاتا ہے کہ زید بن دثنہؓ کو جب سولی دی گئی تو فوراً قتل نہیں کیا گیا بلکہ لوگوں نے پہلے تیروں سے نشانہ بنایا اور کوشش کی کہ دین سے پھیر دیں لیکن زیدؓ کا ایمان تھا کہ اور بڑھتا گیا۔ فَمَا زَادَہُ اِلاَّ ٓ اِیْمَانًا وَّتَسْلِیْمًا

حضرت خبیبؓ بن عدی:

حضرت زید بن دثنہؓ کی طرح حضرت خبیب بن عدیؓ کو بھی فروخت کرنے کی غرض سے مکہ لایا گیا۔ جہاں انہیں عتبہ کے حوالے کر دیاگیا۔

خَبیب بن عدیؓ کو جن ایام میں مکہ پہنچایا گیا وہ اشہر حرم کا زمانہ تھا۔ مشرکین مکہ ابھی تک اشہرحرم کا پاس و لحاظ کرتے تھے اور ان مہینوں میں اپنے جانی دشمنوں کا خون بہانا بہت بڑا پاپ سمجھتے تھے۔ اس لیے ان کو قید میں رکھا گیا اور ایک آزاد کردہ لونڈی کو آپ کی نگرانی میں لگا دیا گیا۔ لونڈی کا نام ماریہ تھا۔ قید کے زمانے میں یہی حضرت خبیبؓ کی دیکھ بھال کرتی اور ضرورت کی چیزیں پہنچاتی تھی۔ عقبہ بن حارث کی بہن زینب بنت حارث بھی ان پر خاص نظر رکھتی تھی۔

ابن سعد نے لکھا ہے کہ خبیبؓ نے اس کے سامنے تین مطالبات رکھے:

(۱) صاف پانی پینے کو دینا۔

(۲) استھانوں پر قربان کیے جانے والے جانوروں کا گوشت (حرام کھانا) کھانے کو مت دینا۔

(۳) جب میرے قتل کا فیصلہ ہو تو خبر کرنا’’۔

ماریہ نے حضرت خبیبؓ کے زمانہ اسیری کے واقعات بیان کیے ہیں۔ ابن ہشام میں ہے کہ یہ بعد میں مسلمان ہوگئی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ خبیبؓ کو میرے گھر قید کیا گیا، وہ میری نگرانی میں رہتے تھے۔ وہ بڑے نیک آدمی تھے، میں نے آج تک کوئی ایسا قیدی نہیں دیکھا جو خبیبؓ سے زیادہ اچھے اخلاق کا حامل ہو۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں انگور کا بڑا سا گچھا ہے، اس سے وہ کھا رہے ہیں حالانکہ وہ لوہے کی زنجیر میں بندھے ہوئے تھے اور ان دنوں مکہ میں کوئی پھل نہیں ملتا تھا۔ دراصل وہ اللہ کی طرف سے دی ہوئی روزی ہوتی تھی، جو اللہ ان کو کھلاتا تھا۔

ماریہ مزید بیان کرتی ہیں کہ جب خبیبؓ کے قتل کا دن آیا تو انہوں نے مجھ سے کہا: کوئی دھاردار چیز دو، میں اپنے بال صاف کرلوں اور پاک صاف ہوجاؤں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنے بچے کو استرا دیا اور کہا: اس آدمی کو دے آؤ جیسے ہی بچہ استرا لے کر گیا۔ مجھے خیال آیا: ارے میں نے کیا کرڈالا؟ قیدی کو اپنے خون کا بدلہ مل گیا۔ اگروہ بچے کو قتل کردے تو یہی ہوگا کہ اس نے اپنی جان کے بدلے قتل کردیا۔ ادھر بچے کے ہاتھ سے استرا لے کر حضرت خبیبؓ نے کہا: جب تیری ماں نے استرا دے کر تجھے میرے پاس بھیجا تو کیا اسے میری بدعہدی اور خیانت کا خوف نہ ہوا؟ اور بچے کو واپس جانے دیا۔

صحیح بخاری میں ہے کہ بچہ زیادہ چھوٹا تھا۔ استرا عورت نے خود دیا تھا اور اپنے کام میں مصروف ہوگئی تھی۔ اس دوران اس کا بچہ حضرت خبیبؓ کے پاس رینگتا ہوا آیا۔ انہوں نے اسے قریب کیا اور اپنے زانو پر بٹھایا۔ اتنے میں عورت کی نظر ادھر پڑی وہ ڈر گئی۔ حضرت خبیبؓ کو چہرے کے آثار سے پتا چلا کہ وہ ڈر گئی ہے تو کہا کیا تمہیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں میں بچے کو قتل نہ کردوں؟ خدا کی قسم! میں ایسا ہرگز نہیں کرسکتا۔

حضرت خبیبؓ کی شہادت

اشہرحرم کا زمانہ ختم ہوا تو حضرت خبیبؓ کے قتل کی تیاری ہوئی۔ لوگ آپ کو مکہ سے باہر تنعیم لے گئے۔ اس بار بھی قریش کے بہت سے افراد یہ منظر دیکھنے گئے۔ جب سولی پر چڑھانا چاہا تو آپ نے کہا: مجھے چھوڑ دو، ذرا دو رکعت نماز پڑھ لوں۔ مشرکین نے چھوڑ دیا۔ آپ نے دو رکعت نماز ادا کی۔ جب سلام پھیر چکے تو فرمایا: بخدا! اگر تم لوگ یہ نہ کہتے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں گھبراہٹ کی وجہ سے کر رہا ہوں تو میں اپنی نماز کو کچھ اور طول دیتا۔حضرت خبیبؓ بن عدیؓ پہلے صحابی ہیں جنہوں نے شہادت سے قبل دو رکعت نماز پڑھنے کی سنت قائم کی۔

جب خبیبؓ کو لوگوں نے سولی کی طرف بڑھایا تو انہوں نے اپنی آخری دعا شروع کی: ‘‘اے اللہ! ہم نے تیرے رسولؐ کے پیغام کو پہنچا دیا ہے۔ ہمارے ساتھ جو برتاؤ کیا جا رہا ہے اس کی اطلاع اپنے رسولؐ کو پہنچا دے’’۔ اپنی سب سے بڑی متاع راہِ خدا میں قربان کرنے سے پہلے اپنا سب سے بڑا اور آخری ہتھیار لیا اور بھرے مجمع میں دشمنوں پر ایسا وار کیا کہ کوئی فرد اس سے زخم کھائے بغیر نہ رہا یعنی رب العزت کی بارگاہ میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے: اللہم احصہم عددا واقتلہم بددا ولا تغادر منہم أحدا۔

‘‘اے اللہ! ایک ایک کو گن لے، پھر ان کو بکھیر کر مارنا اور ان میں سے کسی ایک کو باقی نہ چھوڑنا’’۔

حضرت خبیبؓ کی بددعا کے یہ الفاظ سنے تو کفار تھرا گئے۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیان کا بیان ہے کہ یہ الفاظ سن کر میرے والد ابوسفیان نے مجھے زمین پر لٹا دیا کیونکہ لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ جب آدمی پر بددعا کی جارہی ہو تو اگر وہ پہلو کے بل لیٹ جائے تو اس پر بددعا کا اثر نہیں ہوتاہے۔

حضرت خبیبؓ نے اپنی شہادت سے قبل کفار کے بھرے مجمع میں تختہ دار پر کھڑے ہوکر طویل اشعار بھی پڑھے۔ منتخب اشعار اور ان کا ترجمہ درج ذیل ہے:

لقد جمّع الاحزابُ حولی والّبوا

قبائلہم واستجمعُوا کل مجمع

وکلّہم مُبدی العداوۃ جاہدٌ

علی لانّی فی وثاق مضیّع

وقد جمعُوا ابناۂم ونساۂم

وقُربّتُ من جزع طولی ممنّع

الی اللّٰہ اشکو غُربتی ثُم کُربتی

وما ارصد الاحزابُ لِی عند مصرعی

فذا العرش صبّرنی علٰی ما یُراد بی

فقد بضعُوا لحمی وَقد یأس مطعمی

وذالک فی ذات الالٰہ وان یّشاء

یُبارک علٰی اوصال شلو ممزّع

وقد خیّرونی الکُفر وَالموتُ دُونہ

وقد ھملت عینای من غیر مجزع

وما بی حذار الموت وانی لمیّت

وَلٰکن حذاری حجم نار ملفّع

فواللّٰہ ما ارجُو اذامُتُّ مُسلما

علٰی ایّ جنب کان فی اللّٰہ مصرعی

فلست بمبد للعدّو تخشعا

ولا جزعا انّی اِلٰی اللّٰہ مرجعی

‘‘لوگ میرے گرد گروہ در گروہ جمع ہوگئے ہیں، اپنے سب قبائل کو چڑھالائے ہیں، اور بڑا بھاری مجمع جمع کرلیا ہے۔ سارے لوگ میرے خلاف بُغض و عداوت کے اظہار میں جان توڑ لگے ہوئے ہیں اور مجھے رسیوں میں جکڑ دیا گیا ہے۔ وہ اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بھی ساتھ لے آئے ہیں اور مجھے پھانسی دینے کے لیے ایک لمبے مضبوط تنے کے قریب کردیا گیا ہے۔ میں اپنی بے وطنی اور بے کسی کا شکوہ اور اپنی قتل گاہ کے پاس گروہوں کے تجویز کردہ ناپاک ارادوں کی فریاد اللہ ہی سے کر رہا ہوں۔ اے عرش والے! میرے خلاف دشمنوں کے جو ارادے ہیں اس پر مجھے صبر دے، یہ لوگ مجھے تکابوٹی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور میں لذات دنیا سے محروم کر دیا گیا ہوں۔ یہ سب اللہ کی راہ میں ہو رہا ہے اس لیے مجھے کوئی پروا نہیں۔ اگر وہ چاہے تو بوٹی بوٹی کیے ہوئے اعضاء کے جوڑ جوڑ میں برکت دے۔ انہوں نے مجھے کفر کا اختیار دیا ہے حالانکہ موت اس سے کمتر اور آسان ہے۔ میں جزع فزع نہیں کر رہا ہوں لیکن میری آنکھیں اشکبار ہیں۔ میں موت سے کیوں ڈروں؟ آخر ایک دن مرنا ہے، البتہ مجھے جہنم کی شعلہ زن اور دہکتی ہوئی آگ سے ڈر لگتا ہے۔ خدا کی قسم! جب بحالت مسلمان موت آئے تو مجھے اس بات کی کیا پروا کہ راہِ خدا میں کس پہلو قتل کیا جاؤں گا۔ میں ہرگز دشمن کے سامنے جی حضوری اور جزع فزع نہیں کرسکتا۔ میں تو اپنے اللہ کی طرف لوٹ رہا ہوں’’۔

عروہ اور موسیٰ بن عقبہ کے حوالے سے ابن کثیرؒ نے لکھا ہے کہ خبیبؓ سے بھی لوگوں نے پوچھا: کیا تمہیں یہ بات پسند آئے گی کہ آج تمہاری جگہ محمد(ﷺ) ہوتے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں بخدا مجھے اتنا بھی گوارا نہیں کہ اس کانٹے کے بدلے رہا کردیا جاؤں جو آپؐ کے پیروں میں چبھے اور اس سے آپؐ کو تکلیف پہنچے۔ اس پر لوگ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ بعینہٖ یہی بات ابن اسحاقؒ نے زید بن دثنہؓ کے متعلق ذکر کی ہے۔

اس ایمانی خطاب کا اہلِ کفر کے مُردہ قلوب پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ابوسروعۃ عقبہ بن حارث بن عامر بن نوفل آگے بڑھا اور آپ کو شہید کردیا۔ عقبہ بن حارث کو بعد میں قبولِ اسلام کی توفیق ملی اور رضاعت سے متعلق ایک حدیث بھی روایت کی ہے۔

کفار نے حضرت خبیبؓ کی لاش کو دفن نہیں کیا اور اسے یونہی سولی پر لٹکا رہنے دیا۔ انہی ایام میں حضرت عمرو بن اُمیہ ضمریؓ کو کسی غرض سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ادھر بھیجا۔ ان کا گزر تنعیم سے ہوا۔ خبیبؓ کی لاش اس حالت میں دیکھی تو اسے دفن کردیا۔

حافظ ابن کثیرؒ نے بیہقی سے عمرو بن اُمیہؓ کی روایت نقل کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تنہا مجھے مخبری کے لیے بھیجا۔ میں اس سولی کے قریب آیا جس پر خبیبؓ کی لاش لٹک رہی تھی، اس پر چڑھ کر رسی کھول دی اور لاش زمین پر آگئی۔ میں نے پوری محنت کرڈالی لیکن ان کی لاش تھوڑی ہی دُور لے جاسکا۔ تھوڑی دیر بعد پلٹ کر جب دوبارہ نظر ڈالی تو کچھ نہ دکھائی دیا گویا زمین اسے نگل گئی۔ پھر خبیبؓ کی لاش کا کوئی پتا نہ چلا۔

شہادت کا منظر بڑا عجیب و غریب ہوتا ہے۔قریش تو مارے خوشی کے ایک دشمن کے قتل کا منظر دیکھنے چلے تھے کہ جذبۂ عداوت کی پیاس بجھائیں لیکن خبیبؓ کی لاثانی ہمت، بے مثال ثابت قدمی اور بے باکی، آپ کی بددعا کے ایک ایک الفاظ،آخری خواہش کے طور پر دو رکعت نماز کی ادائیگی، شہادت سے قبل بے خوفی کے ساتھ اشعار پڑھنے اور آخر میں شہادت کا واقعہ دیکھنے اور سننے کے بعد کفار بوکھلا اُٹھے اور عجیب کیفیت میں مبتلا ہوگئے۔

ابن کثیرؒ نے لکھا ہے: عکرمہ بن ابی جہل، سعید بن عبداللہ، اخنس بن شریک، عبیدہ بن حکیم بن اُمیہ اور اُمیہ بن ابی عتبہ حضرت خبیبؓ کی شہادت کے وقت وہاں موجود تھے۔ شہادت کا منظر دیکھ کر یہ لوگ چیخ پڑے۔ اُوپر یہ بات آچکی ہے کہ بددعا کے ڈر سے ابوسفیان نے اپنے بیٹے معاویہ کو زمین پر لٹا دیا تاکہ بددعا کا اثر نہ ہونے پائے بلکہ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خبیبؓ کی شہادت نے لوگوں کو آخر سوچنے پر مجبور کردیا اور ان کے دلوں میں قبولِ اسلام کی تحریک پیدا کردی۔ ان میں سے حضرت معاویہ، حضرت ابوسفیان، حضرت سعید بن عامر اور عکرمہ بن ابی جہل کو بعد میں قبولِ اسلام کی توفیق ملی۔

حضرت خبیبؓ کی شہادت کا منظر بڑا بھیانک اور دلخراش تھا۔ جن لوگوں نے مجمع میں حاضر ہوکر بذاتِ خود شہادت کا حال دیکھا تھا برسوں بعد جب ان کو یہ منظر یاد آتا تو کانپ جایا کرتے تھے۔ حضرت سعید بن عامرؓ ، جو عہدفاروقی میں حمص میں گورنری کے فرائض انجام دے رہے تھے، ان کے بارے میں اس طرح کی کیفیت کا ذکر سیرت کی کتابوں میں ملتا ہے کہ جب حضرت خبیبؓ کی شہادت کا واقعہ یاد آتا تو ان کی کیفیت بدل جاتی، ان پر غشی طاری ہوجاتی اور یہ صورت حال اتنی بار پیش آئی کہ گورنری کے کام اور فرائض پر اس کا اثر پڑنے لگا۔ کچھ لوگوں نے دربارِ خلافت میں شکایت درج کرائی۔ جب امیرالمومنین حضرت عمرفاروقؓ نے ان سے اس کی وجہ دریافت کی اور انہوں نے جواب دیا تب عوام کو اصل حقیقت کا پتا چلا کہ خبیبؓ کی شہادت کا بھیانک منظر یاد آجانے کی وجہ سے گورنر پر غشی طاری ہوجایا کرتی ہے۔

غرض کہ رجیع کا حادثہ بہت تکلیف دہ تھا۔ اس کے بعد ہی بئرمعونہ کا واقعہ پیش آیا اور واقدی کے مطابق دونوں کی خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہی رات میں ہوئی۔ آپؐ کو اس قدر رنج پہنچا اور آپؐ اس قدر غمگین اور دل فگار ہوئے کہ جن قوموں اور قبیلوں نے صحابہ کرامؓ کے ساتھ غدر وقتل کا یہ سلوک کیا تھا آپؐ نے ان پر ایک مہینے تک بددعا فرمائی۔ صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے ان پر تیس روز تک بددعا کی۔

دروس و نصائح

اب اس واقعے سے حاصل ہونے والے دروس و نصائح کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔ اس واقعے میں صحابہؓ کا کردار ہمارے لیے قابلِ تقلید اسوہ ہے۔ یہ واقعہ جس طرح پیش آیا، صحابہ کرامؓ کے ساتھ کفار کا جو معاملہ رہا اور بظاہر یہ مہم جو ناکام نظر آرہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ قدرت کا فیصلہ یہ ہوا کہ اُمت کو حالات کے اس پہلو سے بھی گزارا جائے۔

۱- اسلام دشمن طاقتوں سے صحیح واقفیت ضروری ہے:

اس حادثے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے دشمن سے باخبر رہنا چاہیے۔ دشمن کے حالات سے باخبر رہنے، اس کی سرگرمیوں، اس کے عزائم و منصوبوں، اس کی معاشی قوت اور فوجی طاقت سے متعلق ضروری تفصیلات سے واقف کراتے رہنے کے لیے ہمارے پاس ایک مضبوط ٹیم ہونی چاہیے اور دشمن کے بارے میں صحیح معلومات ہمیں اپنے ذرائع سے فراہم کرنی چاہیے، ورنہ حالات کا صحیح تجزیہ نہیں ہوسکے گا۔ صرف اسی واقعہ میں نہیں غزوۂ بدر، غزوۂ احزاب بلکہ تمام غزواتِ رسولؐمیں یہ بات ملتی ہے کہ ہمہ وقت آپؐ دشمن سے باخبر ہوتے تھے کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ مکہ سے چل رہا ہے یا نہیں؟ کہاں تک پہنچا ہے؟ اس کی افرادی قوت کتنی ہے؟ اس کے پاس اسلحہ کیا کیا ہے؟ وغیرہ۔ غزوات میں آپؐ کی کامیابیوں کا ایک راز یہ بھی تھا کہ آپؐ اپنی سرگرمیوں اور منصوبوں سے دشمن کو اندھیرے میں رکھتے تھے اور ان کی ساری حرکتوں پر کڑی نظر رکھتے تھے۔ آج اہلِ اسلام کی پسپائی کا بہت بڑا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین کی سرگرمیوں سے بہت حد تک ناواقف ہیں۔

۲- اطاعت امیر:

اس واقعے میں صحابہؓ کا ایک نمایاں وصف دکھائی دیتا ہے وہ ہے امیر کی اطاعت، یہ دراصل کامیابی کی پہلی شرط ہے۔ مشکل سے مشکل ماحول ہو، حالات سخت سے سخت ہوں لیکن امیر کی اطاعت پر سختی سے کاربند ہونا چاہیے۔ آج اُمت کا المیہ یہ ہے کہ عالمی پیمانے پر اس کا کوئی خلیفہ اور امیر نہیں اور نہ مسلمانوں میں اطاعت و انقیاد کا وہ جذبہ ہے جو صحابہؓ میں نظر آتا تھا۔ دس صحابہؓ کی معمولی سی جماعت اور مقابلے میں سو تیرانداز، گویا صحابہؓ پوری طرح گھِر چکے تھے لیکن جب امیر کا فیصلہ ہوگیا کہ امان قبول نہیں کرنی اور ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے تو سب نے مقابلہ کیا اور شہید ہوگئے۔

۳- اہلِ کفر وشرک کی پناہ میں آنے سے گریز:

جب کفار نے امان کی پیش کش کی تو صحابہؓ نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ حضرت عاصمؓ بن ثابت نے طویل اشعار کہہ کر اپنے موقف کا صاف اظہار کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی راہ میں جان کی قربانی تو دی جاسکتی ہے لیکن کسی کافرومشرک کے امان کی پیش کش کو قبول نہیں کیا جاسکتا ۔ اسی مفہوم کی ایک حدیث بھی ہے: ‘‘عزیمت یہ ہے کہ مسلمان بھلے شہید ہوجائے لیکن امان قبول کرنے سے گریز کرے اور خود دشمن کی گرفت میں نہ جائے تاکہ اس پر کسی کافر کا حکم نہ چلے، اگرچہ اس بات کی رخصت دی گئی ہے کہ وہ امان قبول کرسکتا ہے لیکن عزیمت کا راستہ راجح ہے۔

۴- اللہ کی قدرت پر پختہ ایمان و یقین:

ایک مومن آدمی کا اللہ کی قدرت پر مکمل ایمان ہونا چاہیے۔ اس بات پر پختہ یقین ہونا چاہیے کہ اللہ اپنے مومن بندوں کی مدد کرتا ہے۔ ہمارے ساتھ دنیا کے کسی گوشے میں زیادتی اور ظلم کا معاملہ کیا جائے، وہ اللہ کی ذات سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ وہ ہرجگہ اور ہروقت اپنے مومن بندوں کی حفاظت و نصرت کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔ اللہ اپنے مومن بندوں کو آزماتا ہے اور انھیں سخت سے سخت آزمایش میں ڈالتا ہے تاکہ ان کا مرتبہ بلند کرے اور یہ سب اس کی مشیت سے ہوتا ہے، ورنہ اس کی قدرت بہت بڑی ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ اپنے مومن بندوں کی حفاظت ان کی زندگی میں بھی کرتا ہے اور موت کے بعد بھی کرتا ہے۔ اس کی مشیت ہو تو بڑے سے بڑا دشمن موت کے بعد بھی مومن بندے کی لاش کو رسوا نہیں کرسکتا۔

آج کے مسلمان اللہ پر ایمان ضرور رکھتے ہیں لیکن مشاہدہ بتاتا ہے کہ معاملات کی دنیا میں وہ اس کی قدرت اور نصرت پر پختہ یقین ہونے کا ثبوت نہیں دے پا رہے ہیں۔

۵- دشمن کی قید میں رہتے ہوئے رہائی کی تدبیر:

حضرت عبداللہ بن طارقؓ کا کردار اس حادثے میں یہ نظر آتا ہے کہ کفار نے انھیں امان دینے کے بعد غداری کی اور فروخت کرنے کی غرض سے مکہ لے جا رہے تھے کہ اسی دوران انہوں نے موقع پاتے ہی کمان کے تانت سے بندھے ہاتھ کھول لیے، تلوار ہاتھ میں اُٹھا لی اور آگے بڑھنے سے انکار کردیا۔ اس سے سبق ملتا ہے کہ دشمن کی قید اور اس کی گرفت میں آنے کے بعد بھی اپنے چھٹکارے اور رہائی کی تدبیر کرتے رہنا چاہیے اور موقع پاتے ہی گرفت سے باہر آنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

آج اُمت کا حال یہ ہے کہ اسے مجموعی اعتبار سے اپنے حصار میں لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اسلام دشمن طاقتیں اپنی گہری سازشوں، طویل المدت منصوبوں، خفیہ نیٹ ورک اور خبررساں ایجنسیوں کے ذریعے اُمت کو اپنی گرفت میں لانے کا کام بڑی ہوشیاری سے کر رہی ہیں۔ ان کو ناکام بنانا، ان کے منصوبوں اور سازشوں کو کامیاب نہ ہونے دینا اور اُمت کو ان کی گرفت میں آنے سے بچانا قائدین اُمت کی ذمہ داری اور ان کا فرض ہے۔

۶- اللہ اپنے محبوب بندوں کی مدد بلااسباب بھی کرتا ہے:

اللہ اپنے نیک بندوں پر اپنی خاص توجہ کرتا ہے اور جہاں کوئی سبب یا ذریعہ اور کوئی سبیل نہ ہو وہاں بھی وہ اپنے بندوں کی نصرت کرتا ہے۔ ان کی ضرورت پوری کرتا ہے اور انہیں کھلاتا بھی ہے۔ قید میں حضرت خبیبؓ کو اللہ نے روزی دی اور حیرت انگیز طریقے سے دی۔ ان کو اس وقت کھلایا جب فراہمی رزق کے سارے دروازے بند ہوچکے تھے۔ واضح رہے یہ کوئی واحد مثال نہیں ہے بلکہ اللہ نے اپنے جاں نثار بندوں کے ساتھ باربا اپنی اس قدرت اور رحمت کے تحت روزی بہم پہنچانے کا مظاہرہ کیا ہے۔ جب دشمن نے انسانیت کی حدوں کو تجاوز کرکے اللہ کے نیک بندوں کو بھوکوں رکھ کر ختم کرنے کا پروگرام بنایا یا اس طرح کی پالیسیوں پر عمل کیا تو اللہ نے اپنے خاص بندوں کی مدد کی۔

اللہ کے جن نیک بندوں کے ساتھ اس کا یہ خاص کرم ہوا انہوں نے اسے راز میں رکھنے کی کوشش کی۔ انسانی طبیعت کا خیال کر کے بیان کرنے سے گریز کیا، ورنہ تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود بھی اسلامی سیرت کی کتابوں میں متعدد ایسی مثالیں مل سکتی ہیں۔

۷- حرام غذاؤں سے پرہیز آخری سانس تک مطلوب ہے:

دورانِ قید حضرت خبیبؓ کو ایک عورت کی نگرانی میں رکھا گیا۔ انہوں نے اس عورت کے سامنے تین باتیں رکھی: خبیبؓ کی سنت بتاتی ہے کہ ایک مومن کو دشمن کی قید میں آکر بھی مرعوب اور ہراساں نہیں ہونا چاہیے۔ دنیا کے ہرقانون میں قیدیوں کے خاص حقوق ہوتے ہیں ایسے موقعے سے گھبرانے کے بجائے اپنے جائز مطالبات رکھنے اور اپنے حقوق و مراعات حاصل کرنے سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔

اس ضمن میں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ حرام غذاؤں سے مومن آدمی کو مکمل پرہیز کرنا چاہیے اور اس معاملے میں اس حد تک حساس ہونے کی ضرورت ہے کہ آدمی کہیں بھی چلا جائے، یہ بات نہ بھولے کہ میں مومن ہوں مجھے صرف حلال اشیاء کھانی ہیں۔ قید میں بھی اس کی پابندی مذکورہ صحابیؓ کے حساس ہونے کی دلیل ہے۔ حرام غذا مومن کے لیے سمّ قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ احادیث میں یہ بات آئی ہے کہ حرام غذاؤں سے بنا ہوا خون ضرور جہنم میں جلے گا۔ لہٰذا ایک مومن آدمی کو چاہیے کہ آخری سانس تک حرام کھانے سے مکمل پرہیز کرے۔ واضح رہے اس بات کی رخصت ہے کہ اضطراری صورت پیش آجانے پر آدمی محض اپنی جان بچانے کی حد تک کھا سکتا ہے البتہ دل میں ذرا بھی رغبت ناقابلِ گوارا ہے: فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَا ٓاِثْمَ عَلَیْہِ (البقرہ:۱۷۳) ‘‘حرام کو حلال کرلینا یا حلال کو حرام کردینا خدائی کا دعویٰ کرنے کی طرف اُٹھنے والا پہلا قدم ہے’’۔

۸- غیرمتعلق افراد سے انتقام لینا جائز نہیں:

حضرت خبیبؓ کے قید کے ایام میں ایک واقعہ پیش آیا۔ آخر وقت میں انہوں نے صفائی کے ارادے سے استرا مانگا۔ لونڈی نے اپنے بچے کے ہاتھ بھجوایا اور بعد میں اندیشہ ظاہر کیا کہ کہیں خبیبؓ بچے کو قتل نہ کردیں، لیکن انہوں نے اسے اطمینان دلایا کہ ایسا ہرگز نہ ہوگا۔ معلوم ہوا کہ غیرمتعلق سے انتقام لینا درست نہیں ہے اور پوری قدرت حاصل ہونے کے بعد بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ نیز بچوں کو قتل نہ کرنا اسلام کے اصولِ جنگ و قتال کا بنیادی جز ہے۔

۹- شہادت سے قبل دو رکعت نماز ادا کرنا:

حضرت خبیبؓ نے شہادت سے قبل دو رکعت نماز پڑھنے کی سنت جاری کی۔ ایسے موقع پر کہ جب موت و حیات کا معاملہ درپیش ہو اور چند لمحوں میں روح پرواز کرجانے والی ہو، اللہ کے حضور سجدے میں گر جانا، جہاں اس بات کی علامت ہے کہ بندہ صرف اور صرف رضائے الٰہی کا طالب ہے اور اس کے لیے جان دینا بھی اسے گوارا ہے، وہیں یہ عمل آدمی کی بے خوفی کا پتہ دیتا ہے۔ ایسے وقت میں ایک مومن کو گھبرانا نہیں چاہیے۔ شہادت کے وقت مغموم نہ ہونا، رنج و غم کے آثار چہرے پر ظاہر نہ ہونے دینا بلکہ خوشی کا اظہار کرنا اور کچھ سبق دے کر جانے کی کوشش کرنا اس کا شیوہ ہونا چاہیے۔

۱۰- دشمنانِ اسلام پر عمومی انداز میں بددعا کی جاسکتی ہے:

حضرت خبیبؓ نے آخر وقت میں بڑے صریح الفاظ میں کفار پر بددعا کی۔ معلوم ہوا کہ مشرکین اور مخالفین پر عمومی انداز میں بددعا کی جاسکتی ہے۔ حادثہ رجیع اور حادثہ بئرمعونہ کی اطلاع جب نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپؐ نے کئی دنوں تک مسلسل ان قبائل پر ان کا نام لے کر بددعا کی اور قنوتِ نازلہ کی سنت قائم کی جو آج تک اُمت میں معمول بہ ہے۔ دعا دراصل بندے کا سب سے بڑا اور آخری ہتھیار ہے۔ وہ دعا بھی کرتا ہے اور تدبیریں بھی اپناتا ہے لیکن جب مجبور ہوجاتا ہے اور کسی تدبیر اور کوشش پر بس نہیں چلتا تو بددعا کرتا ہے۔

خبیبؓ کی دعا سے سبق ملتا ہے کہ دعا کو ایک ہتھیار سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے۔ اگردشمن ہم پر زیادتی کرتا ہے اور مظالم کے پہاڑ توڑتا ہے تو ہمیں آخر دم تک اپنی کوشش جاری رکھنی چاہیے اور اپنے آخری ہتھیار ‘‘دعا’’ کے استعمال سے چوکنا نہیں چاہیے، لیکن یاد رہے اس کے لیے بڑے حوصلے اور جذبے کی ضرورت ہے۔ اگر حوصلہ اور جذبہ نہ ہو تو اس طرح کے مواقع پر آدمی جزع فزع، جی حضوری اور معافی مانگنے پر آجاتا ہے۔ بڑے بڑوں کی ہمت جواب دے جاتی ہے اور مداہنت کی پالیسیوں پر عمل کرنے کو آجاتے ہیں۔ لیکن اگر مومن بندہ حوصلے اور جذبے کی دولت سے مالا مال ہو تو ایسے موقع سے گھبراتا نہیں۔ مرتا بھی ہے تو سبق دے کے جاتا ہے۔ اگر حوصلہ نہ ہو تو خبیبؓ کی سنت پر عمل کرلے جانا آسان بات نہیں ہے۔کسی قوم و ملّت کا حوصلہ دراصل اس کی سب سے بڑی قوت ہوتی ہے۔

غرض حادثۂ رجیع کے تفصیلی مطالعہ سے اطاعت امیر، دین پر ثابت قدمی، دین کی راہ میں شہادت کی تمنا، اللہ کی قدرت پر پختہ یقین، رسول اکرمؐ سے انتہائی محبت کا اظہار، غیرمتعلق افراد سے انتقام نہ لینا اور موت کے وقت جزع فزع نہ کرنا، دشمن طاقتوں سے صحیح واقفیت، حرام غذاؤں سے پرہیز اور دشمن کی گرفت میں رہتے ہوئے رہائی کی تدبیر جیسے قابلِ تقلید نمونے بہت نمایاں ہوکر سامنے آتے ہیں اور ان کے ذریعہ صحابہؓ کے درخشاں کردار پر واضح روشنی پڑتی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو صحابہ کرامؓ کے نقشِ قدم پرچلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

٭٭٭